اِس دُنیا میں ’مسافروں‘ کے طور پر رہنے کا عزم کریں
اِس دُنیا میں ’مسافروں‘ کے طور پر رہنے کا عزم کریں
”مَیں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ تُم پردیسی اور مسافر ہو کر . . . جسمانی خواہشوں سے پرہیز کرو۔“—۱-پطر ۲:۱۱، کیتھولک ترجمہ۔
آپ اِن سوالوں کے کیا جواب دیں گے؟
ممسوح مسیحیوں کو ”پردیسی اور مسافر“ کیوں کہا جا سکتا ہے؟
”اَور بھی بھیڑیں“ اِس دُنیا میں کس لحاظ سے ”مسافر“ ہیں؟
آپ مستقبل میں کیا حاصل کرنے کے منتظر ہیں؟
۱، ۲. (الف) پطرس رسول نے کن کو ”برگزیدہ“ کہا؟ (ب) اُنہوں نے برگزیدہ مسیحیوں کو ”مسافر“ کیوں کہا؟
یسوع مسیح کے آسمان پر جانے کے کوئی ۳۰ سال بعد پطرس رسول نے ایک خط لکھا۔ یہ خط ”اُن مسافروں کے نام“ تھا جو ”پنطسؔ۔ گلتیہؔ۔ کپدُؔکیہ۔ آسیہؔ اور بتُھنیہؔ میں جا بجا رہتے“ تھے۔ (۱-پطر ۱:۱، ۲) پطرس رسول نے اِن مسافروں کو ”برگزیدہ“ کہا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دراصل ممسوح مسیحیوں سے مخاطب تھے۔ اِن ممسوح مسیحیوں کو یسوع مسیح کے ساتھ حکمرانی کرنے کی ”زندہ اُمید کے لئے نئے سرے سے پیدا کِیا“ گیا تھا۔ (۱-پطرس ۱:۳، ۴ کو پڑھیں۔) لیکن پطرس رسول نے اِن برگزیدہ مسیحیوں کو ”پردیسی اور مسافر“ کیوں کہا؟ آجکل بہت ہی کم یہوواہ کے گواہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ممسوح مسیحی ہیں۔ تو پھر ۱-پطرس ۲:۱۱ کے الفاظ ہم سب کے لئے کیا معنی رکھتے ہیں؟
۲ ممسوح مسیحی ہمیشہ تک زمین پر نہیں رہیں گے۔ اِس لئے جب پطرس رسول نے پہلی صدی میں رہنے والے مسیحیوں کو ”مسافر“ کہا تو یہ بالکل مناسب تھا۔ پولس رسول جو خود بھی ”چھوٹے گلّے“ یعنی ممسوح مسیحیوں میں شامل تھے، اُنہوں نے لکھا: ”ہمارا وطن آسمان پر ہے اور ہم ایک مُنجی یعنی خداوند یسوؔع مسیح کے وہاں سے آنے کے اِنتظار میں ہیں۔“ (لو ۱۲:۳۲؛ فل ۳:۲۰) چونکہ ممسوح مسیحیوں کا وطن آسمان ہے اِس لئے جب اُن میں سے کوئی مرتا ہے تو وہ زمین کو چھوڑ کر ایک ”بہت ہی بہتر“ زندگی یعنی غیرفانی زندگی پانے کے لئے آسمان پر چلا جاتا ہے۔ (فلپیوں ۱:۲۱-۲۳ کو پڑھیں۔) اِسی لئے ممسوح مسیحی، شیطان کی اِس دُنیا میں ’مسافروں‘ کے طور پر زندگی گزار رہے ہیں۔
۳. ’اَور بھی بھیڑوں‘ کے بارے میں کونسا سوال اُٹھتا ہے؟
۳ کیا ’اَور بھی بھیڑوں‘ کو ”پردیسی اور مسافر“ کہا جا سکتا ہے؟ (یوح ۱۰:) پاک کلام کے مطابق زمین اُن کا وطن ہے جہاں وہ مستقل شہریوں کے طور پر رہنے کی اُمید رکھتے ہیں۔ لیکن اِنہیں بھی مسافر کہا جا سکتا ہے۔ مگر کس لحاظ سے؟ ۱۶
’ساری مخلوقات اب تک کراہتی ہے‘
۴. دُنیا کے رہنما کیا ختم نہیں کر سکتے؟
۴ جب تک یہ دُنیا چل رہی ہے، سب انسانوں کو یہاں تک کہ مسیحیوں کو بھی اُن مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا جو شیطان کی بغاوت کی وجہ سے کھڑے ہوئے ہیں۔ رومیوں ۸:۲۲ میں بتایا گیا ہے: ”ہم کو معلوم ہے کہ ساری مخلوقات مل کر اب تک کراہتی ہے اور دردِزہ میں پڑی تڑپتی ہے۔“ سیاستدان، سائنسدان اور سماجی کارکن چاہے جتنے بھی نیک نیت کیوں نہ ہوں، وہ انسان کے دُکھتکلیف کو ختم نہیں کر سکتے۔
۵. سن ۱۹۱۴ء سے لاکھوں لوگوں نے کونسا قدم اُٹھایا ہے اور کیوں؟
۵ سن ۱۹۱۴ء سے لاکھوں لوگ بادشاہ یسوع مسیح کی رعایا بن گئے ہیں۔ وہ نہ تو شیطان کی دُنیا کا حصہ بننا چاہتے ہیں اور نہ ہی اِس کی حمایت کرتے ہیں۔ اِس کی بجائے وہ اپنی زندگی اور مال کو خدا کی بادشاہت کی حمایت کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔—روم ۱۴:۷، ۸۔
۶. یہوواہ کے گواہوں کو کس لحاظ سے پردیسی اور مسافر کہا جا سکتا ہے؟
۶ یہوواہ کے گواہ ۲۰۰ سے زیادہ ملکوں میں رہتے ہیں اور اپنے اپنے ملک کے قانون کا احترام کرتے ہیں۔ لیکن وہ جہاں کہیں بھی رہیں، وہ پردیسوں اور مسافروں کے طور پر زندگی گزارتے ہیں۔ وہ سیاسی اور معاشرتی جھگڑوں میں حصہ نہیں لیتے۔ وہ ابھی سے اپنے آپ کو اُس نئی دُنیا کے شہری سمجھتے ہیں جو خدا لانے والا ہے۔ وہ اِس بات سے خوش ہیں کہ اِس بدکار دُنیا میں اُنہیں اب زیادہ دیر تک مسافروں کی طرح نہیں رہنا پڑے گا۔
۷. خدا کے وفادار بندے زمین کے مستقل شہری کیسے بنیں گے؟
۷ جلد ہی یسوع مسیح، شیطان کی دُنیا کو ختم کر دیں گے۔ اُن (مکاشفہ ۲۱:۱-۵ کو پڑھیں۔) اُس وقت تمام مخلوق صحیح معنوں میں ”فنا کے قبضہ سے چھوٹ کر خدا کے فرزندوں کے جلال کی آزادی میں داخل ہو جائے گی۔“—روم ۸:۲۱۔
کی حکومت میں زمین سے گُناہ اور دُکھتکلیف کا نامونشان مٹا دیا جائے گا۔ اِس کے علاوہ اُن لوگوں کا خاتمہ کر دیا جائے گا جو خدا کی حکمرانی کے خلاف سر اُٹھاتے ہیں۔ تب خدا کے وفادار بندوں کو نئی دُنیا کے مستقل شہری بننے کا موقع ملے گا۔سچے مسیحیوں کے لئے ضروری باتیں
۸، ۹. جب پطرس رسول نے کہا کہ ”جسمانی خواہشوں سے پرہیز کرو“ تو دراصل اُن کا مطلب کیا تھا؟
۸ پطرس رسول نے واضح کِیا کہ سچے مسیحیوں کے طور پر ہمارے لئے چند باتوں پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اُنہوں نے لکھا: ”اَے پیارو۔ مَیں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ تُم پردیسی اور مسافر ہو کر . . . جسمانی خواہشوں سے پرہیز کرو۔“ (۱-پطر ۲:۱۱، کیتھولک ترجمہ) یہ تاکید ویسے تو ممسوح مسیحیوں کو کی گئی تھی لیکن یہ یسوع مسیح کی ’اَور بھی بھیڑوں‘ پر بھی لاگو ہوتی ہے۔
۹ بعض خواہشیں غلط نہیں ہوتیں بشرطیکہ ہم اُنہیں خدا کے قوانین کے دائرے میں رہ کر پورا کریں۔ مثال کے طور پر اچھا کھانے پینے، تفریح کرنے اور دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کی خواہش غلط نہیں ہے۔ شادی کے بندھن میں جنسی تسکین پانے کی خواہش بھی فطری ہے۔ اِس طرح کی خواہشیں ہماری زندگی کو خوشگوار بناتی ہیں۔ (۱-کر ۷:۳-۵) لیکن جب پطرس رسول نے ”جسمانی خواہشوں“ کا ذکر کِیا تو وہ غلط خواہشوں کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ بائبل کے کچھ ترجموں میں ۱-پطرس ۲:۱۱ میں اصطلاح ”بُری خواہشیں“ استعمال کی گئی ہے۔ لہٰذا ہمیں محتاط رہنا چاہئے کہ ہم اپنے اندر کوئی ایسی خواہش پیدا نہ ہونے دیں جو خدا کی مرضی سے ٹکرائے اور ہم اُس کی خوشنودی کھو بیٹھیں۔ اگر ہم غلط خواہشوں کو بڑھنے دیں گے تو ہم ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے میں ناکام ہو سکتے ہیں۔
۱۰. شیطان ہمیں دُنیا کے رنگ میں رنگنے کے لئے کونسے حربے استعمال کرتا ہے؟
۱۰ شیطان چاہتا ہے کہ ہم خود کو اِس دُنیا میں ”مسافر“ نہ سمجھیں۔ اپنے اِس مقصد کو پورا کرنے کے لئے وہ مختلف حربے استعمال کرتا ہے۔ مالودولت اور شہرت کی کشش، غیراخلاقی حرکتوں میں مزہ اور وطن کے لئے مر مٹنے کا جذبہ سب جسمانی خواہشیں ہیں۔ ہمیں سمجھنا چاہئے کہ اِس طرح کی خواہشوں کے ذریعے شیطان ہمیں اپنے جال میں پھنسانا چاہتا ہے۔ ایسی خواہشوں کو قابو میں رکھنے سے ہم یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم شیطان کی دُنیا کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ ہم یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہم اِس دُنیا میں مسافر ہیں۔ ہمارا مقصد دراصل خدا کی نئی دُنیا کی مستقل شہریت حاصل کرنا ہے۔
اپنا چالچلن نیک رکھیں
۱۱، ۱۲. بعض اوقات پردیسیوں کو کس نگاہ سے دیکھا جاتا ہے؟ اور یہوواہ کے گواہوں کے متعلق کچھ لوگ کیسی رائے رکھتے ہیں؟
۱۱ پطرس رسول نے ایک اَور بات کا ذکر کِیا جس پر مسیحیوں کو ’پردیسیوں اور مسافروں‘ کے طور پر عمل کرنا چاہئے۔ اُنہوں نے کہا: ”غیرقوموں میں اپنا چالچلن نیک رکھو تاکہ جن باتوں میں وہ تمہیں بدکار جان کر تمہاری بدگوئی کرتے ہیں تمہارے نیک کاموں کو دیکھ کر اُنہی کے سبب سے ملاحظہ کے دن خدا کی تمجید کریں۔“ (۱-پطر ۲:۱۲) چونکہ پردیسی مقامی لوگوں سے فرق ہوتے ہیں اِس لئے کبھی کبھار اُن پر الزام لگائے جاتے ہیں۔ بعض اوقات وہ صرف اِس لئے بدگمانی کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ اُن کی بولچال، رہنسہن، پہناوا اور شکلوصورت مقامی لوگوں سے فرق ہوتی ہے۔ لیکن جب وہ اچھے کام کرتے ہیں تو اُن کے بارے میں لوگوں کی رائے بدل جاتی ہے۔
۱۲ اِسی طرح سچے مسیحی بھی کئی لحاظ سے اپنے آس پڑوس کے لوگوں سے فرق ہیں۔ مثال کے طور پر اُن کی باتچیت
دوسروں سے فرق ہوتی ہے اور تفریح اور لباس کے سلسلے میں بھی اُن کا انتخاب دُنیا کے لوگوں جیسا نہیں ہوتا۔ چونکہ یہوواہ کے گواہ دوسروں سے فرق نظر آتے ہیں اِس لئے لوگ اُن کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔ لیکن اُن کے اچھے چالچلن کی وجہ سے بہت سے لوگ اُن کی تعریف بھی کرتے ہیں۔۱۳، ۱۴. مثالوں سے واضح کریں کہ ”حکمت اپنے کاموں سے راست“ کیسے ثابت ہوتی ہے۔
۱۳ ہمارے اچھے چالچلن کو دیکھ کر لوگ یہ سمجھ جاتے ہیں کہ ہم پر لگائے گئے الزام بےبنیاد ہیں۔ یسوع مسیح ہر لحاظ سے یہوواہ خدا کے وفادار رہے پھر بھی لوگوں نے اُن پر الزام لگائے۔ بعض لوگ اُنہیں ”کھاؤ اور شرابی آدمی۔ محصول لینے والوں اور گنہگاروں کا یار“ کہتے تھے۔ لیکن اُن کے اچھے چالچلن سے یہ ظاہر ہو گیا کہ یہ سب الزام جھوٹے تھے۔ یسوع مسیح نے کہا: ”حکمت اپنے کاموں سے راست ثابت ہوئی۔“ (متی ۱۱:۱۹) یہ بات آج بھی سچ ہے۔ اِس سلسلے میں ایک مثال پر غور کریں۔ جرمنی میں بیتایل شہر سیلٹرز کے قریب ہے۔ جو لوگ بیتایل کے آسپاس رہتے ہیں، اُنہیں بیتایل میں کام کرنے والوں کا رہنسہن بہت عجیب لگتا ہے۔ لیکن اُس شہر کے گورنر نے کہا: ”یہوواہ کے گواہوں کا طرزِزندگی باقی سب سے فرق ہے لیکن یہ آسپاس رہنے والوں کے لئے کسی قسم کی پریشانی کا باعث نہیں ہے۔“
۱۴ ایک اَور مثال پر غور کریں۔ روس کے شہر ماسکو میں رہنے والے یہوواہ کے گواہوں پر کئی جھوٹے الزام لگائے گئے۔ بعض لوگوں نے کہا کہ یہوواہ کے گواہ گھریلو رشتوں میں دراڑ ڈالتے ہیں، لوگوں کو خودکُشی کرنے پر اُکساتے ہیں اور کسی قسم کا علاج نہیں کراتے۔ لیکن جون ۲۰۱۰ء کو فرانس کے شہر سٹراسبرگ میں انسانی حقوق کی یورپی عدالت نے فیصلہ سنایا کہ ماسکو کی عدالتوں کو یہوواہ کے گواہوں کو عبادت سے روکنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ انسانی حقوق کی یورپی عدالت نے یہ بھی کہا کہ ماسکو کی عدالتوں نے یہوواہ کے گواہوں کے خلاف الزامات کو ثابت نہیں کِیا۔ ماسکو کی عدالتوں نے یہوواہ کے گواہوں پر جو قانون عائد کئے، وہ سخت تو تھے ہی لیکن اِن کا غلط استعمال بھی کِیا گیا۔
حکومتوں کے تابعدار رہیں
۱۵. پوری دُنیا میں یہوواہ کے گواہ بائبل کی کس نصیحت پر عمل کرتے ہیں؟
۱۵ پوری دُنیا میں یہوواہ کے گواہ پطرس رسول کی اِس نصیحت پر بھی عمل کرتے ہیں کہ ”انسان کے ہر ایک اِنتظام کے تابع رہو۔“ اِس آیت میں اِنتظام سے مراد انسانی حکومتیں ہیں۔ (۱-پطر ۲:۱۳، ۱۴) اگرچہ یہوواہ کے گواہ اِس دُنیا کا حصہ نہیں ہیں پھر بھی وہ حکومتوں کے اُن قوانین کو مانتے ہیں جو خدا کے قوانین سے نہیں ٹکراتے۔—رومیوں ۱۳:۱، ۵-۷ کو پڑھیں۔
۱۶، ۱۷. (الف) اِس بات کا کیا ثبوت ہے کہ ہم حکومتوں کے خلاف نہیں ہیں؟ (ب) بعض حکمرانوں نے کونسی بات کو تسلیم کِیا ہے؟
۱۶ ہم دُنیا میں ’مسافروں‘ کی طرح رہتے ہیں لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم حکومت یا دوسرے لوگوں کے خلاف ہیں۔ جب کوئی شخص سیاسی معاملوں میں یا سماجی مسائل حل کرنے کے سلسلے میں کوئی رائے پیش کرتا ہے تو ہم اُس سے بحث نہیں کرتے۔ کچھ مذاہب سیاست میں حصہ لیتے ہیں لیکن ہم سیاسی معاملوں میں نہیں اُلجھتے۔ ہم حکمرانوں کو صلاحمشورہ نہیں دیتے کہ اُنہیں حکومت کیسے چلانی چاہئے۔ ہم معاشرے میں بدنظمی پھیلانے کا سوچ بھی نہیں سکتے اور نہ ہی ہم دوسروں کو حکومت کے خلاف بھڑکاتے ہیں۔
۱۷ پطرس رسول نے نصیحت کی کہ ”بادشاہ کی عزت کرو۔“ اِس لئے مسیحی حکومتوں کے تابع رہتے ہیں اور اُن کے اختیار کے لئے احترام ظاہر کرتے ہیں۔ (۱-پطر ۲:۱۷) بعض اوقات حکمران یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہوواہ کے گواہ ایسے شہری ہیں جن سے معاشرے کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر جرمنی کے ایک سیاستدان نے بتایا کہ نازی حکومت کے دَور میں جب یہوواہ کے گواہ قید میں تھے تو اُنہوں نے ایسی خوبیاں ظاہر کیں جو کسی بھی معاشرے کی مضبوطی کے لئے ضروری ہیں۔ اُس زمانے میں یہوواہ کے گواہ سخت اذیت کے باوجود اپنے ایمان پر قائم رہے اور دوسرے قیدیوں کے ساتھ مہربانی سے پیش آئے۔ اُس سیاستدان نے بتایا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ آج بھی ہمارا ہر شہری ایسی خوبیاں ظاہر کرے کیونکہ آجکل پردیسیوں کے ساتھ یا فرق سیاسی اور سماجی نظریات رکھنے والوں کے ساتھ بُرا سلوک کِیا جاتا ہے۔
”برادری سے محبت“ رکھیں
۱۸. (الف) یہ فطری بات کیوں ہے کہ ہم اپنی ”برادری سے محبت“ رکھتے ہیں؟ (ب) کچھ لوگ یہوواہ کے گواہوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
۱۸ پطرس رسول نے یہ بھی لکھا: ”برادری سے محبت رکھو۔ خدا سے ڈرو۔“ (۱-پطر ۲:۱۷) یہوواہ کے گواہ خدا کو ناراض کرنے سے ڈرتے ہیں۔ اِس لئے وہ خدا کی مرضی کے مطابق چلنا چاہتے ہیں۔ وہ پوری دُنیا میں اپنے بہنبھائیوں کے ساتھ مل کر خوشی سے خدا کی خدمت کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اُن کے بہنبھائی بھی خدا کی مرضی کے مطابق چلنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اِس لئے یہ فطری بات ہے کہ وہ اپنی ”برادری سے محبت“ رکھتے ہیں۔ آجکل کی خودغرض دُنیا میں جب لوگ یہوواہ کے گواہوں میں ایسی محبت دیکھتے ہیں تو وہ بڑے حیران ہوتے ہیں۔ اِس سلسلے میں ایک مثال پر غور کریں۔ سن ۲۰۰۹ء میں جرمنی میں یہوواہ کے گواہوں کا ایک بینالاقوامی اجتماع ہوا۔ اِس اجتماع پر کسی ملک سے یہوواہ کے گواہوں کا ایک گروہ آیا جس کے ساتھ ایک ٹوور گائیڈ تھی۔ اِس گائیڈ نے دیکھا کہ مقامی یہوواہ کے گواہ دوسرے ملکوں سے آنے والے گواہوں سے بڑی محبت سے مل رہے ہیں اور اُن کا بہت خیال رکھ رہے ہیں۔ اِس بات سے متاثر ہو کر اُس نے کہا کہ ”مَیں بڑے سالوں سے گائیڈ کے طور پر کام کر رہی ہوں لیکن مَیں نے آج تک لوگوں میں ایسی محبت نہیں دیکھی۔“ بعد میں ایک یہوواہ کے گواہ نے اِس گائیڈ کے متعلق کہا: ”وہ جب بھی ہمارے بارے میں بات کرتی تھی، اُس کے لہجے سے پتہ چلتا تھا کہ وہ ہم سے بڑی متاثر ہے۔“ کیا آپ نے بھی کبھی کسی اجتماع پر لوگوں کو یہوواہ کے گواہوں کے بارے میں ایسی بات کہتے سنا ہے؟
۱۹. ہمیں کیا عزم کرنا چاہئے اور کیوں؟
۱۹ اِس مضمون میں ہم نے کئی طریقوں پر غور کِیا ہے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ کے گواہ اِس دُنیا میں واقعی ”پردیسی اور مسافر“ ہیں۔ اُن کا عزم ہے کہ وہ اِس دُنیا کو اپنا مستقل ٹھکانا نہیں بنائیں گے۔ اُنہیں پوری اُمید ہے کہ وہ بہت ہی جلد خدا کی نئی دُنیا کی مستقل شہریت حاصل کر لیں گے۔ کیا آپ بھی اُس شاندار دَور کے منتظر ہیں؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
ہم شیطان کی دُنیا میں بہتری لانے کی کوشش نہیں کرتے۔ ہم خدا کی نئی دُنیا کا اعلان کر رہے ہیں۔
[صفحہ ۲۵ پر تصویر]
بائبل کی تعلیم نے روس میں رہنے والے اِس گھرانے کو متحد کر دیا ہے۔