مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ہم اِس بُری دُنیا میں ”‏پردیسی اور مسافر ہیں“‏

ہم اِس بُری دُنیا میں ”‏پردیسی اور مسافر ہیں“‏

ہم اِس بُری دُنیا میں ”‏پردیسی اور مسافر ہیں“‏

‏’‏اِن سب نے اقرار کِیا کہ ہم زمین پر پردیسی اور مسافر ہیں۔‏‘‏ —‏عبر ۱۱:‏۱۳‏۔‏

۱.‏ دُنیا کے بارے میں سچے مسیحیوں کے نظریے کے سلسلے میں یسوع مسیح نے کیا کہا؟‏

یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کے بارے میں کہا کہ ”‏یہ دُنیا میں ہیں۔‏“‏ لیکن اِس کے ساتھ‌ساتھ اُنہوں نے یہ بھی کہا:‏ ”‏جس طرح مَیں دُنیا کا نہیں وہ بھی دُنیا کے نہیں۔‏“‏ (‏یوح ۱۷:‏۱۱،‏ ۱۴‏)‏ یسوع مسیح کے اِن الفاظ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سچے مسیحیوں کو شیطان کے ”‏جہان“‏ کے بارے میں کیسا نظریہ رکھنا چاہئے۔‏ (‏۲-‏کر ۴:‏۴‏)‏ سچے مسیحی اِس دُنیا میں تو رہتے ہیں لیکن اِس کے طورطریقے نہیں اپناتے۔‏ وہ اِس میں ’‏پردیسیوں اور مسافروں‘‏ کی طرح رہتے ہیں۔‏—‏۱-‏پطر ۲:‏۱۱‏۔‏

اُنہوں نے پردیسیوں کی طرح زندگی گزاری

۲،‏ ۳.‏ ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ حنوک،‏ نوح،‏ ابرہام اور سارہ نے ’‏پردیسیوں اور مسافروں‘‏ کی طرح زندگی گزاری؟‏

۲ یہوواہ خدا کے خادم ہمیشہ سے ہی دُنیا کے لوگوں سے فرق رہے ہیں۔‏ اِس سلسلے میں کچھ مثالوں پر غور کریں۔‏ بائبل میں حنوک اور نوح کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ ’‏خدا کے ساتھ‌ساتھ چلتے رہے۔‏‘‏ (‏پید ۵:‏۲۲-‏۲۴؛‏ ۶:‏۹‏)‏ اُن دونوں نے دلیری سے یہ مُنادی کی کہ یہوواہ خدا،‏ شیطان کی دُنیا کو ختم کر دے گا۔‏ ‏(‏۲-‏پطرس ۲:‏۵؛‏ یہوداہ ۱۴،‏ ۱۵ کو پڑھیں۔‏)‏ چونکہ حنوک اور نوح بُری دُنیا میں خدا کے ساتھ‌ساتھ چلتے تھے اِس لئے حنوک ’‏خدا کو پسند آئے‘‏ اور نوح ’‏اپنے زمانے کے لوگوں میں بےعیب تھے۔‏‘‏—‏عبر ۱۱:‏۵؛‏ پید ۶:‏۹‏۔‏

۳ ابرہام اور سارہ کسدیوں کے شہر اُور میں آرام‌وآسائش کی زندگی گزار رہے تھے۔‏ لیکن خدا کے حکم پر وہ کسی اَور ملک میں جا کر خیموں میں رہنے لگے۔‏ (‏پید ۱۱:‏۲۷،‏ ۲۸؛‏ ۱۲:‏۱‏)‏ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏ایمان ہی کے سبب سے اؔبرہام جب بلایا گیا تو حکم مان کر اُس جگہ چلا گیا جسے میراث میں لینے والا تھا اور اگرچہ جانتا نہ تھا کہ مَیں کہاں جاتا ہوں تو بھی روانہ ہو گیا۔‏ ایمان ہی سے اُس نے ملکِ‌موعود میں اِس طرح مسافرانہ طور پر بودوباش کی کہ گویا غیرمُلک ہے اور اضحاؔق اور یعقوؔب سمیت جو اُس کے ساتھ اُسی وعدہ کے وارث تھے خیموں میں سکونت کی۔‏“‏ (‏عبر ۱۱:‏۸،‏ ۹‏)‏ پولس رسول نے یہوواہ خدا کے ایسے وفادار خادموں کے بارے میں کہا:‏ ”‏یہ سب ایمان کی حالت میں مرے اور وعدہ کی ہوئی چیزیں نہ پائیں مگر دُور ہی سے اُنہیں دیکھ کر خوش ہوئے اور اقرار کِیا کہ ہم زمین پر پردیسی اور مسافر ہیں۔‏“‏—‏عبر ۱۱:‏۱۳‏۔‏

بنی‌اسرائیل خدا کو بھول گئے

۴.‏ یہوواہ خدا نے بنی‌اسرائیل کو کس بات سے خبردار کِیا؟‏

۴ یہوواہ خدا نے ابرہام کی اولاد یعنی بنی‌اسرائیل کو ایک قوم بنایا،‏ اُنہیں شریعت دی اور اُنہیں ایک ملک بھی دیا۔‏ (‏پید ۴۸:‏۴؛‏ است ۶:‏۱‏)‏ بنی‌اسرائیل کو ہمیشہ یاد رکھنا تھا کہ وہ اِس ملک میں مہمان ہیں اور اِس کا اصلی مالک یہوواہ خدا ہے۔‏ (‏احبا ۲۵:‏۲۳‏)‏ اِس لئے اُنہیں یہوواہ خدا کی مرضی کے مطابق رہنا تھا۔‏ اُنہیں یہ بھی یاد رکھنا تھا کہ ”‏انسان صرف روٹی ہی سے جیتا نہیں رہتا۔‏“‏ لہٰذا اُنہیں مال‌ودولت حاصل کرنے میں اِتنا مگن نہیں ہونا تھا کہ وہ یہوواہ خدا کو بھول جائیں۔‏ (‏است ۸:‏۱-‏۳‏)‏ اِس سے پہلے کہ بنی‌اسرائیل اُس ملک میں آباد ہوئے،‏ یہوواہ خدا نے اُنہیں خبردار کِیا:‏ ”‏جب [‏یہوواہ]‏ تیرا خدا تجھ کو اُس مُلک میں پہنچائے جِسے تجھ کو دینے کی قسم اُس نے تیرے باپ‌دادا اؔبرہام اور اضحاؔق اور یعقوؔب سے کھائی اور جب وہ تجھ کو بڑےبڑے اور اچھے شہر جن کو تُو نے نہیں بنایا اور اچھی‌اچھی چیزوں سے بھرے ہوئے گھر جن کو تُو نے نہیں بھرا اور کھودے کھدائے حوض جو تُو نے نہیں کھودے اور انگور کے باغ اور زیتون کے درخت جو تُو نے نہیں لگائے عنایت کرے اور تُو کھائے اور سیر ہو تو تُو ہوشیار رہنا تا ایسا نہ ہو کہ تُو [‏یہوواہ]‏ کو جو تجھ کو ملکِ‌مصرؔ یعنی غلامی کے گھر سے نکال لایا بھول جائے۔‏“‏—‏است ۶:‏۱۰-‏۱۲‏۔‏

۵.‏ (‏الف)‏ یہوواہ خدا نے بنی‌اسرائیل کو کیوں ترک کر دیا؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ خدا نے کس نئی قوم کو چنا؟‏

۵ افسوس کی بات ہے کہ بنی‌اسرائیل نے وہی کِیا جس سے یہوواہ خدا نے اُنہیں خبردار کِیا تھا۔‏ جب وہ آرام‌دہ گھروں میں رہنے لگے اور اُنہیں کھانے پینے کو کثرت سے ملنے لگا تو وہ یہوواہ خدا کو بھول گئے۔‏ نحمیاہ نبی کے زمانے میں کچھ لاویوں نے اُن لوگوں کے بارے میں کہا کہ ”‏وہ کھا کر سیر ہوئے اور موٹے تازہ ہو گئے۔‏“‏ بنی‌اسرائیل نے یہوواہ خدا کے خلاف بغاوت کی۔‏ یہاں تک کہ اُنہوں نے اُن نبیوں کو بھی قتل کر دیا جنہیں خدا نے اُن کے پاس بھیجا۔‏ اِس لئے یہوواہ خدا نے اُنہیں دُشمنوں کے ہاتھ میں کر دیا۔‏ (‏نحمیاہ ۹:‏۲۵-‏۲۷ کو پڑھیں؛‏ ہوس ۱۳:‏۶-‏۹‏)‏ بعد میں جب اسرائیل کے ملک پر روم کی حکومت تھی تو بنی‌اسرائیل نے یسوع مسیح کو بھی قتل کر دیا۔‏ لہٰذا یہوواہ خدا نے اُن کو ترک کر دیا اور ایک نئی قوم یعنی ”‏خدا کے اؔسرائیل“‏ کو چن لیا۔‏—‏متی ۲۱:‏۴۳؛‏ اعما ۷:‏۵۱،‏ ۵۲؛‏ گل ۶:‏۱۶‏۔‏

ابتدائی مسیحی ”‏دُنیا کے نہیں“‏ تھے

۶،‏ ۷.‏ (‏الف)‏ یوحنا ۱۵:‏۱۹ میں درج یسوع مسیح کے الفاظ کی وضاحت کریں۔‏ (‏ب)‏ سچے مسیحیوں کو دُنیا سے الگ کیوں رہنا تھا؟‏

۶ جیسا کہ ہم نے اِس مضمون کے شروع میں دیکھا،‏ کلیسیا کے سردار یسوع مسیح نے کہا تھا کہ اُن کے شاگرد اِس دُنیا کے نہیں ہیں۔‏ اپنی موت سے کچھ دیر پہلے یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا:‏ ”‏اگر تُم دُنیا کے ہوتے تو دُنیا اپنوں کو عزیز رکھتی لیکن چُونکہ تُم دُنیا کے نہیں بلکہ مَیں نے تُم کو دُنیا میں سے چن لیا ہے اِس واسطے دُنیا تُم سے عداوت رکھتی ہے۔‏“‏—‏یوح ۱۵:‏۱۹‏۔‏

۷ وقت گزرنے کے ساتھ‌ساتھ مسیحی،‏ رومی سلطنت کے مختلف علاقوں میں پھیل گئے۔‏ مسیحی جہاں بھی رہتے،‏ اُنہیں دُنیا سے الگ رہنا تھا۔‏ اُنہیں اپنے اِردگِرد کے لوگوں کے طورطریقے نہیں اپنانے تھے۔‏ یسوع مسیح کی موت کے تقریباً ۳۰ سال بعد پطرس رسول نے مسیحیوں کو ایک خط لکھا جس میں اُنہوں نے کہا:‏ ”‏اَے پیارو!‏ مَیں تمہاری مِنت کرتا ہوں کہ تُم اپنے آپ کو پردیسی اور مسافر جان کر اُن جسمانی خواہشوں سے پرہیز کرو جو روح سے لڑائی رکھتی ہیں۔‏ اور غیرقوموں میں اپنا چال‌چلن نیک رکھو۔‏“‏—‏۱-‏پطر ۱:‏۱؛‏ ۲:‏۱۱،‏ ۱۲‏۔‏

۸.‏ ایک تاریخ‌دان نے ابتدائی مسیحیوں کے بارے میں کیا کہا؟‏

۸ مسیحی،‏ رومی سلطنت میں ’‏پردیسیوں اور مسافروں‘‏ کی طرح رہتے تھے۔‏ ایک تاریخ‌دان نے اِس سلسلے میں لکھا:‏ ”‏یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پہلی صدی عیسوی سے تیسری صدی عیسوی تک مسیحیوں کو لگاتار اذیت کا نشانہ بنایا گیا۔‏ .‏ .‏ .‏ اُن پر طرح‌طرح کے الزام لگائے گئے۔‏ وہ بُت‌پرستانہ تہواروں میں حصہ نہیں لیتے تھے اِس لئے اُن پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ خدا کو نہیں مانتے۔‏ وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ ایسی تفریح نہیں کرتے تھے جس میں بُت‌پرستی اور بدکاری شامل تھی اِس لئے اُن پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ دوسرے انسانوں سے نفرت کرتے ہیں۔‏“‏

ہم کس حد تک دُنیا کا فائدہ اُٹھاتے ہیں؟‏

۹.‏ سچے مسیحی یہ کیسے ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ”‏دوسرے انسانوں سے نفرت“‏ نہیں کرتے؟‏

۹ آج‌کل سچے مسیحی ”‏اِس موجودہ خراب جہان“‏ کے بارے میں وہی نظریہ رکھتے ہیں جو ابتدائی مسیحی رکھتے تھے۔‏ (‏گل ۱:‏۴‏)‏ اِس لئے بہت سے لوگ ہمارے بارے میں غلط رائے قائم کر لیتے ہیں یہاں تک کہ کچھ لوگ ہم سے نفرت بھی کرتے ہیں۔‏ لیکن ہم ”‏دوسرے انسانوں سے نفرت“‏ ہرگز نہیں کرتے۔‏ ہم اُن سے محبت رکھتے ہیں اِس لئے ہم گھرگھر جا کر سب لوگوں کو ’‏خدا کی بادشاہت کی خوشخبری‘‏ سناتے ہیں۔‏ (‏متی ۲۲:‏۳۹؛‏ ۲۴:‏۱۴‏)‏ ہم یہ کام اِس وجہ سے کرتے ہیں کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ یہوواہ خدا کی بادشاہت بہت جلد انسانی حکومتوں کو ختم کر دے گی۔‏ پھر بادشاہ یسوع مسیح کی حکمرانی کے تحت زمین پر ایک نیا نظام قائم ہوگا جس میں راست‌بازی بسی رہے گی۔‏—‏دان ۲:‏۴۴؛‏ ۲-‏پطر ۳:‏۱۳‏۔‏

۱۰،‏ ۱۱.‏ (‏الف)‏ ہم کس لحاظ سے دُنیا کا فائدہ اُٹھاتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ سمجھ‌دار مسیحی کن معاملوں میں دُنیا کا فائدہ نہیں اُٹھاتے؟‏

۱۰ ہم جانتے ہیں کہ شیطان کی دُنیا کا خاتمہ نزدیک ہے۔‏ اِس لئے ہم آرام‌وآسائش کی زندگی گزارنے کی کوشش نہیں کرتے۔‏ ہم پولس رسول کے اِن الفاظ پر توجہ دیتے ہیں:‏ ”‏اَے بھائیو!‏ مَیں یہ کہتا ہوں کہ وقت تنگ ہے۔‏ آگے کو چاہئے کہ .‏ .‏ .‏ دُنیا کا فائدہ اُٹھانے والے [‏ایسے ہوں]‏ گویا نہیں اُٹھاتے۔‏ کیونکہ اِس دُنیا کی شکل بدلتی جاتی ہے۔‏“‏ (‏۱-‏کر ۷:‏۲۹-‏۳۱‏،‏ کیتھولک ترجمہ)‏ آج‌کل مسیحی کچھ لحاظ سے دُنیا کا فائدہ اُٹھاتے ہیں۔‏ وہ جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے سینکڑوں زبانوں میں کتابیں اور رسالے شائع کرتے ہیں تاکہ پوری دُنیا میں لوگ خدا کے بارے میں علم حاصل کر سکیں۔‏ وہ دُنیا میں کاروبار کرتے ہیں اور اپنی ضرورت کی چیزیں خریدتے ہیں۔‏ لیکن وہ اِس حد تک دُنیا کا فائدہ نہیں اُٹھاتے کہ وہ مال‌ودولت اور کاروبار کو حد سے زیادہ اہمیت دینے لگیں۔‏‏—‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۹،‏ ۱۰ کو پڑھیں۔‏

۱۱ سمجھ‌دار مسیحی اعلیٰ تعلیم کے سلسلے میں بھی دُنیا کا فائدہ نہیں اُٹھاتے۔‏ دُنیا میں یہ نظریہ عام ہے کہ ایک شخص یونیورسٹی جانے سے ہی اچھی ملازمت حاصل کر سکتا ہے اور خوشحال زندگی گزار سکتا ہے۔‏ لیکن ہم ایسی چیزوں کے پیچھے نہیں بھاگتے کیونکہ ہم اِس دُنیا میں مسافروں اور پردیسیوں کی طرح رہ رہے ہیں۔‏ ہم ’‏اپنے لئے عمدہ چیزیں نہیں ڈھونڈتے ہیں۔‏‘‏ (‏یرم ۴۵:‏۵‏،‏ کیتھولک ترجمہ؛‏ روم ۱۲:‏۱۶‏)‏ ہم یسوع مسیح کی اِس بات پر دھیان دیتے ہیں:‏ ”‏خبردار!‏ اپنے آپ کو ہر طرح کے لالچ سے بچائے رکھو کیونکہ کسی کی زندگی اُس کے مال کی کثرت پر موقوف نہیں۔‏“‏ (‏لو ۱۲:‏۱۵‏)‏ لہٰذا نوجوان مسیحیوں کو اِتنی ہی تعلیم حاصل کرنی چاہئے کہ وہ اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کر سکیں۔‏ اُنہیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہوواہ خدا کی خدمت کرنا زندگی میں سب سے اہم ہے۔‏ ہمیں ”‏اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت اور اپنی ساری عقل سے“‏ یہوواہ خدا کی خدمت کرنی چاہئے۔‏ (‏لو ۱۰:‏۲۷‏)‏ اِس طرح ہم ”‏خدا کے نزدیک دولت‌مند“‏ ہوں گے۔‏—‏لو ۱۲:‏۲۱؛‏ متی ۶:‏۱۹-‏۲۱ کو پڑھیں۔‏

زندگی کی فکروں کے بوجھ تلے دب نہ جائیں

۱۲،‏ ۱۳.‏ متی ۶:‏۳۱-‏۳۳ پر عمل کرنے کی وجہ سے ہماری سوچ اور دُنیا کے لوگوں کی سوچ میں کیا فرق پایا جاتا ہے؟‏

۱۲ مال‌ودولت کے سلسلے میں یہوواہ خدا کے خادموں کی سوچ دُنیا کے لوگوں سے فرق ہے۔‏ یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏فکرمند ہو کر یہ نہ کہو کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے یا کیا پہنیں گے؟‏ کیونکہ اِن سب چیزوں کی تلاش میں غیرقومیں رہتی ہیں اور تمہارا آسمانی باپ جانتا ہے کہ تُم اِن سب چیزوں کے محتاج ہو۔‏ بلکہ تُم پہلے اُس کی بادشاہی اور اُس کی راست‌بازی کی تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تُم کو مل جائیں گی۔‏“‏ (‏متی ۶:‏۳۱-‏۳۳‏)‏ ہمارے بہت سے بہن‌بھائیوں نے خود دیکھا ہے کہ اُن کا آسمانی باپ ہمیشہ اُن کی ضروریات پوری کرتا ہے۔‏

۱۳ ‏”‏دین‌داری قناعت کے ساتھ بڑے نفع کا ذریعہ ہے۔‏“‏ (‏۱-‏تیم ۶:‏۶‏)‏ لہٰذا ہمیں اُن چیزوں سے مطمئن ہونا چاہئے جو ہمارے پاس ہیں۔‏ دُنیا کے لوگ ایسی سوچ نہیں رکھتے۔‏ مثال کے طور پر جب لوگ شادی کرتے ہیں تو وہ چاہتے ہیں کہ اُنہیں فوراً گھر،‏ فرنیچر،‏ گاڑی،‏ ٹی‌وی اور دوسری مہنگی‌مہنگی چیزیں مل جائیں۔‏ لیکن ایسے مسیحی جو اِس دُنیا میں مسافروں اور پردیسیوں کی طرح رہتے ہیں،‏ وہ اپنی خواہشات کو محدود رکھتے ہیں اور اپنی چادر سے باہر پاؤں نہیں پھیلاتے۔‏ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ بہت سے مسیحیوں نے سادہ زندگی اختیار کی ہے تاکہ اُن کے پاس خدا کی خدمت کرنے کے لئے زیادہ وقت اور توانائی ہو۔‏ اُن کے علاوہ کئی بہن‌بھائی پہل‌کاروں،‏ سفری نگہبانوں یا مشنریوں کے طور پر خدمت کرتے ہیں یا پھر بیت‌ایل میں کام کرتے ہیں۔‏ بِلاشُبہ ہم سب اپنے بہن‌بھائیوں کی محنت کی بڑی قدر کرتے ہیں۔‏

۱۴.‏ ہم بیج بونے والے کی تمثیل سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟‏

۱۴ بیج بونے والے کی تمثیل میں یسوع مسیح نے کہا کہ ”‏دُنیا کی فکر اور دولت کا فریب“‏ ہمارے دل میں خدا کے کلام کو دبا سکتا ہے اور ہم بےپھل رہ سکتے ہیں۔‏ (‏متی ۱۳:‏۲۲‏)‏ لیکن اگر ہم اِس دُنیا میں پردیسیوں کی طرح رہتے ہیں اور اُن چیزوں سے مطمئن رہتے ہیں جو ہمارے پاس ہیں تو ہم اِس پھندے سے بچیں گے۔‏ ہم اپنی ”‏آنکھ درست“‏ رکھیں گے یعنی اپنی توجہ خدا کی خدمت اور اُس کی بادشاہت پر مرکوز رکھیں گے۔‏—‏متی ۶:‏۲۲‏۔‏

‏’‏دُنیا مٹتی جاتی ہے‘‏

۱۵.‏ یوحنا رسول نے اِس دُنیا کے انجام کے بارے میں کیا کہا؟‏

۱۵ سچے مسیحی اِس لئے خود کو ”‏پردیسی اور مسافر“‏ سمجھتے ہیں کیونکہ وہ اِس حقیقت سے واقف ہیں کہ شیطان کی دُنیا جلد ختم ہونے والی ہے۔‏ (‏۱-‏پطر ۲:‏۱۱؛‏ ۲-‏پطر ۳:‏۷‏)‏ ہمارے فیصلوں،‏ خواہشوں اور ارادوں سے ظاہر ہوگا کہ ہم اِس حقیقت پر ایمان رکھتے ہیں۔‏ یوحنا رسول نے مسیحیوں کو یہ ہدایت دی:‏ ”‏نہ دُنیا سے محبت رکھو نہ اُن چیزوں سے جو دُنیا میں ہیں“‏ کیونکہ ”‏دُنیا اور اُس کی خواہش دونوں مٹتی جاتی ہیں لیکن جو خدا کی مرضی پر چلتا ہے وہ ابد تک قائم رہے گا۔‏“‏—‏۱-‏یوح ۲:‏۱۵-‏۱۷‏۔‏

۱۶.‏ ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم دُنیا کے لوگوں سے فرق ہیں؟‏

۱۶ یہوواہ خدا نے بنی‌اسرائیل سے کہا کہ ’‏اگر تُم میری بات مانو گے تو سب قوموں میں سے تُم ہی میری خاص ملکیت ٹھہرو گے۔‏‘‏ (‏خر ۱۹:‏۵‏)‏ جب تک بنی‌اسرائیل خدا کے وفادار رہے،‏ اُن کی عبادت اور اُن کا طرزِزندگی دوسری قوموں سے فرق رہا۔‏ آج بھی یہوواہ خدا نے اپنے لئے ایک اُمت کو چنا ہے جو شیطان کی دُنیا کے لوگوں سے فرق ہے۔‏ خدا کے کلام میں لکھا ہے:‏ ”‏بےدینی اور دُنیوی خواہشوں کا انکار کرکے اِس موجودہ جہان میں پرہیزگاری اور راست‌بازی اور دین‌داری کے ساتھ زندگی گذاریں اور اُس مبارک اُمید یعنی اپنے بزرگ خدا اور مُنجی یسوؔع مسیح کے جلال کے ظاہر ہونے کے منتظر رہیں جس نے اپنے آپ کو ہمارے واسطے دے دیا تاکہ فدیہ ہو کر ہمیں ہر طرح کی بےدینی سے چھڑا لے اور پاک کرکے اپنی خاص ملکیت کے لئے ایک ایسی اُمت بنائے جو نیک کاموں میں سرگرم ہو۔‏“‏ (‏طط ۲:‏۱۱-‏۱۴‏)‏ یہ ”‏اُمت“‏ ممسوح مسیحیوں پر مشتمل ہے۔‏ اِن کے علاوہ اِس میں یسوع مسیح کی ”‏اَور بھی بھیڑیں“‏ شامل ہیں جو ممسوح مسیحیوں کی حمایت کرتی ہیں۔‏—‏یوح ۱۰:‏۱۶‏۔‏

۱۷.‏ ممسوح مسیحی اور اُن کے ساتھی اِس بات پر کیوں نہیں پچھتائیں گے کہ اُنہوں نے اِس بُری دُنیا میں پردیسیوں کی طرح زندگی گزاری؟‏

۱۷ ممسوح مسیحیوں کی ”‏مبارک اُمید“‏ یہ ہے کہ وہ یسوع مسیح کے ساتھ آسمان پر حکمرانی کریں گے۔‏ (‏مکا ۵:‏۱۰‏)‏ ’‏اَور بھی بھیڑوں‘‏ میں شامل مسیحیوں کی اُمید یہ ہے کہ وہ زمین پر ہمیشہ کی زندگی حاصل کریں گے۔‏ تب وہ مسافروں اور پردیسیوں کی طرح ایک بُری دُنیا میں نہیں رہیں گے۔‏ اُن کے پاس اچھے گھر ہوں گے اور کھانے پینے کی کمی نہیں ہوگی۔‏ (‏زبور ۳۷:‏۱۰،‏ ۱۱؛‏ یسع ۲۵:‏۶؛‏ ۶۵:‏۲۱،‏ ۲۲‏)‏ وہ کبھی نہیں بھولیں گے کہ یہ سب کچھ اُنہیں یہوواہ کی طرف سے ملا ہے جو ”‏تمام رویِ‌زمین کا خدا“‏ ہے۔‏ (‏یسع ۵۴:‏۵‏)‏ نہ تو ممسوح مسیحیوں کو اور نہ ہی ’‏اَور بھی بھیڑوں‘‏ کو اِس بات پر پچھتانا پڑے گا کہ اُنہوں نے اِس بُری دُنیا میں پردیسیوں کی طرح زندگی گزاری۔‏

آپ کیا جواب دیں گے؟‏

‏• قدیم زمانے میں خدا کے خادموں نے مسافروں اور پردیسیوں کی طرح زندگی کیسے گزاری؟‏

‏• ابتدائی مسیحیوں نے ایک بُری دُنیا میں زندگی کیسے گزاری؟‏

‏• سچے مسیحی کس حد تک دُنیا کا فائدہ اُٹھاتے ہیں؟‏

‏• ہم اِس بات پر کیوں نہیں پچھتائیں گے کہ ہم نے اِس بُری دُنیا میں پردیسیوں کی طرح زندگی گزاری؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۰ پر تصویر]‏

ابتدائی مسیحی ایسی تفریح نہیں کرتے تھے جس میں ظلم‌وتشدد اور بدکاری شامل تھی۔‏