مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

اِبلیس کے پھندوں سے خبردار رہیں

اِبلیس کے پھندوں سے خبردار رہیں

اِبلیس کے پھندوں سے خبردار رہیں

‏’‏شیطان کے پھندے سے چھوٹیں۔‏‘‏—‏۲-‏تیم ۲:‏۲۶‏،‏ کیتھولک ترجمہ۔‏

آپ اِن سوالوں کے کیا جواب دیں گے؟‏

اگر آپ دوسروں پر تنقید کرنے کی طرف مائل ہیں تو آپ کو کیا کرنا چاہئے؟‏

پیلاطُس اور پطرس رسول خوف اور دباؤ کا شکار کیوں ہو گئے تھے اور ہم اُن کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

اگر ہم ماضی کے گُناہوں کی وجہ سے شرمندگی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں تو اِس بوجھ سے نکلنے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏

۱،‏ ۲.‏ ہم اِس مضمون میں شیطان کے کن پھندوں کے بارے میں بات کریں گے؟‏

اِبلیس،‏ یہوواہ خدا کے بندوں کا شکار کرنا چاہتا ہے۔‏ وہ ایسا شکاری نہیں جو ہمیشہ اپنے شکار کو ہلاک کر دیتا ہے۔‏ اِس کی بجائے وہ اپنے شکار کو زندہ پکڑنا چاہتا ہے تاکہ وہ اُسے اپنے اشاروں پر نچا سکے۔‏‏—‏۲-‏تیمتھیس ۲:‏۲۴-‏۲۶ کو فٹ نوٹ سے پڑھیں۔‏ *

۲ اپنے شکار کو زندہ پکڑنے کے لئے شکاری مختلف قسم کے پھندے استعمال کرتا ہے۔‏ وہ شاید پہلے شکار کو کُھلی جگہ پر لانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ وہ اُس کے گلے میں رسی ڈال کر اُسے پکڑ سکے۔‏ یا پھر وہ پھندے کو چھپا دیتا ہے اور جیسے ہی جانور اُس پر پاؤں رکھتا ہے،‏ وہ اُس میں پھنس جاتا ہے۔‏ شیطان،‏ خدا کے بندوں کا شکار کرنے کے لئے کچھ اِسی طرح کے پھندے استعمال کرتا ہے۔‏ اگر ہم شیطان کے چنگل سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏ ہمیں ایسی باتوں کو پہچاننے کے لئے چوکس رہنا چاہئے جن سے اندازہ ہو کہ ہم کہیں شیطان کے کسی پھندے میں پھنسنے والے تو نہیں۔‏ اِس مضمون میں تین ایسے پھندوں کے بارے میں بتایا گیا ہے جن کے ذریعے شیطان نے خدا کے بعض خادموں کا شکار کِیا ہے۔‏ یہ پھندے ہیں:‏ (‏۱)‏ زبان کا غلط استعمال،‏ (‏۲)‏ خوف اور دباؤ اور (‏۳)‏ شرمندگی کا بوجھ۔‏ ہم یہ دیکھیں گے کہ ہم اِن پھندوں میں پھنسنے سے کیسے بچ سکتے ہیں۔‏ اگلے مضمون میں شیطان کے دو اَور پھندوں پر بات کی جائے گی۔‏

زبان کا غلط استعمال آگ لگاتا ہے

۳،‏ ۴.‏ اگر ہم اپنی زبان کو قابو میں نہیں رکھتے تو اِس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے؟‏ مثال دیں۔‏

۳ بعض اوقات شکاری جنگل کے کچھ حصے کو آگ لگاتا ہے تاکہ جانور اپنی جگہ سے باہر نکل آئیں اور وہ اُنہیں پکڑ لے۔‏ شیطان بھی کلیسیا میں آگ بھڑکانا چاہتا ہے تاکہ کلیسیا کے ارکان اپنی اِس محفوظ جگہ سے باہر نکل آئیں۔‏ اِس صورت میں وہ اُنہیں آسانی سے دبوچ سکتا ہے۔‏ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم انجانے میں شیطان کا ساتھ دینے لگیں اور یوں اُس کے جال میں پھنس جائیں؟‏

۴ یسوع مسیح کے شاگرد یعقوب نے زبان کو آگ سے تشبیہ دی۔‏ ‏(‏یعقوب ۳:‏۶-‏۸ کو پڑھیں۔‏)‏ جس طرح آگ بہت زیادہ تباہی مچا سکتی ہے اُسی طرح اگر ہم اپنی زبان کو قابو میں نہیں رکھتے تو یہ کلیسیا میں بہت تباہی مچا سکتی ہے۔‏ اِس سلسلے میں ایک صورتحال پر غور کریں۔‏ فرض کریں کہ کلیسیا کے اجلاس پر یہ اعلان ہوتا ہے کہ فلاں بہن اب سے پہل‌کار کے طور پر خدمت کرے گی۔‏ اجلاس کے بعد دو بہنیں اُس بہن کے بارے میں بات کر رہی ہیں جو پہل‌کار بنی ہے۔‏ ایک بہن کہتی ہے کہ ”‏یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے۔‏“‏ جبکہ دوسری اُس کی نیت پر شک کرتی ہے اور کہتی ہے کہ ”‏وہ تو اِس لئے پہل‌کار بنی ہے کیونکہ اُسے کلیسیا میں آگےآگے رہنے کا بڑا شوق ہے۔‏“‏ آپ اِن دونوں بہنوں میں سے کس سے دوستی کرنا چاہیں گے؟‏ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اِن میں سے کون اپنی زبان کے ذریعے کلیسیا میں آگ لگا رہی ہے۔‏

۵.‏ اگر ہم اپنی زبان کے ذریعے آگ بھڑکانے سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏

۵ ہم اپنی زبان کے ذریعے کلیسیا میں آگ بھڑکانے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏ یسوع مسیح نے کہا تھا کہ ”‏جو دل میں بھرا ہے وہی مُنہ پر آتا ہے۔‏“‏ (‏متی ۱۲:‏۳۴‏)‏ لہٰذا سب سے پہلے ہمیں اپنے دل کی جانچ کرنے کی ضرورت ہے۔‏ کیا ہم اپنے دل سے ایسے خیالات کو نکال سکتے ہیں جن کی وجہ سے ہم دوسروں کو ٹھیس پہنچانے والی باتیں کہتے ہیں؟‏ فرض کریں کہ ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ایک بھائی کلیسیا میں ذمہ‌داریاں اُٹھانے کے لائق بننے کی کوشش کر رہا ہے۔‏ کیا ہم اُس بھائی کے بارے میں یہ سوچتے ہیں کہ وہ خدا اور بہن‌بھائیوں سے محبت کی وجہ سے ایسا کر رہا ہے؟‏ یا کیا ہم یہ سوچتے ہیں کہ وہ خود کو بڑا بنانا چاہتا ہے؟‏ یاد رکھیں کہ شیطان نے ایوب کی نیت پر شک کِیا تھا۔‏ ہم کبھی بھی شیطان کی مثال پر عمل کرنا نہیں چاہیں گے۔‏ اِس لئے ہم اپنے بہن‌بھائیوں کی نیت پر شک کرنے سے گریز کریں گے۔‏ (‏ایو ۱:‏۹-‏۱۱‏)‏ اپنے بھائی کی نیت پر شک کرنے کی بجائے ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ ہم اُس کے بارے میں غلط سوچ کیوں رکھتے ہیں۔‏ کیا ہمارے پاس اُس بھائی پر تنقید کرنے کی کوئی جائز وجہ ہے؟‏ یا پھر کیا ہم اِس آخری زمانے میں رہنے والے لوگوں کی سوچ سے متاثر ہو گئے ہیں جو محبت سے خالی ہیں؟‏—‏۲-‏تیم ۳:‏۱-‏۴‏۔‏

۶،‏ ۷.‏ ‏(‏الف)‏ ہم کن وجوہات کی بِنا پر دوسروں پر تنقید کرنے کی طرف مائل ہو سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ اگر کوئی ہمارے خلاف بات کرتا ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏

۶ آئیں،‏ کچھ اَور ایسی وجوہات پر غور کریں جن کی بِنا پر ہم دوسروں پر تنقید کرنے کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔‏ ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ہم خود کو دوسروں سے زیادہ بہتر ثابت کرنا چاہتے ہیں۔‏ یا پھر شاید ہمیں کوئی کام دیا گیا تھا لیکن ہم نے وہ کام نہیں کِیا اور اب اِس کے لئے ہم دوسروں کو قصوروار ٹھہراتے ہیں۔‏ چاہے ہم غرور یا حسد کی وجہ سے دوسروں پر تنقید کریں یا پھر احساسِ‌کمتری کی وجہ سے،‏ ہر صورت میں اِس سے نقصان ہی ہوتا ہے۔‏

۷ بعض اوقات شاید ہم یہ سوچیں کہ ہمارے پاس کسی پر تنقید کرنے کی جائز وجہ ہے۔‏ شاید اُس شخص نے ہمارے بارے میں کوئی بات کہی ہو جس سے ہمیں بہت دُکھ پہنچا تھا۔‏ لیکن اگر ہم بھی اُس کے خلاف باتیں کریں گے تو اِس سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ اَور بگڑے گا۔‏ اور اِس سے شیطان خوش ہوگا،‏ یہوواہ خدا نہیں۔‏ (‏۲-‏تیم ۲:‏۲۶‏،‏ کیتھولک ترجمہ)‏ اِس لئے ہمیں یسوع مسیح کی مثال پر عمل کرنا چاہئے۔‏ وہ ”‏گالیاں کھا کر گالی“‏ نہیں دیتے تھے بلکہ ”‏اپنے آپ کو سچے انصاف کرنے والے کے سپرد“‏ کرتے تھے۔‏ (‏۱-‏پطر ۲:‏۲۱-‏۲۳‏)‏ یسوع مسیح اِس بات پر بھروسا رکھتے تھے کہ یہوواہ خدا اپنے طریقے سے اور اپنے وقت پر تمام معاملات کو حل کرے گا۔‏ ہمیں بھی یہوواہ خدا پر بھروسا رکھنا چاہئے۔‏ جب ہم دوسروں کا حوصلہ بڑھانے والی باتیں کرتے ہیں تو اِس سے کلیسیا ”‏صلح کے بند سے بندھی“‏ رہتی ہے۔‏‏—‏افسیوں ۴:‏۱-‏۳ کو پڑھیں۔‏

خوف اور دباؤ کا پھندا

۸،‏ ۹.‏ پیلاطُس نے یسوع مسیح کو موت کی سزا کیوں دی؟‏

۸ جب کوئی جانور کسی پھندے میں پھنس جاتا ہے تو وہ اپنی مرضی سے حرکت نہیں کر سکتا۔‏ اِسی طرح جب ایک شخص کسی خوف اور دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے تو وہ اکثر چاہ کر بھی صحیح کام نہیں کر پاتا۔‏ ‏(‏امثال ۲۹:‏۲۵ کو پڑھیں۔‏)‏ اِس سلسلے میں آئیں،‏ دو آدمیوں کی مثال پر غور کریں جو خوف اور دباؤ کا شکار ہو گئے تھے۔‏ ہم دیکھیں گے کہ ہم اُن کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔‏

۹ رومی گورنر پُنطیُس پیلاطُس جانتے تھے کہ یسوع مسیح بےگُناہ ہیں اور اِس لئے وہ اُنہیں سزا نہیں دینا چاہتے تھے۔‏ پیلاطُس نے یہاں تک کہا کہ یسوع سے ”‏کوئی ایسا فعل سرزد نہیں ہوا جس سے وہ قتل کے لائق ٹھہرتا۔‏“‏ پھر بھی پیلاطُس نے اُنہیں موت کی سزا دی۔‏ اُنہوں نے ایسا کیوں کِیا؟‏ کیونکہ وہ لوگوں کے دباؤ میں آ گئے تھے۔‏ (‏لو ۲۳:‏۱۵،‏ ۲۱-‏۲۵‏)‏ لوگوں نے اپنی بات منوانے کے لئے پیلاطُس سے کہا کہ ”‏اگر تُو اِس کو چھوڑے دیتا ہے تو قیصر کا خیرخواہ نہیں۔‏“‏ (‏یوح ۱۹:‏۱۲‏)‏ پیلاطُس کو ڈر تھا کہ اگر اُنہوں نے یسوع مسیح کی حمایت کی تو وہ اپنے عہدے سے یا پھر شاید اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔‏ یوں اُنہوں نے دباؤ میں آکر وہ کام کِیا جو شیطان کروانا چاہتا تھا۔‏

۱۰.‏ پطرس رسول نے یسوع مسیح کا انکار کیوں کِیا؟‏

۱۰ پطرس رسول،‏ یسوع مسیح کے بہت قریبی دوست تھے۔‏ اُنہوں نے اقرار کِیا کہ یسوع ہی مسیح ہیں۔‏ (‏متی ۱۶:‏۱۶‏)‏ ایک مرتبہ بعض شاگرد یسوع مسیح کی ایک بات کو نہ سمجھ پائے اور اُنہیں چھوڑ کر چلے گئے لیکن پطرس رسول نے یسوع مسیح کا ساتھ نہ چھوڑا۔‏ (‏یوح ۶:‏۶۶-‏۶۹‏)‏ اور جب دُشمن یسوع مسیح کو گرفتار کرنے کے لئے آئے تو پطرس رسول نے اپنے خداوند کی حفاظت کرنے کے لئے تلوار نکال لی۔‏ (‏یوح ۱۸:‏۱۰،‏ ۱۱‏)‏ لیکن بعد میں پطرس رسول اِس قدر خوفزدہ ہو گئے کہ اُنہوں نے یسوع مسیح کو پہچاننے سے بھی انکار کر دیا۔‏ وہ وقتی طور پر انسان کے ڈر کا شکار ہو گئے اور یسوع مسیح کا انکار کر بیٹھے۔‏—‏متی ۲۶:‏۷۴،‏ ۷۵‏۔‏

۱۱.‏ آج‌کل ہم پر کون‌سے غلط کام کرنے کے لئے دباؤ ڈالا جاتا ہے؟‏

۱۱ آج‌کل ہم پر بھی غلط کام کرنے کے لئے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔‏ شاید ہمارے مالک یا دوسرے لوگ ہمیں بددیانتی کرنے پر مجبور کریں۔‏ یا پھر ہمیں حرام‌کاری کرنے کے لئے ورغلائیں۔‏ طالبعلموں پر شاید اُن کے سکول کے ساتھی اِمتحان میں نقل کرنے،‏ گندی تصویریں دیکھنے،‏ سگریٹ پینے،‏ منشیات استعمال کرنے،‏ حد سے زیادہ شراب پینے یا پھر جنسی حرکتیں کرنے کے لئے دباؤ ڈالیں۔‏ انسان کے خوف اور دباؤ میں آکر ہم ایسے کام کرنے کی طرف مائل ہو سکتے ہیں جو یہوواہ خدا کو پسند نہیں۔‏ لیکن ہم اِس پھندے سے بچنے کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟‏

۱۲.‏ ہم پیلاطُس اور پطرس رسول کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۱۲ آئیں،‏ اب ہم یہ دیکھیں کہ ہم پیلاطُس اور پطرس رسول کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔‏ پیلاطُس،‏ یسوع مسیح کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے تھے۔‏ مگر اُنہیں اِتنا ضرور معلوم تھا کہ یسوع مسیح بےقصور ہیں اور کوئی عام انسان نہیں ہیں۔‏ لیکن پیلاطُس میں خاکساری کی کمی تھی اور وہ خدا سے محبت بھی نہیں کرتے تھے۔‏ اِس لئے شیطان نے پیلاطُس سے بڑی آسانی کے ساتھ اپنا مقصد پورا کروا لیا۔‏ پیلاطُس کے برعکس پطرس رسول خدا کے بارے میں جانتے تھے اور اُس سے محبت بھی کرتے تھے۔‏ لیکن بعض اوقات وہ شیخی مارتے،‏ خوفزدہ ہو جاتے اور دباؤ میں آکر غلط کام کرتے تھے۔‏ یسوع مسیح کی گرفتاری سے پہلے اُنہوں نے بڑے فخر سے کہا:‏ ”‏گو سب ٹھوکر کھائیں لیکن مَیں نہ کھاؤں گا۔‏“‏ (‏مر ۱۴:‏۲۹‏)‏ اگر پطرس رسول نے زبور نویس کی طرح خدا پر بھروسا کِیا ہوتا تو وہ اُن مشکل گھڑیوں کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہتے جو اُن پر آنے والی تھیں۔‏ زبور نویس نے کہا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ میری طرف ہے مَیں نہیں ڈرنے کا۔‏ انسان میرا کیا کر سکتا ہے؟‏“‏ (‏زبور ۱۱۸:‏۶‏)‏ اپنی موت سے پہلے کی رات یسوع مسیح،‏ پطرس اور دو اَور رسولوں کو اپنے ساتھ گتسمنی باغ میں لے کر گئے۔‏ پطرس رسول اور اُن کے ساتھی جاگتے رہنے کی بجائے سو گئے۔‏ یسوع مسیح نے اُن سے کہا:‏ ”‏جاگو اور دُعا کرو تاکہ آزمایش میں نہ پڑو۔‏“‏ (‏مر ۱۴:‏۳۸‏)‏ لیکن پطرس رسول پھر سو گئے اور بعد میں جب اُن پر مشکل گھڑی آئی تو وہ خوف اور دباؤ کا شکار ہو گئے۔‏

۱۳.‏ جب ہم پر غلط کام کرنے کے لئے دباؤ ڈالا جاتا ہے تو ہم اُس کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۱۳ پیلاطُس اور پطرس رسول کی مثال سے ہم سیکھتے ہیں کہ انسان کے خوف اور دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم خدا کے بارے میں جانیں اور اپنے اندر خاکساری کی خوبی پیدا کریں۔‏ اِس کے علاوہ ہم کبھی بھی شیخی نہ ماریں،‏ خدا سے محبت کریں اور صرف اُسی کا خوف مانیں۔‏ اگر ہم خدا کے بارے میں صحیح علم رکھتے ہیں تو ہمارا ایمان مضبوط ہوگا اور ہم دلیری سے دوسروں کو خدا اور اُس کے مقصد کے بارے میں بتائیں گے۔‏ یوں ہم انسان کے خوف اور دباؤ کا مقابلہ کر نے کے قابل ہوں گے۔‏ بِلاشُبہ ہمیں اپنی طاقت اور صلاحیت پر حد سے زیادہ بھروسا نہیں کرنا چاہئے۔‏ ہمیں عاجزی سے یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ ہمیں کسی خوف یا دباؤ پر غالب آنے کے لئے خدا کی مدد کی ضرورت ہے۔‏ ہمیں یہوواہ خدا سے پاک روح مانگنی چاہئے اور خدا سے محبت کرنے کی وجہ سے ایسے کاموں سے کنارہ کرنا چاہئے جن سے اُس کی بدنامی ہو سکتی ہے۔‏ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم کسی بھی مشکل گھڑی سے نپٹنے کے لئے پہلے سے تیار رہیں۔‏ مثال کے طور پر اپنے بچوں کے ساتھ مل کر دُعا کریں اور اُنہیں یہ سکھائیں کہ جب اُن کے دوست اُن پر کوئی غلط کام کرنے کے لئے دباؤ ڈالیں تو اُنہیں کیا کرنا چاہئے۔‏—‏۲-‏کر ۱۳:‏۷‏۔‏ *

شرمندگی کا بوجھ

۱۴.‏ شیطان ہمارے اندر کیا احساس پیدا کرنا چاہتا ہے؟‏

۱۴ بعض اوقات شکاری بہت بڑے درخت کا تنا یا بہت بڑا پتھر ایک رسی کے ذریعے اُس راستے پر لٹکا دیتا ہے جہاں سے جانور اکثر گزرتے ہیں۔‏ اور باقی کی رسی اُس راستے پر بچھا دیتا ہے۔‏ جیسے ہی کسی جانور کا پاؤں اُس رسی پر پڑتا ہے،‏ وہ تنا یا پتھر اُس جانور پر گِر جاتا ہے اور اُسے کچل کر رکھ دیتا ہے۔‏ اگر ہم ماضی کے گُناہوں کی وجہ سے شرمندگی کے بوجھ تلے دبے رہتے ہیں تو یہ ایسے ہی ہے جیسے ہم ایک بہت بڑے تنے یا بہت بڑے پتھر کے نیچے دب گئے ہوں۔‏ ہم شاید ”‏نہایت کچلا ہوا“‏ محسوس کریں۔‏ ‏(‏زبور ۳۸:‏۳-‏۵،‏ ۸ کو پڑھیں۔‏)‏ شیطان ہمارے اندر یہ احساس پیدا کرنا چاہتا ہے کہ ہم خدا کی معافی کے لائق نہیں اور ہم اُس کے معیاروں پر کبھی بھی پورا نہیں اُتر سکتے۔‏

۱۵،‏ ۱۶.‏ اگر ہم ماضی کے گُناہوں کی وجہ سے شرمندگی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں تو اُس بوجھ سے نکلنے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏

۱۵ ہم شیطان کے اِس پھندے سے کیسے بچ سکتے ہیں جو ہمیں کچل سکتا ہے؟‏ اگر آپ سے کوئی سنگین گُناہ ہو گیا ہے تو پھر سے یہوواہ خدا کے قریب آنے کے لئے فوراً قدم اُٹھائیں۔‏ اِس سلسلے میں کلیسیا کے بزرگوں سے مدد مانگیں۔‏ (‏یعقو ۵:‏۱۴-‏۱۶‏)‏ اپنی غلطی کو سدھارنے کی پوری کوشش کریں۔‏ اگر بزرگ آپ کی اصلاح کرتے ہیں تو بےدل نہ ہوں۔‏ یاد رکھیں ’‏یہوواہ خدا اُسی کو تنبیہ کرتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔‏‘‏ (‏عبر ۱۲:‏۶‏)‏ یہ عزم کریں کہ آپ دوبارہ یہ سنگین غلطی نہیں کریں گے اور اُن کاموں سے بچیں گے جن کی وجہ سے آپ سے یہ غلطی ہوئی تھی۔‏ جب آپ اپنے گُناہ سے توبہ کر لیتے ہیں اور اپنی بُری روِش سے باز آ جاتے ہیں تو ایمان رکھیں کہ یسوع مسیح کی قربانی کی بدولت آپ کے گُناہ معاف ہو جائیں گے۔‏—‏۱-‏یوح ۴:‏۹،‏ ۱۴‏۔‏

۱۶ بعض مسیحی اپنے اُن گُناہوں کی وجہ سے شرمندگی کے بوجھ تلے دبے رہتے ہیں جو دراصل خدا نے معاف کر دئے ہوتے ہیں۔‏ اگر آپ بھی اِسی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں تو یاد رکھیں کہ یہوواہ خدا معاف کرنے کو تیار رہتا ہے۔‏ اُس نے پطرس اور دیگر رسولوں کو معاف کر دیا تھا حالانکہ وہ ایک نہایت مشکل گھڑی میں اُس کے بیٹے یسوع مسیح کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔‏ یہوواہ خدا نے اُس شخص کو بھی معاف کر دیا تھا جسے گھنونے گُناہ کی وجہ سے کُرنتھس کی کلیسیا سے نکال دیا گیا تھا۔‏ چونکہ اُس شخص نے اپنے گُناہ سے توبہ کر لی تھی اِس لئے اُسے معافی ملی۔‏ (‏۱-‏کر ۵:‏۱-‏۵؛‏ ۲-‏کر ۲:‏۶-‏۸‏)‏ خدا کے کلام میں ایسے اَور بھی بہت سے لوگوں کا ذکر کِیا گیا ہے جنہوں نے سنگین گُناہ کئے مگر اُنہوں نے توبہ کی اور یہوواہ خدا نے اُنہیں معاف کر دیا۔‏—‏۲-‏توا ۳۳:‏۲،‏ ۱۰-‏۱۳؛‏ ۱-‏کر ۶:‏۹-‏۱۱‏۔‏

۱۷.‏ یسوع مسیح کی قربانی پر ایمان رکھنے سے ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟‏

۱۷ اگر آپ اپنے گُناہوں سے توبہ کر لیتے ہیں اور یسوع مسیح کی قربانی پر ایمان رکھتے ہیں تو یہوواہ خدا آپ کے گُناہوں کو معاف کر دے گا اور اُنہیں بھول جائے گا۔‏ کبھی بھی یہ نہ سوچیں کہ آپ کے گُناہوں کی معافی کے لئے یسوع مسیح کی قربانی کافی نہیں ہے۔‏ اگر آپ ایسا سوچیں گے تو آپ شیطان کے پھندے میں پھنس جائیں گے۔‏ شیطان ہمارے اندر یہ احساس پیدا کرنا چاہتا ہے کہ یسوع مسیح کی قربانی سے ہمارے تمام گُناہ معاف نہیں ہو سکتے۔‏ لیکن جو لوگ اپنے گُناہوں سے توبہ کرتے ہیں،‏ اُنہیں اپنے تمام گُناہوں سے معافی ملتی ہے۔‏ (‏امثا ۲۴:‏۱۶‏)‏ یسوع مسیح کی قربانی پر ایمان رکھنے سے ہم شرمندگی کے اُس بوجھ سے نکل سکتے ہیں جو ماضی کے گُناہوں کی وجہ سے ہم پر آن پڑتا ہے۔‏ اِس کے علاوہ ہمیں پورے دل،‏ عقل اور جان سے یہوواہ خدا کی خدمت کرنے کا حوصلہ بھی ملتا ہے۔‏—‏متی ۲۲:‏۳۷‏۔‏

ہم شیطان کے حیلوں سے ناواقف نہیں

۱۸.‏ ہم شیطان کے پھندوں سے بچنے کے قابل کیسے ہو سکتے ہیں؟‏

۱۸ شیطان کو اِس بات سے غرض نہیں کہ ہم کس پھندے میں پھنستے ہیں،‏ وہ تو بس ہمیں کسی نہ کسی طرح پکڑنا چاہتا ہے۔‏ چونکہ ہم شیطان کے پھندوں سے واقف ہیں اِس لئے ہم اُس کے ہر داؤ سے بچ سکتے ہیں۔‏ (‏۲-‏کر ۲:‏۱۰،‏ ۱۱‏)‏ اگر ہم مشکلات سے نپٹنے کے لئے خدا سے حکمت مانگتے ہیں تو ہم شیطان کے پھندے میں نہیں پھنسیں گے۔‏ شاگرد یعقوب نے لکھا:‏ ”‏اگر تُم میں سے کسی میں حکمت کی کمی ہو تو خدا سے مانگے جو بغیر ملامت کئے سب کو فیاضی کے ساتھ دیتا ہے۔‏ اُس کو دی جائے گی۔‏“‏ (‏یعقو ۱:‏۵‏)‏ اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہمیں حکمت بخشے تو ہمیں اُس کے کلام کا مطالعہ کرنا چاہئے اور اُس کے معیاروں کے مطابق زندگی گزارنی چاہئے۔‏ اِس کے علاوہ ہمیں وہ کتابیں اور رسالے بھی پڑھنے چاہئیں جو دیانت‌دار نوکر شائع کرتا ہے۔‏ اِن کتابوں اور رسالوں کے ذریعے ہم سیکھ سکتے ہیں کہ شیطان کون‌سے پھندے استعمال کرتا ہے اور ہم اُن سے کیسے بچ سکتے ہیں۔‏

۱۹،‏ ۲۰.‏ ہمیں بدی سے نفرت کیوں کرنی چاہئے؟‏

۱۹ جب ہم باقاعدگی سے دُعا کرتے اور بائبل کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمارے دل میں ایسے کاموں کے لئے محبت بڑھتی ہے جو یہوواہ خدا کو پسند ہیں۔‏ لیکن یہ بھی بہت ضروری ہے کہ ہم بدی سے نفرت کریں۔‏ (‏زبور ۹۷:‏۱۰‏)‏ بُرے کاموں کے انجام پر غور کرنے سے ہم میں یہ خواہش بڑھے گی کہ ہم ایسے کاموں سے کنارہ کریں۔‏ (‏یعقو ۱:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ جب ہم بدی سے نفرت اور نیکی سے محبت کرنا سیکھ جاتے ہیں تو پھر شیطان ہمیں پھنسانے کے لئے چاہے جو بھی چارہ استعمال کرے،‏ وہ ہمیں لبھا نہیں پائے گا۔‏

۲۰ ہم یہوواہ خدا کے بہت شکرگزار ہیں کہ وہ شیطان کے پھندوں سے بچنے کے لئے ہماری مدد کرتا ہے۔‏ یہوواہ خدا اپنی پاک روح،‏ اپنے کلام اور کلیسیا کے ذریعے ہمیں ”‏بُرائی [‏”‏شیطان،‏“‏ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن]‏ سے“‏ بچاتا ہے۔‏ (‏متی ۶:‏۱۳‏)‏ اگلے مضمون میں ہم شیطان کے دو اَور پھندوں کے بارے میں سیکھیں گے جن کے ذریعے وہ خدا کے کچھ بندوں کا شکار کرنے میں کامیاب رہا ہے۔‏ ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ ہم اِن پھندوں سے کیسے بچ سکتے ہیں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 1 ‏”‏اور مناسب نہیں کہ خداوند کا بندہ جھگڑا کرے بلکہ سب کے ساتھ حلیم اور تعلیم دینے کے لائق اور صابر ہو۔‏ اور مخالفوں کو نرمی کے ساتھ سمجھائے شاید خدا اُنہیں توبہ کی توفیق بخشے تاکہ وہ حق کو پہچانیں۔‏ اور تاکہ وہ شیطان کے پھندے سے چھوٹ سکیں جنہیں اُس نے اپنی مرضی کی خاطر اسیر کِیا ہوا ہے۔‏“‏‏—‏کیتھولک ترجمہ۔‏

^ پیراگراف 13 اِس سلسلے میں یکم نومبر ۲۰۱۰ء کے مینارِنگہبانی کے صفحہ ۱۶-‏۲۰ اور جولائی ۲۰۱۱ء کی ہماری بادشاہتی خدمتگزاری کے صفحہ ۲ کو دیکھیں۔‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

جس طرح آگ بہت زیادہ تباہی مچا سکتی ہے اُسی طرح اگر ہم اپنی زبان کو قابو میں نہیں رکھتے تو یہ کلیسیا میں بہت تباہی مچا سکتی ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۷ پر تصویر]‏

ہم شرمندگی کے بوجھ کو اُتار سکتے ہیں جو ہمارے گُناہوں کی وجہ سے ہم پر آن پڑتا ہے۔‏