مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏’‏مَیں تمہارے ساتھ ہوں‘‏

‏’‏مَیں تمہارے ساتھ ہوں‘‏

‏’‏مَیں تمہارے ساتھ ہوں‘‏

‏’‏بہتیرے تفتیش‌وتحقیق کریں گے اور معرفت افزوں ہوگی۔‏‘‏—‏دان ۱۲:‏۴‏،‏ کیتھولک ترجمہ۔‏

آپ اِن سوالوں کے کیا جواب دیں گے؟‏

ہمارے زمانے میں پاک کلام کی سچائیاں کیسے دریافت ہوئیں؟‏

بائبل کی سچائیوں کو قبول کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کیسے ہوا؟‏

پوری دُنیا میں پاک کلام کی سچائیوں کا علم کیسے پھیل گیا ہے؟‏

۱،‏ ۲.‏ ‏(‏الف)‏ ہم کیسے جانتے ہیں یسوع مسیح آج بھی ہمارے ساتھ ہیں اور مستقبل میں بھی ہمارے ساتھ ہوں گے؟‏ (‏ب)‏ دانی‌ایل ۱۲:‏۴ کے مطابق پاک کلام پر تحقیق کرنے سے کیا نتیجہ نکلتا ہے؟‏

تصور کریں کہ آپ فردوس میں ہیں۔‏ ہر صبح جب آپ اُٹھتے ہیں تو آپ تروتازہ محسوس کرتے ہیں۔‏ آپ ایک نئے دن کا آغاز کرنے کے لئے جوش سے بھرے ہوتے ہیں۔‏ آپ کے جسم میں کسی قسم کی درد نہیں ہے۔‏ آپ کی دیکھنے،‏ سننے،‏ سُونگھنے،‏ چُھونے اور چکھنے کی حس اچھی طرح کام کر رہی ہے۔‏ آپ پوری طرح تندرست اور توانا ہیں۔‏ آپ اپنے ہر کام سے لطف اُٹھاتے ہیں،‏ آپ کے بہت سے دوست ہیں اور آپ ہر طرح کے غم اور فکر سے آزاد ہیں۔‏ خدا کی بادشاہت میں آپ کو ایسی شاندار برکتیں ملیں گی۔‏ اِس بادشاہت کے بادشاہ یسوع مسیح ہیں۔‏ وہ اپنی رعایا کو نہ صرف برکتیں دیں گے بلکہ اُنہیں یہوواہ خدا کے بارے میں تعلیم بھی دیں گے۔‏

۲ فردوس میں خدا کے وفادار بندوں کو یہ ذمہ‌داری سونپی جائے گی کہ وہ اُن لوگوں کو خدا کے بارے میں تعلیم دیں جنہیں مُردوں میں سے زندہ کِیا جائے گا۔‏ اِس کام میں یہوواہ خدا اور یسوع مسیح اپنے خادموں کی مدد کریں گے۔‏ دراصل یہوواہ خدا اور یسوع مسیح صدیوں سے اپنے بندوں کی مدد کرتے آ رہے ہیں۔‏ یسوع مسیح نے آسمان پر جانے سے پہلے اپنے شاگردوں سے وعدہ کِیا تھا کہ ’‏مَیں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا۔‏‘‏ ‏(‏متی ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰ کو پڑھیں۔‏)‏ آئیں،‏ ایک پیشین‌گوئی پر غور کریں جس سے یسوع مسیح کے وعدے پر ہمارا ایمان اَور مضبوط ہو جائے گا۔‏ یہ پیشین‌گوئی دانی‌ایل نبی نے ۲۵۰۰ سال پہلے لکھی تھی جب وہ بابل کے ملک میں تھے۔‏ اُنہوں نے ’‏آخری زمانے‘‏ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’‏بہتیرے تفتیش‌وتحقیق کریں گے اور معرفت افزوں ہوگی۔‏‘‏ (‏دان ۱۲:‏۴‏،‏ کیتھولک ترجمہ)‏ اِس پیشین‌گوئی سے پتہ چلتا ہے کہ جو لو گ خدا کے کلام پر تحقیق کریں گے،‏ اُنہیں معرفت یعنی کلام کی سچائیوں کے بارے میں علم حاصل ہوگا۔‏ اِس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ”‏معرفت افزوں ہوگی“‏ یعنی پاک کلام کی سچائیوں کا علم پھیلے گا۔‏ پوری دُنیا میں بہت سے لوگ یہ سچائیاں قبول کریں گے اور دوسروں کو اِن کی تعلیم دیں گے۔‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ یہ پیشین‌گوئی کیسے پوری ہوئی ہے۔‏ اِس پیشین‌گوئی کی تکمیل پر غور کرنے سے اِس بات پر ہمارا ایمان مضبوط ہوگا کہ یسوع مسیح آج بھی اپنے شاگردوں کے ساتھ ہیں اور یہوواہ خدا اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔‏

پاک کلام کی سچائیاں دریافت ہوتی ہیں

۳.‏ رسولوں کی موت کے بعد کیا ہوا؟‏

۳ رسولوں کی موت کے بعد مسیحی مذہب میں جھوٹے اُستاد گھس آئے جن کی تعلیمات آگ کی طرح پھیل گئیں۔‏ (‏اعما ۲۰:‏۲۸-‏۳۰؛‏ ۲-‏تھس ۲:‏۱-‏۳‏)‏ کئی صدیوں تک پاک کلام کی سچائیوں کا علم دب کر رہ گیا۔‏ یہاں تک کہ جو لوگ مسیحی ہونے کا دعویٰ کرتے تھے،‏ اُن میں سے بھی بہت سے لوگ پاک کلام کی سچائیوں کو نہیں جانتے تھے۔‏ مسیحی رہنما پاک کلام کو ماننے کا دعویٰ تو کرتے تھے مگر وہ لوگوں کو جھوٹی تعلیم دیتے تھے جو دراصل ”‏شیاطین کی تعلیم“‏ تھی۔‏ ایسی تعلیم یہوواہ خدا کی بدنامی کا باعث بنی۔‏ (‏۱-‏تیم ۴:‏۱‏)‏ زیادہ‌تر لوگ خدا کی ذات اور مقصد کے بارے میں سچائی جاننے سے محروم رہے۔‏ مثال کے طور پر اُنہیں تثلیث کے عقیدے کی تعلیم دی گئی،‏ اُنہیں سکھایا گیا کہ جسم تو مر جاتا ہے مگر روح نہیں مرتی اور بعض روحوں کو دوزخ میں ہمیشہ تک تڑپایا جاتا ہے۔‏

۴.‏ سن ۱۸۷۰ء میں کچھ مسیحیوں نے پاک کلام کی سچائیوں کو سمجھنے کے لئے کیا کرنا شروع کِیا؟‏

۴ لیکن ”‏اخیر زمانہ“‏ شروع ہونے سے تقریباً ۴۰ سال پہلے صورتحال کچھ بدلنے لگی۔‏ (‏۲-‏تیم ۳:‏۱‏)‏ سن ۱۸۷۰ء میں امریکہ کی ریاست پینسلوانیہ میں کچھ خلوص‌دل مسیحیوں نے مل کر پاک کلام کا گہرا مطالعہ کرنا شروع کِیا۔‏ اُن کا مقصد تھا کہ وہ پاک کلام کی سچائیوں کا علم حاصل کریں۔‏ اُنہوں نے اپنا نام بائبل سٹوڈنٹس رکھا۔‏ یسوع مسیح نے کہا تھا کہ دُنیا کے ”‏داناؤں اور عقل‌مندوں“‏ سے پاک کلام کی سچائیوں کا علم چھپایا جائے گا۔‏ (‏متی ۱۱:‏۲۵‏)‏ لیکن بائبل سٹوڈنٹس وہ ’‏دانا اور عقل‌مند‘‏ نہیں تھے جن کا ذکر یسوع مسیح نے کِیا تھا۔‏ بائبل سٹوڈنٹس خاکسار تھے اور خدا کی مرضی کے مطابق چلنے کی دلی خواہش رکھتے تھے۔‏ وہ پاک صحیفوں کو پڑھتے تھے،‏ اُن پر بات‌چیت کرتے تھے اور سوچ‌بچار کرتے تھے۔‏ اِس کے علاوہ وہ رہنمائی کے لئے خدا سے دُعا کرتے تھے۔‏ جب وہ کسی موضوع پر بات کرتے تھے تو وہ اُس موضوع کے بارے میں مختلف آیتوں پر غور کرتے تھے۔‏ وہ دوسرے لوگوں کی کتابوں کا جائزہ بھی لیتے تھے جنہوں نے بائبل پر کچھ تحقیق کی تھی۔‏ وقت کے ساتھ‌ساتھ بائبل سٹوڈنٹس نے اُن سچائیوں کو دریافت کر لیا جو صدیوں سے زیادہ‌تر لوگوں کی نظروں سے چھپی ہوئی تھیں۔‏

۵.‏ بائبل سٹوڈنٹس نے جو سلسلہ‌وار اشتہار شائع کئے،‏ اُن کا مقصد کیا تھا؟‏

۵ بائبل سٹوڈنٹس خوش تھے کہ وہ پاک کلام سے بہت سی باتیں سیکھ رہے ہیں۔‏ لیکن اِس کی وجہ سے وہ غرور میں نہیں آئے تھے۔‏ (‏۱-‏کر ۸:‏۱‏)‏ وہ جانتے تھے کہ یہ باتیں تو شروع سے ہی پاک کلام میں موجود ہیں۔‏ اِس لئے وہ لوگوں کو یہ تاثر نہیں دیتے تھے کہ وہ اُنہیں کوئی نئی تعلیم دے رہے ہیں بلکہ وہ بائبل کی سچائیاں سمجھنے میں دوسروں کی مدد کرتے تھے۔‏ اُنہوں نے سلسلہ‌وار اشتہار ‏(‏دی اولڈ تھیالوجی)‏ شائع کئے جن کا مقصد یہ تھا کہ لوگ بائبل کی سچائیوں کے بارے میں سیکھیں۔‏ پہلے چند اشتہاروں سے لوگوں کو مدد ملی کہ وہ بائبل کا مطالعہ کریں تاکہ وہ ”‏انسانوں کی جھوٹی روایتوں کو چھوڑ کر یسوع مسیح اور رسولوں کی اصلی تعلیم کو قبول کریں۔‏“‏‏—‏دی اولڈ تھیالوجی جلد نمبر ۱،‏ اپریل ۱۸۸۹ء،‏ صفحہ ۳۲۔‏

۶،‏ ۷.‏ ‏(‏الف)‏ سن ۱۸۷۰ء سے لے کر اب تک یہوواہ کے گواہوں نے پاک کلام سے کون‌سی سچائیاں سیکھی ہیں؟‏ (‏ب)‏ آپ کو خاص طور پر کون‌سی سچائیاں سیکھ کر خوشی ہوئی ہے؟‏

۶ سن ۱۸۷۰ء سے لے کر اب تک یہوواہ کے گواہوں نے پاک کلام سے بہت سی سچائیاں سیکھی ہیں۔‏ * اِن سچائیوں کو جاننے سے صرف ہمارا علم ہی نہیں بڑھتا بلکہ ہماری زندگیوں پر بھی گہرا اثر ہوتا ہے۔‏ ہمیں خوشی حاصل ہوتی ہے اور ایک اچھے مستقبل کی اُمید ملتی ہے۔‏ اِن انمول سچائیوں کی بدولت ہم اپنے شفیق خدا یہوواہ کو اور اُس کے مقصد کو جاننے کے قابل ہوتے ہیں۔‏ ہم یہ سمجھ جاتے ہیں کہ یسوع مسیح کون ہیں؟‏ اُنہوں نے زمین پر آکر اپنی جان کیوں قربان کی تھی؟‏ اور اب وہ آسمان پر کیا کر رہے ہیں؟‏ ہم یہ بھی جان جاتے ہیں کہ خدا نے اب تک بُرائی کو ختم کیوں نہیں کِیا؟‏ ہم کیوں مرتے ہیں؟‏ ہمیں دُعا کیسے کرنی چاہئے؟‏ اور ہم حقیقی خوشی کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟‏

۷ ہم اُن پیشین‌گوئیوں کا مطلب بھی سمجھتے ہیں جو ہزاروں سال سے ”‏بندوسربمہر“‏ رہیں لیکن اب اِس آخری زمانے میں پوری ہو رہی ہیں۔‏ (‏دان ۱۲:‏۹‏)‏ اِن میں سے بہت سی پیشین‌گوئیاں اِنجیلوں اور مکاشفہ کی کتاب میں ملتی ہیں۔‏ یہوواہ خدا نے اُن واقعات کو سمجھنے میں ہماری مدد کی ہے جو آسمان پر ہوئے تھے۔‏ مثال کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ یسوع مسیح آسمان پر بادشاہ بنے،‏ آسمان پر جنگ ہوئی جس کے نتیجے میں شیطان کو زمین پر پھینک دیا گیا۔‏ (‏مکا ۱۲:‏۷-‏۱۲‏)‏ یہوواہ خدا نے زمین پر ہونے والے واقعات کو سمجھنے میں بھی ہماری مدد کی ہے۔‏ مثلاً ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آج‌کل جنگیں کیوں ہو رہی ہیں؟‏ زلزلے کیوں آتے ہیں؟‏ بیماریاں کیوں پھیل رہی ہیں؟‏ کال کیوں پڑتے ہیں اور لوگ ایسے کام کیوں کرتے ہیں جن کی وجہ سے دُنیا میں رہنا مشکل ہو گیا ہے؟‏—‏۲-‏تیم ۳:‏۱-‏۵؛‏ لو ۲۱:‏۱۰،‏ ۱۱‏۔‏

۸.‏ ہمیں پاک کلام کی سچائیوں کو سمجھنے کے قابل کس نے بنایا ہے؟‏

۸ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا تھا:‏ ”‏مبارک ہیں وہ آنکھیں جو یہ باتیں دیکھتی ہیں جنہیں تُم دیکھتے ہو۔‏ کیونکہ مَیں تُم سے کہتا ہوں کہ بہت سے نبیوں اور بادشاہوں نے چاہا کہ جو باتیں تُم دیکھتے ہو دیکھیں مگر نہ دیکھیں اور جو باتیں تُم سنتے ہو سنیں مگر نہ سنیں۔‏“‏ (‏لو ۱۰:‏۲۳،‏ ۲۴‏)‏ یہ یہوواہ خدا کی مہربانی ہے کہ اُس نے ہمیں پاک کلام کی سچائیوں کو سمجھنے کے قابل بنایا ہے۔‏ ہم اُس کے شکرگزار ہیں کہ اُس نے ”‏مددگار“‏ یعنی روحُ‌القدس کے ذریعے یسوع مسیح کے پیروکاروں کو ”‏تمام سچائی کی راہ“‏ دِکھائی ہے۔‏ ‏(‏یوحنا ۱۶:‏۷،‏ ۱۳ کو پڑھیں۔‏)‏ آئیں،‏ ہم یہ عزم کریں کہ ہم پاک کلام کے علم کی ہمیشہ قدر کریں گے اور اِسے دوسروں میں بانٹیں گے۔‏

‏”‏بہتیرے“‏ بائبل کی سچائیوں کو قبول کرتے ہیں

۹.‏ اپریل ۱۸۸۱ء کے مینارِنگہبانی کے ایک مضمون میں لوگوں کو کیا دعوت دی گئی تھی؟‏

۹ جولائی ۱۸۷۹ء سے رسالہ مینارِنگہبانی چھپنا شروع ہوا۔‏ ابھی اِس کی چھپائی کو شروع ہوئے دو سال بھی نہیں ہوئے تھے کہ اپریل ۱۸۸۱ء کے شمارے میں ایک مضمون شائع ہوا جس کا عنوان تھا ”‏۱۰۰۰ مبشروں کی ضرورت ہے۔‏“‏ اِس مضمون میں اُن لوگوں کو پہل‌کاروں کے طور پر خدمت کرنے کی دعوت دی گئی جو اپنا زیادہ‌تر وقت مُنادی کے کام میں صرف کر سکتے تھے۔‏ اُن سے کہا گیا کہ وہ چھوٹے بڑے شہروں میں جائیں اور وہاں ایسے مسیحیوں کو تلاش کریں جو خدا سے محبت تو کرتے ہیں مگر اُس کے بارے میں صحیح علم نہیں رکھتے۔‏ اور جب اُنہیں ایسے مسیحی ملیں تو وہ اُنہیں خدا اور پاک کلام کی سچائیوں کے بارے میں تعلیم دیں۔‏

۱۰.‏ بعض لوگوں نے پہل‌کار بننے کی دعوت کے لئے کیسا ردِعمل ظاہر کِیا؟‏

۱۰ بائبل سٹوڈنٹس نے لوگوں کو پہل‌کار بننے کی دعوت اِس لئے دی تھی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ خوشخبری کی مُنادی کرنا سچے مسیحیوں کی ذمہ‌داری ہے۔‏ اُس وقت بائبل سٹوڈنٹس کے اجلاسوں پر صرف چند سو لوگ آتے تھے۔‏ اِس لئے اِس دعوت کو اُتنے لوگوں نے قبول نہ کِیا جتنے کہ بائبل سٹوڈنٹس چاہتے تھے۔‏ لیکن بہت سے لوگ جنہوں نے بائبل سٹوڈنٹس کے رسالوں یا اشتہاروں کو پڑھا،‏ وہ سمجھ گئے کہ اِن میں سچائی ہے اور اُن کی خواہش تھی کہ یہ سچائی دوسروں تک پہنچے۔‏ مثال کے طور پر ۱۸۸۲ء میں اِنگلینڈ کے شہر لندن میں رہنے والے ایک شخص نے بائبل سٹوڈنٹس کے رسالے مینارِنگہبانی اور ایک کتاب کو پڑھنے کے بعد لکھا:‏ ”‏مجھے بتائیں کہ لوگوں کو کس بات کی مُنادی کرنی ہے اور کس طریقے سے کرنی ہے تاکہ مَیں اِس نیک کام میں حصہ لے سکوں جو خدا نے اپنے بندوں کو دیا ہے۔‏“‏

۱۱،‏ ۱۲.‏ ‏(‏الف)‏ پُرانے زمانے کے پہل‌کاروں کا مقصد کیا تھا؟‏ (‏ب)‏ اُس وقت پہل‌کاروں نے کلیسیائیں کیسے قائم کیں؟‏

۱۱ سن ۱۸۸۵ء میں پہل‌کاروں کی تعداد تقریباً ۳۰۰ ہو گئی تھی۔‏ اُن کا مقصد بھی یہی تھی جو آج ہمارا ہے۔‏ وہ لوگوں کو یسوع مسیح کے شاگرد بنانا چاہتے تھے۔‏ لیکن اُن کا طریقہ ہمارے طریقے سے فرق تھا۔‏ ہم عموماً ایک وقت میں ایک ہی شخص کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرتے ہیں۔‏ پھر ہم اُسے اپنے اجلاسوں پر آنے کی دعوت دیتے ہیں۔‏ لیکن اُس وقت پہل‌کار لوگوں کو کتابیں دیتے تھے اور جو لوگ اُن کے پیغام میں دلچسپی لیتے تھے،‏ اُنہیں بائبل کا مطالعہ کرنے کے لئے جمع ہونے کی دعوت دیتے تھے۔‏ یوں وہ ایک وقت میں کئی لوگوں کو بائبل کا مطالعہ کراتے تھے۔‏ اور اِس طرح وہ نئی کلیسیائیں بناتے تھے۔‏

۱۲ مثال کے طور پر ۱۹۰۷ء میں پہل‌کاروں کا ایک گروہ ایک شہر میں گیا اور وہاں ایسے لوگوں کو ڈھونڈا جن کے پاس کتاب سٹڈیز اِن دی سکرپچرز تھی۔‏ پھر اِنہی لوگوں میں سے ایک کے گھر اتوار کے روز جمع ہونے کا بندوبست کِیا گیا۔‏ ایک پہل‌کار نے پورا دن اِس موضوع پر بات کی کہ انسان اور زمین کے لئے خدا کا مقصد کیا ہے۔‏ اگلے اتوار کو اُس پہل‌کار نے سب آنے والوں کی حوصلہ‌افزائی کی کہ وہ بائبل کا مطالعہ کرنے کے لئے باقاعدگی سے جمع ہوا کریں۔‏ سن ۱۹۱۱ء میں بائبل سٹوڈنٹس نے شاگرد بنانے کے لئے ایک نیا طریقہ آزمانا شروع کِیا۔‏ ۵۸ بھائیوں کو یہ ذمہ‌داری دی گئی کہ وہ ریاستہائےمتحدہ اور کینیڈا کے مختلف حصوں میں دورے کریں اور تقریریں دیں۔‏ یہ بھائی اُن لوگوں کے نام اور پتے لکھ لیتے تھے جو اُن کی تقریر سننے کے لئے آتے تھے۔‏ وہ اُنہیں گروپوں کی صورت میں اِکٹھا کرتے تھے اور پھر ہر گروپ کسی ایک کے گھر میں جمع ہوتا تھا۔‏ اِس طرح نئی کلیسیائیں قائم ہوئیں۔‏ سن ۱۹۱۴ء میں پوری دُنیا کے اندر بائبل سٹوڈنٹس کی ۱۲۰۰ کلیسیائیں بن چکی تھیں۔‏

۱۳.‏ مُنادی کے کام کے سلسلے میں کون‌سی بات حیرت‌انگیز ہے؟‏

۱۳ آج‌کل پوری دُنیا میں تقریباً ایک لاکھ ۹ ہزار ۴ سو کلیسیائیں ہیں اور تقریباً ۸ لاکھ ۹۵ ہزار ۸ سو بہن‌بھائی پہل‌کاروں کے طور پر خدمت کر رہے ہیں۔‏ تقریباً ۸۰ لاکھ لوگوں نے پاک کلام کی سچائیوں کو قبول کِیا ہے اور اُن کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں۔‏ ‏(‏یسعیاہ ۶۰:‏۲۲ کو پڑھیں۔‏)‏  * کلیسیاؤں اور مبشروں کی تعداد میں اضافہ واقعی بڑی حیرت کی بات ہے کیونکہ یسوع مسیح نے کہا تھا کہ اُن کے ”‏نام کے سبب سے سب لوگ“‏ اُن کے شاگردوں سے ”‏عداوت رکھیں گے۔‏“‏ یسوع مسیح نے یہ بھی کہا تھا کہ اُن کے بعض پیروکاروں کو ستایا جائے گا،‏ قید میں ڈالا جائے گا یہاں تک کہ ہلاک بھی کر دیا جائے گا۔‏ (‏لو ۲۱:‏۱۲-‏۱۷‏)‏ شیطان،‏ اُس کے شیاطین اور دُنیا کی مخالفت کے باوجود شاگرد بنانے کے کام میں یہوواہ کے بندوں کو شاندار کامیابی حاصل ہوئی ہے۔‏ آج‌کل خدا کے خادم ”‏تمام دُنیا میں“‏ میں بادشاہت کی خوشخبری سنا رہے ہیں۔‏ وہ دُوردراز کے ٹھنڈے اور گرم جنگلوں میں رہنے والے لوگوں کو خوشخبری سناتے ہیں۔‏ وہ پہاڑی اور ریگستانی علاقوں میں،‏ شہروں اور چھوٹےچھوٹے گاؤں میں بھی بادشاہت کا پیغام سناتے ہیں۔‏ (‏متی ۲۴:‏۱۴‏)‏ اِتنا زیادہ کام یہوواہ خدا کی رہنمائی اور مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا۔‏

بائبل کی سچائیوں کا علم پھیلتا ہے

۱۴.‏ کتابوں اور رسالوں کے ذریعے پاک کلام کی سچائیوں کا علم پوری دُنیا میں کیسے پھیل گیا ہے؟‏

۱۴ آج‌کل خدا کے بہت سے خادم خوشخبری کی مُنادی کر رہے ہیں اِس لئے پاک کلام کی سچائیوں کا علم پوری دُنیا میں پھیل گیا ہے۔‏ اِس کے علاوہ وہ جو کتابیں اور رسالے چھاپتے ہیں،‏ اُن کے ذریعے بھی یہ علم پھیل رہا ہے۔‏ جیسے کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ بائبل سٹوڈنٹس نے مینارِنگہبانی کا پہلا شمارہ جولائی ۱۸۷۹ء میں شائع کِیا تھا۔‏ اُس وقت اِس کا نام زائنز واچ ٹاور اینڈ ہیرلڈ آف کرائسٹ پریزنس تھا۔‏ بائبل سٹوڈنٹس کے پاس اپنی پریس نہیں تھی اِس لئے اُنہوں نے اِس شمارے کو کسی اَور سے چھپوایا۔‏ اِس کی صرف ۶۰۰۰ کاپیاں شائع کی گئی تھیں اور وہ بھی صرف انگریزی میں۔‏ چارلس ٹیز رسل اِس رسالے کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔‏ اُس وقت اُن کی عمر ۲۷ سال تھی۔‏ پانچ دوسرے بائبل سٹوڈنٹس اِس رسالے کے لئے مضامین لکھتے تھے۔‏ اب مینارِنگہبانی ۱۹۵ زبانوں میں شائع ہوتا ہے۔‏ یہ دُنیا میں سب سے زیادہ تقسیم ہونے والا رسالہ ہے۔‏ اِس کے ہر شمارے کی ۴ کروڑ ۲۱ لاکھ ۸۲ ہزار کاپیاں چھپتی ہیں۔‏ دوسرے نمبر پر جاگو!‏ رسالہ ہے جو ۸۴ زبانوں میں شائع ہوتا ہے۔‏ اِس کے ہر شمارے کی ۴ کروڑ ۱۰ لاکھ ۴۲ ہزار کاپیاں چھپتی ہیں۔‏ اِس کے علاوہ ہر سال تقریباً ۱۰ کروڑ کتابیں اور بائبلیں چھاپی جاتی ہیں۔‏

۱۵.‏ ہماری کتابوں اور رسالوں کی چھپائی کا کام کیسے چلتا ہے؟‏

۱۵ چھپائی کا یہ سارا کام اُن عطیات کے ذریعے کِیا جاتا ہے جو لوگ اپنی خوشی سے دیتے ہیں۔‏ ‏(‏متی ۱۰:‏۸ کو پڑھیں۔‏)‏ کاروباری کمپنیاں اِس بات سے بہت حیران ہوتی ہیں کہ اِتنی زیادہ چھپائی کا کام عطیات سے کیسے چل سکتا ہے کیونکہ اُنہیں پتہ ہے کہ آج‌کل کاغذ،‏ سیاہی اور مشینوں پر کتنا خرچہ ہوتا ہے۔‏ ایک بھائی جو بیت‌ایل کے چھاپہ‌خانوں کا سامان خریدتا ہے،‏ وہ بتاتا ہے کہ جب دُنیا کے کاروباری لوگ بیت‌ایل کے چھاپہ‌خانوں کو دیکھنے کے لئے آتے ہیں تو وہ یہ دیکھ کر حیرت میں پڑ جاتے ہیں کہ ہم عطیات کے ذریعے کتنا زیادہ کام کرتے ہیں۔‏ وہ یہ سمجھ نہیں پاتے کہ ہم نئی‌نئی مشینیں کیسے خرید لیتے ہیں جو اِتنی زیادہ تعداد میں کتابیں اور رسالے چھپاتی ہیں۔‏ وہ اِس بات سے بھی بہت متاثر ہوتے ہیں کہ بیت‌ایل میں کام کرنے والے زیادہ‌تر جوان ہیں اور وہ بڑی خوشی سے خدمت کر رہے ہیں۔‏

زمین یہوواہ کے علم سے بھری ہوگی

۱۶.‏ یہوواہ خدا نے پاک کلام کی سچائیوں کا علم کیوں پھیلایا ہے؟‏

۱۶ یہوواہ خدا نے اپنے کلام کی سچائیوں کا علم اِس لئے پھیلایا ہے کیونکہ ”‏وہ چاہتا ہے کہ سب آدمی نجات پائیں اور سچائی کی پہچان تک پہنچیں۔‏“‏ (‏۱-‏تیم ۲:‏۳،‏ ۴‏)‏ یہوواہ خدا کی خواہش ہے کہ لوگ اُس کے کلام کا علم حاصل کریں تاکہ وہ اُس کی مرضی پر عمل کرنے سے برکتیں حاصل کر سکیں۔‏ یہوواہ خدا نے مُنادی کے کام کے ذریعے ممسوح مسیحیوں کو جمع کِیا ہے۔‏ اِس کے علاوہ اُس نے ”‏ہر ایک قوم اور قبیلہ اور اُمت اور اہلِ‌زبان کی ایک ایسی بڑی بِھیڑ“‏ کو بھی جمع کِیا ہے جو زمین پر ہمیشہ تک زندہ رہنے کی اُمید رکھتی ہے۔‏—‏مکا ۷:‏۹‏۔‏

۱۷.‏ خدا کے خادموں کی تعداد میں اضافہ کس بات کا ثبوت ہے؟‏

۱۷ پچھلے ۱۳۰ سالوں میں خدا کے خادموں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا اور یسوع مسیح زمین پر اپنے بندوں کے ساتھ رہے ہیں۔‏ اُنہوں نے اپنے بندوں کی رہنمائی کی ہے،‏ اُن کی حفاظت کی ہے،‏ اُنہیں منظم کِیا ہے اور اُنہیں تعلیم دی ہے۔‏ یہوواہ خدا نے اپنے وعدے کے مطابق اپنے کلام کی سچائیوں کا علم پوری دُنیا میں پھیلایا ہے۔‏ اِس لئے ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ وہ اپنے دوسرے وعدوں کو بھی ضرور پورا کرے گا۔‏ پاک کلام میں لکھا ہے:‏ ”‏جس طرح سمندر پانی سے بھرا ہے اُسی طرح زمین [‏یہوواہ]‏ کے عرفان [‏یعنی علم]‏ سے معمور ہوگی۔‏“‏ (‏یسع ۱۱:‏۹‏)‏ ذرا تصور کریں کہ وہ وقت کتنا شاندار ہوگا اور اُس وقت ہمیں کتنی زیادہ برکتیں ملیں گی۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 6 اِس سلسلے میں ڈی‌وی‌ڈی Faith in Action کے پہلے اور دوسرے حصے کو دیکھیں۔‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۴ پر تصویر]‏

بائبل سٹوڈنٹس خاکسار تھے اور خدا کی مرضی کے مطابق چلنے کی دلی خواہش رکھتے تھے۔‏

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویر]‏

یہوواہ خدا پاک کلام کی سچائیوں کا علم پھیلانے کے سلسلے میں آپ کی محنت کی قدر کرتا ہے۔‏