یسوع مسیح کا جواب کیا ہوتا؟
یسوع مسیح کا جواب کیا ہوتا؟
بہت سے مذہبی لوگوں کا خیال ہے کہ مذہب اور سیاست کو ملا دینا چاہئے۔ وہ مانتے ہیں کہ مذہب دُنیا کے مسائل کو حل کرنے میں بہت اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اِس کے برعکس کچھ لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ مذہب کو سیاست سے بالکل الگ رکھنا چاہئے۔ اِس سلسلے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا مذہب اور سیاست کو مل کر کام کرنا چاہئے؟
ایک عالم کے مطابق ”مذہبی لحاظ سے جتنا اثر یسوع مسیح نے لوگوں پر ڈالا ہے اُتنا کسی اَور نے نہیں ڈالا۔“ ذرا سوچیں کہ اگر یسوع مسیح سے یہ سوال پوچھا جاتا کہ کیا مذہب کو سیاست میں شامل کِیا جانا چاہئے؟ تو اُن کا جواب کیا ہوتا۔ جب وہ زمین پر تھے تو اُنہوں نے اپنی تعلیم اور اپنے کاموں سے ظاہر کِیا کہ اِس معاملے میں اُن کی رائے کیا ہے۔ ایک مرتبہ یسوع مسیح نے ایک وعظ پیش کِیا جو بعد میں پہاڑی وعظ کے طور پر مشہور ہو گیا۔ اِس وعظ میں اُنہوں نے کچھ ہدایات دیں جن سے اُن کے پیروکار سمجھ سکتے ہیں کہ اُنہیں معاشرے میں کیا کردار ادا کرنا چاہئے۔ آئیں، اِس وعظ میں سے چند باتوں پر غور کریں۔
نمک اور نور کی مانند
یسوع مسیح نے بتایا کہ اُن کے پیروکار اِس دُنیا میں کیا کردار ادا کرتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا: ”تُم زمین کے نمک ہو لیکن اگر نمک کا مزہ جاتا رہے تو وہ کس چیز سے نمکین کِیا جائے گا؟ پھر وہ کسی کام کا نہیں سوا اِس کے کہ باہر پھینکا جائے اور آدمیوں کے پاؤں کے نیچے روندا جائے۔“ اُنہوں نے یہ بھی کہا: ”تُم دُنیا کے نور ہو۔ . . . تمہاری روشنی آدمیوں کے سامنے چمکے تاکہ وہ تمہارے نیک کاموں کو دیکھ کر تمہارے باپ کی جو آسمان پر ہے تمجید کریں۔“ (متی ۵:۱۳-۱۶) یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کو نمک اور نور سے تشبِیہ کیوں دی تھی؟
یسوع مسیح کی بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کے شاگرد صرف چند لوگوں کے لئے ہی نہیں بلکہ تمام انسانوں کے لئے نمک کی مانند ہیں۔ اِسی طرح وہ اُن سب لوگوں کے لئے نور کی مانند ہیں جو اندھیرے میں نہیں رہنا چاہتے۔ یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کو نمک اور نور سے تشبِیہ دینے سے واضح کِیا کہ اُن کے پیروکاروں کو معاشرے سے کٹ کر نہیں رہنا چاہئے۔ اِس کی کیا وجہ تھی؟
ذرا سوچیں کہ اگر نمک کو کھانے میں ڈالا ہی نہ جائے تو کیا وہ کھانے کو محفوظ رکھ سکتا ہے۔ اگر لیمپ کو کمرے سے باہر رکھا جائے تو کیا وہ کمرے میں روشنی کر سکتا ہے۔ جینہیں۔ اِس لئے یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو یہ حکم نہیں دیا تھا کہ وہ زمین کے کسی دُوردراز کونے میں جا کر اپنی ایک الگ دُنیا بسا لیں۔ اور نہ ہی اُنہوں نے اپنے پیروکاروں سے یہ کہا تھا کہ وہ کسی مذہبی ادارے کی اُونچیاُونچی دیواروں کے پیچھے بالکل الگتھلگ زندگی بسر کریں۔ اِس کی بجائے یسوع مسیح چاہتے تھے کہ جس طرح نمک کو کھانے میں ملایا جاتا ہے اور لیمپ کو اندھیرے والی جگہ پر رکھا جاتا ہے اُسی طرح اُن کے شاگرد بھی معاشرے میں رہیں اور لوگوں کی زندگی پر اچھا اثر ڈالیں۔
’وہ دُنیا کے نہیں‘
یہ سوچنے والی بات ہے کہ اگر یسوع مسیح کے پیروکاروں کو دُنیا میں رہنا ہے تو کیا پھر اُنہیں دُنیا کے سیاسی معاملات میں بھی حصہ لینا چاہئے؟ غور کریں کہ یسوع مسیح نے اپنی موت سے تھوڑا پہلے کیا کہا: ”مَیں یہ درخواست نہیں کرتا کہ تُو اُنہیں دُنیا سے اُٹھا لے بلکہ یہ کہ اُس شریر سے اُن کی حفاظت کر۔ جس طرح مَیں دُنیا کا نہیں وہ بھی دُنیا کے نہیں۔“ (یوحنا ۱۷:۱۵، ۱۶) یہ کیسے ممکن ہے کہ مسیحی دُنیا میں رہیں بھی اور دُنیا کا حصہ بھی نہ ہوں؟ اِس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے اگلے تین مضامین پر غور کریں۔ اِن میں نیچے دئے گئے نکتوں پر بات کی جائے گی:
• کیا یسوع مسیح سیاست میں حصہ لیتے تھے؟
• کیا مسیحیوں کو سیاست میں حصہ لینا چاہئے؟