مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

اِن جیسا ایمان پیدا کریں | ہابل

‏”‏اگرچہ وہ مر گیا ہے تو بھی .‏ .‏ .‏ اب تک کلام کرتا ہے“‏

‏”‏اگرچہ وہ مر گیا ہے تو بھی .‏ .‏ .‏ اب تک کلام کرتا ہے“‏

ذرا تصور کی آنکھ سے اِس منظر کو دیکھیں:‏ شام کا وقت ہے۔‏ ہابل ایک پہاڑی پر بیٹھے اپنی بھیڑوں کو دیکھ رہے ہیں جو گھاس چر رہی ہیں۔‏ پھر وہ اپنی نظر اُٹھا کر دُور اُفق کو دیکھتے ہیں جہاں اُن کو ایک مدھم سی روشنی نظر آتی ہے۔‏ وہ جانتے ہیں کہ یہ روشنی اُس شعلہ‌زن تلوار کی ہے جو باغِ‌عدن کے داخلی راستے کو روکے ہوئے ہے۔‏ کچھ عرصہ پہلے اُن کے والدین باغِ‌عدن میں رہتے تھے۔‏ لیکن اب نہ تو اُن کے والدین اور نہ ہی وہ خود وہاں جا سکتے ہیں۔‏ ہابل اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اُٹھا کر سوچتے ہیں:‏ ”‏کاش کہ انسان اور خدا کے بیچ کی دُوری ختم ہو جائے!‏“‏

ہابل،‏ آدم اور حوا کے دوسرے بیٹے تھے۔‏ وہ تقریباً ۶۰۰۰ سال پہلے فوت ہو گئے۔‏ لیکن وہ آج بھی ہم سے بات کرتے ہیں۔‏ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‏ اُن کو خاک میں ملے تو صدیاں گزر گئیں۔‏ اور پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ ”‏مُردے کچھ بھی نہیں جانتے۔‏“‏ (‏واعظ ۹:‏۵،‏ ۱۰‏)‏ اِس کے علاوہ ہابل کی کہی ہوئی کوئی بھی بات پاک کلام میں درج نہیں ہے۔‏ تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ہم سے بات کریں؟‏

پاک کلام میں لکھا ہے کہ ”‏[‏ہابل]‏ اُسی کے وسیلہ سے اب تک کلام کرتا ہے۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۱:‏۴‏)‏ ہابل کس کے وسیلے سے کلام کرتے ہیں؟‏ اپنے ایمان کے وسیلے سے۔‏ ہابل وہ پہلے انسان تھے جو خدا پر مضبوط ایمان رکھتے تھے۔‏ اُنہوں نے ایمان کی ایسی عمدہ مثال قائم کی جس پر ہم آج بھی عمل کر سکتے ہیں۔‏ اگر ہم ہابل جیسا ایمان پیدا کریں گے تو یہ ایسا ہوگا جیسے ہابل اپنی مثال کے ذریعے ہم سے بات کر رہے ہوں۔‏

لیکن پاک کلام میں تو ہابل کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں بتایا گیا۔‏ پھر ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ وہ مضبوط ایمان کے مالک تھے؟‏

ہابل نے کیسے ماحول میں پرورش پائی؟‏

ہابل زمین پر رہنے والے چوتھے انسان تھے۔‏ یسوع مسیح نے ہابل کے بارے میں کہا کہ وہ ”‏دُنیا کے شروع“‏ میں رہتے تھے۔‏ (‏لوقا ۱۱:‏۵۰،‏ ۵۱‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن‏)‏ یسوع مسیح اصطلاح ”‏دُنیا کے شروع“‏ کے ذریعے اُن لوگوں کی طرف اشارہ کر رہے تھے جو گُناہ سے نجات پانے کے لائق تھے۔‏ سچ ہے کہ ہابل کے زمانے میں زمین پر آدم،‏ حوا اور قائن بھی موجود تھے لیکن خدا کی نظر میں صرف ہابل نجات پانے کے لائق تھے۔‏ * اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہابل نے جس ماحول میں پرورش پائی،‏ وہ اچھا نہیں تھا۔‏

حالانکہ انسانی تاریخ ابھی شروع ہی ہوئی تھی لیکن ہر طرف اُداسی کی گھٹا چھائی ہوئی تھی۔‏ بِلاشُبہ آدم اور حوا خوبصورت اور چست‌وتوانا تھے لیکن اُنہوں نے بہت بڑا گُناہ کِیا تھا۔‏ جب خدا نے اُن کو بنایا تو وہ بےعیب تھے اور ہمیشہ تک زندہ رہ سکتے تھے۔‏ لیکن پھر اُنہوں نے کائنات کے خالق،‏ یہوواہ خدا کے خلاف بغاوت کی اور خدا نے اُنہیں باغِ‌عدن سے نکال دیا۔‏ دراصل آدم اور حوا خودغرض بن گئے تھے۔‏ اُنہوں نے اپنی خواہشوں کی خاطر اپنی آنے والی اولاد کے مستقبل کو بھی داؤ پر لگا دیا۔‏ وہ عیب‌دار ہو گئے اور ہمیشہ تک زندہ رہنے کے موقعے کو گنوا بیٹھے۔‏—‏پیدایش ۲:‏۱۵–‏۳:‏۲۴‏۔‏

جب خدا نے آدم اور حوا کو باغِ‌عدن سے نکال دیا تو اُن کی زندگی مشکلات سے بھر گئی۔‏ پھر اُن کا پہلا بچہ پیدا ہوا اور اُنہوں نے اُس کا نام قائن رکھا۔‏ حوا نے قائن کے بارے میں کہا:‏ ”‏مجھے [‏یہوواہ]‏ کی مدد سے ایک بیٹا حاصل ہوا ہے۔‏“‏ (‏پیدایش ۴:‏۱‏،‏ کیتھولک ترجمہ‏)‏ شاید حوا نے یہ اِس لئے کہا کیونکہ اُن کو وہ وعدہ یاد آیا جو خدا نے باغِ‌عدن میں کِیا تھا۔‏ اِس وعدے کے مطابق ایک عورت سے ایک ”‏نسل“‏ یعنی ایک ایسے شخص کو پیدا ہونا تھا جو شیطان کو ختم کر دے گا کیونکہ شیطان ہی کی وجہ سے باغِ‌عدن میں بغاوت ہوئی تھی۔‏ (‏پیدایش ۳:‏۱۵‏)‏ کیا حوا کو لگا کہ یہ بات اُن پر پوری ہوئی ہے اور قائن وہ شخص ہیں جو شیطان کو ختم کریں گے؟‏

اگر حوا نے ایسا سوچا تھا تو یہ اُن کی بہت بڑی بھول تھی۔‏ ہو سکتا ہے کہ حوا نے قائن کے ذہن میں بھی یہ بات ڈالی ہو اور یوں اپنے بیٹے کے دل میں غرور کو ہوا دی ہو۔‏ کچھ عرصے بعد آدم اور حوا کا ایک اَور بیٹا پیدا ہوا جس کا نام اُنہوں نے ہابل رکھا۔‏ اِس نام کا مطلب ہے:‏ ”‏آہ“‏ یا ”‏باطل۔‏“‏ (‏پیدایش ۴:‏۲‏)‏ شاید اُنہوں نے ہابل کو یہ نام اِس لئے دیا کیونکہ اُن کو ہابل سے ویسی اُمید وابستہ نہیں تھی جیسی قائن سے تھی۔‏

والدین آدم اور حوا سے سبق سیکھ سکتے ہیں۔‏ وہ اپنی باتوں اور اپنے کاموں سے یا تو اپنے بچوں کے دل میں غرور اور خودغرضی کو ہوا دے سکتے ہیں یا پھر اُن کے دل میں یہوواہ خدا کے لئے محبت کے بیج بو سکتے ہیں اور اُن کو خدا سے دوستی کرنے کا درس دے سکتے ہیں۔‏ افسوس کی بات ہے کہ آدم اور حوا نے اپنے بچوں کی اچھی تربیت نہیں کی۔‏ لیکن کیا اِس کا مطلب تھا کہ اب اُن کے بچوں کے لئے اُمید کی کوئی کرن باقی نہ تھی؟‏

ہابل کا ایمان کیسے مضبوط ہوا؟‏

جب قائن اور ہابل بڑے ہوئے تو آدم نے اُن کو کام‌کاج کرنا سکھایا تاکہ وہ گھر والوں کی ضروریات پوری کرنے میں اُن کا ہاتھ بٹا سکیں۔‏ قائن کھیتی‌باڑی کرنے لگے اور ہابل چرواہے کے طور پر کام کرنے لگے۔‏

ہابل نے صرف جسمانی ضروریات کے بارے میں نہیں سوچا بلکہ اُنہوں نے مضبوط ایمان بھی پیدا کِیا۔‏ (‏عبرانیوں ۱۱:‏۴‏)‏ غور کریں کہ اُس وقت ہابل کے سامنے کسی انسان کی مثال نہیں تھی جس پر وہ عمل کر سکتے۔‏ تو پھر اُنہوں نے مضبوط ایمان کیسے پیدا کِیا؟‏ آئیں،‏ اِس سلسلے میں تین باتوں پر غور کریں جن کے ذریعے ہابل کا ایمان مضبوط ہوا۔‏

خدا کی بنائی ہوئی چیزیں:‏

خدا نے زمین پر لعنت بھیجی تھی جس کی وجہ سے زمین پر کانٹےدار جھاڑیاں اُگنے لگیں اور اِس پر کاشت‌کاری کرنا مشکل ہو گیا۔‏ لیکن پھر بھی اِس پر اِتنا اناج اُگتا تھا کہ ہابل کے سب گھر والے پیٹ بھر کھانا کھا سکتے تھے۔‏ خدا نے صرف زمین پر لعنت بھیجی تھی،‏ اُس نے جانوروں،‏ پرندوں اور مچھلیوں؛‏ پہاڑوں،‏ ندیوں اور دریاؤں؛‏ بادلوں،‏ سورج اور چاند ستاروں پر لعنت نہیں بھیجی تھی۔‏ اِن چیزوں میں ہابل کو خالق کی محبت،‏ حکمت اور فیاضی کی جھلک نظر آتی تھی۔‏ (‏رومیوں ۱:‏۲۰‏)‏ یہوواہ خدا کی بنائی ہوئی چیزوں پر غور کرنے سے ہابل کا ایمان یقیناً مضبوط ہوا ہوگا۔‏

ایک اَور بات جس کے ذریعے ہابل کا ایمان مضبوط ہوا ہوگا،‏ وہ اُن کا پیشہ تھا۔‏ ہابل اپنی بھیڑوں کو چرانے کے لئے اُن کو دُوردُور تک لے جاتے تھے۔‏ وہ اپنی بھیڑوں کو ایسی جگہ لے کر جاتے جہاں ہری‌ہری گھاس،‏ صاف‌شفاف پانی اور سایہ‌دار درخت ہوتے۔‏ ہابل کو لگتا ہوگا کہ باقی جانوروں کی نسبت بھیڑوں کو انسان کی رہنمائی اور مدد کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔‏ شاید ہابل کو لگا ہو کہ ایک بھیڑ کی طرح اُن کو بھی رہنمائی اور مدد کی ضرورت ہے۔‏ وہ جانتے تھے کہ خدا سب سے زیادہ حکمت والا اور طاقت‌ور ہے اِس لئے اُنہوں نے رہنمائی اور مدد کے لئے خدا پر آس لگائی ہوگی۔‏ بےشک اُنہوں نے اِس سلسلے میں خدا سے دُعا بھی کی ہوگی جس کی وجہ سے اُن کا ایمان اَور مضبوط ہوا ہوگا۔‏

خدا کی بنائی ہوئی چیزوں کو دیکھ کر ہابل کا ایمان مضبوط ہوا۔‏

خدا کی پیشین‌گوئیاں:‏

آدم اور حوا نے یقیناً اپنے بیٹوں کو بتایا ہوگا کہ جب یہوواہ خدا نے اُن کو باغِ‌عدن سے نکالا تھا تو اُس نے کن‌کن باتوں کی پیشین‌گوئی کی تھی۔‏ ہابل نے خدا کی اِن پیشین‌گوئیوں پر بھی سوچ‌بچار کِیا ہوگا۔‏

یہوواہ خدا نے آدم اور حوا سے کہا تھا کہ زمین لعنتی ہوگی۔‏ ہابل نے دیکھا کہ یہوواہ خدا کی یہ بات پوری ہوئی ہے کیونکہ زمین پر بہت زیادہ کانٹےدار جھاڑیاں اُگ رہی تھیں۔‏ یہوواہ خدا نے حوا سے کہا تھا کہ اُنہیں حمل اور زچگی کے دوران بہت زیادہ درد ہوگا۔‏ جب ہابل کے چھوٹے بہن‌بھائی پیدا ہوئے تو ہابل نے دیکھا کہ یہوواہ خدا کی یہ بات بھی پوری ہوئی ہے۔‏ یہوواہ خدا نے یہ بھی کہا تھا کہ حوا کو اپنے شوہر کی محبت اور توجہ کی شدید طلب ہوگی اور آدم اپنی بیوی پر رُعب جمائیں گے۔‏ ہابل نے اپنے ماں‌باپ کی زندگی میں اِس بات کو بھی پورا ہوتے دیکھا ہوگا۔‏ اِس طرح ہابل کو پتہ چل گیا کہ یہوواہ خدا جو کچھ کہتا ہے،‏ وہ ضرور پورا ہوتا ہے۔‏ اِس لئے ہابل پکا یقین رکھ سکتے تھے کہ یہوواہ خدا کے وعدے کے مطابق ایک ایسا شخص ضرور آئے گا جو شیطان کو مات دے کر زمین پر اچھے حالات لائے گا۔‏—‏پیدایش ۳:‏۱۵-‏۱۹‏۔‏

خدا کے خادم:‏

ہابل کے گھر والوں نے اُن کے لئے اچھی مثال قائم نہیں کی تھی۔‏ تو پھر ہابل نے کس کی مثال پر عمل کِیا؟‏ اُس زمانے میں زمین پر ایک اَور طرح کی مخلوق بھی تھی جو بڑی باشعور تھی۔‏ یہ کون‌سی مخلوق تھی؟‏ جب خدا نے آدم اور حوا کو باغِ‌عدن سے نکالا تھا تو اُس نے باغِ‌عدن کے داخلی راستے پر اعلیٰ درجے کے فرشتوں اور ایک شعلہ‌زن تلوار کو کھڑا کر دیا تاکہ کوئی بھی اندر نہ جا سکے۔‏—‏پیدایش ۳:‏۲۴‏۔‏

جب ہابل چھوٹے تھے تو اُنہوں نے جا کر اِن فرشتوں کو دیکھا ہوگا۔‏ اِن فرشتوں نے انسانی بدن اپنائے ہوئے تھے اور وہ بہت ہی طاقت‌ور لگ رہے تھے۔‏ اِن کے پاس ہی ایک تلوار گھوم رہی تھی جس سے شعلے نکل رہے تھے۔‏ یہ سب کچھ دیکھ کر ہابل بہت متاثر ہوئے ہوں گے۔‏ وقت گزرتا گیا اور ہابل بڑے ہو گئے۔‏ اُنہوں نے دیکھا کہ یہ فرشتے اُسی جگہ کھڑے ہیں جہاں یہوواہ خدا نے اُن کو کھڑا ہونے کو کہا تھا۔‏ فرشتوں نے تنگ آکر اُس کام کو نہیں چھوڑا جو یہوواہ خدا نے اُن کو دیا تھا۔‏ خدا کے یہ خادم واقعی فرمانبردار اور وفادار تھے۔‏ یقیناً اُنہوں نے ہابل کے لئے اچھی مثال قائم کی۔‏ اِن کو دیکھ کر ہابل کا ایمان اَور مضبوط ہوا ہوگا۔‏

ہابل دیکھ سکتے تھے کہ فرشتے یہوواہ خدا کے فرمانبردار اور وفادار رہے۔‏

یہوواہ خدا کی بنائی ہوئی چیزوں،‏ اُس کی پیشین‌گوئیوں اور اُس کے خادموں کی عمدہ مثال پر غور کرنے سے ہابل کا ایمان مضبوط ہوتا گیا۔‏ اِس طرح ہابل نے ہم سب کے لئے بہت اچھی مثال قائم کی۔‏ ہابل کی طرح آج‌کل کے نوجوان بھی مضبوط ایمان پیدا کر سکتے ہیں چاہے اُن کے گھر والے ایسا کریں یا نہ کریں۔‏ ہمارے اِردگِرد خدا کی بنائی ہوئی بہت سی چیزیں ہیں،‏ ہمارے پاس پاک کلام ہے اور ہمارے سامنے بہت سے ایسے لوگوں کی مثالیں بھی ہیں جو مضبوط ایمان کے مالک ہیں۔‏ اِن پر غور کرنے سے ہم بھی ہابل کی طرح اپنے ایمان کو مضبوط کر سکتے ہیں۔‏

ہابل کی قربانی بہتر کیوں تھی؟‏

ہابل کوئی ایسا کام کرنا چاہتے تھے جس سے خدا خوش ہو جائے۔‏ وہ جانتے تھے کہ کائنات کے خالق کو کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔‏ تو پھر وہ یہوواہ خدا کے لئے کیا کر سکتے تھے؟‏ ہابل سمجھ گئے کہ اگر وہ اپنی چیزوں میں سے بہترین چیز خدا کو دے دیں اور وہ صحیح نیت سے ایسا کریں تو خدا اُن سے خوش ہوگا۔‏

ہابل نے فیصلہ کِیا کہ وہ اپنی سب سے اچھی بھیڑیں خدا کے لئے قربانی کے طور پر پیش کریں گے۔‏ اُنہوں نے اپنے گلّے میں سے پہلوٹھے برّے لئے،‏ اُن کو ذبح کِیا اور اُن کے جسم کے سب سے اچھے حصے تیار کئے۔‏ قائن بھی خدا سے برکت حاصل کرنا چاہتے تھے۔‏ اُنہوں نے فیصلہ کِیا کہ وہ اپنا کچھ اناج،‏ پھل اور سبزیاں خدا کے حضور پیش کریں گے۔‏ لیکن قائن کی نیت صحیح نہیں تھی۔‏ یہ بات اُس وقت واضح ہو گئی جب اِن دونوں بھائیوں نے خدا کے حضور قربانی چڑھائی۔‏

ہابل نے صحیح نیت سے قربانی چڑھائی جبکہ قائن کی نیت صحیح نہیں تھی۔‏

قائن اور ہابل کو پتہ تھا کہ جو فرشتے باغِ‌عدن کی حفاظت کر رہے ہیں،‏ وہ یہوواہ خدا کے نمائندے ہیں۔‏ اِس لئے ہو سکتا ہے کہ اُنہوں نے ایک ایسی جگہ قربان‌گاہ بنا کر قربانی چڑھائی ہو جہاں یہ فرشتے اُن کو دیکھ سکیں۔‏ جب اِن دونوں بھائیوں نے قربانی چڑھائی تو یہوواہ خدا نے کیا کِیا؟‏ پاک کلام میں لکھا ہے:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ نے ہابلؔ کو اور اُس کے ہدیہ کو منظور کِیا۔‏“‏ (‏پیدایش ۴:‏۴‏)‏ خدا نے کیسے ظاہر کِیا کہ اُس نے ہابل کی قربانی کو قبول کِیا ہے؟‏ اِس بارے میں پاک کلام میں کچھ نہیں لکھا۔‏ لیکن خدا نے ہابل کی قربانی کو قبول کیوں کِیا؟‏

کیا خدا کو وہ چیز پسند آئی تھی جو ہابل نے قربانی کے طور پر چڑھائی تھی؟‏ ہابل نے جاندار شے کی قربانی دی تھی جس کا خون زندگی کی علامت تھا۔‏ کیا ہابل جانتے تھے کہ یہ قربانی خدا کی نظر میں کتنی قیمتی ہے؟‏ کئی صدیوں بعد یہوواہ خدا نے بنی‌اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ ایک بےعیب برّے کو اُس کے حضور قربانی کے طور پر چڑھایا کریں۔‏ اِس کے ذریعے خدا نے ظاہر کِیا کہ مستقبل میں یسوع مسیح ’‏خدا کے برّے‘‏ کے طور پر اپنی جان قربان کریں گے۔‏ (‏یوحنا ۱:‏۲۹؛‏ خروج ۱۲:‏۵-‏۷‏)‏ ہابل اِن باتوں سے واقف نہیں تھے۔‏

البتہ ہابل،‏ یہوواہ خدا پر سچا ایمان رکھتے تھے اور اُس سے محبت کرتے تھے۔‏ اُنہوں نے اپنی بہترین چیزیں صحیح نیت سے خدا کے حضور پیش کیں۔‏ یہوواہ خدا ہابل سے خوش تھا اور اُس نے ہابل کی قربانی کو قبول کِیا۔‏

کیا خدا نے قائن کی قربانی کو بھی قبول کِیا؟‏ پاک کلام میں لکھا ہے کہ خدا نے ”‏قاؔئن کو اور اُس کے ہدیہ کو منظور نہ کِیا۔‏“‏ (‏پیدایش ۴:‏۵‏)‏ کیا قائن نے جو قربانی پیش کی تھی،‏ اُس میں کوئی خرابی تھی؟‏ نہیں۔‏ صدیوں بعد خدا نے بنی‌اسرائیل کو میدہ اور تیل کی قربانی چڑھانے کی اجازت دی اور یہ چیزیں کاشت‌کاری سے ہی حاصل ہوتی ہیں۔‏ (‏احبار ۶:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ لیکن پاک کلام میں قائن کے بارے میں لکھا ہے کہ ”‏اُس کے کام بُرے تھے۔‏“‏ (‏۱-‏یوحنا ۳:‏۱۲‏)‏ آج‌کل کے بہت سے لوگوں کی طرح قائن نے بھی سوچا کہ خدا کی برکت حاصل کرنے کے لئے بس قربانی چڑھانا کافی ہے۔‏ مگر خدا کے نزدیک صرف قربانی چڑھانا کافی نہیں۔‏ اِس کے لئے سچا ایمان اور صحیح نیت بھی ہونی چاہئے۔‏ قائن کا ایمان کھوکھلا تھا اور وہ خدا سے محبت نہیں کرتے تھے۔‏ یہ بات اُن کے کاموں سے ظاہر ہو گئی۔‏

جب قائن نے دیکھا کہ خدا نے اُن کی قربانی کو قبول نہیں کِیا تو کیا اُنہوں نے ہابل کی طرح بننے کی کوشش کی؟‏ نہیں۔‏ اُن کے دل میں نفرت کی آگ بھڑکنے لگی۔‏ یہوواہ خدا نے قائن کو سمجھایا کہ اُن کو اپنا رویہ بدلنا چاہئے کیونکہ وہ گُناہ کرنے کے خطرے میں ہیں۔‏ اُس نے قائن سے یہ بھی کہا کہ اگر قائن اپنا رویہ بدلیں گے تو وہ اُن سے بھی خوش ہوگا۔‏—‏پیدایش ۴:‏۶،‏ ۷‏۔‏

قائن نے خدا کی نہ سنی۔‏ جب ہابل کھیت میں اُن کے ساتھ تھے تو قائن نے اُن پر حملہ کر دیا اور اُن کو مار ڈالا۔‏ (‏پیدایش ۴:‏۸‏)‏ یوں ہابل خدا کی راہ میں شہید ہونے والے پہلے انسان تھے۔‏ وہ تو مر گئے لیکن پھر بھی وہ کلام کرتے رہے۔‏ مگر کیسے؟‏

ہابل کا خون مجازی معنوں میں انصاف کے لئے خدا کو پکار رہا تھا۔‏ خدا نے قائن کو سزا دی اور یوں ہابل کو انصاف ملا۔‏ (‏پیدایش ۴:‏۹-‏۱۲‏)‏ ہابل اپنی مثال کے ذریعے ہم سے بھی بات کرتے ہیں۔‏ اگرچہ ہابل جلد مر گئے لیکن وہ اپنی ساری زندگی خدا کو خوش کرتے رہے۔‏ پاک کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا ہابل سے پیار کرتا تھا۔‏ (‏عبرانیوں ۱۱:‏۴‏)‏ اِس لئے ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ جب زمین فردوس بن جائے گی تو خدا ہابل کو دوبارہ زندہ کرے گا۔‏ (‏یوحنا ۵:‏۲۸،‏ ۲۹‏)‏ اگر آپ ہابل جیسا ایمان پیدا کریں گے تو آپ بھی اُن کے ساتھ فردوس میں ہمیشہ کی زندگی کا لطف اُٹھا سکیں گے۔‏

^ پیراگراف 8 پاک کلام میں اصطلاح ”‏دُنیا کے شروع“‏ کا مطلب ہے:‏ زمین پر پیدا ہونے والا سب سے پہلا انسان۔‏ لیکن یسوع مسیح نے ہابل کو اِس اصطلاح سے کیوں جوڑا حالانکہ قائن زمین پر پیدا ہونے والے سب سے پہلے انسان تھے؟‏ دراصل قائن نے جان‌بُوجھ کر خدا کے خلاف بغاوت کی تھی۔‏ اِس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا کی نظر میں آدم اور حوا کے ساتھ‌ساتھ قائن بھی اِس لائق نہیں کہ اُن کو دوبارہ زندہ کِیا جائے اور گُناہ سے نجات دی جائے۔‏