ہمیں خدا کی خدمت کو سب سے زیادہ اہمیت کیوں دینی چاہئے؟
ہمیں خدا کی خدمت کو سب سے زیادہ اہمیت کیوں دینی چاہئے؟
”میرا مُنہ تیری صداقت کا اور تیری نجات کا بیان دنبھر کرے گا۔“—زبور ۷۱:۱۵۔
آپ کا جواب کیا ہوگا؟
نوح، موسیٰ نبی، یرمیاہ نبی اور پولس رسول نے یہوواہ خدا کی خدمت کو سب سے زیادہ اہمیت کیوں دی؟
ہمیں اپنی زندگی میں خدا کی خدمت کو سب سے زیادہ اہمیت کیوں دینی چاہئے؟
آپ نے اپنی زندگی میں یہوواہ خدا کی خدمت کو سب سے اہم مقام دینے کا عزم کیوں کِیا ہے؟
۱، ۲. (الف) جب کوئی شخص خود کو یہوواہ خدا کے لئے وقف کرتا ہے تو وہ کیا ظاہر کرتا ہے؟ (ب) نوح، موسیٰ نبی، یرمیاہ نبی اور پولس رسول کی مثال پر غور کرنے سے ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟
خود کو یہوواہ خدا کے لئے وقف کرنا اور بپتسمہ لینا ہماری زندگی کا نہایت سنجیدہ فیصلہ تھا۔ جب ہم نے اپنی زندگی یہوواہ خدا کے لئے وقف کی تھی تو ہم نے گویا اُس سے یہ کہا تھا کہ ”اب سے آپ میری زندگی کے مالک ہیں۔ مَیں آپ کا خادم ہوں۔ مَیں اپنا وقت اور اپنی لیاقتیں آپ کی مرضی کے مطابق استعمال کروں گا اور اُن کاموں کو سب سے زیادہ اہمیت دوں گا جو آپ کی نظر میں اہم ہیں۔“
۲ اگر آپ ایک بپتسمہیافتہ مسیحی ہیں تو آپ نے بھی یہوواہ خدا سے ایسا ہی وعدہ کِیا ہے۔ آپ نے اپنی زندگی یہوواہ خدا کے لئے وقف کرکے بہت ہی اچھا فیصلہ کِیا ہے اور بڑی عقلمندی کا ثبوت دیا ہے۔ اب جبکہ یہوواہ خدا آپ کی زندگی کا مالک ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ آپ اپنا وقت کیسے استعمال کرتے ہیں؟ اِس سلسلے میں آئیں، نوح، موسیٰ نبی، یرمیاہ نبی اور پولس رسول کی مثال پر غور کریں۔ اُن سب نے دلوجان سے یہوواہ خدا کی خدمت کی تھی۔ اُنہیں بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا تھا جس کا آج ہمیں سامنا ہے۔ اُن کے فیصلوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کی زندگی میں کونسے کام زیادہ اہم تھے۔ اُن کی مثال پر غور کرنے سے ہمیں یہ جائزہ لینے کی ترغیب ملے گی کہ ہم اپنا وقت کیسے استعمال کر رہے ہیں۔—متی ۲۸:۱۹، ۲۰؛ ۲-تیم ۳:۱۔
نوح نے اپنے وقت کو کیسے استعمال کِیا؟
۳. ہمارا زمانہ کس لحاظ سے نوح کے زمانے جیسا ہے؟
۳ یسوع مسیح نے پیشینگوئی کی تھی کہ آخری زمانہ کئی لحاظ سے نوح کے زمانے جیسا ہوگا۔ اُنہوں نے کہا: ”جیسا نوؔح کے دنوں میں ہوا ویسا ہی ابنِآدم کے آنے کے وقت ہوگا کیونکہ . . . لوگ کھاتے پیتے اور بیاہ شادی کرتے تھے اُس دن تک کہ نوؔح کشتی میں داخل ہوا۔ اور جب تک طوفان آ کر اُن سب کو بہا نہ لے گیا اُن کو خبر نہ ہوئی۔“ (متی ۲۴:۳۷-۳۹) آجکل بھی خدا کے خادم لوگوں کو بتاتے ہیں کہ یہ دُنیا ختم ہونے والی ہے۔ مگر زیادہتر لوگ اُن کی بات پر دھیان نہیں دیتے۔ بہت سے لوگ یہ نہیں مانتے کہ خدا کبھی بدکاروں کو ہلاک کرے گا۔ (۲-پطر ۳:۳-۷) اِس وجہ سے یہ لوگ خدا کے خادموں کا مذاق اُڑاتے ہیں۔ نوح کو بھی طنز اور مذاق کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ لیکن اِس کے باوجود اُنہوں نے اپنا وقت کیسے استعمال کِیا؟
۴. نوح نے کن کاموں کو زیادہ اہمیت دی اور کیوں؟
۴ یہوواہ خدا نے نوح کو بتایا کہ وہ ایک بڑا طوفان لانے والا ہے جس کے ذریعے بُرے لوگوں کو ہلاک کر دیا جائے گا۔ اُس نے نوح کو حکم دیا کہ وہ ایک کشتی بنائیں تاکہ کچھ لوگوں اور جانوروں کو بچا لیا جائے۔ نوح نے اِس حکم پر عمل کِیا۔ (پید ۶:۱۳، ۱۴، ۲۲) اِس کے علاوہ اُنہوں نے لوگوں کو یہ پیغام سنایا کہ خدا بُرے لوگوں کو ختم کرنے والا ہے۔ پطرس رسول نے نوح کے بارے میں لکھا کہ وہ ”راستبازی کے مُنادی کرنے والے“ تھے۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نوح نے اپنے زمانے کے لوگوں کو یہ احساس دِلانے کی بڑی کوشش کی کہ وہ کتنے نازک دَور میں رہ رہے ہیں۔ (۲-پطرس ۲:۵ کو پڑھیں۔) ذرا سوچیں کہ اگر نوح اور اُن کے گھر والے اپنا کاروبار چمکانے میں لگے رہتے، دوسروں سے زیادہ شہرت کمانے کی کوشش کرتے یا پھر وہ زندگی کی آسائشیں حاصل کرنے میں مگن رہتے تو کیا یہ عقلمندی کی بات ہوتی؟ بالکل نہیں۔ چونکہ وہ جانتے تھے کہ کیا ہونے والا ہے اِس لئے وہ ایسے کاموں سے دُور رہے جو اُن کی توجہ خدا کی خدمت سے ہٹا سکتے تھے۔
ایک مصری شہزادے کا فیصلہ
۵، ۶. (الف) موسیٰ کو کس لئے اعلیٰ تعلیم دی گئی تھی؟ (ب) موسیٰ نبی نے مصر میں اعلیٰ مرتبہ حاصل کرنے کے موقعے کو کیوں ٹھوکر مار دی؟
۵ آئیں، اب موسیٰ نبی کی مثال پر غور کریں۔ فرعون کی بیٹی نے موسیٰ کو اپنا بیٹا بنا لیا تھا اِس لئے اُنہوں نے ایک شہزادے کے طور پر عالیشان محل میں پرورش پائی۔ اُنہوں نے ”مصریوں کے تمام علوم کی تعلیم پائی۔“ (اعما ۷:۲۲؛ خر ۲:۹، ۱۰) موسیٰ کو یہ تعلیم غالباً اِس لئے دی گئی تھی تاکہ وہ فرعون کے دربار میں ایک اعلیٰ عہدہ سنبھالنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ ذرا سوچیں کہ اُس وقت کی عالمی طاقت میں ایک بڑا رُتبہ حاصل کرنے کے بعد وہ کیا نہیں کر سکتے تھے۔ وہ مالودولت کا ڈھیر لگا سکتے تھے اور عیشوعشرت کی زندگی گزار سکتے تھے۔ لیکن کیا یہ سب چیزیں موسیٰ نبی کی نظر میں اہمیت رکھتی تھیں؟
۶ جب موسیٰ چھوٹے تھے تو اُن کے اصلی ماںباپ نے اُنہیں یہوواہ خدا کے بارے میں بتایا تھا۔ اِس لئے موسیٰ نبی جانتے تھے کہ یہوواہ خدا نے ابرہام، اِضحاق اور یعقوب سے کیا وعدے کئے ہیں۔ وہ ایمان رکھتے تھے کہ یہ وعدے ضرور پورے ہوں گے۔ موسیٰ نبی نے یہ سوچا ہوگا کہ ”مجھے یہوواہ خدا کی مرضی کے مطابق چلنے کے لئے کیا کرنے کی ضرورت ہے؟“ لہٰذا جب یہ فیصلہ کرنے کا وقت آیا کہ وہ ایک مصری شہزادے کی طرح ٹھاٹھباٹھ سے رہیں گے یا پھر ایک اسرائیلی کی طرح غلامی میں رہیں گے تو اُنہوں نے کیا کِیا؟ اُنہوں نے ”گُناہ کا چند روزہ لطف اُٹھانے کی نسبت خدا کی اُمت کے ساتھ بدسلوکی برداشت کرنا زیادہ پسند کِیا۔“ (عبرانیوں ۱۱:۲۴-۲۶ کو پڑھیں۔) بعد میں جب یہوواہ خدا نے موسیٰ نبی کو ایک خاص ذمہداری سونپی تو اُنہوں نے اُسے قبول کِیا۔ (خر ۳:۲، ۶-۱۰) اُنہوں نے ایسا کیوں کِیا؟ کیونکہ وہ یہوواہ خدا کے وعدوں پر ایمان رکھتے تھے۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ مصر میں اُن کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ اور موسیٰ نبی کا یہ نظریہ صحیح بھی تھا کیونکہ جلد ہی خدا نے مصر پر دس آفتیں نازل کیں جن کی وجہ سے مصر میں ہولناک تباہی ہوئی۔ یہوواہ خدا کے تمام بپتسمہیافتہ خادم موسیٰ نبی کی مثال سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ہمیں اِس دُنیا میں نام کمانے یا عیشوآرام حاصل کرنے کی بجائے یہوواہ خدا کی خدمت کو سب سے زیادہ اہمیت دینی چاہئے۔
یرمیاہ نبی وقت کی نزاکت کو سمجھتے تھے
۷. یرمیاہ نبی کی صورتحال کس لحاظ سے ہماری صورتحال جیسی تھی؟
۷ یرمیاہ نبی کی زندگی میں بھی خدا کی خدمت کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ اُن کے زمانے میں لوگ بُتوں کی پوجا کر رہے تھے۔ اِس لئے یہوواہ خدا نے اُنہیں یہ خاص کام سونپا کہ وہ یروشلیم اور یہوداہ کے لوگوں کو بتائیں کہ خدا اُنہیں سزا دینے والا ہے۔ یرمیاہ نبی اچھی طرح جانتے تھے کہ یروشلیم اور یہوداہ پر تباہی آنے والی ہے۔ اِس لحاظ سے وہ ”آخری ایّام میں“ رہ رہے تھے۔—یرم ۲۳:۱۹، ۲۰، کیتھولک ترجمہ۔
۸، ۹. (الف) باروک کو اصلاح کی ضرورت کیوں تھی؟ (ب) ہمیں منصوبے بناتے وقت کس بات کو ذہن میں رکھنا چاہئے؟
۸ یرمیاہ نبی کو معلوم تھا کہ جس نظام میں وہ رہے ہیں، وہ تباہ ہونے والا ہے۔ اِس لئے اُنہوں نے اُس نظام میں اپنا مستقبل بنانے کی کوشش نہ کی۔ وہ جانتے تھے کہ ایسا کرنا سراسر بےوقوفی ہوگی۔ لیکن لگتا ہے کہ یرمیاہ نبی کے مُنشی باروک کی توجہ وقتی طور پر اِس حقیقت سے ہٹ گئی تھی کہ خاتمہ نزدیک ہے۔ اِس لئے یہوواہ خدا نے یرمیاہ نبی سے کہا کہ وہ باروک کی اصلاح کریں۔ یرمیاہ نبی نے باروک کو بتایا کہ ”[یہوواہ] فرماتا ہے دیکھ اِس تمام مُلک میں جو کچھ مَیں نے بنایا گِرا دوں گا اور جو کچھ مَیں نے لگایا اُکھاڑ پھینکوں گا۔ اور کیا تُو اپنے لئے اُمورِعظیم کی تلاش میں ہے؟ اُن کی تلاش چھوڑ دے . . . مَیں تمام بشر پر بلا نازل کروں گا لیکن جہاں کہیں تُو جائے تیری جان تیرے لئے غنیمت ٹھہراؤں گا۔“—یرم ۴۵:۴، ۵۔
۹ باروک کن ”اُمورِعظیم“ کی تلاش میں تھے؟ * آیا وہ شاہی دربار میں کوئی مرتبہ پانا چاہتے تھے یا مالودولت حاصل کرنا چاہتے تھے، ہم نہیں جانتے۔ لیکن ہم اِتنا ضرور جانتے ہیں کہ وہ ایسی چیزیں حاصل کرنا چاہتے تھے جو یروشلیم کی تباہی کے ساتھ ہی ختم ہونے والی تھیں۔ یہ تباہی اُس وقت ہوئی جب ۶۰۷ قبلازمسیح میں بابل کی فوجوں نے یروشلیم پر چڑھائی کی۔ باروک کی مثال سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ زندگی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ہم سب کو منصوبے بنانے پڑتے ہیں۔ (امثا ۶:۶-۱۱) لیکن جو چیزیں ختم ہونے والی ہیں، اُنہیں حاصل کرنے کے لئے حد سے زیادہ وقت اور توانائی خرچ کر دینا عقلمندی کی بات نہیں ہے۔ یہ سچ ہے کہ یہوواہ خدا کی تنظیم نئے کنگڈمہال اور نئے برانچ دفتر بنانے اور دیگر کام کرنے کے منصوبے بناتی ہے۔ لیکن یہ منصوبے بےکار نہیں ہیں کیونکہ اِن سے بادشاہت کا کام فروغ پاتا ہے۔ ہم نے اپنی زندگی یہوواہ خدا کے لئے وقف کر دی ہے اِس لئے جب ہم منصوبے بناتے ہیں تو ہمیں ایسے کاموں کو زیادہ اہمیت دینی چاہئے جن سے بادشاہت کا کام فروغ پائے۔ کیا آپ ’پہلے یہوواہ خدا کی بادشاہی اور اُس کی راستبازی کی تلاش کر رہے ہیں؟‘—متی ۶:۳۳۔
’مَیں اُن کو کوڑا سمجھتا ہوں‘
۱۰، ۱۱. (الف) مسیح کا پیروکار بننے سے پہلے پولس رسول کن کاموں کو زیادہ اہمیت دیتے تھے؟ (ب) پولس رسول کی سوچ کیوں بدل گئی؟
۱۰ آئیں، اب پولس رسول کی مثال پر غور کریں۔ مسیح کا پیروکار بننے سے پہلے پولس رسول کے پاس نام اور شہرت کمانے کا بڑا اچھا موقع تھا۔ اُنہوں نے اُس زمانے کے بہت ہی مشہور اُستاد سے شریعت کی تعلیم حاصل کی تھی۔ اُنہیں یہودی سردارکاہنوں کی طرف سے ایک بہت اہم کام کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔ وہ یہودی مذہب میں اپنے ہمعمروں کی نسبت زیادہ سرگرم تھے۔ (اعما ۹:۱، ۲؛ ۲۲:۳؛ ۲۶:۱۰؛ گل ۱:۱۳، ۱۴) لیکن جب اُنہیں پتہ چلا کہ یہودی قوم یہوواہ خدا کی خوشنودی کھو چکی ہے تو اُن کی سوچ بدل گئی۔
۱۱ پولس رسول سمجھ گئے تھے کہ یہودی قوم کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ اور یہودی نظام میں ترقی کرنے سے وہ یہوواہ خدا کو خوش نہیں کر سکتے۔ (متی ۲۴:۲) وہ خدا کے مقصد کو جان گئے تھے اور مُنادی کا کام کرنے کو بڑا اعزاز سمجھتے تھے۔ اب اُن کی نظر میں وہ چیزیں محض ”کوڑا“ تھیں جنہیں وہ پہلے بہت اہم سمجھتے تھے۔ پولس رسول نے یہودی نظام میں ترقی کرنے کا اِرادہ ترک کر دیا اور اپنی زندگی خوشخبری کی مُنادی کے لئے وقف کر دی۔—فلپیوں ۳:۴-۸، ۱۵ کو پڑھیں؛ اعما ۹:۱۵۔
آپ کی زندگی میں کونسا کام زیادہ اہم ہے؟
۱۲. یسوع مسیح نے اپنے بپتسمے کے بعد کس کام کو سب سے زیادہ اہمیت دی؟
۱۲ نوح، موسیٰ نبی، یرمیاہ نبی، پولس رسول اور اُن جیسے کئی خادموں نے اپنا زیادہتر وقت اور توانائی خدا کی خدمت کرنے میں صرف کی۔ اُنہوں نے ہمارے لئے اچھی مثال قائم کی ہے۔ لیکن سب سے عمدہ مثال یسوع مسیح نے قائم کی۔ (۱-پطر ۲:۲۱) بپتسمہ لینے کے بعد یسوع مسیح نے اپنی زندگی یہوواہ خدا کی بڑائی اور خوشخبری کی مُنادی کے لئے وقف کر دی۔ اِس لئے جو مسیحی، یہوواہ خدا کو اپنا مالک سمجھتے ہیں اور یسوع مسیح کی مثال پر عمل کرتے ہیں، اُن کی زندگی میں خدا کی خدمت سے بڑھ کر اَور کوئی چیز نہیں ہونی چاہئے۔ کیا آپ کی زندگی میں بھی خدا کی خدمت کو سب سے اہم مقام حاصل ہے؟ ہم اپنی دوسری ذمہداریاں نبھانے کے ساتھساتھ یہوواہ خدا کی خدمت کے لئے زیادہ وقت کیسے نکال سکتے ہیں؟—زبور ۷۱:۱۵؛ ۱۴۵:۲ کو پڑھیں۔
۱۳، ۱۴. (الف) یہوواہ خدا کی تنظیم تمام بپتسمہیافتہ مسیحیوں کو کیا کرنے کی حوصلہافزائی دیتی ہے؟ (ب) خدا کے بندوں کو پہلکاروں کے طور پر خدمت کرنے سے کیوں دلی سکون ملتا ہے؟
۱۳ کئی سالوں سے یہوواہ خدا کی تنظیم ہماری حوصلہافزائی کر رہی ہے کہ ہم پہلکاروں کے طور پر خدمت کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے غور کریں اور اِس معاملے کے متعلق دُعا کریں۔ یہ سچ ہے کہ بعض مبشروں کے حالات اُنہیں ہر مہینے ۷۰ گھنٹے مُنادی کا کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ (۱-تیم ۵:۸) لیکن آپ کی صورتحال کیا ہے؟ کیا آپ پہلکار کے طور پر خدمت کر سکتے ہیں؟
۱۴ یاد کریں کہ اِس سال مارچ کے مہینے میں بہت سے مسیحیوں نے پہلکاروں کے طور پر خدمت کرکے کتنی خوشی حاصل کی تھی۔ اِس مہینے کے دوران ایک خاص بندوبست کے تحت مددگار پہلکاروں نے مُنادی کے کام میں یا تو ۳۰ گھنٹے یا پھر۵۰ گھنٹے صرف کئے۔ (زبور ۱۱۰:۳) لاکھوں لوگوں نے مددگار پہلکاروں کے طور پر خدمت کی جس کی وجہ سے کلیسیاؤں میں خوشی اور ولولے کی لہر دوڑ گئی۔ کیا آپ اپنے حالات میں تبدیلی کر سکتے ہیں تاکہ آپ کو اکثر ایسی خوشی ملتی رہے؟ ہماری زندگی اب ہماری نہیں بلکہ ہم نے اِسے یہوواہ خدا کے لئے وقف کر دیا ہے۔ جب ہم پہلکار کے طور پر خدمت کرتے ہیں تو ہم ہر دن کے آخر پر یہوواہ خدا سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ”اَے میرے خدا مَیں نے دلوجان سے آپ کی خدمت کی ہے۔“ یہ واقعی ہمارے لئے دلی سکون کا باعث ہوتا ہے۔
۱۵. تعلیم حاصل کرنے کے سلسلے میں ایک نوجوان مسیحی کا نظریہ کیا ہونا چاہئے؟
۱۵ اگر آپ نوجوان ہیں اور تعلیم سے فارغ ہونے والے ہیں تو غالباً آپ کی ذمہداریاں کم ہیں اور آپ کی صحت بھی اچھی ہے۔ اِس صورت میں کیا آپ نے پہلکار بننے کے بارے میں سنجیدگی سے غور کِیا ہے؟ شاید آپ کے ٹیچر یہ مانتے ہیں کہ ایک روشن مستقبل کے لئے آپ کو اعلیٰ تعلیم ضرور حاصل کرنی چاہئے۔ لیکن اُن کا بھروسا اِس دُنیا کے معاشی نظام پر ہے جو جلد ہی ختم ہونے والا ہے۔ اِس کے برعکس اگر آپ کُلوقتی خدمت اختیار کرتے ہیں تو آپ کو ہمیشہ تک فائدہ ہوگا۔ یہ فیصلہ آپ کے لئے خوشی اور تحفظ کا باعث ہوگا۔ آپ یسوع مسیح کی مثال پر بھی عمل کر رہے ہوں گے۔ کُلوقتی خدمت اختیار کرنے سے یہ بھی ظاہر ہوگا کہ جو وعدہ آپ نے یہوواہ خدا سے کِیا تھا، آپ اُسے نبھانے کا پکا عزم رکھتے ہیں۔—متی ۶:۱۹-۲۱؛ ۱-تیم ۶:۹-۱۲۔
۱۶، ۱۷. مسیحیوں کو خود سے کونسے سوال پوچھنے چاہئیں؟
۱۶ یہوواہ کے بہت سے خادموں کو اپنی گھریلو ذمہداریاں پوری کرنے کے لئے کئیکئی گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔ لیکن بعض مسیحی شاید اپنی ضرورت سے زیادہ کام کرتے ہیں۔ (۱-تیم ۶:۸) آجکل دُنیا میں نتنئی چیزیں بنتی رہتی ہیں۔ کاروباری لوگ ہمیں یہ تاثر دیتے ہیں کہ اِن چیزوں کے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہے۔ لیکن سچے مسیحی، شیطان اور اُس کی دُنیا کو اپنی زندگی اور فیصلوں پر حاوی نہیں ہونے دیتے۔ (۱-یوح ۲:۱۵-۱۷) ایسے مسیحی جو ملازمت سے ریٹائر ہو چکے ہیں، وہ اپنے وقت کو کیسے استعمال کر سکتے ہیں؟ اُن کے لئے اِس سے بہتر اَور کیا ہو سکتا ہے کہ وہ پہلکاروں کے طور پر خدمت کریں اور یہوواہ خدا کو خوش کریں؟
۱۷ اگر ہم نے اپنی زندگی یہوواہ خدا کے لئے وقف کر دی ہے تو ہمیں خود سے یہ پوچھنا چاہئے: ”مَیں کس چیز کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہوں؟ کیا میری زندگی میں خدا کی خدمت کو سب سے اہم مقام حاصل ہے؟ کیا مَیں بھی یسوع مسیح کی طرح خدا کی خدمت کے لئے سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہوں؟ کیا مَیں نے یہ عزم کِیا ہے کہ مَیں یسوع مسیح کے نقشِقدم پر چلتا رہوں گا؟ کیا مَیں اپنے معمول میں کچھ تبدیلی کر سکتا ہوں تاکہ خدا کی خدمت کے لئے زیادہ وقت نکال سکوں؟ اگر ابھی میرے حالات یہ اجازت نہیں دیتے کہ مَیں خدا کی خدمت میں زیادہ وقت صرف کر سکوں تو جتنا میرے لئے ممکن ہے، کیا مَیں اُتنا دلوجان سے کرتا ہوں؟“
”نیت اور عمل“
۱۸، ۱۹. (الف) ہم یہوواہ خدا سے کس صورتحال کے بارے میں دُعا کر سکتے ہیں؟ (ب) ایسی دُعا سے یہوواہ خدا کیوں خوش ہوگا؟
۱۸ جب مسیحی پہلکاروں کے طور پر خدمت کرتے ہیں تو اُن کی خوشی اور جوش دیکھنے کے لائق ہوتا ہے۔ لیکن شاید بعض مسیحیوں کے دل میں پہلکاروں کے طور پر خدمت کرنے کی خواہش نہیں ہوتی یا پھر وہ خود کو اِس لائق نہیں سمجھتے۔ (خر ۴:۱۰؛ یرم ۱:۶) اگر آپ کی صورتحال بھی ایسی ہی ہے تو یہوواہ خدا سے دُعا کریں۔ پولس رسول نے کہا تھا کہ یہوواہ خدا ”تُم میں نیت اور عمل دونوں کو اپنے نیک اِرادہ کو انجام دینے کے لئے پیدا کرتا ہے۔“ (فل ۲:۱۳) اگر آپ کے دل میں مُنادی کے کام میں زیادہ وقت صرف کرنے کی خواہش نہیں ہے تو یہوواہ خدا سے دُعا کریں کہ وہ آپ کو ایسا کرنے کی خواہش بھی عطا کرے اور صلاحیت بھی۔—۲-پطر ۳:۹، ۱۱۔
۱۹ نوح، موسیٰ نبی، یرمیاہ نبی، پولس رسول اور یسوع مسیح نے بڑی وفاداری سے یہوواہ خدا کی خدمت کی تھی۔ اُنہوں نے اپنے وقت اور توانائی کو دوسروں تک یہوواہ خدا کا پیغام پہنچانے میں صرف کر دیا تھا۔ اُنہوں نے کسی بھی وجہ سے اپنا دھیان خدا کی خدمت سے ہٹنے نہیں دیا تھا۔ اِس دُنیا کا خاتمہ جلد آنے والا ہے۔ ہم نے خود کو یہوواہ کے لئے وقف تو کر دیا ہے لیکن ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ہم نوح، موسیٰ نبی، یرمیاہ نبی، پولس رسول اور یسوع مسیح کی طرح خدا کی خدمت کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ (متی ۲۴:۴۲؛ ۲-تیم ۲:۱۵) اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو یہوواہ خدا خوش ہوگا اور ہماری جھولی بےشمار برکتوں سے بھر دے گا۔—ملاکی ۳:۱۰ کو پڑھیں۔
[فٹنوٹ]
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۲۲ پر تصویر]
لوگوں نے نوح کی بات پر بالکل دھیان نہ دیا۔
[صفحہ ۲۵ پر تصویر]
کیا آپ نے پہلکار کے طور پر خدمت کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے غور کِیا ہے؟