مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

عورتیں خدا کی نظر میں کیا مقام رکھتی ہیں؟‏

عورتیں خدا کی نظر میں کیا مقام رکھتی ہیں؟‏

عورتیں خدا کی نظر میں کیا مقام رکھتی ہیں؟‏

‏”‏گُناہ کی شروعات تو عورت نے کی مگر مرنا ہم سب کو پڑتا ہے۔‏“‏—‏دوسری صدی قبل‌ازمسیح کی کتاب اکلیزی‌اسٹیکس۔‏

‏”‏تُم بُرائی کا وہ دروازہ ہو جو شیطان نے کھولا ہے۔‏ تُم نے ہی سب سے پہلے اُس درخت کا پھل کھایا جسے کھانے سے منع کِیا گیا تھا۔‏ تُم نے ہی سب سے پہلے خدا کے حکم کو توڑا۔‏ تُم نے مرد کو برباد کر دیا جسے خدا نے اپنی صورت پر پیدا کِیا تھا۔‏“‏—‏طرطلیان،‏ دوسری صدی عیسوی کے مذہبی عالم۔‏

یہ بیان بائبل سے نہیں لئے گئے۔‏ اِن بیانات کی بِنا پر کئی صدیوں سے عورتوں کے ساتھ بدسلوکی کو جائز قرار دیا گیا ہے۔‏ آج بھی بہت سے انتہاپسند لوگ عورتوں کو دبا کر رکھنے کے لئے مذہبی کتابوں سے حوالہ دیتے ہیں۔‏ وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انسان کی تمام مصیبتوں کی جڑ عورت ہے۔‏ کیا خدا واقعی یہ چاہتا ہے کہ مرد عورتوں پر ظلم کریں اور اُنہیں اپنے پاؤں کی جُوتی بنا کر رکھیں۔‏ اِس سلسلے میں خدا کے کلام بائبل میں کیا بتایا گیا ہے؟‏ آئیں،‏ دیکھیں۔‏

کیا خدا نے عورت پر لعنت کی ہے؟‏

جی نہیں۔‏ اِس کی بجائے ’‏پُرانے سانپ‘‏ یعنی ”‏اِبلیس اور شیطان“‏ پر لعنت کی گئی ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۱۲:‏۹؛‏ پیدایش ۳:‏۱۴‏)‏ خدا نے یہ ضرور کہا تھا کہ آدم اپنی بیوی پر ”‏حکومت“‏ کریں گے۔‏ مگر اِس کا مطلب یہ نہیں کہ خدا نے مرد کو چھوٹ دے دی تھی کہ وہ عورت پر رُعب جمائے۔‏ (‏پیدایش ۳:‏۱۶‏)‏ خدا تو بس یہ بتا رہا تھا کہ آدم اور حوا نے جو گُناہ کِیا ہے،‏ اُس کا اثر یہ ہوگا کہ مرد عورت پر اپنی حکومت جتائے گا۔‏

لہٰذا آج عورتوں پر جو بھی ظلم‌وستم ہوتا ہے،‏ وہ آدم اور حوا کے گُناہ کا نتیجہ ہے۔‏ اِس میں خدا کی مرضی بالکل نہیں۔‏ بائبل اِس بات کی حمایت نہیں کرتی کہ باغِ‌عدن میں ہونے والے گُناہ کا کفارہ اُسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ مرد عورتوں کو اپنے دبدبے میں رکھیں۔‏—‏رومیوں ۵:‏۱۲‏۔‏

کیا خدا نے عورت کو مرد سے کم‌تر بنایا تھا؟‏

جی‌نہیں۔‏ پیدایش ۱:‏۲۷ میں بتایا گیا ہے:‏ ”‏خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کِیا۔‏ خدا کی صورت پر اُس کو پیدا کِیا۔‏ نروناری اُن کو پیدا کِیا۔‏“‏ ’‏انسانوں کو اپنی صورت پر پیدا‘‏ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے اُن میں یہ صلاحیت رکھی تھی کہ وہ اُس کی صفات کو ظاہر کریں۔‏ غور کریں کہ یہ صلاحیت اُس نے مرد اور عورت دونوں کو عطا کی تھی۔‏ اگرچہ آدم اور حوا جسمانی اور جذباتی لحاظ سے ایک دوسرے سے فرق تھے پھر بھی خدا نے اُنہیں ایک جیسی ہدایات دی تھیں اور اُس کی نظر میں دونوں کے حقوق برابر تھے۔‏—‏پیدایش ۱:‏۲۸-‏۳۱‏۔‏

حوا کو بنانے سے پہلے خدا نے کہا تھا:‏ ”‏مَیں [‏آدم]‏ کے لئے ایک مددگار اُس کی مانند بناؤں گا۔‏“‏ (‏پیدایش ۲:‏۱۸‏)‏ کیا لفظ مددگار اِس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ عورت کو مرد سے کم‌تر بنایا گیا تھا؟‏ جی‌نہیں۔‏ اِس سلسلے میں ایک مثال پر غور کریں۔‏ جب کسی کا آپریشن کرنا ہو تو ایک سرجن اور مریض کو بےہوش کرنے والا ڈاکٹر مل کر کام کرتے ہیں۔‏ یہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر آپریشن نہیں کر سکتے۔‏ آپریشن تو سرجن کرتا ہے لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اُس کا کام زیادہ اہم ہوتا ہے۔‏ دونوں کو ایک دوسرے کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ اِسی طرح خدا نے مرد اور عورت کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لئے بنایا تھا،‏ ایک دوسرے سے مقابلہ‌بازی کرنے کے لئے نہیں۔‏—‏پیدایش ۲:‏۲۴‏۔‏

اِس بات کا کیا ثبوت ہے کہ خدا عورتوں کی بھلائی چاہتا ہے؟‏

خدا جانتا تھا کہ گنہگار مرد،‏ عورتوں کے ساتھ کیسا سلوک کریں گے۔‏ اِسی لئے اُس نے عورتوں کی حفاظت کا بندوبست کِیا۔‏ خدا نے ۱۶ویں صدی قبل‌ازمسیح میں موسیٰ نبی کو شریعت دی۔‏ اِس شریعت کے متعلق ایک مصنفہ لور اینارڈ نے اپنی کتاب میں لکھا:‏ ”‏شریعت میں عورتوں کے متعلق جتنے بھی قوانین درج ہیں،‏ اُن میں سے زیادہ‌تر اُن کی بھلائی اور تحفظ کے لئے ہیں۔‏“‏

مثال کے طور پر شریعت میں باپ اور ماں دونوں کی عزت کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔‏ (‏خروج ۲۰:‏۱۲؛‏ ۲۱:‏۱۵،‏ ۱۷‏)‏ اِس میں حاملہ عورتوں کا لحاظ رکھنے کی ہدایت بھی کی گئی تھی۔‏ (‏خروج ۲۱:‏۲۲‏)‏ خدا نے اُس وقت عورتوں کو جو حقوق دئے،‏ آج دُنیا کے بہت سے ملکوں میں عورتوں کے پاس ویسے حقوق نہیں ہیں۔‏ موسیٰ نبی کی شریعت میں اَور بھی بہت سے قانون ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ خدا عورتوں کی بھلائی چاہتا ہے۔‏

موسیٰ نبی کی شریعت میں عورتوں کا مقام

یہوواہ خدا نے موسیٰ نبی کے ذریعے بنی‌اسرائیل کو جو شریعت دی،‏ اُس سے مردوں اور عورتوں دونوں کو روحانی،‏ جسمانی اور اخلاقی لحاظ سے بڑا فائدہ ہوا۔‏ جب تک وہ یہوواہ خدا کے فرمانبردار رہے،‏ خدا نے اُنہیں ”‏دُنیا کی سب قوموں سے زیادہ .‏ .‏ .‏ سرفراز“‏ کِیا۔‏ (‏استثنا ۲۸:‏۱،‏ ۲‏)‏ شریعت میں عورتوں کو کیا مقام حاصل تھا؟‏ آئیں،‏ اِس سلسلے میں چند باتوں پر غور کریں۔‏

۱.‏ انفرادی آزادی:‏پُرانے زمانے میں بہت سی قوموں میں عورتوں کو اِتنی آزادی حاصل نہیں تھی جتنی کہ اسرائیلی عورتوں کو تھی۔‏ اگرچہ شوہر خاندان کا سربراہ تھا پھر بھی بیوی اگر ”‏کسی کھیت کی بابت سوچتی“‏ تو وہ اُس کھیت کو ”‏خرید“‏ سکتی تھی اور تاکستان بھی لگا سکتی تھی کیونکہ اُس کے شوہر کو اُس پر اعتماد تھا۔‏ اور اگر کوئی اسرائیلی عورت دھاگہ بُننے اور کپڑا بنانے میں ماہر ہوتی تو وہ اپنا کاروبار کر سکتی تھی۔‏ (‏امثال ۳۱:‏۱۱،‏ ۱۶-‏۱۹‏)‏ اسرائیلی عورتوں کی اپنی ایک شناخت تھی اور اُن کے اپنے حقوق تھے۔‏ وہ محض شوہروں کی جاگیر نہیں تھیں۔‏

اسرائیلی عورتیں خدا کی عبادت کے سلسلے میں بھی آزادی رکھتی تھیں۔‏ مثال کے طور پر بائبل میں بتایا گیا ہے کہ حنّہ نے خدا سے اپنی ایک مشکل کے بارے میں دُعا کی اور اُس سے ایک وعدہ بھی کِیا جس کے بارے میں اُن کے شوہر کو پتہ نہیں تھا۔‏ (‏۱-‏سموئیل ۱:‏۱۱،‏ ۲۴-‏۲۸‏)‏ ایک عورت جو شونیم کے علاقے میں رہتی تھی،‏ وہ سبت کے دن پر الیشع نبی کے پاس جاتی تھی تاکہ وہ مختلف معاملات کے بارے میں اُن سے مشورے لے سکے۔‏ (‏۲-‏سلاطین ۴:‏۲۲-‏۲۵‏)‏ خدا نے بعض عورتوں جیسے کہ دبورہ اور خلدہ کو نبوّت کرنے کا اعزاز بخشا تھا۔‏ دلچسپی کی بات تو یہ ہے کہ اسرائیل کے کاہن اور بڑے عہدہ‌دار مرد بھی صلاح مشورے کے لئے اِن عورتوں کے پاس آتے تھے۔‏—‏قضاۃ ۴:‏۴-‏۸؛‏ ۲-‏سلاطین ۲۲:‏۱۴-‏۱۶،‏ ۲۰‏۔‏

۲.‏ تعلیم:‏ خدا نے اپنی شریعت مردوں اور عورتوں دونوں کو دی تھی۔‏ اِس لئے عورتوں سے بھی یہ کہا گیا تھا کہ وہ اُن اجتماعات میں جائیں جن میں شریعت کی باتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں۔‏ یوں اُنہیں خدا سے تعلیم پانے کا موقع دیا گیا تھا۔‏ (‏استثنا ۳۱:‏۱۲؛‏ نحمیاہ ۸:‏۲،‏ ۸‏)‏ اِس کے علاوہ عورتوں کو خدا کے گھر میں کچھ خدمات انجام دینے کے لئے تربیت بھی دی جاتی تھی۔‏ مثال کے طور پر کچھ عورتیں ”‏خیمۂ‌اجتماع کے دروازہ پر خدمت“‏ کرتی تھیں جبکہ بعض خدا کے گھر میں مردوں کے ساتھ مل کر گیت گاتی تھیں۔‏—‏خروج ۳۸:‏۸؛‏ ۱-‏تواریخ ۲۵:‏۵،‏ ۶‏۔‏

بہت سی عورتیں نفع‌بخش کاروبار کرنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔‏ (‏امثال ۳۱:‏۲۴‏)‏ اُس وقت زیادہ‌تر قوموں میں یہ رواج تھا کہ صرف باپ ہی اپنے بیٹوں کی تعلیم‌وتربیت کرتا تھا۔‏ لیکن بنی‌اسرائیل میں ماں کو بھی یہ حق دیا گیا تھا کہ جب تک اُس کے بیٹے بڑے نہیں ہو جاتے،‏ وہ اُن کی تعلیم‌وتربیت کر سکتی ہے۔‏ (‏امثال ۳۱:‏۱‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی عورتیں اَن‌پڑھ نہیں تھیں۔‏

۳.‏ عزت اور احترام:‏ خدا نے بنی اسرائیل کو جو دس حکم دئے تھے،‏ اُن میں سے ایک یہ تھا کہ ”‏تُو اپنے باپ اور اپنی ماں کی عزت کرنا۔‏“‏ (‏خروج ۲۰:‏۱۲‏)‏ دانش‌مند بادشاہ سلیمان نے کہا:‏ ”‏اَے میرے بیٹے!‏ اپنے باپ کی تربیت پر کان لگا اور اپنی ماں کی تعلیم کو ترک نہ کر۔‏“‏—‏امثال ۸:‏۱‏۔‏

خدا نے اپنی شریعت میں تفصیل سے ہدایات دیں کہ ایک مرد کو عورت سے کیسے پیش آنا چاہئے۔‏ یوں اُس نے واضح کِیا کہ عورتیں عزت کی مستحق ہیں۔‏ (‏احبار ۱۸:‏۶،‏ ۹؛‏ استثنا ۲۲:‏۲۵،‏ ۲۶‏)‏ شریعت کے مطابق شوہر سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ وہ اپنی بیوی کی حدود کا لحاظ رکھے،‏ خاص طور پر اُس کے مخصوص ایّام کے دوران۔‏—‏احبار ۱۸:‏۱۹‏۔‏

۴.‏ حقوق کی حفاظت:‏ پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ یہوواہ خدا ”‏یتیموں کا باپ اور بیواؤں کا محافظ ہے۔‏“‏ اِس کا مطلب ہے کہ خدا اُن لوگوں کا محافظ تھا جو اپنے حق سے صرف اِس لئے محروم رہ جاتے تھے کیونکہ اُن کا شوہر یا باپ نہیں تھا۔‏ (‏زبور ۶۸:‏۵‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن؛‏ استثنا ۱۰:‏۱۷،‏ ۱۸‏)‏ مثال کے طور پر ایک نبی کی بیوہ کو کسی کا قرض ادا کرنا تھا۔‏ جب قرض لینے والا اُس بیوہ کے بیٹوں کو اپنا غلام بنانا چاہتا تھا تو یہوواہ خدا نے اُنہیں اِس صورتحال سے بچایا۔‏ اُس نے ایک معجزہ کِیا جس سے وہ بیوہ اپنا قرض ادا کرنے کے قابل ہوئی اور عزت سے زندگی گزارتی رہی۔‏—‏۲-‏سلاطین ۴:‏۱-‏۷‏۔‏

اِس سلسلے میں ایک اَور مثال پر غور کریں۔‏ ابھی بنی‌اسرائیل اُس ملک میں داخل نہیں ہوئے تھے جو یہوواہ خدا نے اُنہیں دینے کا وعدہ کِیا تھا۔‏ ایک اسرائیلی جن کا نام صلافحاد تھا،‏ اُن کی پانچ بیٹیاں تھیں مگر بیٹا کوئی نہیں تھا۔‏ جب وہ مر گئے تو اُن کی بیٹیوں نے موسیٰ نبی سے درخواست کی کہ اُنہیں اُن کے باپ کے بھائیوں کے ساتھ میراث میں کچھ حصہ دیا جائے۔‏ موسیٰ نبی یہ معاملہ یہوواہ خدا کے پاس لے کر گئے اور خدا نے اُن لڑکیوں کو اُس سے بھی زیادہ دیا جو اُنہوں نے مانگا تھا۔‏ خدا نے موسیٰ نبی سے کہا:‏ ”‏تُو اُن کو اُن کے باپ کے بھائیوں کے ساتھ ضرور ہی میراث کا حصہ دینا یعنی اُن کو اُن کے باپ کی میراث ملے۔‏“‏ اِس واقعے کے بعد سے بنی‌اسرائیل میں عورتوں کو اپنے باپ کی جائیداد میں حصہ ملنے لگا اور وہ اپنی جائیداد اپنی اولاد کو منتقل کر سکتی تھیں۔‏—‏گنتی ۲۷:‏۱-‏۸‏۔‏

موسیٰ نبی کی شریعت پر انسانی روایتوں کا اثر

موسیٰ نبی کی شریعت نے عورتوں کو نہ صرف ایک باعزت مقام دیا بلکہ اُن کے حقوق کی حفاظت بھی کی۔‏ لیکن چوتھی صدی قبل‌ازمسیح سے یہودی مذہب پر یونانی ثقافت کا رنگ چڑھنے لگا۔‏ یونانی ثقافت میں عورتوں کو مردوں سے کم‌تر خیال کِیا جاتا تھا۔‏—‏بکس ”‏قدیم مذہبی کتابوں میں عورتوں سے اِمتیاز برتنے کی تعلیم“‏ کو دیکھیں۔‏

مثال کے طور پر آٹھویں صدی قبل‌ازمسیح میں یونانی شاعر ہیسیوڈس نے عورت کو انسان کی تمام مشکلوں کی جڑ قرار دیا۔‏ اُنہوں نے اپنی کتاب تھیوجنی میں لکھا:‏ ”‏عورتیں بہت خطرناک ہیں۔‏ وہ ایسی مخلوق ہیں جو مردوں کے درمیان رہتی ہے اور اُن کا بیڑا غرق کرتی ہے۔‏“‏ دوسری صدی قبل‌ازمسیح کے شروع میں یہ نظریہ یہودیوں میں بڑا مقبول ہو گیا تھا۔‏ پھر دوسری صدی عیسوی سے یہودیوں نے مذہبی کتاب تالمود کو لکھنا شروع کِیا۔‏ اِس کتاب میں مردوں کو آگاہ کِیا گیا تھا کہ وہ ”‏عورتوں سے زیادہ بات بھی نہ کریں کیونکہ اِس سے وہ حرام‌کاری کرنے کے خطرے میں پڑ جائیں گے۔‏“‏

اِس غلط نظریے کی وجہ سے یہودی معاشرے میں عورت بہت سی پابندیوں کا شکار ہو گئی۔‏ مثال کے طور پر یسوع مسیح کے زمانے میں عورتیں ہیکل کے صرف اُس حصے تک جا سکتی تھیں جو اُن کے لئے مخصوص کِیا گیا تھا۔‏ مذہبی تعلیم صرف مردوں کو دی جاتی تھی اور عبادت‌گاہوں میں بھی مرد اور عورتیں غالباً الگ الگ بیٹھتے تھے۔‏ تالمود میں ایک یہودی مذہبی رہنما نے کہا:‏ ”‏بیٹیوں کو توریت [‏شریعت]‏ کی تعلیم دینا اُنہیں بےحیائی سکھانے کے برابر ہے۔‏“‏ یوں یہودی مذہبی رہنماؤں نے عورتوں کے متعلق خدا کے نظریے کو توڑمروڑ کر پیش کِیا جس کی وجہ سے بہت سے مرد عورتوں کو حقیر سمجھنے لگے۔‏

جب یسوع مسیح زمین پر تھے تو وہ یہ سمجھ گئے تھے کہ انسانی روایات کی وجہ سے عورتوں کے ساتھ اِمتیاز برتا جاتا ہے۔‏ (‏متی ۱۵:‏۶،‏ ۹؛‏ ۲۶:‏۷-‏۱۱‏)‏ لیکن کیا یسوع مسیح بھی اِن روایات سے متاثر ہوئے تھے؟‏ وہ عورتوں سے جس طرح پیش آئے،‏ اُس سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏ مسیح کی سچی تعلیم سے عورتوں کو کیا فائدہ پہنچتا ہے؟‏ اِن سوالوں کے جواب حاصل کرنے کے لئے آئیں،‏ اگلے مضمون کو پڑھیں۔‏

‏[‏صفحہ ۷ پر بکس]‏

قدیم مذہبی کتابوں میں عورتوں سے اِمتیاز برتنے کی تعلیم

پہلی صدی میں کچھ مصنفوں نے باغِ‌عدن میں ہونے والے واقعات کی تفسیر یونانی فلسفے کے مطابق کی۔‏ اِن مصنفوں میں سے ایک سکندریہ کے فیلو تھے۔‏ فیلو کے مطابق حوا نے آدم کو جنسی تعلقات قائم کرنے پر اُکسایا تھا اِس لئے خدا نے حوا کو یہ سزا سنائی کہ ”‏وہ اپنی ساری آزادی سے محروم ہو جائے گی اور اُس کا شوہر اُس پر حکومت کرے گا۔‏“‏ عورتوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنے کا یہ رُجحان نہ صرف یہودیوں میں پھیل گیا بلکہ دوسری صدی کے مسیحی رہنما بھی اِس سے متاثر ہوئے اور اُنہوں نے اپنی کتابوں میں عورتوں کو کم‌تر سمجھنے کی تعلیم دی۔‏

دوسری صدی عیسوی میں ایک یہودی کتاب مدراش رابا میں ایک یہودی مذہبی رہنما نے بتایا کہ اُس کے خیال میں عورت کو اپنا سر ڈھانپ کر رکھنا چاہئے کیونکہ عورت نے ”‏گُناہ کِیا ہے اور اُسے دوسروں کے سامنے شرمندگی محسوس کرنی چاہئے۔‏“‏ دوسری صدی عیسوی میں مذہبی عالم طرطلیان کی کتابیں بھی مقبول تھیں۔‏ اُنہوں نے بھی اپنی کتابوں میں یہ تعلیم دی کہ ”‏عورتوں کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ وہ حوا کی طرح گنہگار ہیں اِس لئے اُنہیں اپنا سر شرم سے جھکا کر رکھنا چاہئے۔‏“‏ ایسی تعلیمات کی وجہ سے عورتوں کو مردوں کی نسبت حقیر جانا جاتا ہے اور اُن سے اِمتیاز برتا جاتا ہے۔‏ بہت سے لوگوں کو یہ غلط‌فہمی ہے کہ یہ تعلیمات بائبل میں پائی جاتی ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۵ پر تصویر]‏

خدا نے حوا کو آدم کی مددگار بنایا تھا۔‏

‏[‏صفحہ ۶ پر تصویر]‏

بنی‌اسرائیل میں عورتیں اپنا کاروبار کر سکتی تھیں۔‏