’وہ روحُالقدس کی تحریک کے سبب سے بولتے تھے‘
’وہ روحُالقدس کی تحریک کے سبب سے بولتے تھے‘
”نبوّت کی کوئی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہوئی بلکہ آدمی روحُالقدس کی تحریک کے سبب سے خدا کی طرف سے بولتے تھے۔“—۲-پطر ۱:۲۱۔
اِن سوالوں کے جواب دیں:
یہوواہ خدا نے بائبل لکھنے والوں تک اپنا پیغام کن طریقوں سے پہنچایا؟
اِس بات کا کیا ثبوت ہے کہ بائبل خدا کے الہام سے لکھی گئی ہے؟
آپ ہر روز کیا کر سکتے ہیں تاکہ آپ کے دل میں خدا کے کلام کی قدر قائم رہے؟
۱. ہمیں خدا کے کلام کی ضرورت کیوں ہے؟
زندگی کیسے وجود میں آئی؟ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ ہمارا مستقبل کیسا ہوگا؟ دُنیا میں اِس قدر بُرائی کیوں ہے؟ مرنے کے بعد انسان کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ دُنیابھر میں لوگوں کے ذہن میں ایسے سوال پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ہمارے پاس خدا کا کلام نہ ہوتا تو ہمیں اِن سوالوں یا دیگر اہم سوالوں کے جواب بھلا کیسے ملتے؟ ایسی صورت میں ذاتی تجربہ ہی ہمارا سب سے بڑا اُستاد ہوتا۔ لیکن ذرا سوچیں کہ اگر ہم سب کچھ اپنے تجربے سے ہی سیکھتے تو کیا ”[یہوواہ] کی شریعت“ کے لئے ہمارے اندر ویسے جذبات ہوتے جیسے زبورنویس کے تھے؟—زبور ۱۹:۷ کو پڑھیں۔
۲. ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہمارے دل میں خدا کے کلام کی قدر اَور زیادہ ہو جائے؟
۲ افسوس کی بات ہے کہ بہت سے لوگوں کی نظر میں بائبل کی تعلیمات کی پہلے جیسی قدر نہیں رہی۔ (مکاشفہ ۲:۴ پر غور کریں۔) اب وہ اُس راہ پر نہیں چل رہے جو یہوواہ خدا نے اُنہیں دِکھائی تھی۔ (یسع ۳۰:۲۱) ہم بھی اِس خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ اِس لئے ہمیں پوری کوشش کرنی چاہئے کہ بائبل کی تعلیمات کے لئے ہماری قدر کبھی کم نہ ہو۔ بائبل ہمارے خالق کی طرف سے ایک انمول تحفہ ہے۔ (یعقو ۱:۱۷) ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہمارے دل میں ’خدا کے کلام‘ کی قدر اَور زیادہ ہو جائے؟ اِس سلسلے میں اِس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ بائبل لکھنے کے لئے انسانوں کو کیسے استعمال کِیا گیا اور بائبل کے الہامی ہونے کے کونسے ثبوت موجود ہیں۔ یوں ہمیں خدا کے کلام کو روزانہ پڑھنے اور اِس کے مطابق چلنے کی ترغیب ملے گی۔—عبر ۴:۱۲۔
اصطلاح ”روحُالقدس کی تحریک“ سے کیا مراد ہے؟
۳. یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ بائبل لکھنے والوں نے سب کچھ ”روحُالقدس کی تحریک“ سے لکھا؟
۳ بائبل کی پہلی کتاب ۱۵۱۳ قبلازمسیح میں لکھی گئی اور آخری ۹۸ عیسوی میں لکھی گئی۔ یوں پوری بائبل لکھنے میں ۱۶۱۰ سال لگے۔ اِسے ۴۰ مختلف آدمیوں نے لکھا۔ اِن میں سے بعض نبی تھے جو ”روحُالقدس کی تحریک کے سبب سے خدا کی طرف سے بولتے (۲-پطرس ۱:۲۰، ۲۱ کو پڑھیں۔) جس یونانی اصطلاح کا ترجمہ تحریک کِیا گیا ہے، وہ کسی چیز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے معنی رکھتی ہے۔ اِس اصطلاح کا ترجمہ اَور طرح سے بھی کِیا جا سکتا ہے جیسے کہ کسی طاقت کے اثر سے حرکت کرنا۔ اعمال ۲۷:۱۵ میں یہی اصطلاح ایک بحری جہاز کے بارے میں استعمال کی گئی ہے جو ہوا کے زور پر اپنے آپ ہی بہتا جا رہا تھا۔ نبیوں نے جو کچھ بھی کہا اور بائبل لکھنے والوں نے جو کچھ بھی لکھا، وہ سب ”روحُالقدس کی تحریک کے سبب“ سے تھا۔ اِس کا مطلب ہے کہ اُنہوں نے روحُالقدس کے طاقتور اثر کے تحت خدا کی باتیں کہیں اور لکھیں۔ خدا روحُالقدس کے ذریعے اُن سے کلام کرتا تھا، اُن کی رہنمائی کرتا تھا اور اُنہیں یہ ترغیب دیتا تھا کہ وہ اُس کے خیالات کو لکھیں۔ اِس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ بائبل میں جو کچھ بھی لکھا ہے، وہ خدا کی طرف سے ہے۔ بعض اوقات تو نبیوں اور بائبل لکھنے والوں کو یہ پتہ بھی نہیں ہوتا تھا کہ جو کچھ وہ کہہ رہے رہیں یا لکھ رہے ہیں، اُس کا مطلب کیا ہے۔ (دان ۱۲:۸، ۹) واقعی ”ہر ایک صحیفہ . . . خدا کے الہام سے ہے“ اور انسانی خیالوں سے پاک ہے۔—۲-تیم ۳:۱۶۔
تھے۔“۴-۶. مثال سے واضح کریں کہ یہوواہ خدا نے بائبل لکھنے والوں تک اپنا پیغام کن طریقوں سے پہنچایا۔
۴ کیا یہوواہ خدا نے بائبل لکھنے والوں کو روحُالقدس کے ذریعے ہر بات لفظبہلفظ بتائی تھی؟ یا پھر کیا اُس نے اُنہیں صرف خیالات بتائے تھے جن کو وہ اپنے الفاظ میں لکھ سکتے تھے؟ اِس سلسلے میں ایک مثال پر غور کریں۔ جب ایک افسر سمجھتا ہے کہ کسی معاملے کے بارے میں ٹھیکٹھیک الفاظ کا انتخاب کرنا بہت ضروری ہے تو شاید وہ خط خود لکھتا ہے یا پھر وہ اپنی سکریٹری کو ایکایک لفظ بتاتا ہے اور وہ خط کو صرف ٹائپ کرتی ہے۔ خط مکمل ہو جانے کے بعد افسر اُس پر دستخط کرتا ہے۔ لیکن بعض اوقات افسر اپنی سکریٹری کو صرف خاصخاص خیالات بتاتا ہے اور وہ اِن خیالات کو اپنے الفاظ میں لکھتی ہے۔ بعد میں افسر شاید اُس خط کو پڑھتا ہے اور سکریٹری سے کچھ ضروری تبدیلیاں کرنے کو کہتا ہے۔ آخر میں افسر کے دستخط ہوتے ہیں یعنی خط اُسی کی طرف سے ہوتا ہے۔
۵ اِسی طرح جب یہوواہ خدا نے محسوس کِیا کہ کسی معاملے کے بارے میں ٹھیکٹھیک الفاظ کا انتخاب کرنا بہت ضروری ہے تو اُس نے بائبل کے کچھ حصے اپنے ”ہاتھ“ سے لکھ کر دئے۔ (خر ۳۱:۱۸) اِس کے علاوہ بعض اوقات اُس نے اپنی باتیں لفظبہلفظ لکھوائیں۔ مثال کے طور پر خروج ۳۴:۲۷ میں ”[یہوواہ] نے موسیٰؔ سے کہا کہ تُو یہ باتیں لکھ کیونکہ اِن ہی باتوں کے مفہوم کے مطابق مَیں تجھ سے اور اؔسرائیل سے عہد باندھتا ہوں۔“ یہوواہ خدا نے یرمیاہ نبی سے بھی کہا: ”یہ سب باتیں جو مَیں نے تجھ سے کہیں کتاب میں لکھ۔“—یرم ۳۰:۲۔
۶ لیکن زیادہتر موقعوں پر یہوواہ خدا نے بائبل لکھنے والوں کو ہر بات لفظبہلفظ نہیں بتائی تھی۔ اِس کی بجائے اُس نے اُن کے دل اور دماغ میں اپنے خیالات ڈالے جنہیں وہ اپنے الفاظ میں لکھ سکتے تھے۔ اِس سلسلے میں واعظ ۱۲:۱۰ میں بتایا گیا ہے کہ ”واعظ دلآویز باتوں [”الفاظ“، نیو ورلڈ ٹرانسلیشن] کی تلاش میں رہا“ اور جو کچھ اُس نے لکھا وہ بالکل سچ تھا۔ لوقا نے بھی ”سب باتوں کا سلسلہ شروع سے ٹھیکٹھیک دریافت کرکے اُن کو . . . ترتیب سے“ اپنی اِنجیل میں لکھا۔ (لو ۱:۳) یہوواہ خدا نے روحُالقدس کے ذریعے اِس بات کا خیال رکھا کہ انسانی کمزوریوں کی وجہ سے اُس کے پیغام میں کوئی تبدیلی نہ آئے۔
۷. یہوواہ خدا نے انسانوں سے بائبل لکھوا کر اپنی عظیم حکمت کا ثبوت کیسے دیا ہے؟
۷ یہوواہ خدا نے انسانوں سے بائبل لکھوا کر اپنی عظیم حکمت کا ثبوت دیا ہے۔ الفاظ کے ذریعے دوسروں کو صرف معلومات ہی نہیں دی جاتیں بلکہ جذبات اور احساسات کا اِظہار بھی کِیا جاتا ہے۔ اگر یہوواہ خدا بائبل لکھنے کے لئے فرشتوں کو استعمال کرتا تو کیا ہوتا؟ کیا وہ خوف، غم اور مایوسی جیسے انسانی احساسات کا اِظہار کر پاتے؟ چونکہ خدا نے انسانوں کو اجازت دی کہ وہ اُس کے خیالات کو اپنے الفاظ میں لکھیں اِسی لئے خدا کا پیغام ہمارے دلوں کو چُھوتا ہے۔
بائبل کے الہامی ہونے کے ثبوت
۸. بائبل کیوں دوسری مذہبی کتابوں سے فرق ہے؟
۸ اِس بات کے بہت سے ثبوت ہیں کہ بائبل خدا کے الہام سے لکھی گئی ہے۔ خدا کی ذات کے بارے میں جتنا گہرا علم بائبل میں پایا جاتا ہے اُتنا کسی اَور مذہبی کتاب میں نہیں پایا جاتا۔ مثال کے طور پر ہندو مذہب میں ویدوں، رامائن، مہابھارت اور بھگوت گیتا کو مُقدس کتابیں مانا جاتا ہے۔ ویدوں میں مذہبی رسموں کے بارے میں بتایا گیا ہے جبکہ رامائن اور مہابھارت کچھ واقعات اور طویل افسانوں پر مشتمل ہیں۔ بھگوت گیتا، مہابھارت کا ہی ایک حصہ ہے اور اخلاقی اصولوں پر مشتمل ہے۔ بدھ مذہب کی مُقدس کتاب تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ پہلی جلد میں بتایا گیا ہے کہ بدھ مذہب کے سادھوؤں کا رہنسہن کیسا ہونا چاہئے۔ دوسری جلد میں عقیدے اور تیسری میں بدھا کے قول درج ہیں۔ بدھا نے کبھی خدا ہونے کا دعویٰ نہیں کِیا تھا۔ اُنہوں نے خدا کے بارے میں بہت کم بتایا۔ کنفیوشس مذہب کی کتابوں میں ماضی کے واقعات، اخلاقی اصول، جادومنتر اور کچھ گیت درج ہیں۔ اسلام کی مُقدس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ خدا ایک ہے، وہ سب کچھ دیکھتا ہے اور یہ طے کرتا ہے کہ مستقبل میں کیا ہوگا۔ لیکن اِس کتاب میں خدا کا ذاتی نام نہیں بتایا گیا جبکہ بائبل میں خدا کا ذاتی نام ہزاروں بار آیا ہے۔
۹، ۱۰. ہم بائبل کے ذریعے خدا کے بارے میں کیا کچھ سیکھ سکتے ہیں؟
۹ ہم نے دیکھا ہے کہ مختلف مذاہب کی کتابیں خدا کے بارے میں بہت کم بتاتی ہیں۔ صرف بائبل ہی ہمیں خدا اور اُس کے کاموں کے بارے میں تفصیل سے بتاتی ہے۔ اِس کے ذریعے ہم خدا کی صفات کے بارے میں سیکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ بائبل میں نہ صرف خدا کی قدرت، حکمت اور انصافپسندی کے بارے میں بتایا گیا ہے بلکہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ انسانوں سے کتنی محبت کرتا ہے۔ (یوحنا ۳:۱۶؛ ۱-یوحنا ۴:۱۹ کو پڑھیں۔) اِس کے علاوہ بائبل میں یہ لکھا ہے کہ ”خدا کسی کا طرفدار نہیں بلکہ ہر قوم میں جو اُس سے ڈرتا اور راستبازی کرتا ہے وہ اُس کو پسند آتا ہے۔“ (اعما ۱۰:۳۴، ۳۵) یہ حقیقت اِس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ آجکل بائبل بہت سی زبانوں میں دستیاب ہے۔ ایک اندازے کے مطابق آجکل دُنیا میں ۶۷۰۰ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ لیکن اِن میں سے ۱۰۰ زبانیں ایسی ہیں جو دُنیا کی ۹۰ فیصد آبادی بولتی ہے۔ پھر بھی پوری بائبل کا یا اِس کے کچھ حصوں کا ترجمہ ۲۴۰۰ سے زیادہ زبانوں میں کِیا گیا ہے۔ اِس لئے تقریباً دُنیا میں ہر شخص بائبل کے کمازکم کچھ حصوں کو اپنی زبان میں پڑھ سکتا ہے۔
یوح ۵:۱۷) بائبل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’ازل سے ابد تک یہوواہ ہی خدا ہے۔‘ ذرا سوچیں کہ شروع سے اب تک یہوواہ خدا نے کیا کچھ کِیا ہے۔ (زبور ۹۰:۲) صرف بائبل ہی ہمیں بتاتی ہے کہ یہوواہ خدا ماضی میں کیا کچھ کر چُکا ہے، آجکل وہ کیا کر رہا ہے اور آئندہ کیا کرنے والا ہے۔ پاک کلام میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہوواہ خدا کو کیا پسند ہے اور کیا پسند نہیں ہے۔ اور ہم اُس کی قربت کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔ (یعقو ۴:۸) ہمیں ذاتی کاموں اور زندگی کی فکروں میں اِتنا مگن نہیں ہونا چاہئے کہ ہم خدا کی قربت سے محروم ہو جائیں۔
۱۰ یسوع مسیح نے کہا: ”میرا باپ اب تک کام کرتا ہے اور مَیں بھی کام کرتا ہوں۔“ (۱۱. بائبل سے ہمیں کیسی ہدایت ملتی ہے؟
۱۱ بائبل حکمت سے بھری ہوئی کتاب ہے۔ یہ بھی اِس بات کا ثبوت ہے کہ بائبل خدا کی طرف سے ہے۔ یسعیاہ نبی نے لکھا: ”کس نے [یہوواہ] کی روح کی ہدایت کی یا اُس کا مشیر ہو کر اُسے سکھایا؟“ (یسع ۴۰:۱۳) اِس کے کئی صدیوں بعد پولس رسول نے بھی کہا: ”[یہوواہ] کی عقل کو کس نے جانا کہ اُس کو تعلیم دے سکے؟“ (۱-کر ۲:۱۶) جواب واضح ہے۔ کوئی بھی یہوواہ خدا کو سکھا نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم ازدواجی بندھن، بچوں کی پرورش، تفریح، دوستوں کے انتخاب، دیانتداری اور چالچلن کے سلسلے میں بائبل کے اصولوں پر عمل کرتے ہیں تو ہمیں بہت فائدہ ہوتا ہے۔ بائبل کبھی ہمیں کوئی غلط بات نہیں سکھاتی۔ انسانوں کی حکمت محدود ہے اِس لئے اکثر اُن کے مشورے بےکار ثابت ہوتے ہیں۔ (یرم ۱۰:۲۳) وہ اپنے مشورے بدلتے رہتے ہیں کیونکہ اُن کے مشوروں کے نتیجے اکثر اچھے نہیں نکلتے۔ اِس لئے بائبل کے مطابق ’انسانوں کے خیال باطل‘ یعنی بےکار ہیں۔—زبور ۹۴:۱۱۔
۱۲. صدیوں کے دوران بائبل کو مٹانے کی کونسی کوششیں کی گئی ہیں؟
۱۲ ماضی میں بہت سے لوگوں نے بائبل کو مٹانے کی کوشش کی مگر وہ ناکام رہے۔ یہ بھی اِس بات کا ثبوت ہے کہ بائبل خدا کی طرف سے ہے۔ سن ۱۶۸ قبلازمسیح میں سوریہ کے بادشاہ انطاکس چہارم نے حکم دیا کہ شریعت کی کتابوں کو ڈھونڈا جائے اور اُنہیں جلا دیا جائے۔ اِس کے علاوہ ۳۰۳ عیسوی میں روم کے ایک شہنشاہ نے حکم دیا کہ اُن تمام جگہوں کو ختم کر دیا جائے جہاں مسیحی عبادت کے لئے جمع ہوتے ہیں اور اُن کی مذہبی کتابوں کو جلا دیا جائے۔ بائبل کو ختم کرنے کی یہ کوشش تقریباً دس سال تک جاری رہی۔ گیارھویں صدی کے بعد سے کیتھولک چرچ کے پیشواؤں نے یہ کوشش کی کہ عام لوگوں تک بائبل کا علم نہ پہنچے۔ اُنہوں نے مختلف زبانوں میں بائبل کا ترجمہ کرنے کی مخالفت کی۔ شیطان اور اُس کے چیلوں کی تمام کوششوں کے باوجود بائبل آج بھی موجود ہے۔ یہ انسان کے لئے خدا کی طرف سے ایک انمول تحفہ ہے اور خدا نے اِس تحفے کو ہم سے چھیننے کی اجازت کسی کو نہیں دی۔
بعض لوگ کیوں قائل ہو گئے کہ بائبل خدا کا کلام ہے
۱۳. اِس بات کے اَور کونسے ثبوت ہیں کہ بائبل خدا کے الہام سے لکھی گئی ہے؟
۱۳ بائبل کے الہامی ہونے کے اَور کئی ثبوت بھی ہیں۔ بائبل میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے، یہ سائنسی اور تاریخی لحاظ سے درست ہے، اِس میں درج پیشینگوئیاں پوری ہوئی ہیں، یہاں تک کہ جن آدمیوں نے بائبل کو لکھا، اُنہوں نے اپنی غلطیوں کو بھی نہ چھپایا۔ بائبل لوگوں کی زندگیوں کو بدلنے کی طاقت رکھتی ہے اور یہ اُن سارے سوالوں کے جواب بھی دیتی ہے جن کا ذکر پیراگراف ایک میں کِیا گیا ہے۔ آئیں، دیکھیں کہ بعض لوگ کیوں اِس بات کے قائل ہو گئے کہ بائبل خدا کا کلام ہے۔
۱۴-۱۶. (الف) تین مختلف لوگ اِس بات سے کیوں قائل ہو گئے کہ بائبل خدا کا کلام ہے؟ (ب) مُنادی کے دوران لوگوں کو قائل کرنے کے لئے کہ بائبل خدا کا کلام ہے، آپ کونسا ثبوت پیش کرتے ہیں؟
۱۴ انور * نے ایک مسلمان گھرانے میں پرورش پائی۔ جب وہ کچھ عرصے کے لئے شمالی امریکہ میں رہ رہے تھے تو اُن کی ملاقات یہوواہ کے گواہوں سے ہوئی۔ انور نے بتایا کہ ”اُس وقت مَیں مسیحی مذہب کو پسند نہیں کرتا تھا کیونکہ صلیبی جنگوں اور دیگر موقعوں پر مسیحیوں نے دوسرے لوگوں پر بہت سے ظلم ڈھائے تھے۔ لیکن چونکہ مَیں نئینئی باتیں سیکھنے کا شوقین ہوں اِس لئے مَیں یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرنے کے لئے راضی ہو گیا۔“ کچھ عرصے بعد انور اپنے گھر واپس لوٹ آئے جس کی وجہ سے یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ اُن کا رابطہ ختم ہو گیا۔ کچھ سال بعد وہ یورپ چلے گئے اور پھر سے گواہوں کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرنے لگے۔ اُنہوں نے کہا: ”جب مَیں نے سیکھا کہ بائبل میں درج پیشینگوئیاں پوری ہوئی ہیں، اِس میں کوئی اختلاف نہیں ہے، شروع سے لے کر آخر تک اِس کا بنیادی موضوع ایک ہی ہے اور یہوواہ کے گواہ ایک دوسرے سے گہری محبت کرتے ہیں تو مَیں اِس بات کا قائل ہو گیا کہ بائبل واقعی خدا کا کلام ہے۔“ انور نے ۱۹۹۸ء میں بپتسمہ لے لیا۔
۱۵ آشا کی عمر ۱۶ سال ہے اور اُن کا تعلق ایک کٹر ہندو خاندان سے ہے۔ آشا نے کہا: ”مَیں بس اُسی وقت دُعا کرتی تھی جب مَیں مندر جاتی تھی یا جب مَیں کسی مشکل میں ہوتی تھی۔ لیکن ویسے مَیں کبھی خدا کو یاد بھی نہیں کرتی تھی۔ پھر ایک دن یہوواہ کے گواہ میرے گھر آئے اور اُس دن سے میری زندگی نے ایک نیا موڑ لیا۔“ آشا نے یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کِیا اور وہ خدا کی دوست بن گئیں۔ کس بات نے آشا کو قائل کِیا کہ بائبل خدا کی طرف سے ہے؟ اُنہوں نے کہا: ”بائبل سے مجھے اُن تمام سوالوں کے جواب ملے جو میرے ذہن میں تھے۔ مَیں نے یہ سیکھ لیا کہ خدا پر ایمان رکھنے کے لئے اُسے دیکھنا ضروری نہیں ہے اور نہ ہی اُس کی عبادت کرنے کے لئے کسی بُت کے آگے گھٹنے ٹیکنا ضروری ہے۔“
۱۶ پولا نے ایک کیتھولک گھرانے میں پرورش پائی۔ جب وہ جوان ہوئیں تو وہ سوچنے لگیں کہ آیا کوئی خدا ہے بھی یا نہیں۔ پھر کچھ ایسا ہوا جس سے اُن کی سوچ بدل گئی۔ اُنہوں نے کہا: ”میری ملاقات میرے ایک دوست سے ہوئی جس سے مَیں پچھلے کئی مہینوں سے نہیں ملی تھی۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے جب لوگ لمبےلمبے بال رکھتے تھے اور منشیات استعمال کرتے تھے۔ لیکن میرا یہ دوست بالکل بدل چُکا تھا۔ اُس کی داڑھی بنی ہوئی تھی، بال کٹے ہوئے تھے اور وہ بہت خوش دِکھائی دے رہا تھا۔ مَیں نے اُس سے پوچھا کہ تُم اِتنا عرصہ کہاں رہے اور تُم اِتنا بدل کیسے گئے؟ اُس نے بتایا کہ اُس نے یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کِیا ہے۔ پھر اُس نے مجھے بھی بائبل سے کچھ باتیں بتائیں۔“ پولا نے اِس بات کا جیتاجاگتا ثبوت دیکھ لیا تھا کہ بائبل زندگی بدلنے کی طاقت رکھتی ہے۔ اِس لئے اُنہوں نے بھی یہ مان لیا کہ بائبل واقعی خدا کا کلام ہے۔
’تیرا کلام میرے قدموں کے لئے چراغ ہے‘
۱۷. اگر آپ بائبل کو ہر روز پڑھیں گے اور اِس پر سوچبچار کریں گے تو آپ کو کیا فائدہ ہوگا؟
۱۷ بائبل وہ شاندار تحفہ ہے جو یہوواہ خدا نے روحُالقدس کے ذریعے فراہم کِیا ہے۔ اگر آپ بائبل کو ہر روز شوق سے پڑھیں گے تو آپ کے دل میں بائبل اور اِس کے مصنف کے لئے قدر اور عزت بڑھے گی۔ (زبور ۱:۱، ۲) جب بھی آپ بائبل کو پڑھیں تو پہلے دُعا کریں تاکہ خدا کی روح اِسے سمجھنے کے لئے آپ کی مدد کرے۔ (لو ۱۱:۱۳) بائبل میں خدا کے خیالات پائے جاتے ہیں۔ اِس لئے جب آپ بائبل پر سوچبچار کریں گے تو آپ خدا کی سوچ کو اپنا سکیں گے۔
۱۸. آپ یہ کیوں چاہتے ہیں کہ آپ بائبل سے تعلیم حاصل کرتے رہیں؟
۱۸ آپ بائبل سے جو کچھ سیکھتے ہیں، اُس پر عمل کرتے رہیں۔ (زبور ۱۱۹:۱۰۵ کو پڑھیں۔) جس طرح آپ آئینے میں دیکھ کر خود کو سنوارتے ہیں اُسی طرح خود کو پاک کلام کے آئینے میں دیکھ کر اپنی شخصیت میں نکھار لائیں۔ (یعقو ۱:۲۳-۲۵) خدا کے کلام کو ایک تلوار کی طرح استعمال کریں۔ اِس سے اپنے عقیدوں کا دفاع کریں اور سچائی کی تلاش کرنے والے لوگوں کے دل سے جھوٹی تعلیم کو کاٹ دیں۔ (افس ۶:۱۷) جب بھی آپ بائبل کو استعمال کریں تو دل سے اِس بات کے لئے شکر گزار ہوں کہ جن نبیوں اور دیگر آدمیوں نے بائبل کو لکھا تھا، اُنہوں نے اِس کا ہر ایک لفظ ”روحُالقدس کی تحریک“ سے قلمبند کِیا تھا۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 14 بعض نام تبدیل کر دئے گئے ہیں۔
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۳۲ پر عبارت]
اگر آپ ہر روز بائبل کو پڑھیں گے تو آپ کے دل میں بائبل اور اِس کے مصنف کے لئے قدر بڑھے گی۔
[صفحہ ۲۹ پر تصویر]
خط پر جس شخص کے دستخط ہوتے ہیں، خط اُسی کی طرف سے ہوتا ہے۔