لوگوں کو روحانی نیند سے جگائیں
لوگوں کو روحانی نیند سے جگائیں
”وہ گھڑی آ پہنچی کہ تُم نیند سے جاگو۔“—روم ۱۳:۱۱۔
اِن سوالوں کے جواب دیں:
یہ کیوں ضروری ہے کہ مسیحی روحانی طور پر جاگتے رہیں؟
ایک شخص سے بات کرتے وقت ہمیں کیا اندازہ لگانے کی کوشش کرنی چاہئے؟
مُنادی کے کام کے دوران ہمیں لوگوں کے ساتھ نرمی سے کیوں پیش آنا چاہئے؟
۱، ۲. آجکل لوگوں کو کس قسم کی نیند سے جاگنے کی ضرورت ہے؟
ہر سال ہزاروں لوگ گاڑی چلاتے ہوئے سو جاتے ہیں اور اِس وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ بعض لوگ کام پر جانے کے لئے وقت پر نہیں جاگتے یا پھر وہ کام پر سو جاتے ہیں اور اِس لئے اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ لیکن روحانی طور پر سونے کا نقصان اِس سے کہیں زیادہ ہو سکتا ہے۔ اِسی لئے بائبل میں کہا گیا ہے کہ ”مبارک وہ ہے جو جاگتا ہے۔“—مکا ۱۶:۱۴-۱۶۔
۲ یہوواہ خدا کا روزِعظیم تیزی سے نزدیک آ رہا ہے لیکن زیادہتر لوگ روحانی طور پر سو رہے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض مسیحی رہنماؤں نے یہ تسلیم کِیا ہے کہ اُن کے چرچوں کے زیادہتر رُکن روحانی طور پر سو رہے ہیں۔ شاید آپ سوچیں کہ روحانی طور پر سونے کا کیا مطلب ہے؟ مسیحیوں کے لئے یہ کیوں ضروری ہے کہ وہ روحانی طور پر جاگتے رہیں؟ ہم دوسروں کو روحانی نیند سے کیسے جگا سکتے ہیں؟
روحانی طور پر سونے کا کیا مطلب ہے؟
۳. جو شخص روحانی طور پر سو رہا ہوتا ہے، وہ کن کاموں میں مصروف ہوتا ہے؟
۳ جو شخص سو رہا ہوتا ہے، وہ کوئی کام نہیں کر رہا ہوتا۔ اِس کے برعکس جو شخص روحانی طور پر سو رہا ہوتا ہے، وہ شاید کئی کام کرنے میں مصروف ہوتا ہے مگر وہ خدا کی قربت حاصل کرنے کے لئے کچھ نہیں کرتا۔ وہ شاید زندگی کی فکروں میں رہتا ہے یا پھر دولت اور شہرت کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے۔ اِس لئے اُسے خدا کے بارے میں سیکھنے کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ اِس کی بجائے جو لوگ روحانی طور پر جاگتے ہیں، وہ خدا کی خدمت کرنے میں مصروف رہتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہم ”اخیر دنوں“ میں رہ رہے ہیں۔—۲-پطر ۳:۳، ۴؛ لو ۲۱:۳۴-۳۶۔
۴. پولس رسول کی اِس نصیحت کا کیا مطلب ہے کہ ”اَوروں کی طرح سو نہ رہیں؟“
۴ پہلا تھسلنیکیوں ۵:۴-۸ کو پڑھیں۔ اِن آیتوں میں پولس رسول نے مسیحیوں کو نصیحت کی: ”اَوروں کی طرح سو نہ رہیں۔“ پولس رسول کی اِس نصیحت کا کیا مطلب تھا؟ بعض لوگ اِس لحاظ سے سوتے رہتے ہیں کہ وہ یہوواہ خدا کے حکموں کے مطابق زندگی نہیں گزارتے۔ وہ اِس حقیقت کو بھی نظرانداز کرتے ہیں کہ یہوواہ خدا جلد بُرے لوگوں کو ختم کر دے گا۔ ہمیں پوری کوشش کرنی چاہئے کہ ہم ایسے لوگوں کی سوچ سے متاثر نہ ہوں اور اُن کے طورطریقے نہ اپنائیں۔
۵. بہت سے لوگ کس لحاظ سے روحانی طور پر سو رہے ہیں؟
۵ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کوئی خدا نہیں ہے جس کے سامنے اُنہیں حساب دینا پڑے گا۔ (زبور ۵۳:۱) بعض تو یہ سوچتے ہیں کہ خدا کو اُن کی فکر نہیں ہے اِس لئے خدا کے بارے میں جاننے کا کوئی فائدہ نہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ خدا کی قربت حاصل کرنے کے لئے کسی چرچ کا ممبر ہونا ہی کافی ہے۔ لیکن ایسے سب لوگ روحانی طور پر سو رہے ہیں اور اُنہیں جاگنے کی ضرورت ہے۔ اِس سلسلے میں ہم اُن کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟
خود بھی روحانی طور پر جاگتے رہیں
۶. مسیحیوں کو روحانی طور پر جاگتے رہنے کے لئے سخت کوشش کیوں کرنی چاہئے؟
۶ دوسروں کو نیند سے جگانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم خود بھی جاگ رہے ہوں۔ روحانی طور پر جاگتے رہنے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ جو لوگ روحانی طور پر سوتے ہیں، وہ ’تاریکی کے کام‘ کرتے ہیں جن میں ناچرنگ، نشہبازی، زناکاری، شہوتپرستی، جھگڑے اور حسد شامل ہیں۔ (رومیوں ۱۳:۱۱-۱۴ کو پڑھیں۔) ایسے کاموں سے بچنا ہمارے لئے مشکل ہو سکتا ہے۔ لہٰذا ہمیں روحانی طور پر جاگتے رہنے کے لئے سخت کوشش کرنی چاہئے۔ جس طرح ایک ڈرائیور کو یاد رکھنا چاہئے کہ گاڑی چلاتے ہوئے سو جانا موت کا باعث ہو سکتا ہے اُسی طرح ایک مسیحی کو یاد رکھنا چاہئے کہ روحانی طور پر سو جانا اُس کے لئے جانلیوا ثابت ہو سکتا ہے۔
۷. اگر ہم سوچتے ہیں کہ لوگ کبھی ہمارے پیغام کو قبول نہیں کریں گے تو اِس کا ہم پر کیا اثر ہو سکتا ہے؟
۷ مثال کے طور پر ایک مسیحی شاید یہ سوچے کہ اُس کے علاقے میں سب نے خوشخبری کو رد کر دیا ہے اور وہ کبھی اپنا نظریہ نہیں بدلیں گے۔ (امثا ۶:۱۰، ۱۱) ایسی صورت میں وہ شاید یہ سوچنے لگے کہ ”اگر لوگ بادشاہت کا پیغام قبول نہیں کریں گے تو پھر دلوجان سے مُنادی کا کام کرنے کی کیا ضرورت ہے؟“ مانا کہ اب بہت سے لوگ روحانی طور پر سو رہے ہیں لیکن اُن کی صورتحال اور اُن کی سوچ بدل سکتی ہے۔ بعض روحانی طور پر جاگ جاتے ہیں اور ہمارے پیغام کو قبول کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ہم اُسی صورت میں جگا سکتے ہیں جب ہم خود روحانی طور پر جاگ رہے ہوں۔ روحانی طور پر جاگتے رہنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم بادشاہت کا پیغام پیش کرنے کے نئے طریقے آزمائیں۔ اِس کے علاوہ ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ مُنادی کا کام اِتنا اہم کیوں ہے۔
مُنادی کا کام اِتنا اہم کیوں ہے؟
۸. مُنادی کا کام اِتنا اہم کیوں ہے؟
۸ ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ جب ہم بادشاہت کی خوشخبری سناتے ہیں تو یہوواہ خدا کی بڑائی ہوتی ہے، چاہے لوگ سنیں یا نہ سنیں۔ اِس کے علاوہ مُنادی کے کام کے ذریعے یہوواہ خدا کا مقصد بھی پورا ہو رہا ہے کیونکہ لوگوں کی عدالت اِس بِنا پر کی جائے گی کہ وہ بادشاہت کے پیغام کے لئے کیسا ردِعمل دِکھاتے ہیں۔ (۲-تھس ۱:۸، ۹) بعض مسیحی یہ سوچتے ہیں کہ ’راستباز اور ناراست‘ دونوں طرح کے لوگ زندہ ہوں گے اِس لئے اِتنی محنت سے مُنادی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ (اعما ۲۴:۱۵) لیکن پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ جو لوگ بادشاہت کی خوشخبری کو نہیں مانتے، وہ ”ہمیشہ کی سزا پائیں گے“ یعنی اُنہیں ہمیشہ کے لئے ہلاک کر دیا جائے گا۔ جب ہم لوگوں کو بادشاہت کا پیغام سناتے ہیں تو اُنہیں اپنی زندگی بدلنے اور ”ہمیشہ کی زندگی“ پانے کا موقع ملتا ہے۔ (متی ۲۵:۳۲، ۴۱، ۴۶؛ روم ۱۰:۱۳-۱۵) اگر ہم مُنادی کا کام نہیں کریں گے تو لوگوں تک وہ پیغام نہیں پہنچے گا جس کے ذریعے وہ نجات پا سکتے ہیں۔
۹. مُنادی کا کام کرنے سے ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے اور دوسروں کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟
۹ جب ہم مُنادی کا کام کرتے ہیں تو ہمیں خود بھی فائدہ ہوتا ہے۔ (۱-تیمتھیس ۴:۱۶ کو پڑھیں۔) آپ اِس بات سے اتفاق کریں گے کہ جب ہم یہوواہ خدا اور اُس کی بادشاہت کے بارے میں لوگوں کو بتاتے ہیں تو خدا پر ہمارا ایمان مضبوط ہوتا ہے اور ہم اُس سے اَور بھی محبت کرنے لگتے ہیں۔ مُنادی کا کام کرنے سے ہم میں مسیح جیسی خوبیاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ کام کرنے سے ہم خدا کے لئے اپنی محبت کا اِظہار کرتے ہیں اور یوں ہمیں اطمینان ملتا ہے۔ ہمارے مُنادی کے کام سے دوسروں کو بھی فائدہ ہوتا ہے کیونکہ خدا کے حکموں پر عمل کرنے سے اُن کی زندگی خوشگوار ہو جاتی ہے۔
لوگوں میں دلچسپی لیں
۱۰، ۱۱. (الف) یسوع مسیح اور پولس رسول نے ہمارے لئے کونسی مثال قائم کی؟ (ب) ہم کیسے انداز لگا سکتے ہیں کہ مُنادی کے کام میں ملنے والے لوگ کن موضوعات میں دلچسپی لیں گے؟
۱۰ اگر ہم خود روحانی طور پر بیدار ہیں تو ہم لوگوں سے خوشخبری کے ایسے پہلوؤں پر بات کریں گے جن میں وہ دلچسپی لیں۔ اِس لئے ہمیں لوگوں کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرنی چاہئے کہ وہ کس موضوع میں دلچسپی لیں گے۔ اِس سلسلے میں ہم یسوع مسیح سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ یسوع مسیح میں یہ خاص صلاحیت تھی کہ وہ لوگوں کو دیکھ کر سمجھ جاتے تھے کہ اُن کے دل میں کیا ہے۔ مثال کے طور پر ایک موقعے پر یسوع مسیح نے یہ جان لیا کہ ایک فریسی کے دل میں کیا ہے حالانکہ اُس فریسی نے کچھ کہا نہیں تھا۔ اِسی موقعے پر یسوع مسیح ایک بدچلن عورت کو دیکھ کر یہ جان گئے کہ اُس نے دل سے توبہ کر لی ہے۔ ایک اَور موقعے پر جب یسوع مسیح نے ایک غریب بیوہ کو عطیہ ڈالتے ہوئے دیکھا تو اُنہوں نے یہ جان لیا کہ اُس نے اپنا سب کچھ ڈال دیا ہے۔ (لو ۷:۳۷-۵۰؛ ۲۱:۱-۴) یسوع مسیح لوگوں کی روحانی ضروریات سے واقف تھے اِس لئے وہ اُن کی مدد کرنے کے قابل تھے۔ ہم میں یسوع مسیح جیسی صلاحیت تو نہیں ہے لیکن پھر بھی جب ہم مُنادی کے دوران ایک شخص سے ملتے ہیں تو ہم اُس کو دیکھ کر یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کس موضوع میں دلچسپی لے گا۔ اِس سلسلے میں پولس رسول نے بھی ایک عمدہ مثال قائم کی۔ جب وہ مختلف قوموں کے لوگوں سے ملتے تھے تو وہ اپنے پیغام کو فرقفرق طریقوں سے پیش کرتے تھے۔—اعما ۱۷:۲۲، ۲۳، ۳۴؛ ۱-کر ۹:۱۹-۲۳۔
۱۱ اگر ہم یسوع مسیح اور پولس رسول کی مثال پر عمل کرتے ہیں تو ہم یہ اندازہ لگانے کے قابل ہوں گے کہ لوگ کن موضوعات میں دلچسپی لیں گے۔ مثال کے طور پر مُنادی کے کام کے دوران جب آپ کسی کے گھر پر جاتے ہیں تو ایسی چیزوں پر غور کریں جن سے یہ اشارہ ملے کہ وہ شخص کس قوم سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ شاید کن باتوں میں دلچسپی لیتا ہے؟ کیا وہ شادیشُدہ ہے؟ کیا اُس کے بچے ہیں؟ جب آپ اُس شخص سے ملتے ہیں تو دیکھیں کہ وہ کیا کام کر رہا ہے اور پھر شاید اُسی کام کے بارے میں کچھ کہنے سے آپ گفتگو شروع کر سکتے ہیں۔
۱۲. مُنادی کے دوران آپس میں باتچیت کرتے وقت ہمیں کس بات کا خیال رکھنا چاہئے؟
۱۲ جب ہم مُنادی کے کام کے لئے جاتے ہیں تو ہماری توجہ دوسروں کو بادشاہت کا پیغام سنانے پر ہونی چاہئے۔ آپ جس بہن یا بھائی کے ساتھ مُنادی کا کام کر رہے ہیں، اُس سے بات کرنا حوصلہافزائی کا باعث ہو سکتا ہے۔ لیکن ہمیں اِس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ مُنادی کے کام کا مقصد دوسروں کو بادشاہت کا پیغام سنانا ہے۔ (واعظ ۳:۱، ۷) اِس لئے ہمیں آپس میں باتچیت کرنے میں اِتنا مگن نہیں ہونا چاہئے کہ ہماری توجہ مُنادی کے کام سے ہٹ جائے۔ لیکن اگر ہم آپس میں باتچیت کرتے وقت اِس بات پر غور کرتے ہیں کہ ہم اگلے دروازے پر کیا کہیں گے تو ہمارا دھیان مُنادی کے کام پر رہے گا۔ کبھیکبھی مُنادی کے کام کے دوران موبائل فون ہمارے کام آتا ہے۔ لیکن ہمیں اِس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ جب ہم کسی شخص سے بات کر رہے ہیں تو موبائل فون کی وجہ سے ہماری گفتگو میں خلل نہ پڑے۔
لوگوں کی بات دھیان سے سنیں
۱۳، ۱۴. (الف) ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ ایک شخص کن موضوعات میں دلچسپی لیتا ہے؟ (ب) ہم مُنادی میں لوگوں کے ساتھ کن موضوعات پر بات کر سکتے ہیں تاکہ وہ ہمارے پیغام میں دلچسپی لیں؟
۱۳ اگر ہم خود روحانی طور پر بیدار ہیں تو ہم اُن لوگوں کی بات دھیان سے سنیں گے جن سے ہم مُنادی کے کام کے دوران ملتے ہیں۔ آپ لوگوں سے کونسے سوال پوچھ سکتے ہیں تاکہ آپ یہ جان سکیں کہ وہ کن معاملات کے بارے میں فکرمند ہیں؟ کیا وہ اِس بات سے پریشان ہیں کہ آجکل اِتنے مذاہب کیوں ہیں؟ اِتنا ظلم اور تشدد کیوں ہے؟ حکومتیں مسئلوں کو حل کرنے میں ناکام کیوں ہو رہی ہیں؟ شاید آپ لوگوں کے ساتھ خدا کی بنائی ہوئی چیزوں کے بارے میں بات کر سکتے ہیں یا پھر آپ اُنہیں بتا سکتے ہیں کہ بائبل کی باتوں پر عمل کرنا بہت
فائدہمند ہے۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو شاید لوگ خدا کے بارے میں سیکھنے میں دلچسپی لیں۔ ہم دُعا کے موضوع پر بھی بات کر سکتے ہیں کیونکہ یہ ایسا موضوع ہے جس میں تقریباً تمام قوموں کے لوگ دلچسپی لیتے ہیں، یہاں تک کہ کچھ ایسے لوگ بھی جو خدا پر ایمان نہیں رکھتے۔ بہت سے لوگ سوچتے ہیں کہ کیا کوئی ایسی ہستی ہے جو دُعاؤں کو سنتی ہے؟ دیگر لوگ شاید اِن سوالوں کے جواب حاصل کرنا چاہئیں: کیا خدا تمام لوگوں کی دُعاؤں کو سنتا ہے؟ اور اگر نہیں تو پھر ہمیں کیا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خدا ہماری دُعا سنے؟۱۴ تجربہکار بہنبھائیوں کے ساتھ مُنادی کرنے سے ہم یہ سیکھ سکتے ہیں کہ ہم لوگوں کے ساتھ باتچیت کیسے شروع کر سکتے ہیں۔ غور کریں کہ وہ لوگوں سے کس انداز میں سوال پوچھتے ہیں تاکہ لوگوں کو یہ نہ لگے کہ اُن سے پوچھگچھ ہو رہی ہے۔ ہم اِس بات پر غور کر سکتے ہیں کہ اُن کے چہرے کے تاثرات سے کیسے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ واقعی لوگوں کی بات کو دھیان سے سُن رہے ہیں۔—امثا ۱۵:۱۳۔
نرمی اور سمجھداری سے کام لیں
۱۵. مُنادی کے کام کے دوران ہمیں لوگوں کے ساتھ نرمی سے کیوں پیش آنا چاہئے؟
۱۵ جب کوئی آپ کو ایک دم نیند سے جگاتا ہے تو آپ کو کیسا لگتا ہے؟ بہت سے لوگوں کو تو غصہ آ جاتا ہے۔ اِس لئے بہتر یہی ہے کہ کسی کو جگانے کے لئے نرمی سے کام لیں۔ یہی بات لوگوں کو روحانی نیند سے جگانے پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر جب ہم مُنادی کے کام کے دوران کسی شخص سے ملتے ہیں اور وہ غصے میں آ جاتا ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ ہمیں اُس کے ساتھ نرمی سے بات کرنی چاہئے اور اُسے یقین دِلانا چاہئے کہ ہم اُس کے احساسات کو سمجھتے ہیں۔ اور پھر وہاں سے چلے جانا چاہئے۔ (امثا ۱۵:۱؛ ۱۷:۱۴؛ ۲-تیم ۲:۲۴) اگر ہم اُس کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں گے تو اِس کا اچھا نتیجہ نکلے گا۔ اگلی بار جب کوئی یہوواہ کا گواہ اُس کے پاس آئے گا تو شاید وہ اُس کی بات سننے کے لئے تیار ہو۔
۱۶، ۱۷. جب لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ ہماری بات نہیں سننا چاہتے یا وہ مصروف ہیں تو ہم سمجھداری سے کیسے کام لے سکتے ہیں؟
۱۶ بعض صورتوں میں ہم اُن لوگوں کے ساتھ باتچیت کرنا جاری رکھ سکتے ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ ہماری بات سننا نہیں چاہتے۔ مثال کے طور پر شاید لوگ کہیں کہ ”میرا اپنا مذہب ہے“ یا ”مجھے آپ کے پیغام میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔“ اکثر لوگ ایسا اِس لئے کہتے ہیں کیونکہ وہ بس بات کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن آپ نرمی اور سمجھداری سے کام لیتے ہوئے کوئی ایسا سوال پوچھ سکتے ہیں جس سے اُس شخص میں بائبل کا پیغام سننے کے لئے دلچسپی پیدا ہو۔—کلسیوں ۴:۶ کو پڑھیں۔
۱۷ بعض اوقات ہماری ملاقات ایسے لوگوں سے ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ وہ بہت مصروف ہیں۔ عموماً ہمیں اُن کی بات ماننی چاہئے اور چلے جانا چاہئے۔ لیکن بعض صورتوں میں ہم اُن کے ساتھ مختصر سی بات کر سکتے ہیں۔ بعض بہنبھائی ایک منٹ کے اندراندر بائبل سے کوئی آیت پڑھتے ہیں اور کوئی سوال پوچھتے ہیں۔ اُن کی مختصر سی بات سے بعض اوقات اُس شخص میں دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے۔ اور وہ مصروف ہونے کے باوجود چند منٹ کے لئے اُن کے ساتھ بات کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ اگر آپ کو ایسا کرنے کا موقع ملے تو اِسے ہاتھ سے نہ جانے دیں۔
۱۸. ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم ہر موقعے پر گواہی دینے کے لئے تیار ہوں؟
۱۸ روزمرہ زندگی کے دوران ہمیں گواہی دینے کے بہت سے موقعے ملتے ہیں۔ ہمیں اِن موقعوں سے فائدہ اُٹھانے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ بہت سے بہنبھائی اپنے پاس کتابیں اور رسالے رکھتے ہیں۔ اُن کے ذہن میں کوئی ایسی آیت بھی ہوتی ہے جو وہ موقع ملنے پر
پڑھ کر سنا سکتے ہیں۔ اپنی کلیسیا کے خدمتی نگہبان یا پہلکاروں سے پوچھیں کہ آپ مختلف موقعوں پر گواہی دینے کے لئے تیاری کیسے کر سکتے ہیں۔اپنے رشتہداروں کے احساسات کا لحاظ رکھیں
۱۹. ہمیں اپنے رشتہداروں کو گواہی دینے کی کوشش کیوں جاری رکھنی چاہئے؟
۱۹ یقیناً ہم اپنے رشتہداروں کو بھی بادشاہت کی خوشخبری سنانا چاہتے ہیں۔ (یشو ۲:۱۳؛ اعما ۱۰:۲۴، ۴۸؛ ۱۶:۳۱، ۳۲) ہو سکتا ہے کہ ماضی میں ہم نے اُنہیں بادشاہت کا پیغام سنایا تھا مگر اُنہوں نے اِسے قبول نہیں کِیا تھا۔ اِس وجہ سے شاید اب ہم اُنہیں گواہی دینے سے ہچکچائیں۔ شاید ہمیں لگے کہ ہم اُن کی سوچ بدل نہیں سکتے۔ لیکن ہو سکتا ہے اُن کی زندگی میں کوئی ایسا واقعہ ہوا ہو جس سے اُن کی سوچ بدل گئی ہے۔ یا پھر اب آپ بائبل کی تعلیم دینے میں پہلے سے زیادہ ماہر ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے شاید آپ اُنہیں قائل کر لیں۔
۲۰. جب ہم اپنے رشتہداروں کو گواہی دیتے ہیں تو ہم اُن کے احساسات کا لحاظ کیسے رکھ سکتے ہیں؟
۲۰ ہمیں اپنے رشتہداروں کے احساسات کا لحاظ رکھنا چاہئے۔ (روم ۲:۴) ہمیں اُن کے ساتھ بھی ویسے ہی نرمی اور عزت سے بات کرنی چاہئے جیسے ہم مُنادی کے دوران ملنے والے لوگوں سے کرتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ ہم جب بھی اُن سے ملیں تو بائبل کے بارے میں ہی بات کریں۔ اِس کی بجائے اپنے رویے اور کاموں سے یہ ظاہر کریں کہ بائبل کے اصولوں پر عمل کرنے سے آپ کو کتنا فائدہ ہوا ہے۔ (افس ۴:۲۳، ۲۴) ہماری زندگی سے یہ ثابت ہونا چاہئے کہ یہوواہ خدا ہمیں ’مفید تعلیم دے رہا ہے۔‘ (یسع ۴۸:۱۷) ہمیں اپنے رشتہداروں کے لئے ایک اچھی مثال قائم کرنی چاہئے۔
۲۱، ۲۲. ایک تجربہ بتائیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رشتہداروں کو گواہی دینے کی کوشش جاری رکھنا کیوں اہم ہے۔
۲۱ ایک بہن نے لکھا: ”میرے ۱۳ بہنبھائی ہیں۔ مَیں نے ہمیشہ اپنے بہنبھائیوں کو گواہی دینے اور اُن کے لئے ایک اچھی مثال قائم کرنے کی کوشش کی۔ مَیں ہر سال اُن سب کو الگ الگ خط لکھتی تھی۔ مَیں نے ۳۰ سال تک اپنی کوششوں کو جاری رکھا مگر میرے بہنبھائیوں نے سچائی کو قبول نہیں کِیا۔“
۲۲ اُس بہن نے آگے بتایا: ”ایک دن مَیں نے اپنی ایک بہن کو فون کِیا جو مجھ سے سینکڑوں میل دُور رہتی ہیں۔ اُنہوں نے مجھے بتایا کہ ”مَیں نے اپنے چرچ کے پادری سے درخواست کی کہ مجھے بائبل کی تعلیم دے۔ مگر پادری نے ایسا نہیں کِیا۔“ جب مَیں نے اپنی بہن سے کہا کہ مَیں بائبل کی تعلیم حاصل کرنے میں اُن کی مدد کرنا چاہتی ہوں تو اُنہوں نے کہا کہ ”ٹھیک ہے مگر مَیں یہوواہ کی گواہ کبھی نہیں بنوں گی۔“ مَیں نے اُنہیں کتاب پاک صحائف کی تعلیم حاصل کریں بھیج دی اور پھر ہر دوسرے تیسرے دن اُنہیں فون کرتی تھی۔ لیکن اُنہوں نے کتاب کو کھولا تک نہیں تھا۔ پھر ایک دن مَیں نے اُنہیں فون کِیا اور اُن سے کہا کہ وہ کتاب لائیں۔ ہم نے ۱۵ منٹ تک کتاب میں دی گئی آیتوں پر باتچیت کی۔ کچھ عرصے تک ہم ایسے ہی مطالعہ کرتے رہے۔ پھر اُنہوں نے کہا کہ وہ ۱۵ منٹ سے زیادہ مطالعہ کرنا چاہتی ہیں۔ اِس کے بعد وہ مطالعہ کرنے کے لئے خود مجھے فون کرنے لگیں۔ بعض اوقات تو وہ مجھے صبح سویرے ہی فون کر دیتی تھیں۔ اور کبھیکبھار تو دن میں دو مرتبہ فون کرتی تھیں۔ ایک سال کے بعد اُنہوں نے بپتسمہ لے لیا اور پھر بپتسمے کے ایک سال بعد اُنہوں نے پہلکار کے طور پر خدمت کرنا شروع کر دی۔“
۲۳. ہمیں لوگوں کو روحانی نیند سے جگانے کی کوشش کیوں جاری رکھنی چاہئے؟
۲۳ لوگوں کو روحانی نیند سے جگانے کے لئے ہمیں سمجھداری سے کام لینا چاہئے اور ہمت نہیں ہارنی چاہئے۔ آجکل بہت سے لوگ بادشاہت کا پیغام قبول کر رہے ہیں اور روحانی نیند سے جاگ رہے ہیں۔ ہر مہینے اوسطاً ۲۰ ہزار سے زیادہ لوگ یہوواہ کے گواہ بنتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں اُس بات کو یاد رکھنا چاہئے جو پولس رسول نے ارخپس سے کہی تھی: ”جو خدمت خداوند میں تیرے سپرد ہوئی ہے اُسے ہوشیاری کے ساتھ انجام دے۔“ (کل ۴:۱۷) اگلے مضمون میں ہم اِس بات پر غور کریں گے کہ اب بادشاہت کا پیغام سنانا اشد ضروری کیوں ہے۔
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۵ پر بکس]
روحانی طور پر جاگتے رہنے کے لئے تجاویز
▪ خدا کی خدمت میں مصروف رہیں۔
▪ تاریکی کے کاموں سے بچیں۔
▪ یہ یاد رکھیں کہ روحانی نیند موت کا باعث بن سکتی ہے۔
▪ یہ یاد رکھیں کہ آپ کے علاقے کے لوگوں کی سوچ بدل سکتی ہے۔
▪ بادشاہت کا پیغام پیش کرنے کے نئے طریقے آزمائیں۔
▪ یاد رکھیں کہ مُنادی کا کام کس قدر اہم ہے۔