مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏’‏علم کے نمونے‘‏ سے سیکھیں

‏’‏علم کے نمونے‘‏ سے سیکھیں

‏’‏علم کے نمونے‘‏ سے سیکھیں

‏”‏علم اور حق کا جو نمونہ شریعت میں ہے وہ [‏تمہارے]‏ پاس ہے۔‏“‏—‏روم ۲:‏۲۰‏۔‏

اِن سوالوں کے جواب تلاش کریں:‏

قربانیوں کے سلسلے میں شریعت میں پائے جانے والے حکم کس کی طرف اشارہ کرتے تھے؟‏

آج ہم یہوواہ خدا کے لئے جو قربانیاں دیتے ہیں،‏ وہ کس لحاظ سے بنی‌اسرائیل کی قربانیوں کی طرح ہیں؟‏

ہمیں کیاکیا کرنا چاہئے تاکہ یہوواہ خدا ہماری قربانیوں کو قبول کرے؟‏

۱.‏ ہمیں شریعت کے بارے میں پولس رسول کی وضاحتوں پر کیوں غور کرنا چاہئے؟‏

اگر ہمارے پاس پولس رسول کے خط نہ ہوتے تو شاید ہمارے لئے یہ سمجھنا مشکل ہوتا کہ موسیٰ کی شریعت کے مختلف پہلو کس طرف اشارہ کرتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر عبرانیوں کے خط میں پولس رسول نے واضح کِیا کہ یسوع مسیح ”‏دیانت‌دار سردارکاہن“‏ ہیں جنہوں نے ایک ہی بار ”‏گُناہوں کا کفارہ“‏ دیا اور اُن لوگوں کی ”‏ابدی خلاصی کرائی“‏ جو اُن کی قربانی پر ایمان رکھتے ہیں۔‏ (‏عبر ۲:‏۱۷؛‏ ۹:‏۱۱،‏ ۱۲‏)‏ پولس رسول نے یہ بھی بتایا کہ خیمۂ‌اجتماع ’‏آسمانی چیزوں کا عکس‘‏ تھا اور یسوع مسیح،‏ موسیٰ کو دی گئی شریعت سے ”‏بہتر عہد“‏ کے درمیانی ہیں۔‏ (‏عبر ۷:‏۲۲؛‏ ۸:‏۱-‏۵‏)‏ پولس رسول کی اِن وضاحتوں سے اُن کے زمانے کے مسیحیوں کو بڑا فائدہ ہوا اور آج یہ ہمارے لئے بھی فائدہ‌مند ہیں۔‏ اِن وضاحتوں پر غور کرنے سے خدا کے اُس بندوبست کے لئے ہماری قدر بڑھ جاتی ہے جو اُس نے ہماری نجات کے لئے کِیا ہے۔‏

۲.‏ جو مسیحی پہلے یہودی تھے،‏ وہ کن باتوں سے واقف تھے؟‏

۲ پولس رسول نے رومیوں کے خط میں کچھ باتیں اُن مسیحیوں کے لئے لکھیں جو پہلے یہودی تھے اور جنہوں نے شریعت کی تعلیم حاصل کی تھی۔‏ پولس رسول نے تسلیم کِیا کہ یہ مسیحی ’‏علم اور حق کے نمونے‘‏ کے بارے میں پہلے سے جانتے ہیں یعنی اُنہیں یہوواہ خدا اور اُس کے معیاروں کے بارے میں صحیح علم ہے۔‏ شریعت میں پائے جانے والے ’‏علم کے نمونے‘‏ کو اچھی طرح سمجھنے اور اِس کی قدر کرنے سے اُن مسیحیوں کو یہ فائدہ ہوا کہ وہ ایسے لوگوں کو یہوواہ خدا کے بارے میں سچائیاں سکھا سکتے تھے جو اِن سے ناواقف تھے۔‏‏—‏رومیوں ۲:‏۱۷-‏۲۰ کو پڑھیں۔‏

یسوع مسیح کی قربانی کا عکس

۳.‏ بنی‌اسرائیل کی قربانیوں اور نذروں پر غور کرنا ہمارے لئے کیوں فائدہ‌مند ہے؟‏

۳ پولس رسول نے علم کے جس نمونے کا ذکر کِیا،‏ وہ ہمارے لئے بھی اہم ہے کیونکہ اِس کی مدد سے ہم یہوواہ خدا کے مقصد کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔‏ شریعت میں بہت سے اصول پائے جاتے ہیں جو ہمارے لئے بھی فائدہ‌مند ہیں۔‏ اِس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے آئیں،‏ اُن قربانیوں اور نذروں پر غور کریں جن کا شریعت میں حکم دیا گیا تھا۔‏ اِن کے ذریعے یہودی یہ سمجھ گئے کہ مسیح کا آنا کیوں ضروری ہے اور اُنہیں کس جذبے اور نیت سے قربانیاں گزراننی چاہئیں۔‏ چونکہ یہوواہ خدا کے معیار کبھی نہیں بدلتے اِس لئے ہم اِن قربانیوں پر غور کرنے سے اپنا جائزہ لے سکتے ہیں کہ ہم کس جذبے اور نیت سے خدا کی خدمت کر رہے ہیں۔‏—‏ملا ۳:‏۶‏۔‏

۴،‏ ۵.‏ ‏(‏الف)‏ شریعت کے حکموں کے ذریعے بنی‌اسرائیل کو کیا یاد دلایا گیا؟‏ (‏ب)‏ قربانیوں کے سلسلے میں خدا کے حکم کس کی طرف اشارہ کرتے تھے؟‏

۴ شریعت کے بہت سے حکموں کے ذریعے بنی‌اسرائیل کو یاد دلایا گیا کہ وہ گنہگار ہیں۔‏ مثال کے طور پر اگر ایک شخص لاش کو چھوتا تو وہ ناپاک ہو جاتا تھا۔‏ اُسے پاک ہونے کے لئے ایک بےعیب سُرخ رنگ کی بچھیا گزراننی پڑتی تھی جسے قربان کرنے کے بعد جلایا جاتا تھا۔‏ بچھیا کی راکھ سے ’‏ناپاکی دُور کرنے کا پانی‘‏ تیار کِیا جاتا تھا۔‏ پھر اِس پانی کو اُس شخص کے ناپاک ہونے کے تیسرے اور ساتویں دن اُس پر چھڑکا جاتا تھا۔‏ اِس کے بعد وہ پاک ہو جاتا تھا۔‏ (‏گن ۱۹:‏۱-‏۱۳‏)‏ شریعت کے کچھ حکموں کے ذریعے بنی‌اسرائیل کو یہ بھی یاد دلایا گیا کہ انسان گُناہ کی حالت میں پیدا ہوتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر بچے کی پیدائش کے بعد عورت ایک مخصوص عرصے تک ناپاک رہتی تھی جس کے بعد اُسے کفارے کے لئے قربانی دینی پڑتی تھی۔‏—‏احبا ۱۲:‏۱-‏۸‏۔‏

۵ روزمرہ زندگی میں بہت سی ایسی صورتحال تھیں جن میں بنی‌اسرائیل کو گُناہوں کی معافی حاصل کرنے کے لئے جانوروں کی قربانیاں کرنی پڑتی تھیں۔‏ شاید بنی‌اسرائیل اِس بات سے واقف نہ ہوں لیکن جو قربانیاں اُنہوں نے خیمۂ‌اجتماع اور بعد میں ہیکل میں گزرانی،‏ وہ یسوع مسیح کی بےعیب قربانی کا ”‏عکس“‏ تھیں۔‏—‏عبر ۱۰:‏۱-‏۱۰‏۔‏

خوشی سے قربانیاں دینے کی اہمیت

۶،‏ ۷.‏ ‏(‏الف)‏ قربانی کے لئے کوئی جانور چنتے وقت بنی‌اسرائیل کو کیا یاد رکھنا تھا؟‏ (‏ب)‏ بنی‌اسرائیل کی بےعیب قربانیاں کس کی طرف اشارہ کرتی تھیں؟‏ (‏ج)‏ ہم خود سے کونسے سوال پوچھ سکتے ہیں؟‏

۶ یہوواہ خدا چاہتا تھا کہ بنی‌اسرائیل صرف ایسے جانوروں کی قربانیاں دیں جو ہر لحاظ سے ”‏بےعیب“‏ ہوں۔‏ اُنہیں لنگڑےلولے،‏ اندھے،‏ بیمار یا زخمی جانوروں کی قربانیاں نہیں دینی تھیں۔‏ (‏احبا ۲۲:‏۲۰-‏۲۲‏)‏ جب وہ پھل یا اناج کو نذر کرتے تھے تو اُنہیں ”‏پہلے پھل“‏ اور اپنی فصل کا ”‏اچھے سے اچھا حصہ“‏ گزراننا تھا۔‏ (‏گن ۱۸:‏۱۲،‏ ۲۹‏)‏ یہوواہ خدا عیب‌دار قربانیوں کو قبول نہیں کرتا تھا۔‏ یہ حکم کہ صرف بےعیب جانور پیش کئے جائیں،‏ یسوع مسیح کی بےعیب قربانی کی طرف اشارہ کرتا تھا۔‏ اِس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ یہوواہ خدا انسانوں کے گُناہوں کا کفارہ دینے کے لئے اپنی بہترین چیز کو قربان کرے گا یعنی اپنے سب سے عزیز بیٹے کی قربانی دے گا۔‏—‏۱-‏پطر ۱:‏۱۸،‏ ۱۹‏۔‏

۷ اگر ایک اسرائیلی دل سے یہوواہ خدا کی مہربانی کی قدر کرتا تھا تو وہ ضرور اپنی بہترین چیز اُس کی نذر کرتا تھا۔‏ یہ اُس کا اپنا فیصلہ تھا کہ وہ یہوواہ خدا کے لئے اپنی بہترین چیز پیش کرے گا یا نہیں۔‏ لیکن وہ یہ بھی جانتا تھا کہ یہوواہ خدا کسی عیب‌دار چیز سے خوش نہیں ہوگا۔‏ اگر وہ کوئی عیب‌دار چیز پیش کرتا تو اِس سے ظاہر ہوتا کہ اُس کی نظر میں قربانیوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے یا وہ اُنہیں بوجھ سمجھتا ہے۔‏ ‏(‏ملاکی ۱:‏۶-‏۸،‏ ۱۳ کو پڑھیں۔‏)‏ اِس بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ مَیں کس جذبے اور کس نیت سے خدا کی خدمت کر رہا ہوں؟‏ کیا مَیں واقعی یہوواہ خدا کو اپنی بہترین چیز دے رہا ہوں؟‏ یا کیا مَیں اَور بہتر طریقے سے خدا کی خدمت کر سکتا ہوں؟‏

۸،‏ ۹.‏ بنی‌اسرائیل کی قربانیوں سے اُن کے بارے میں کیا ظاہر ہوا؟‏ اور ہم اِس سے کیا سیکھتے ہیں؟‏

۸ جب ایک اسرائیلی خدا کی شکرگزاری میں رضا کی قربانی گزرانتا تھا یا اُس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے سوختنی قربانی پیش کرتا تھا تو قربانی کے جانور کا انتخاب کرنا اُس کے لئے مشکل نہیں ہوتا تھا۔‏ وہ خوشی سے یہوواہ خدا کو اپنی بہترین چیز پیش کرتا تھا۔‏ آج‌کل مسیحی وہ قربانیاں تو نہیں دیتے جن کا شریعت میں حکم دیا گیا تھا لیکن ہم خدا کی خدمت میں دوسری قربانیاں ضرور دیتے ہیں۔‏ ہم اپنا وقت،‏ توانائی اور وسائل یہوواہ خدا کی خدمت میں استعمال کرتے ہیں۔‏ پولس رسول نے کہا کہ جب ہم مُنادی کے کام میں حصہ لیتے ہیں اور دوسروں کی بھلائی کے لئے کام کرتے ہیں تو ہم ایسی قربانیاں پیش کرتے ہیں جن سے خدا خوش ہوتا ہے۔‏ (‏عبر ۱۳:‏۱۵،‏ ۱۶‏)‏ جس جذبے سے ہم ایسے کام کرتے ہیں،‏ اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم خدا کی نعمتوں کے لئے کتنے شکرگزار ہیں۔‏ لہٰذا بنی‌اسرائیل کی طرح ہم بھی اپنی قربانیوں سے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم کس جذبے اور نیت سے خدا کی خدمت کر رہے ہیں۔‏

۹ بعض صورتوں میں ایک اسرائیلی کو اپنی کسی غلطی یا گُناہ کی وجہ سے خطا کی قربانی یا جُرم کی قربانی دینی پڑتی تھی۔‏ ایسی قربانیاں لازمی تھیں۔‏ کیا ایسی قربانیاں بھی خوشی سے دی جاتی تھیں؟‏ (‏احبا ۴:‏۲۷،‏ ۲۸‏)‏ اگر ایک شخص واقعی خدا کی قربت میں رہنا چاہتا تھا تو وہ خوشی سے ایسی قربانیاں دیتا تھا۔‏

۱۰.‏ اپنی کسی غلطی کو سدھارنے کے لئے ہمیں اکثر کس طرح کی قربانیاں دینی پڑتی ہیں؟‏

۱۰ آج بھی ہم غلطیاں کرتے ہیں۔‏ فرض کریں کہ آپ انجانے میں یا بغیر سوچےسمجھے کوئی ایسی بات کہہ دیتے ہیں جس سے کسی بہن یا بھائی کو ٹھیس پہنچتی ہے۔‏ بعد میں آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ سے غلطی ہوئی ہے۔‏ اگر آپ واقعی خدا کی قربت میں رہنا چاہتے ہیں تو آپ اپنی غلطی کو سدھارنے کی پوری کوشش کریں گے۔‏ شاید آپ کو اُس بہن یا بھائی سے معافی مانگنی پڑے۔‏ اگر آپ نے کوئی سنگین گُناہ کِیا ہے تو آپ کو کلیسیا کے بزرگوں سے مدد حاصل کرنی پڑے گی۔‏ (‏متی ۵:‏۲۳،‏ ۲۴؛‏ یعقو ۵:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب ہم دوسرے انسانوں یا خدا کے خلاف کوئی گُناہ کرتے ہیں تو ہمیں اِسے سدھارنے کے لئے اکثر کوئی ایسا کام کرنا پڑتا ہے جو آسان نہیں ہوتا۔‏ ایسی قربانیوں سے ہم یہوواہ خدا اور اپنے بھائی کے ساتھ صلح کرتے ہیں اور ہمارا ضمیر صاف ہو جاتا ہے۔‏ یوں یہوواہ خدا کی رہنمائی پر ہمارا بھروسا زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے۔‏

۱۱،‏ ۱۲.‏ ‏(‏الف)‏ سلامتی کے ذبیحے کیا تھے؟‏ (‏ب)‏ ہم سلامتی کے ذبیحوں کے بندوبست سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۱۱ شریعت میں سلامتی کے ذبیحوں کا بھی ذکر ہوا تھا۔‏ اِن قربانیوں سے ظاہر ہوتا تھا کہ ایک شخص یہوواہ خدا کے ساتھ صلح سے رہ رہا ہے۔‏ یہ قربانی پیش کرنے والا شخص اپنے خاندان کے ساتھ مل کر قربانی کے جانور کا گوشت کھاتا تھا۔‏ ہو سکتا ہے کہ اِس مقصد کے لئے ہیکل میں خاص کوٹھریاں بنائی گئی تھیں۔‏ قربانی گزراننے والے کاہن اور دوسرے کاہنوں کو بھی گوشت میں سے کچھ حصہ دیا جاتا تھا۔‏ (‏احبا ۳:‏۱؛‏ ۷:‏۳۱-‏۳۳‏)‏ ایسی قربانیاں گزراننے کا مقصد خدا کی خوشنودی حاصل کرنا تھا۔‏ یہ ایسا ہی تھا جیسے وہ شخص،‏ اُس کا خاندان اور کاہن یہوواہ خدا کے ساتھ مل کر کھانا کھا رہے ہیں اور اُس کے ساتھ صلح سے رہ رہے ہیں۔‏

۱۲ لہٰذا سلامتی کے ذبیحے گزراننے والا شخص ایک طرح سے یہوواہ خدا کو اپنے ساتھ کھانا کھانے کی دعوت دیتا تھا۔‏ یہ کتنا بڑا اعزاز تھا کہ خدا ادنیٰ انسانوں کی دعوت قبول کرتا تھا!‏ ظاہر ہے کہ وہ شخص اِتنے خاص مہمان کو اپنی سب سے بہترین چیز پیش کرتا۔‏ سلامتی کے ذبیحے کا بندوبست علم کے اُس نمونے میں شامل تھا جس کا پولس رسول نے ذکر کِیا تھا۔‏ اِس بندوبست نے یسوع مسیح کی قربانی کی طرف اشارہ کِیا جس کی بِنا پر انسانوں کو اپنے خالق کے ساتھ صلح سے رہنے کا موقع ملا ہے۔‏ آج جب ہم خوشی سے اپنی توانائی اور وسائل کو خدا کی خدمت میں استعمال کرتے ہیں تو خدا کے ساتھ ہماری دوستی مضبوط ہو جاتی ہے۔‏

ایسی قربانیاں جنہیں خدا نے قبول نہیں کِیا

۱۳،‏ ۱۴.‏ یہوواہ خدا اُن قربانیوں کو قبول کیوں نہیں کرنا چاہتا تھا جو ساؤل اُس کے لئے کرنے والا تھا؟‏

۱۳ یہوواہ خدا اُسی صورت میں بنی‌اسرائیل کی قربانیوں کو قبول کرتا تھا اگر وہ صحیح جذبے اور نیت سے قربانی گزرانتے تھے۔‏ لیکن بائبل میں کچھ ایسی قربانیوں کی مثالیں بھی پائی جاتی ہیں جنہیں خدا نے قبول نہیں کِیا تھا۔‏ آئیں،‏ دو ایسی مثالوں پر غور کریں اور دیکھیں کہ خدا نے اِن کو کیوں قبول نہیں کِیا۔‏

۱۴ سموئیل نبی نے بادشاہ ساؤل کو بتایا کہ یہوواہ خدا عمالیقی قوم کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔‏ ساؤل کو حکم دیا گیا کہ وہ عمالیقیوں کو اُن کے مال اور مویشیوں سمیت ختم کر ڈالیں۔‏ لیکن جب خدا نے ساؤل کو فتح بخشی تو ساؤل نے عمالیقیوں کے بادشاہ اجاج کو زندہ چھوڑ دیا اور اُن کے اچھےاچھے مویشیوں کو رکھ چھوڑا تاکہ وہ یہوواہ خدا کے لئے قربان کئے جائیں۔‏ (‏۱-‏سمو ۱۵:‏۲،‏ ۳،‏ ۲۱‏)‏ اِس پر یہوواہ خدا کا کیا ردِعمل تھا؟‏ اُس نے ساؤل کو رد کر دیا کیونکہ ساؤل نے اُس کا حکم نہیں مانا۔‏ ‏(‏۱-‏سموئیل ۱۵:‏۲۲،‏ ۲۳ کو پڑھیں۔‏)‏ ہم اِس واقعے سے کِیا سیکھ سکتے ہیں؟‏ یہوواہ خدا ہماری قربانیوں کو صرف اُس صورت میں قبول کرتا ہے اگر ہم اُس کے حکموں پر عمل کرتے ہیں۔‏

۱۵.‏ یسعیاہ نبی کے زمانے کے اسرائیلیوں نے قربانیاں دینے کے ساتھ‌ساتھ بُرے کام کرنے سے کیا ظاہر کِیا؟‏

۱۵ ایک اَور مثال یسعیاہ کی کتاب میں پائی جاتی ہے۔‏ یسعیاہ نبی کے زمانے میں کئی اسرائیلی اپنے گُناہوں کی معافی حاصل کرنے کے لئے قربانیاں تو گزران رہے تھے لیکن وہ گُناہ کرنے سے باز نہیں آ رہے تھے۔‏ اِس لئے یہوواہ خدا نے اُن کی قربانیوں کو قبول نہیں کِیا۔‏ اُس نے اُن سے کہا:‏ ”‏تمہارے ذبیحوں کی کثرت سے مجھے کیا کام؟‏ مَیں مینڈھوں کی سوختنی قربانیوں سے اور فربہ بچھڑوں کی چربی سے بیزار ہوں اور بیلوں اور بھیڑوں اور بکروں کے خون میں میری خوشنودی نہیں۔‏ .‏ .‏ .‏ آیندہ کو باطل ہدئے نہ لانا۔‏ بخور سے مجھے نفرت ہے۔‏“‏ یہوواہ خدا نے اِن قربانیوں کو کیوں رد کر دیا؟‏ اُس نے کہا:‏ ”‏جب تُم دُعا پر دُعا کرو گے تو مَیں نہ سنوں گا۔‏ تمہارے ہاتھ تو خون‌آلودہ ہیں۔‏ اپنے آپ کو دھو۔‏ اپنے آپ کو پاک کرو۔‏ اپنے بُرے کاموں کو میری آنکھوں کے سامنے سے دُور کرو۔‏ بدفعلی سے باز آؤ۔‏“‏—‏یسع ۱:‏۱۱-‏۱۶‏۔‏

۱۶.‏ خدا کس صورت میں ہماری قربانیوں کو قبول کرتا ہے؟‏

۱۶ یہوواہ خدا نے اُن لوگوں کی قربانیوں کو قبول نہیں کِیا جنہوں نے اپنے گُناہوں سے توبہ نہیں کی۔‏ لیکن اُس نے اُن لوگوں کی دُعاؤں اور قربانیوں کو قبول کِیا جو اُس کے حکموں پر عمل کرنے کی پوری کوشش کرتے تھے۔‏ ایسے لوگوں کو شریعت میں دئے گئے علم کے نمونے کے ذریعے یہ یاد دلایا گیا کہ وہ گنہگار ہیں اور اُنہیں معافی کی ضرورت ہے۔‏ (‏گل ۳:‏۱۹‏)‏ یوں وہ اپنے گُناہوں پر تائب ہوئے۔‏ آج ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم صرف یسوع مسیح کی قربانی کی بِنا پر اپنے گُناہوں کی معافی حاصل کر سکتے ہیں۔‏ اگر ہم خدا کے اِس بندوبست کی قدر کرتے ہیں تو یہوواہ خدا ہماری اُن تمام قربانیوں سے خوش ہوگا جو ہم اُس کی خدمت میں دیتے ہیں۔‏‏—‏زبور ۵۱:‏۱۷،‏ ۱۹ کو پڑھیں۔‏

یسوع مسیح کی قربانی پر ایمان رکھیں

۱۷-‏۱۹‏.‏ (‏الف)‏ ہم یہ کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم یسوع مسیح کی قربانی کی قدر کرتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ اگلے مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟‏

۱۷ بنی‌اسرائیل نے تو صرف مسیح کی قربانی کا ”‏عکس“‏ دیکھا لیکن ہم اِس کی اہمیت کو پوری طرح سے سمجھتے ہیں۔‏ (‏عبر ۱۰:‏۱‏)‏ شریعت میں جن قربانیوں کا حکم دیا گیا تھا،‏ اُن کے ذریعے بنی‌اسرائیل کو پتہ چلا کہ خدا کی قربت حاصل کرنے کے لئے اُنہیں کیا کرنے کی ضرورت ہے۔‏ اُنہیں دل سے خدا کا شکرگزار ہونا تھا،‏ اُنہیں خدا کو اپنی بہترین چیز دینی تھی اور اُنہیں یہ بھی تسلیم کرنا تھا کہ اُنہیں گُناہوں کی معافی کی ضرورت ہے۔‏ آج ہمارے پاس یونانی صحیفے ہیں جن کے ذریعے ہم یہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہوواہ خدا،‏ یسوع مسیح کی قربانی کی بِنا پر گُناہ اور موت کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دے گا۔‏ اور یسوع مسیح کی قربانی کی وجہ سے ہم صاف دل سے خدا کی عبادت کر سکتے ہیں۔‏ یسوع مسیح کی قربانی واقعی ایک شاندار بندوبست ہے!‏—‏گل ۳:‏۱۳؛‏ عبر ۹:‏۹،‏ ۱۴‏۔‏

۱۸ ظاہر ہے کہ یسوع مسیح کی قربانی سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے صرف اِس کی اہمیت سے واقف ہونا کافی نہیں ہے۔‏ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏شریعت مسیح تک پہنچانے کو ہمارا اُستاد بنی تاکہ ہم ایمان کے سبب سے راست‌باز ٹھہریں۔‏“‏ (‏گل ۳:‏۲۴‏)‏ لہٰذا ہمیں یسوع مسیح کی قربانی پر ایمان بھی رکھنا چاہئے۔‏ اور ایمان اعمال سے ظاہر ہوتا ہے۔‏ (‏یعقو ۲:‏۲۶‏)‏ پہلی صدی کے مسیحیوں کے پاس علم کا نمونہ تھا اور پولس رسول اُن سے کہہ رہے تھے کہ وہ اِس علم پر عمل کریں۔‏ اِس طرح وہ اُن اصولوں پر خود بھی عمل کرتے جو وہ دوسروں کو سکھا رہے تھے۔‏‏—‏رومیوں ۲:‏۲۱-‏۲۳ کو پڑھیں۔‏

۱۹ آج‌کل ہمیں موسیٰ کی شریعت کی پابندی تو نہیں کرنی پڑتی لیکن ہمیں بھی ایسی قربانیاں پیش کرنی چاہئیں جن سے یہوواہ خدا خوش ہو۔‏ اگلے مضمون میں ہم سیکھیں گے کہ ہم ایسی قربانیاں کیسے پیش کر سکتے ہیں۔‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۹ پر عبارت]‏

یہوواہ خدا کے معیار کبھی نہیں بدلتے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۰ پر تصویر]‏

آپ اِن دونوں میں سے کون‌سا جانور قربان کرتے؟‏

‏[‏صفحہ ۲۱ پر تصویر]‏

خدا کی قربت میں رہنے کے لئے ہمیں ایسی قربانیاں دینی چاہئیں جن سے وہ خوش ہو۔‏