مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ خدا ساری مخلوق کو ایک خاندان میں متحد کرتا ہے

یہوواہ خدا ساری مخلوق کو ایک خاندان میں متحد کرتا ہے

یہوواہ خدا ساری مخلوق کو ایک خاندان میں متحد کرتا ہے

‏’‏مَیں تُم سے التماس کرتا ہوں کہ روح کی یگانگی سے بندھے رہو۔‏‘‏—‏افس ۴:‏۱،‏ ۳‏۔‏

آپ اِن سوالوں کے کیا جواب دیں گے؟‏

افسیوں ۱:‏۱۰ میں خدا کے جس اِنتظام کا ذکر کِیا گیا ہے،‏ اُس کا مقصد کیا ہے؟‏

ہم اِس ہدایت پر کیسے عمل کر سکتے ہیں کہ ’‏روح کی یگانگی سے بندھے رہو‘‏؟‏

ہم دوسروں کے ساتھ مہربانی سے پیش آنے کے قابل کیسے ہو سکتے ہیں؟‏

۱،‏ ۲.‏ زمین اور انسانوں کے لئے یہوواہ خدا کا مقصد کیا ہے؟‏

جب آپ لفظ خاندان سنتے ہیں تو آپ کے ذہن میں کیا آتا ہے؟‏ کیا آپ ایک ایسے ماحول کے بارے میں سوچتے ہیں جہاں محبت اور خوشی ہے اور سب مل کر کام کرتے ہیں؟‏ جہاں آپ پرورش پاتے ہیں،‏ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اور جہاں ہر ایک کُھل کر اپنے خیالات کا اِظہار کر سکتا ہے؟‏ اگر آپ کا خاندان آپ کو بہت چاہتا ہے تو پھر لفظ خاندان سن کر آپ کے ذہن میں ایسی ہی باتیں آئیں گی۔‏ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ہر ایک خاندان خدا سے نامزد ہے۔‏ اِس کا مطلب ہے کہ خاندان کا اِنتظام یہوواہ خدا نے شروع کِیا تھا۔‏ (‏افس ۳:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ خدا کا مقصد تھا کہ آسمان اور زمین پر رہنے والی ساری مخلوق ایک خاندان کی طرح متحد ہو،‏ ایک دوسرے پر بھروسا کرے اور محفوظ محسوس کرے۔‏

۲ جب آدم اور حوا نے گُناہ کِیا تو وہ خدا کے عالمگیر خاندان کا حصہ نہ رہے۔‏ لیکن اِس کی وجہ سے یہوواہ خدا کا مقصد نہیں بدلا تھا۔‏ وہ اپنے مقصد کو ضرور پورا کرے گا۔‏ زمین فردوس بن جائے گی اور اِس میں آدم اور حوا کی اولاد آباد ہوگی۔‏ (‏پید ۱:‏۲۸؛‏ یسع ۴۵:‏۱۸‏)‏ یہوواہ خدا نے اپنا مقصد پورا کرنے کا اِنتظام کر لیا ہے۔‏ اِس اِنتظام کے بارے میں کچھ معلومات افسیوں کی کتاب میں دی گئی ہیں۔‏ آئیں،‏ اِس کتاب سے کچھ آیتوں پر غور کریں۔‏ ہم سیکھیں گے کہ ہم خدا کے اِس مقصد کی حمایت کیسے کر سکتے ہیں کہ آسمان اور زمین کی مخلوق ایک خاندان بن جائے۔‏

آسمان اور زمین کی چیزوں کو متحد کرنے کا اِنتظام

۳.‏ افسیوں ۱:‏۱۰ میں کس اِنتظام کا ذکر کِیا گیا ہے اور اِس اِنتظام کا پہلا مرحلہ کب شروع ہوا تھا؟‏

۳ یہوواہ خدا جو بھی کرتا ہے،‏ اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لئے کرتا ہے۔‏ اُس نے ”‏زمانوں کے پورے ہونے کا ایسا اِنتظام“‏ کر لیا ہے جس کے تحت فرشتے اور انسان ایک خاندان بن جائیں گے۔‏ ‏(‏افسیوں ۱:‏۸-‏۱۰ کو پڑھیں۔‏)‏ اِس اِنتظام کے دو مرحلے ہیں۔‏ پہلے مرحلے میں ممسوح مسیحیوں کو آسمان پر رہنے کے لئے تیار کِیا جاتا ہے جہاں یسوع مسیح اُن کے سردار ہوں گے۔‏ یہ مرحلہ ۳۳ء میں عیدِپنتِکُست کے موقع پر شروع ہوا تھا۔‏ اُس وقت یہوواہ خدا نے لوگوں کو مسیح کے ساتھ حکمرانی کرنے کے لئے چننا شروع کِیا تھا۔‏ (‏اعما ۲:‏۱-‏۴‏)‏ ممسوح مسیحی یسوع مسیح کی قربانی کی بِنا پر ”‏راست‌باز ٹھہرائے جاتے ہیں۔‏“‏ وہ پاک روح کی بدولت یہ جان جاتے ہیں کہ اُنہیں ’‏خدا کے فرزندوں‘‏ کے طور پر چن لیا گیا ہے۔‏—‏روم ۳:‏۲۳،‏ ۲۴؛‏ ۵:‏۱؛‏ ۸:‏۱۵-‏۱۷‏۔‏

۴،‏ ۵.‏ خدا کے اِنتظام کا دوسرا مرحلہ کون‌سا ہے؟‏

۴ دوسرے مرحلے میں اُن لوگوں کو تیار کِیا جاتا ہے جو مسیح کی بادشاہت کے تحت زمین پر فردوس میں رہیں گے۔‏ پہلے ”‏بڑی بِھیڑ“‏ نئی دُنیا میں رہنا شروع کرے گی۔‏ (‏مکا ۷:‏۹،‏ ۱۳-‏۱۷؛‏ ۲۱:‏۱-‏۵‏)‏ پھر مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی کے دوران کروڑوں مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا۔‏ وہ بھی ”‏بڑی بِھیڑ“‏ کے ساتھ زمین پر رہیں گے۔‏ (‏مکا ۲۰:‏۱۲،‏ ۱۳‏)‏ ذرا سوچیں کہ جب مختلف زمانوں اور ثقافتوں سے آنے والے کروڑوں لوگ زمین پر اِکٹھے رہ رہے ہوں گے تو یہ بےمثال اتحاد کا کتنا شاندار ثبوت ہوگا!‏ ہزار سال کے آخر پر ’‏زمین کی چیزوں‘‏ یعنی فردوس میں رہنے والوں کا آخری اِمتحان ہوگا۔‏ جو لوگ اِس اِمتحان میں کامیاب ہوں گے،‏ وہ بھی ’‏خدا کے فرزند‘‏ بن جائیں گے اور ہمیشہ تک زمین پر رہیں گے۔‏—‏روم ۸:‏۲۱؛‏ مکا ۲۰:‏۷،‏ ۸‏۔‏

۵ یہوواہ خدا کے اِنتظام کے دونوں مرحلے ابھی تک جاری ہیں۔‏ آسمان اور زمین کی چیزوں کو جمع کِیا جا رہا ہے۔‏ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم ذاتی طور پر یہوواہ خدا کے اِنتظام کی حمایت کیسے کر سکتے ہیں؟‏

اتحاد کو قائم رکھنے کی پوری کوشش کریں

۶.‏ بائبل میں اِس بات پر زور کیسے دیا گیا ہے کہ مسیحیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جمع ہونا چاہئے؟‏

۶ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ مسیحیوں کو ”‏ایک دوسرے کے ساتھ جمع“‏ ہونا چاہئے۔‏ (‏۱-‏کر ۱۴:‏۲۳؛‏ عبر ۱۰:‏۲۴،‏ ۲۵‏)‏ لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم بس ایک جگہ جمع ہو جائیں جیسے اکثر لوگ بازار یا سٹیڈیم وغیرہ میں جمع ہوتے ہیں۔‏ حقیقی اتحاد صرف آپس میں جمع ہونے سے حاصل نہیں ہوتا۔‏ اِسے حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم یہوواہ خدا کی تعلیم پر عمل کریں اور اُس کی پاک روح کی رہنمائی میں چلیں۔‏

۷.‏ ہم اِس ہدایت پر کیسے عمل کر سکتے ہیں کہ ’‏روح کی یگانگی سے بندھے رہو‘‏؟‏

۷ یہ سچ ہے کہ یہوواہ خدا اپنے بیٹے کی قربانی کی بِنا پر ممسوح مسیحیوں کو اپنے فرزند سمجھتا ہے اور مسیح کی اَور بھی بھیڑوں کو اپنا دوست خیال کرتا ہے۔‏ لیکن جب تک ہم شیطان کی اِس دُنیا میں رہ رہے ہیں،‏ ہمارے درمیان اختلاف پیدا ہوتے رہیں گے۔‏ (‏روم ۵:‏۹؛‏ یعقو ۲:‏۲۳‏)‏ اگر ایسا نہ ہو تو پھر ہمیں اِس نصیحت کی کیا ضرورت ہے کہ ”‏ایک دوسرے کی برداشت کرو۔‏“‏ لیکن ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہمارا اتحاد قائم رہے؟‏ ہمیں ”‏کمال فروتنی اور حلم“‏ سے کام لینا چاہئے۔‏ اِس کے علاوہ ہمیں پولس رسول کی ہدایت کے مطابق پوری کوشش کرنی چاہئے کہ ”‏روح کی یگانگی صلح کے بند سے بندھی رہے۔‏“‏ اِس کا مطلب ہے کہ ہمیں اپنا اتحاد قائم رکھنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے جو ہمیں روحُ‌القدس کے ذریعے ملا ہے۔‏ ‏(‏افسیوں ۴:‏۱-‏۳ کو پڑھیں۔‏)‏ پولس رسول کی ہدایت پر عمل کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم پاک روح کی رہنمائی کو قبول کریں اور اپنے اندر روح کا پھل پیدا کریں۔‏ اِس کے علاوہ ہمیں جسم کے کاموں سے کنارہ کرنا چاہئے۔‏ روح کے پھل کے ذریعے ہم آپسی اختلافات کو دُور کر سکتے ہیں۔‏ لیکن جسم کے کام ہمیشہ اختلاف پیدا کرتے ہیں۔‏

۸.‏ جسم کے کام ہمارے اتحاد کو کیسے تباہ کر سکتے ہیں؟‏

۸ غور کریں کہ ”‏جسم کے کام“‏ ہمارے اتحاد کو کیسے تباہ کر سکتے ہیں۔‏ ‏(‏گلتیوں ۵:‏۱۹-‏۲۱ کو پڑھیں۔‏)‏ ‏”‏حرام‌کاری“‏ کرنے کی وجہ سے ایک شخص یہوواہ خدا اور کلیسیا سے دُور ہو جاتا ہے۔‏ جب شوہر یا بیوی میں سے کوئی زناکاری کرتا ہے تو اُس کا ازدواجی بندھن ٹوٹ سکتا ہے اور بچے ماں یا باپ سے جُدا ہو سکتے ہیں۔‏ جب کوئی شخص ”‏ناپاکی“‏ میں پڑ جاتا ہے تو خدا اور ہم‌ایمانوں کے ساتھ اُس کی دوستی ٹوٹنے کا خطرہ ہوتا ہے۔‏ جس طرح دو چیزوں کو گوند سے جوڑنے کے لئے ضروری ہے کہ دونوں چیزیں صاف ہوں اُسی طرح ہمیں بھی پاک صاف ہونا چاہئے تاکہ ہم خدا اور اپنے بہن‌بھائیوں سے جڑے رہیں۔‏ جو شخص ”‏شہوت‌پرستی“‏ * میں پڑ جاتا ہے،‏ وہ خدا کے حکموں کو ناچیز جانتا ہے۔‏ پولس رسول نے جسم کے جن دیگر کاموں کا ذکر کِیا،‏ وہ بھی ہمیں خدا سے دُور کر سکتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ ہمارے تعلقات پر بُرا اثر ڈال سکتے ہیں۔‏ یہوواہ خدا جسم کے کاموں سے نفرت کرتا ہے۔‏

۹.‏ کن سوالوں پر غور کرنے سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ آیا ہم اتحاد کو قائم رکھنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں یا نہیں؟‏

۹ ہم سب کو خود سے پوچھنا چاہئے:‏ ”‏کیا مَیں اپنے بہن‌بھائیوں کے ساتھ اتحاد کو قائم رکھنے کے لئے دل‌وجان سے کوشش کرتا ہوں؟‏ جب کسی کے ساتھ میرا کوئی اختلاف ہو جائے تو مَیں کیسا ردِعمل ظاہر کرتا ہوں؟‏ کیا مَیں دوسروں کے سامنے اِس کا ڈھنڈورا پیٹتا ہوں تاکہ مجھے اُن کی حمایت مل جائے؟‏ کیا مَیں چاہتا ہوں کہ بزرگ میرے مسئلے کو حل کریں تاکہ مجھے صلح کرنے کے لئے دوسرے شخص سے خود بات نہ کرنی پڑے؟‏ اگر کسی کو مجھ سے کوئی شکایت ہے تو کیا مَیں اُس سے کنارہ کرتا ہوں تاکہ اِس سلسلے میں ہماری کوئی بات ہی نہ ہو؟‏“‏ اگر ہم اِن میں سے کوئی بھی کام کرتے ہیں تو کیا ہم خدا کے اِس مقصد کی حمایت کر رہے ہوں گے کہ مسیح کی حکمرانی میں ساری مخلوق ایک خاندان بن جائے؟‏

۱۰،‏ ۱۱.‏ ‏(‏الف)‏ بہن‌بھائیوں کے ساتھ صلح سے رہنا کیوں ضروری ہے؟‏ (‏ب)‏ ہمیں کیا کرنا چاہئے تاکہ ہمارا اتحاد قائم رہے اور ہمیں خدا سے برکت ملے؟‏

۱۰ یسوع مسیح نے فرمایا:‏ ”‏اگر تُو قربان‌گاہ پر اپنی نذر گذرانتا ہو اور وہاں تجھے یاد آئے کہ میرے بھائی کو مجھ سے کچھ شکایت ہے تو وہیں قربان‌گاہ کے آگے اپنی نذر چھوڑ دے اور جا کر پہلے اپنے بھائی سے ملاپ کر۔‏ تب آکر اپنی نذر گذران۔‏ .‏ .‏ .‏ اُس سے جلد صلح کر لے۔‏“‏ (‏متی ۵:‏۲۳-‏۲۵‏)‏ اِس کے علاوہ یعقوب رسول نے لکھا:‏ ”‏صلح کرانے والوں کے لئے راست‌بازی کا پھل صلح کے ساتھ بویا جاتا ہے۔‏“‏ (‏یعقو ۳:‏۱۷،‏ ۱۸‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر ہم دوسروں کے ساتھ صلح سے نہیں رہتے تو ہم راست‌بازی کو کام میں نہیں لا سکتے۔‏

۱۱ اِس سلسلے میں ایک مثال پر غور کریں۔‏ بعض ملکوں میں جہاں جنگ ہوئی ہے وہاں کسان بارودی سُرنگوں کی وجہ سے تقریباً ۲۵ فیصد زمین کاشت نہیں کر سکتے۔‏ جب اچانک کوئی بارودی سُرنگ پھٹتی ہے تو کسان ڈر کے مارے اِردگِرد کے کھیتوں میں کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔‏ اِس کی وجہ سے دیہاتوں میں لوگوں کو روزی روٹی کمانے کے لالے پڑ جاتے ہیں اور شہروں میں بھی خوراک کی کمی ہو جاتی ہے۔‏ اِسی طرح شاید ہمارے اندر ایسی خصلتیں ہیں جو دوسروں کے ساتھ صلح سے رہنا مشکل بنا سکتی ہیں۔‏ ایسی خصلتیں بارودی سُرنگ کی طرح خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔‏ یہ مسیح جیسی صفات کو فروغ دینے میں رُکاوٹ پیدا کر سکتی ہیں۔‏ لیکن اگر ہم دوسروں کو فوراً معاف کریں گے اور اُن کی بھلائی کے لئے کام کریں گے تو ہمارا اتحاد قائم رہے گا اور ہمیں یہوواہ خدا سے برکت ملے گی۔‏

۱۲.‏ بزرگ اتحاد کو قائم رکھنے میں ہماری مدد کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۱۲ یہوواہ خدا نے ہمیں ”‏آدمیوں کے روپ میں تحفے“‏ یعنی بزرگ دئے ہیں جو اتحاد کو قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔‏ (‏افس ۴:‏۸‏،‏ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن)‏ وہ ہماری مدد کرتے ہیں تاکہ ہم ’‏ایمان میں ایک ہو جائیں۔‏‘‏ (‏افس ۴:‏۱۳‏)‏ بزرگ ہمارے ساتھ تبلیغ کے کام میں حصہ لیتے ہیں اور ہمارے پاس آکر ہمیں خدا کلام سے مشورے دیتے ہیں۔‏ یوں وہ ”‏نئی انسانیت“‏ کو پہننے میں ہماری مدد کرتے ہیں۔‏ (‏افس ۴:‏۲۲-‏۲۴‏)‏ جب بزرگ آپ کو کوئی صلاح دیں تو یاد رکھیں کہ یہوواہ خدا بزرگوں کے ذریعے آپ کو نئی دُنیا میں رہنے کے لئے تربیت دے رہا ہے۔‏ دوسروں کی اصلاح کرتے وقت بزرگوں کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ وہ بہن‌بھائیوں کو نئی دُنیا میں رہنے کے لئے تیار کر رہے ہیں۔‏—‏گل ۶:‏۱‏۔‏

‏’‏ایک دوسرے پر مہربان ہو‘‏

۱۳.‏ اگر ہم افسیوں ۴:‏۲۵-‏۳۲ میں درج ہدایت پر عمل نہیں کرتے تو اِس کا کیا انجام ہوگا؟‏

۱۳ افسیوں ۴:‏۲۵-‏۲۹ میں ایسے کاموں کا ذکر کِیا گیا ہے جن سے ہمیں بچنا چاہئے۔‏ اِن آیتوں میں بتایا گیا ہے کہ ہمیں جھوٹ نہیں بولنا چاہئے،‏ غصہ نہیں کرنا چاہئے،‏ محنت سے جی نہیں چرانا چاہئے اور کوئی گندی بات نہیں کرنی چاہئے۔‏ اِس کی بجائے ہمارے مُنہ سے ایسی باتیں نکلنی چاہئیں جو ”‏ترقی کے لئے اچھی“‏ ہوں۔‏ جو شخص اِس نصیحت پر عمل نہیں کرتا،‏ وہ کلیسیا کے اتحاد کو نقصان پہنچاتا ہے۔‏ وہ ”‏خدا کے پاک روح کو رنجیدہ“‏ کرتا ہے جو اتحاد کو فروغ دیتی ہے۔‏ (‏افس ۴:‏۳۰‏)‏ صلح اور اتحاد کو فروغ دینے کے لئے پولس رسول کی اِس ہدایت پر عمل کرنا بھی ضروری ہے:‏ ”‏ہر طرح کی تلخ‌مزاجی اور قہر اور غصہ اور شوروغل اور بدگوئی ہر قسم کی بدخواہی سمیت تُم سے دُور کی جائیں۔‏ اور ایک دوسرے پر مہربان اور نرم‌دل ہو اور جس طرح خدا نے مسیح میں تمہارے قصور معاف کئے ہیں تُم بھی ایک دوسرے کے قصور معاف کرو۔‏“‏—‏افس ۴:‏۳۱،‏ ۳۲‏۔‏

۱۴.‏ ‏(‏الف)‏ پولس رسول کی اِس بات سے کیا اشارہ ملتا ہے کہ ’‏ایک دوسرے پر مہربان ہو؟‏‘‏ (‏ب)‏ ہم دوسروں کے ساتھ مہربانی سے پیش آنے کے قابل کیسے ہو سکتے ہیں؟‏

۱۴ جب پولس رسول نے یہ کہا کہ ’‏ایک دوسرے پر مہربان ہو‘‏ تو اُن کی اِس بات سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ شاید بعض موقعوں پر ہم دوسروں کے ساتھ مہربانی سے پیش نہیں آتے۔‏ اِس لئے ہمیں اپنے اندر بہتری لانے کی ضرورت ہو سکتی ہے۔‏ ہمیں دوسروں کے احساسات کی زیادہ قدر کرنی چاہئے۔‏ (‏فل ۲:‏۴‏)‏ بعض اوقات شاید ہم کوئی ایسی بات کہنا چاہتے ہیں جس پر دوسرے ہنسیں یا جس سے دوسروں کو یہ تاثر ملے کہ ہم بہت عقل‌مند ہیں۔‏ لیکن کچھ کہنے سے پہلے ذرا سوچیں کہ کیا آپ کی بات سے دوسروں کے لئے مہربانی ظاہر ہوتی ہے۔‏ اگر ہم ہمیشہ سوچ‌سمجھ کر بات کرتے ہیں تو ہم دوسروں کے ساتھ مہربانی سے پیش آنے کے قابل ہوں گے۔‏

محبت اور احترام سیکھنے کی اِبتدا گھر سے ہوتی ہے

۱۵.‏ افسیوں ۵:‏۲۸ کے مطابق شوہروں کو اپنے بیوی‌بچوں کی کون‌سی ضرورت پوری کرنے پر توجہ دینی چاہئے؟‏

۱۵ بائبل میں مسیح اور کلیسیا کے رشتے کو شوہر اور بیوی کے رشتے سے تشبیہ دی گئی ہے۔‏ یسوع مسیح کی مثال پر غور کرنے سے ایک شوہر یہ سیکھتا ہے کہ اُسے اپنی بیوی سے محبت کرنی چاہئے اور اُس کی ہر ضرورت کا خیال رکھنا چاہئے۔‏ اور جیسے کلیسیا مسیح کا احترام کرتی ہے ویسے بیوی کو اپنے شوہر کا احترام کرنا چاہئے۔‏ (‏افس ۵:‏۲۲-‏۳۳‏)‏ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏اِسی طرح شوہروں کو لازم ہے کہ اپنی بیویوں سے اپنے بدن کی مانند محبت رکھیں۔‏“‏ (‏افس ۵:‏۲۸‏)‏ لیکن جب پولس رسول نے اصطلاح ”‏اِسی طرح“‏ استعمال کی تو وہ کس بات کی طرف اشارہ کر رہے تھے؟‏ یہ جاننے کے لئے غور کریں کہ پولس رسول نے پچھلی آیتوں میں کیا کہا۔‏ اُنہوں نے کہا کہ ”‏مسیح نے بھی کلیسیا سے محبت کرکے اپنے آپ کو اُس کے واسطے موت کے حوالہ کر دیا۔‏ تاکہ اُس کو کلام کے ساتھ پانی سے غسل دے کر .‏ .‏ .‏ صاف“‏ کرے۔‏ لہٰذا مسیح نے کلیسیا کو کلام سے پاک صاف کِیا۔‏ اِسی طرح شوہروں کو بھی اپنے گھر والوں کی تعلیم‌وتربیت پاک کلام سے کرنی چاہئے۔‏ ایسا کرنے سے وہ یہوواہ خدا کے اِس مقصد کی حمایت کریں گے کہ ساری مخلوق ایک خاندان کے طور پر متحد ہو جائے اور مسیح کی حکمرانی کے تحت رہے۔‏

۱۶.‏ جب والدین یہوواہ خدا کی طرف سے ملنے والی ذمہ‌داری کو پورا کرتے ہیں تو اِس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟‏

۱۶ والدین کو یاد رکھنا چاہئے کہ بچوں کی تربیت کرنا ایک بھاری ذمہ‌داری ہے جو یہوواہ خدا نے اُنہیں سونپی ہے۔‏ افسوس کی بات ہے کہ آج‌کل بہت سے لوگ ”‏طبعی محبت سے خالی“‏ ہوتے جا رہے ہیں۔‏ (‏۲-‏تیم ۳:‏۱،‏ ۳‏)‏ بہت سے والد اپنی ذمہ‌داری پوری نہیں کرتے جس کی وجہ سے بچے مایوسی اور محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں۔‏ لیکن پولس رسول نے والدوں کو یہ نصیحت کی:‏ ”‏اپنے فرزندوں کو غصہ نہ دِلاؤ بلکہ [‏یہوواہ]‏ کی طرف سے تربیت اور نصیحت دےدے کر اُن کی پرورش کرو۔‏“‏ (‏افس ۶:‏۴‏)‏ بچے سب سے پہلے اپنے گھر ہی سے اختیار کا احترام کرنا اور دوسروں سے محبت کرنا سیکھتے ہیں۔‏ جو والدین اپنے بچوں کو ایسی اہم باتیں سکھاتے ہیں،‏ وہ خدا کے اُس اِنتظام کی حمایت کرتے ہیں جس کا ذکر افسیوں ۱:‏۱۰ میں کِیا گیا ہے۔‏ والدین کو اپنے بچوں کو یہ احساس دِلانا چاہئے کہ وہ اُن سے بڑی محبت کرتے ہیں۔‏ اِس لئے والدین کو اپنے غصے پر قابو رکھنا چاہئے اور ٹھیس پہنچانے والی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔‏ یوں وہ اپنے بچوں کو دوسروں سے محبت کرنا اور اختیار کا احترام کرنا سکھائیں گے اور اُنہیں نئی دُنیا میں رہنے کے لئے تیار کریں گے۔‏

۱۷.‏ شیطان کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں کیا کرنے کی ضرورت ہے؟‏

۱۷ ہم جانتے ہیں کہ شیطان نے شروع میں ہی خدا کے عالمگیر خاندان کی صلح اور اتحاد کو تباہ کرنے کی کوشش کی تھی۔‏ اور وہ آج بھی اِس کوشش میں ہے کہ ہم خدا کی مرضی کے مطابق زندگی نہ گزاریں۔‏ بےشک شیطان بہت خوش ہے کہ آج‌کل طلاق کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے،‏ شادی کے بغیر رہنے والے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور بہت سے لوگ مرد سے مرد اور عورت سے عورت کی شادی کو بُرا خیال نہیں کرتے۔‏ لیکن ہم اِس دُنیا کی سوچ اور طورطریقے نہیں اپناتے۔‏ ہم یسوع مسیح کی مثال پر عمل کرتے ہیں۔‏ (‏افس ۴:‏۱۷-‏۲۱‏)‏ شیطان اور شیاطین کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں ”‏خدا کے سب ہتھیار باندھ“‏ لینے کی ضرورت ہے۔‏‏—‏افسیوں ۶:‏۱۰-‏۱۳ کو پڑھیں۔‏

‏’‏محبت سے چلیں‘‏

۱۸.‏ ہمارے اتحاد کی بنیاد کیا ہے؟‏

۱۸ ہمارے اتحاد کی بنیاد محبت ہے۔‏ ہم ’‏ایک ہی خدا‘‏ کی عبادت کرتے ہیں اور ’‏ایک ہی خداوند‘‏ کی پیروی کرتے ہیں۔‏ ہم اُن سے بےحد محبت کرتے ہیں۔‏ اِس کے علاوہ ہم آپس میں بھی بڑی محبت کرتے ہیں۔‏ اِس لئے ہمارا عزم یہ ہے کہ ہم اپنا اتحاد قائم رکھنے کی پوری کوشش کریں گے جو ہمیں روحُ‌القدس کے ذریعے ملا ہے۔‏ (‏افس ۴:‏۳-‏۶‏)‏ یسوع مسیح نے اپنی دُعا میں ایسی محبت کا ذکر کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏مَیں صرف اِن ہی کے لئے درخواست نہیں کرتا بلکہ اُن کے لئے بھی جو اِن کے کلام کے وسیلہ سے مجھ پر ایمان لائیں گے تاکہ وہ سب ایک ہوں یعنی جس طرح اَے باپ!‏ تُو مجھ میں ہے اور مَیں تجھ میں ہوں وہ بھی ہم میں ہوں۔‏ .‏ .‏ .‏ اور مَیں نے اُنہیں تیرے نام سے واقف کِیا اور کرتا رہوں گا تاکہ جو محبت تجھ کو مجھ سے تھی وہ اُن میں ہو اور مَیں اُن میں ہوں۔‏“‏—‏یوح ۱۷:‏۲۰،‏ ۲۱،‏ ۲۶‏۔‏

۱۹.‏ آپ کا عزم کیا ہے؟‏

۱۹ خطاکار ہونے کی وجہ سے شاید ہمارے دل میں کوئی غلط رُجحان ہے۔‏ ایسی صورت میں ہمیں یہوواہ خدا اور اپنے بہن‌بھائیوں سے محبت کی بِنا پر یہ دُعا کرنی چاہئے:‏ ”‏میرے دل کو یکسوئی بخش تاکہ تیرے نام کا خوف مانوں۔‏“‏ (‏زبور ۸۶:‏۱۱‏)‏ آئیں،‏ ہم یہ عزم کریں کہ ہم شیطان کا مقابلہ کریں گے اور اُسے ہرگز یہ موقع نہیں دیں گے کہ وہ ہمیں یہوواہ خدا سے اور ہمارے بہن‌بھائیوں سے دُور کر دے۔‏ ہم ”‏عزیز فرزندوں کی طرح خدا کی مانند“‏ بنیں گے اور اپنے خاندان،‏کلیسیا اور مُنادی کے کام میں ہر ایک کے ساتھ محبت سے پیش آئیں گے۔‏—‏افس ۵:‏۱،‏ ۲‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 8 جس یونانی لفظ کا ترجمہ شہوت‌پرستی کِیا گیا ہے،‏ وہ ہٹ‌دھرمی سے غلط کام کرنے کے معنی رکھتا ہے۔‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۳۰ پر تصویر]‏

‏”‏قربان‌گاہ کے آگے اپنی نذر چھوڑ دے اور جا کر پہلے اپنے بھائی سے ملاپ کر۔‏“‏

‏[‏صفحہ ۳۱ پر تصویر]‏

اپنے بچوں کو دوسروں کا احترام کرنا سکھائیں۔‏