مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

پیچھے مڑ کر نہ دیکھیں

پیچھے مڑ کر نہ دیکھیں

پیچھے مڑ کر نہ دیکھیں

‏”‏جو کوئی اپنا ہاتھ ہل پر رکھ کر پیچھے دیکھتا ہے وہ خدا کی بادشاہی کے لائق نہیں۔‏“‏—‏لو ۹:‏۶۲‏۔‏

آپ اِن سوالوں کے کیا جواب دیں گے؟‏

ہمیں لوط کی بیوی کو کیوں یاد رکھنا چاہئے؟‏

کن تین باتوں کی وجہ سے ہم پیچھے مڑ کر دیکھنے کے خطرے میں پڑ سکتے ہیں؟‏

ہم یہوواہ خدا کی تنظیم کے ساتھ آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں؟‏

۱‏.‏ یسوع مسیح نے کیا نصیحت کی تھی اور اِس سلسلے میں کون‌سا سوال پیدا ہوتا ہے؟‏

‏”‏لوؔط کی بیوی کو یاد رکھو۔‏“‏ (‏لو ۱۷:‏۳۲‏)‏ یہ نصیحت آج سے کوئی ۲۰۰۰ سال پہلے یسوع مسیح نے کی تھی۔‏ آج‌کل اِس پر عمل کرنا پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔‏ لیکن جب یسوع مسیح نے یہ الفاظ کہے تو اُن کے ذہن میں کیا تھا؟‏ یسوع مسیح یہودیوں سے بات کر رہے تھے جو اچھی طرح جانتے تھے کہ لوط کی بیوی کے ساتھ کیا ہوا تھا۔‏ یہودیوں کو معلوم تھا کہ جب لوط اور اُن کے گھر والے سدوم کو چھوڑ کر بھاگے تھے تو فرشتوں نے اُنہیں حکم دیا تھا کہ پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا۔‏ مگر لوط کی بیوی نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور وہ نمک کا ستون بن گئی۔‏‏—‏پیدایش ۱۹:‏۱۷،‏ ۲۶ کو پڑھیں۔‏

۲‏.‏ ‏(‏الف)‏ لوط کی بیوی نے پیچھے مڑ کر کیوں دیکھا ہوگا؟‏ (‏ب)‏ اُسے نافرمانی کی کیا سزا ملی؟‏

۲ آپ شاید سوچیں کہ لوط کی بیوی نے آخر پیچھے مڑ کر کیوں دیکھا تھا؟‏ کیا وہ یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ سدوم شہر کا کیا حشر ہو رہا ہے؟‏ کیا اُسے شک تھا کہ یہ شہر تباہ ہوگا یا نہیں؟‏ یا پھر کیا وہ اُن چیزوں کے بارے میں سوچ رہی تھی جو وہ اپنے پیچھے چھوڑ آئی تھی؟‏ (‏لو ۱۷:‏۳۱‏)‏ وجہ چاہے جو بھی ہو،‏ اُسے پیچھے مڑ کر دیکھنے کی بہت بھاری قیمت چُکانی پڑی۔‏ وہ اُسی دن ہلاک ہو گئی جس دن سدوم اور عمورہ کے بدکار لوگ ہلاک ہوئے تھے۔‏ اِس لئے یسوع مسیح نے یہ نصیحت کی تھی کہ ”‏لوؔط کی بیوی کو یاد رکھو۔‏“‏

۳‏.‏ یسوع مسیح نے اِس بات کی اہمیت کیسے ظاہر کی کہ ہمیں پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا چاہئے؟‏

۳ ہم بھی ایک ایسے دَور میں رہ رہے ہیں جس میں ہمیں اُن چیزوں کو مڑ کر نہیں دیکھنا چاہئے جنہیں ہم پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔‏ یسوع مسیح نے اِس بات کی اہمیت پر زور دیا جب وہ ایک مرتبہ ایک شخص سے بات کر رہے تھے۔‏ اُس شخص نے کہا کہ وہ اُن کا شاگرد بنے گا لیکن پہلے اُسے اجازت دی جائے کہ وہ اپنے گھر والوں سے مل آئے۔‏ یسوع مسیح نے اُس سے کہا:‏ ”‏جو کوئی اپنا ہاتھ ہل پر رکھ کر پیچھے دیکھتا ہے وہ خدا کی بادشاہی کے لائق نہیں۔‏“‏ (‏لو ۹:‏۶۲‏)‏ کیا یسوع مسیح کا یہ جواب بہت سخت تھا؟‏ جی‌نہیں۔‏ یسوع مسیح جانتے تھے کہ وہ شخص اُس ذمہ‌داری سے بچنے کے لئے بہانہ بنا رہا ہے جو شاگرد بننے کے بعد اُس پر آئے گی۔‏ اِس لئے اُنہوں نے کہا کہ جو کوئی خدا کی خدمت کرنے سے جی چراتا ہے،‏ وہ اُس شخص کی مانند ہے جو ”‏ہاتھ ہل پر رکھ کر پیچھے دیکھتا ہے۔‏“‏ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص ہل چلاتے ہوئے تھوڑی دیر کے لئے پیچھے دیکھے یا وہ ہل کو نیچے رکھ دے اور پیچھے مڑ کر دیکھنے لگے۔‏ دونوں صورتوں میں اُس کا دھیان کام سے ہٹ جائے گا اور وہ صحیح طرح کام نہیں کر پائے گا۔‏

۴‏.‏ ہم امثال ۴:‏۲۵ میں دی گئی ہدایت پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

۴ ہمارا دھیان ماضی پر نہیں بلکہ مستقبل پر ہونا چاہئے۔‏ اِس سلسلے میں امثال ۴:‏۲۵ میں دی گئی اِس ہدایت پر غور کریں:‏ ”‏تیری آنکھیں سامنے ہی نظر کریں اور تیری پلکیں سیدھی رہیں۔‏“‏

۵‏.‏ ہمیں پیچھے مڑ کر کیوں نہیں دیکھنا چاہئے؟‏

۵ ہمیں پیچھے مڑ کر کیوں نہیں دیکھنا چاہئے؟‏ اِس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ ہم ’‏اخیر زمانے‘‏ میں رہ رہے ہیں۔‏ (‏۲-‏تیم ۳:‏۱‏)‏ لوط کے زمانے میں تو یہوواہ خدا نے صرف سدوم اور عمورہ کے شہروں کو تباہ کِیا تھا۔‏ لیکن بہت ہی جلد وہ اِس پوری بدکار دُنیا کو ختم کرے گا۔‏ ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم لوط کی بیوی کی طرح اُن چیزوں کو مڑ کر نہ دیکھیں جو ہم پیچھے چھوڑ آئے ہیں؟‏ ہمیں ایسی باتوں کو پہچاننا چاہئے جن کی وجہ سے ہم پیچھے مڑ کر دیکھنے کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔‏ (‏۲-‏کر ۲:‏۱۱‏)‏ اِس سلسلے میں آئیں،‏ چند ایسی باتوں پر غور کریں جن کی وجہ سے ہم پیچھے مڑ کر دیکھنے کے خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔‏ ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ ہم اِس خطرے سے کیسے بچ سکتے ہیں۔‏

‏’‏پُرانے دن بہتر تھے‘‏

۶‏.‏ پُرانے دنوں کو یاد کرتے وقت ہم اکثر کیا غلطی کرتے ہیں؟‏

۶ جب ہم پُرانے دنوں کو یاد کرتے ہیں تو اکثر ہم اچھی باتوں کو ہی یاد کرتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ تب مشکلات بھی تھیں۔‏ ایسی سوچ کی وجہ سے ہم پیچھے مڑ کر دیکھنے کے خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔‏ ہم شاید یہ سوچنے لگیں کہ ماضی میں ہم زیادہ خوشگوار زندگی گزار رہے تھے حالانکہ شاید ایسا نہیں تھا۔‏ اِس سوچ کی وجہ سے ہمارے اندر یہ خواہش پیدا ہو سکتی ہے کہ کاش پُرانے دن لوٹ آئیں۔‏ لیکن بائبل میں ہمیں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ ”‏تُو یہ نہ کہہ کہ پُرانے دن اِن دنوں سے بہتر کیوں تھے؟‏ کیونکہ ایسے سوالات پوچھنا عقل‌مندی نہیں ہے۔‏“‏ (‏واعظ ۷:‏۱۰‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن۔‏)‏ ایسی سوچ نقصان‌دہ کیوں ہے؟‏

۷-‏۹.‏ ‏(‏الف)‏ مصر میں اسرائیلیوں کے ساتھ کیسا سلوک کِیا گیا؟‏ (‏ب)‏ بنی‌اسرائیل کن وجوہات کی بِنا پر خوش ہوئے تھے؟‏ (‏ج)‏ بنی‌اسرائیل کس وجہ سے بڑبڑانے اور شکایت کرنے لگے تھے؟‏

۷ اِس سلسلے میں آئیں،‏ ذرا بنی‌اسرائیل کی مثال پر غور کریں۔‏ جب وہ مصر میں آئے تھے تو مصریوں نے اُن کے ساتھ بہت اچھا سلوک کِیا تھا۔‏ لیکن یوسف کی موت کے بعد مصریوں نے ’‏اُن پر بیگار لینے والے مقرر کئے جو اُن سے سخت کام لے لے کر اُن کو ستاتے تھے۔‏‘‏ (‏خر ۱:‏۱۱‏)‏ پھر فرعون نے یہ حکم دیا کہ اگر کسی اسرائیلی کے گھر لڑکا پیدا ہو تو اُسے قتل کر دیا جائے۔‏ اِس طرح سے یہ خطرہ تھا کہ اسرائیلیوں کی نسل ختم ہو جائے گی۔‏ (‏خر ۱:‏۱۵،‏ ۱۶،‏ ۲۲‏)‏ اسرائیلیوں پر ہونے والے ظلم کو دیکھ کر یہوواہ خدا نے موسیٰ سے کہا:‏ ”‏مَیں نے اپنے لوگوں کی تکلیف جو مصرؔ میں ہیں خوب دیکھی اور اُن کی فریاد جو بیگار لینے والوں کے سبب سے ہے سنی اور مَیں اُن کے دُکھوں کو جانتا ہُوں۔‏“‏—‏خر ۳:‏۷‏۔‏

۸ ذرا تصور کریں کہ جب بنی‌اسرائیل غلامی سے آزاد ہو کر مصر سے نکلے ہوں گے تو وہ کتنے خوش ہوئے ہوں گے۔‏ وہ فرعون اور مصریوں پر آنے والی دس آفتوں کو دیکھ چکے تھے جس سے اُنہیں یقین ہو گیا تھا کہ یہوواہ خدا بےپناہ طاقت کا مالک ہے۔‏ ‏(‏خروج ۶:‏۱،‏ ۶،‏ ۷ کو پڑھیں۔‏)‏ دسویں آفت کے بعد مصریوں نے اسرائیلیوں کو آزاد کر دیا۔‏ دراصل مصریوں نے اسرائیلیوں سے کہا کہ وہ جلدی مصر سے چلے جائیں اور اُنہوں نے اسرائیلیوں کو بہت زیادہ سونا اور چاندی بھی دیا۔‏ بائبل میں لکھا ہے کہ اسرائیلیوں نے تو جیسے ’‏مصریوں کو لُوٹ ہی لیا‘‏ تھا۔‏ (‏خر ۱۲:‏۳۳-‏۳۶‏)‏ جب فرعون اور اُس کا سارا لشکر بحرِقلزم میں ڈوب کر مر گیا تو اسرائیلی اَور بھی خوش ہوئے۔‏ (‏خر ۱۴:‏۳۰،‏ ۳۱‏)‏ ایسے معجزوں کو دیکھ کر یہوواہ خدا پر اسرائیلیوں کا ایمان مضبوط ہونا چاہئے تھا۔‏

۹ لیکن حیرت کی بات ہے کہ معجزانہ طور پر مصر سے آزاد ہونے کے تھوڑے ہی عرصے بعد بنی‌اسرائیل خدا کے خلاف بڑبڑانے اور شکایت کرنے لگے۔‏ وہ کس وجہ سے ایسا کرنے لگے؟‏ کھانے کی وجہ سے۔‏ اُن کا دل اُس خوراک سے اُکتا گیا تھا جو یہوواہ خدا اُنہیں دے رہا تھا۔‏ وہ کہنے لگے:‏ ”‏ہم کو وہ مچھلی یاد آتی ہے جو ہم مصرؔ میں مُفت کھاتے تھے اور ہائے وہ کھیرے اور وہ خربوزے اور وہ گندنے اور پیاز اور لہسن۔‏ لیکن اب تو ہماری جان خشک ہو گئی۔‏ یہاں کوئی چیز میسر نہیں اور من کے سوا ہم کو اَور کچھ دِکھائی نہیں دیتا۔‏“‏ (‏گن ۱۱:‏۵،‏ ۶‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی بھول گئے تھے کہ مصر میں اُن کے حالات کتنے خراب تھے۔‏ اُن کی سوچ اِس حد تک بگڑ گئی تھی کہ وہ غلامی کے گھر یعنی مصر واپس جانا چاہتے تھے۔‏ (‏گن ۱۴:‏۲-‏۴‏)‏ اسرائیلیوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور خدا کی خوشنودی سے محروم ہو گئے۔‏—‏گن ۱۱:‏۱۰‏۔‏

۱۰.‏ ہم اسرائیلیوں کی مثال سے کیا سیکھتے ہیں؟‏

۱۰ اسرائیلیوں کی مثال سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏ ہم یہ سیکھتے ہیں کہ جب ہمیں مشکلات کا سامنا ہو تو ہمیں اِس خیال میں نہیں رہنا چاہئے کہ پُرانے دنوں میں ہم زیادہ خوشگوار زندگی گزار رہے تھے۔‏ ماضی کے تجربات پر غور کرنے اور ماضی کی خوشگوار باتوں کو یاد کرنے میں کوئی بُرائی نہیں ہے۔‏ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اُس وقت مشکلات بھی تھیں۔‏ اگر ہم یہی سوچتے رہیں گے کہ ہم ماضی میں زیادہ خوش تھے تو شاید ہم اپنی موجودہ زندگی سے بیزار ہو جائیں گے۔‏ اور شاید ہم پھر سے ویسی ہی زندگی گزارنا چاہیں گے جیسی ہم سچائی میں آنے سے پہلے گزارتے تھے۔‏‏—‏۲-‏پطرس ۲:‏۲۰-‏۲۲ کو پڑھیں۔‏

خدا کی خدمت کی خاطر قربانیاں دینے پر پچھتاوا

۱۱.‏ بعض بہن‌بھائی اُن قربانیوں کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں جو اُنہوں نے خدا کی خدمت کی خاطر دی تھیں؟‏

۱۱ افسوس کی بات ہے کہ کچھ بہن‌بھائی جب پیچھے مڑ کر اُن قربانیوں پر نگاہ ڈالتے ہیں جو اُنہوں نے خدا کی خدمت کی خاطر دیں تھیں تو وہ پچھتاتے ہیں۔‏ وہ یہ سوچتے ہیں کہ کاش اُنہوں نے یہ قربانیاں نہ دی ہوتیں۔‏ ہو سکتا ہے کہ آپ کے پاس اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے،‏ شہرت اور دولت کمانے کے موقعے تھے۔‏ لیکن آپ نے فیصلہ کِیا کہ آپ اِن چیزوں کے پیچھے نہیں بھاگیں گے۔‏ ہمارے بعض بہن‌بھائی خوب پیسہ کما رہے تھے۔‏ شاید وہ اپنا کاروبار چلا رہے تھے یا وہ مشہور موسیقار،‏ کھلاڑی یا پھر پروفیسر تھے۔‏ لیکن اُنہوں نے خدا کی خدمت کی خاطر یہ سب کچھ قربان کر دیا۔‏ چونکہ اب بہت وقت گزر گیا ہے اور ابھی تک خاتمہ نہیں آیا اِس لئے کیا آپ اِس سوچ میں گم رہتے ہیں کہ ”‏اگر مَیں ایسی قربانیاں نہ دیتا تو میری زندگی کیسی ہوتی؟‏“‏

۱۲.‏ پولس رسول اُن چیزوں کے بارے میں کیسا محسوس کرتے تھے جو اُنہوں نے پیچھے چھوڑ دی تھیں؟‏

۱۲ پولس رسول نے یسوع مسیح کا پیروکار بننے کی خاطر بہت سی قربانیاں دی تھیں۔‏ (‏فل ۳:‏۴-‏۶‏)‏ وہ اُن چیزوں کے بارے میں کیسا محسوس کرتے تھے جو اُنہوں نے پیچھے چھوڑ دی تھیں؟‏ اُنہوں نے بتایا:‏ ”‏جتنی چیزیں میرے نفع کی تھیں اُن ہی کو مَیں نے مسیح کی خاطر نقصان سمجھ لیا ہے۔‏“‏ لیکن پولس رسول نے اُن چیزوں کو نقصان کیوں سمجھا؟‏ اُنہوں نے آگے بیان کِیا:‏ ”‏مَیں اپنے خداوند مسیح یسوؔع کی پہچان کی بڑی خوبی کے سبب سے سب چیزوں کو نقصان سمجھتا ہوں۔‏ جس کی خاطر مَیں نے سب چیزوں کا نقصان اُٹھایا اور اُن کو کوڑا سمجھتا ہوں تاکہ مسیح کو حاصل کروں۔‏“‏ * (‏فل ۳:‏۷،‏ ۸‏)‏ جس طرح ایک شخص کو کوڑا پھینکنے کے بعد کوئی افسوس نہیں ہوتا اُسی طرح پولس رسول کو اِس بات پر کوئی افسوس نہیں تھا کہ اُنہوں نے دُنیا میں ترقی کرنے کے موقعوں سے فائدہ نہیں اُٹھایا۔‏ اُن کی نظر میں اُن چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں تھی جو وہ پیچھے چھوڑ آئے تھے۔‏

۱۳،‏ ۱۴.‏ ہم پولس رسول کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

۱۳ اگر ہم اِس بات پر پچھتانے لگتے ہیں کہ ہم نے ماضی میں دُنیا میں ترقی کرنے کے موقعوں سے فائدہ نہیں اُٹھایا تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏ ہمیں پولس رسول کی طرح اُن برکتوں کی قدر کرنی چاہئے جو ہمیں ملی ہیں۔‏ ہم یہوواہ خدا کی قربت میں آ گئے ہیں اور وہ ہمیں اپنا وفادار خادم سمجھتا ہے۔‏ (‏عبر ۶:‏۱۰‏)‏ دُنیا کی کوئی بھی چیز اُن برکتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی جو یہوواہ خدا اب ہمیں دے رہا ہے اور جو وہ مستقبل میں ہمیں دے گا۔‏‏—‏مرقس ۱۰:‏۲۸-‏۳۰ کو پڑھیں۔‏

۱۴ فلپیوں ۳ باب میں ہم نے دیکھا کہ پولس رسول دُنیا کی چیزوں کو کوڑا سمجھتے تھے۔‏ اِسی باب میں اُنہوں نے ایک ایسی بات کا بھی ذکر کِیا جس سے ہمیں وفاداری سے یہوواہ خدا کی خدمت کرتے رہنے کا حوصلہ ملتا ہے۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ’‏جو چیزیں پیچھے رہ گئیں اُن کو بھول کر آگے کی چیزوں کی طرف بڑھا ہوا جاتا ہوں۔‏‘‏ (‏فل ۳:‏۱۳‏)‏ غور کریں کہ پولس رسول نے دو اہم اقدام کا ذکر کِیا۔‏ پہلا یہ کہ جو چیزیں ہم پیچھے چھوڑ آئے ہیں،‏ اُن کو بھول جائیں۔‏ اُن کے بارے میں سوچ سوچ کر اپنا وقت ضائع نہ کریں۔‏ دوسرا قدم یہ کہ ہم اپنا دھیان سامنے رکھیں اور آگے بڑھتے جائیں۔‏ بالکل اُسی طرح جیسے ایک دوڑنے والا آگے بڑھتا جاتا ہے اور اُس کا دھیان اُس نشان پر ہوتا ہے جہاں دوڑ ختم ہوتی ہے۔‏

۱۵.‏ خدا کے وفادار خادموں کی مثالوں پر غور کرنے سے ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟‏

۱۵ جب ہم خدا کے وفادار خادموں کی مثالوں پر غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ ترغیب ملتی ہے کہ ہم آگے بڑھتے رہیں اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھیں۔‏ مثال کے طور پر اگر ابرہام اور سارہ شہر اُور کا ’‏خیال کرتے رہتے تو اُن کے پاس واپس جانے کا موقع تھا۔‏‘‏ (‏عبر ۱۱:‏۱۳-‏۱۵‏)‏ لیکن وہ واپس نہیں گئے۔‏ موسیٰ نبی مصر کے مال‌ودولت اور عیش‌وآرام کو چھوڑ کر مدیان کے علاقے میں چلے گئے۔‏ جو قربانی موسیٰ نبی نے دی تھی،‏ اُس سے بڑی قربانی کسی اَور اسرائیلی نے مصر کو چھوڑتے وقت نہیں دی تھی۔‏ لیکن بائبل میں یہ کہیں نہیں بتایا گیا کہ موسیٰ نبی نے کبھی اُن چیزوں کی خواہش کی تھی جو اُنہوں نے چھوڑ دی تھیں۔‏ اِس کے برعکس بائبل میں لکھا ہے کہ موسیٰ نبی نے ”‏مسیح کے لئے لعن‌طعن اُٹھانے کو مصرؔ کے خزانوں سے بڑی دولت جانا کیونکہ اُس کی نگاہ اجر پانے پر تھی۔‏“‏—‏عبر ۱۱:‏۲۶‏۔‏

ماضی کے تلخ تجربات

۱۶.‏ ہم ماضی کے تلخ تجربات سے کیسے متاثر ہو سکتے ہیں؟‏

۱۶ ماضی میں شاید ہمیں کچھ تلخ تجربات ہوئے ہوں جن کی وجہ سے ہم پیچھے مڑ کر دیکھنے کے خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر شاید ہم نے کوئی غلطی کی تھی جس کے بارے میں ہم پریشان رہتے ہیں۔‏ (‏زبور ۵۱:‏۳‏)‏ شاید بزرگوں نے ہماری اصلاح کی تھی جس کی وجہ سے ہم خفا ہیں۔‏ (‏عبر ۱۲:‏۱۱‏)‏ یا پھر ہو سکتا ہے کہ کسی نے ہمارے ساتھ ناانصافی کی تھی یا ہمیں لگتا ہے کہ ہمارے ساتھ ناانصافی ہوئی تھی اور اب اِسے بھولنا ہمارے لئے مشکل ہے۔‏ (‏زبور ۵۵:‏۲‏)‏ ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم اِن تلخ تجربات کی وجہ سے پیچھے مڑ کر نہ دیکھیں؟‏ اِس سلسلے میں آئیں،‏ اُوپر دی گئی تین صورتوں پر غور کریں۔‏

۱۷.‏ ‏(‏الف)‏ پولس رسول نے یہ کیوں کہا کہ ’‏مَیں سب مُقدسوں میں چھوٹے سے چھوٹا ہوں‘‏؟‏ (‏ب)‏ پولس رسول ماضی کی غلطیوں کے بارے میں پریشان کیوں نہیں رہتے تھے؟‏

۱۷ ماضی کی غلطیاں۔‏ پولس رسول نے کہا کہ ”‏[‏مَیں]‏ سب مُقدسوں میں چھوٹے سے چھوٹا ہوں۔‏“‏ (‏افس ۳:‏۸‏)‏ اُنہوں نے ایسا کیوں کہا؟‏ اُنہوں نے بتایا کہ ”‏مَیں نے خدا کی کلیسیا کو ستایا تھا۔‏“‏ (‏۱-‏کر ۱۵:‏۹‏)‏ ذرا سوچیں کہ جب وہ اُن مسیحیوں سے ملتے تھے جنہیں وہ پہلے ستاتے تھے تو پولس رسول کو کتنی شرمندگی محسوس ہوتی ہوگی۔‏ لیکن وہ ماضی کی غلطیوں کی وجہ سے ہمت نہیں ہارے تھے۔‏ اِس کی بجائے اُنہوں نے اِس بات پر دھیان رکھا کہ خدا نے اُن پر فضل کِیا ہے۔‏ (‏۱-‏تیم ۱:‏۱۲-‏۱۶‏)‏ اِس لئے وہ یہوواہ خدا کے بہت شکرگزار تھے اور بڑے جوش کے ساتھ مُنادی کا کام کرتے تھے۔‏ پولس رسول کی ماضی کی غلطیاں اُن چیزوں میں شامل تھیں جنہیں بھولنے کا اُنہوں نے عزم کِیا تھا۔‏ اگر ہمارا دھیان بھی یہوواہ خدا کے فضل پر رہتا ہے تو ہم ماضی کی غلطیوں کے بارے میں پریشان نہیں ہوں گے۔‏ ہم اپنے ماضی کو بدل نہیں سکتے۔‏ اِس لئے ماضی کی غلطیوں کے متعلق سوچ‌سوچ کر تھکنے کی بجائے اپنی طاقت اور توانائی کو یہوواہ خدا کی خدمت کے لئے استعمال کریں۔‏

۱۸.‏ ‏(‏الف)‏ اگر ہم اصلاح کی وجہ سے خفا رہیں تو اِس کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم امثال ۴:‏۱۳ سے کیا سیکھتے ہیں؟‏

۱۸ اصلاح۔‏ شاید ماضی میں بزرگوں نے ہماری اصلاح کی تھی جس کی وجہ سے ہم ابھی تک خفا ہیں۔‏ ایسی صورت میں ہم ”‏بےدل“‏ ہونے کے خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔‏ (‏عبر ۱۲:‏۵‏)‏ ہو سکتا ہے کہ ہم اصلاح کو ’‏ناچیز جان کر‘‏ اِسے فوراً رد کر دیں یا پھر پہلے اِسے قبول کریں لیکن بعد میں اِس پر عمل کرنا چھوڑ دیں۔‏ دونوں صورتوں میں ہمیں اصلاح سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‏ اِس لئے اچھا ہوگا کہ ہم بادشاہ سلیمان کی اِس نصیحت پر کان لگائیں:‏ ”‏تربیت کو مضبوطی سے پکڑے رہ۔‏ اُسے جانے نہ دے۔‏ اُس کی حفاظت کر کیونکہ وہ تیری حیات ہے۔‏“‏ (‏امثا ۴:‏۱۳‏)‏ جس طرح ایک ڈرائیور سڑک کے کنارے لگے ہوئے سائن‌بورڈز پر دی گئی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے اُسی طرح آئیں،‏ ہم بھی اصلاح کو قبول کریں اور آگے بڑھیں۔‏—‏امثا ۴:‏۲۶،‏ ۲۷؛‏ عبرانیوں ۱۲:‏۱۲،‏ ۱۳ کو پڑھیں۔‏

۱۹.‏ ہم حبقوق نبی اور یرمیاہ نبی کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

۱۹ ناانصافی۔‏ بعض اوقات شاید ہم حبقوق نبی کی طرح محسوس کریں جنہوں نے یہوواہ خدا سے التجا کی کہ وہ بُرے لوگوں کا انصاف کرے۔‏ وہ یہ نہیں سمجھ پا رہے تھے کہ یہوواہ خدا ظلم اور بدکاری کو ختم کیوں نہیں کر رہا۔‏ (‏حبق ۱:‏۲،‏ ۳‏)‏ پھر بھی اُنہوں نے کہا:‏ ”‏مَیں [‏یہوواہ]‏ سے خوش رہوں گا اور اپنے نجات‌بخش خدا سے خوش‌وقت ہوں گا۔‏“‏ (‏حبق ۳:‏۱۸‏)‏ جب ہمارے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے یا ہمیں لگتا ہے کہ ہمارے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے تو ہمیں حبقوق نبی کی مثال کو یاد رکھنا چاہئے۔‏ اِس کے علاوہ ہمیں یرمیاہ نبی کی مثال پر بھی عمل کرنا چاہئے جن کی ’‏اُمید یہوواہ خدا سے تھی۔‏‘‏ وہ یہ ایمان رکھتے تھے کہ یہوواہ خدا اپنے وقت پر انصاف کرے گا۔‏ یرمیاہ نبی کی طرح ہمیں بھی یہ ایمان رکھنا چاہئے کہ یہوواہ خدا اپنے وقت پر سب کچھ ٹھیک کر دے گا۔‏—‏نوحہ ۳:‏۱۹-‏۲۴‏۔‏

۲۰.‏ ہم یہ کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم لوط کی بیوی کو یاد رکھتے ہیں؟‏

۲۰ ہم ایک ایسے دَور میں رہ رہے ہیں جب یہوواہ خدا کی تنظیم بڑے شاندار طریقے سے آگے بڑھ رہی ہے۔‏ ہمیں بھی اِس کے ساتھ آگے بڑھتے رہنا چاہئے۔‏ ہمیں پاک کلام کی ہدایت کے مطابق پیچھے مڑ کر دیکھنے کی بجائے اپنا دھیان آگے رکھنا چاہئے۔‏ یوں ہم یسوع مسیح کی اِس نصیحت پر عمل کریں گے کہ ”‏لوؔط کی بیوی کو یاد رکھو۔‏“‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 12 جس یونانی لفظ کا ترجمہ کوڑا کِیا گیا ہے،‏ اُس کے معنی کتوں کو ڈالنے والی کوئی چیز،‏ گوبر اور فضلہ بھی ہیں۔‏ ایک عالم کے مطابق پولس رسول نے اِس یونانی لفظ کو ایک ایسی چیز کا حوالہ دینے کے لئے استعمال کِیا جسے ایک شخص نے مکمل طور پر رد کر دیا ہے۔‏ اُس شخص کی نظر میں یہ چیز بالکل بےکار ہے اور اُسے اِس چیز سے گھن آتی ہے۔‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏