مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏’‏وہ دُنیا کے نہیں‘‏

‏’‏وہ دُنیا کے نہیں‘‏

‏’‏وہ دُنیا کے نہیں‘‏

‏”‏دُنیا نے اُن سے عداوت رکھی اِس لئے کہ جس طرح مَیں دُنیا کا نہیں وہ بھی دُنیا کے نہیں۔‏“‏—‏یوحنا ۱۷:‏۱۴‏۔‏

یسوع مسیح نے کون‌سا معیار قائم کِیا؟‏ یسوع مسیح اِس لحاظ سے دُنیا کے نہیں تھے کہ وہ نہ تو سماجی اور سیاسی معاملوں میں کسی کی طرف‌داری کرتے تھے اور نہ ہی جنگوں میں حصہ لیتے تھے۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏اگر میری بادشاہی دُنیا کی ہوتی تو میرے خادم لڑتے تاکہ مَیں یہودیوں کے حوالہ نہ کِیا جاتا۔‏ مگر اب میری بادشاہی یہاں کی نہیں۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۸:‏۳۶‏)‏ اِس کے علاوہ یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کو یہ ہدایت دی کہ وہ ایسے رویوں،‏ باتوں اور کاموں سے کنارہ کریں جو خدا کے کلام کے مطابق غلط ہیں۔‏—‏متی ۲۰:‏۲۵-‏۲۷‏۔‏

اِبتدائی مسیحی اِس معیار پر کیسے پورا اُترے تھے؟‏ ایک مذہبی عالم نے اِبتدائی مسیحیوں کے بارے میں لکھا کہ وہ ”‏جنگ میں حصہ لینے سے انکار کرتے تھے،‏ چاہے اُنہیں طعنے دئے جاتے،‏ قید کِیا جاتا یا مار ڈالا جاتا۔‏“‏ اُنہوں نے دُنیا کے معاملوں میں اُلجھنے کی بجائے اذیت اُٹھانے کو ترجیح دی۔‏ اُن کے نیک چال‌چلن سے بھی صاف ظاہر ہوتا تھا کہ وہ دوسرے لوگوں سے فرق تھے۔‏ مسیحیوں سے کہا گیا:‏ ”‏تُم ایسی بدچلنی میں اُن کا ساتھ نہیں دیتے تو اُنہیں تعجب ہوتا ہے اور وہ تمہیں بُرابھلا کہتے ہیں۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۴:‏۴‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن)‏ تاریخ‌دان وِل ڈیورانٹ نے لکھا کہ ”‏مسیحیوں کی دین‌داری اور پاکیزگی اُس زمانے کے عیاش لوگوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھتی تھی۔‏“‏

آج‌کل اِس معیار پر کون پورا اُترتے ہیں؟‏ نیو کیتھولک انسائیکلوپیڈیا میں لکھا ہے کہ ”‏فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کرنا سراسر غلط ہے۔‏“‏ اور سوئٹزرلینڈ کے ایک جریدے میں انسانی حقوق کے ایک ادارے کی رپورٹ شائع ہوئی جس میں کہا گیا تھا کہ ۱۹۹۴ء میں ملک روانڈا میں ہونے والی نسل‌کُشی میں تمام مسیحی فرقے ملوث تھے،‏ ”‏سوائے یہوواہ کے گواہوں کے۔‏“‏

ہائی سکول کے ایک اُستاد نے نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کے قتلِ‌عام کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ”‏کسی بھی گروہ یا تنظیم نے اُس جھوٹ اور ظلم‌وستم کے خلاف آواز نہیں اُٹھائی تھی جس کی ذمہ‌دار نازی حکومت تھی۔‏“‏ لیکن جب اُس نے ایک ایسے ادارے سے معلومات اِکٹھی کیں جہاں یہودیوں کے قتلِ‌عام کے بارے میں ریکارڈ رکھا گیا ہے تو اُس نے کہا کہ ”‏اب مجھے سچ کا پتہ چل گیا ہے۔‏“‏ اُسے معلوم ہو گیا کہ یہوواہ کے گواہ اِس معیار پر قائم رہے تھے کہ وہ اِس دُنیا کے نہیں،‏ حالانکہ اُنہیں اِس وجہ سے خود نازیوں کے ظلم‌وستم کا نشانہ بننا پڑا۔‏

جو لوگ مسیحی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں،‏ اُن کے چال‌چلن کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے؟‏ ایک کیتھولک رسالے میں یوں بتایا گیا:‏ ”‏حالانکہ کیتھولک چرچ کی تعلیم یہ ہے کہ شادی سے پہلے جنسی تعلقات قائم کرنا غلط ہے لیکن کیتھولک جوانوں کی اکثریت اِس تعلیم کو رد کرتی ہے۔‏“‏ اِسی رسالے میں چرچ کے ایک ڈیکن کا حوالہ دیا گیا جس نے کہا:‏ ”‏آج‌کل جتنے لوگ شادی کرنے کے لئے ہمارے پاس آتے ہیں،‏ میرا اندازہ ہے کہ اِن میں سے ۵۰ فیصد سے زیادہ پہلے ہی سے اِکٹھے رہ رہے ہوتے ہیں۔‏“‏ اِس کے برعکس نیو انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا میں بتایا گیا کہ یہوواہ کے گواہ ”‏اِس بات پر زور دیتے ہیں کہ اُن کا ہر رُکن اعلیٰ اخلاقی معیاروں پر قائم رہے۔‏“‏