سرِورق کا موضوع: کون سی حکومت کرپشن سے پاک ہے؟
خدا کی بادشاہت—کرپشن سے پاک حکومت
ملک نکاراگوا میں سرکاری حسابات کی جانچ کرنے والے اِدارے کے نگران نے بتایا کہ حکومت سے کرپشن کو ختم کرنا کیوں ناممکن ہے۔ اُنہوں نے کہا: ”ہمارا معاشرہ کرپشن سے بھرا پڑا ہے اور سرکاری افسر بھی اِسی معاشرے کا حصہ ہیں۔“
کیا آپ اِس بات سے اِتفاق نہیں کریں گے کہ اگر اِنسانی معاشرہ کرپشن کی دَلدل میں دھنسا ہوا ہے تو اِس سے تعلق رکھنے والی ہر حکومت بھی اِس کی لپیٹ میں ہوگی؟ تو پھر ایک ایسی حکومت ہی کرپشن سے پاک ہو سکتی ہے جو اِنسانی معاشرے سے باہر ہو۔ خدا کے کلام میں ایسی ہی حکومت کا ذکر کِیا گیا ہے۔ یہ خدا کی بادشاہت ہے جس کے بارے میں یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کو دُعا کرنے کے لیے کہا تھا۔—متی 6:9، 10۔
خدا کی بادشاہت ایک حقیقی حکومت ہے جو آسمان سے حکمرانی کرتی ہے۔ یہ حکومت تمام اِنسانی حکومتوں کو ختم کر دے گی۔ (زبور 2:8، 9؛ مکاشفہ 16:14؛ 19:19-21) خدا کی بادشاہت سے اِنسانوں کو بہت سے فائدے حاصل ہوں گے جن میں سے ایک فائدہ یہ ہوگا کہ یہ کرپشن کا نامونشان مٹا دے گی۔ آئیں، چھ ایسی باتوں پر غور کریں جن سے ہمارا یقین مضبوط ہو جائے گا کہ خدا کی بادشاہت ہی کرپشن کا خاتمہ کرے گی۔
1. اِختیار
مسئلہ: حکومتوں کو پیسہ شہریوں کے ٹیکسوں کے ذریعے ملتا ہے۔ بعض سرکاری افسر پیسے کی ریلپیل دیکھ کر ہیرا پھیری کرنے لگتے ہیں جبکہ دیگر افسر لوگوں سے پیسہ بٹور کر اُن کے ٹیکسوں اور بِلوں کی ادائیگی میں کمی کر دیتے ہیں۔ اِس طرح حکومت کے پیسے میں کمی ہوتی ہے اور نقصان کی بھرپائی کرنے کے لیے ٹیکسوں کو بڑھا دیا جاتا ہے۔ ٹیکسوں کے بڑھنے سے رشوتخوری بھی اَور بڑھتی ہے۔ ایسی صورت میں دیانتدار لوگوں کا نقصان سب سے زیادہ ہوتا ہے۔
مسئلے کا حل: خدا کی بادشاہت قادرِمطلق یہوواہ کے اِختیار سے چلتی ہے۔ * (مکاشفہ 11:15) اِس حکومت کو اپنی رعایا سے ٹیکس وصول کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ چونکہ خدا بہت طاقتور اور فراخدل ہے اِس لیے ہم اِس بات پر پورا یقین رکھ سکتے ہیں کہ اُس کی بادشاہت سب لوگوں کی ضروریات پوری کرے گی۔—یسعیاہ 40:26؛ زبور 145:16۔
2. حکمران
مسئلہ: پروفیسر سوزن روز ایکرمین جن کا پچھلے مضمون میں ذکر ہوا تھا، بتاتی ہیں کہ کرپشن کو ختم کرنے کے لیے ”سب سے پہلے اُن بددیانت لوگوں کو عہدے سے ہٹایا جانا چاہیے جو اُونچی کُرسیوں پر بیٹھے ہیں۔“ ایسی حکومت سے لوگوں کا اِعتماد اُٹھ جاتا ہے جو بددیانت پولیس والوں اور کسٹم حکام کے ساتھ تو سختی سے پیش آتی ہے لیکن اعلیٰ عہدےداروں کی بددیانتی کو نظرانداز کرتی ہے۔ سچ ہے کہ کچھ حکمران ایسے ہیں جو بددیانت نہیں ہیں لیکن اُن سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں۔ پاک کلام میں لکھا ہے: ”زمین پر کوئی ایسا راستباز اِنسان نہیں کہ نیکی ہی کرے۔“—واعظ 7:20۔
یسوع مسیح نے دُنیا کی سب سے بڑی رشوت کو ٹھکرا دیا۔
مسئلے کا حل: خدا نے یسوع مسیح کو اپنی بادشاہت کا بادشاہ چنا ہے۔ بہت سے اِنسان تو رشوت لینے کی طرف مائل ہیں لیکن یسوع مسیح کو رشوت دے کر غلط کام کرنے کی ترغیب نہیں دی جا سکتی۔ یہ بات اُس واقعے سے ثابت ہوتی ہے جب یسوع مسیح نے دُنیا کی سب سے بڑی رشوت کو ٹھکرا دیا۔ شیطان چاہتا تھا کہ یسوع مسیح ایک بار جھک کر اُسے سجدہ کریں۔ اِس کے لیے اُس نے یسوع مسیح کو ”دُنیا کی سب سلطنتیں اور اُن کی شانوشوکت“ دینے کی پیشکش کی۔ (متی 4:8-10؛ یوحنا 14:30) یسوع مسیح نے تو اُس وقت بھی خدا کا وفادار رہنے کا عزم نہیں توڑا جب وہ دردناک موت سہہ رہے تھے۔ جب اُن کی تکلیف کو کم کرنے کے لیے اُنہیں نشہور دوائی پیش کی گئی تو اُنہوں نے اِسے لینے سے اِنکار کر دیا کیونکہ اِس سے وہ پوری طرح سے ہوشوحواس میں نہ رہتے۔ (متی 27:34) اب یسوع مسیح خدا کے ساتھ آسمان پر ہیں۔ اُنہوں نے ثابت کِیا ہے کہ وہ خدا کی بادشاہت کا حکمران ہونے کے پوری طرح سے لائق ہیں۔—فلپیوں 2:8-11۔
3. پائیداری
مسئلہ: بہت سے ملکوں میں باقاعدگی سے الیکشن ہوتے ہیں۔ الیکشنوں کا ایک مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو بددیانت سیاستدانوں سے چھٹکارا پانے کا موقع ملے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ الیکشن کے دوران کرپشن کو اَور ہوا ملتی ہے یہاں تک کہ اُن ملکوں میں بھی جو ترقییافتہ کہلاتے ہیں۔ چونکہ امیر لوگ الیکشن کی مہموں کے لیے پیسے دیتے ہیں اِس لیے وہ جیتنے والے سیاستدانوں پر کافی اثرورسوخ رکھتے ہیں۔
امریکہ کے سپریم کورٹ کے جج جان پال سٹیون نے بتایا کہ اِس صورتحال کی وجہ سے یہ خطرہ ہے کہ ”حکومت ناجائز طریقے سے اِختیار میں آئے اور عوام کی بھلائی کا خیال نہ رکھے اور یوں لوگوں کا بھروسا اِس سے اُٹھ جائے۔“ لہٰذا اِس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ دُنیا بھر میں لوگوں کو تمام اِداروں میں سے سیاسی جماعتیں ہی سب سے زیادہ بددیانت لگتی ہیں۔
مسئلے کا حل: خدا کی بادشاہت ایک ابدی حکومت ہے اِس لیے الیکشن سے ہونے والی کرپشن کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا۔ (دانیایل 7:13، 14) اِس بادشاہت کے بادشاہ کو خدا نے چنا ہے اِس لیے اِس حکومت کو نہ تو لوگوں کے ووٹوں کی ضرورت ہوگی اور نہ ہی کوئی اَور حکومت اِس کی جگہ لے سکے گی۔ چونکہ خدا کی حکومت ہمیشہ تک قائم رہے گی اِس لیے وہ ہمیشہ ایسے کام کرے گی جس سے اُس کی رعایا کو ابدی فائدے حاصل ہوں۔
4. قوانین
مسئلہ: شاید آپ کو لگے کہ نئے قوانین بنانے سے کرپشن کو دُور کِیا جا سکتا ہے۔ لیکن ماہرین نے دیکھا ہے کہ جتنے زیادہ قوانین بنائے جاتے ہیں اُتنا ہی زیادہ لوگوں کو کرپشن کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اِس کے علاوہ کرپشن کو ختم کرنے کے لیے جو قوانین بنائے جاتے ہیں، اُن کو نافذ کرنے میں اکثر پیسہ تو بہت لگتا ہے لیکن فائدہ بہت ہی کم ہوتا ہے۔
مسئلے کا حل: خدا کی بادشاہت کے قوانین اِنسانی حکومتوں کے بنائے قوانین سے کہیں اعلیٰ ہیں۔ مثال کے طور پر یسوع مسیح نے قوانین کی ایک لمبی فہرست دینے کی بجائے یہ سنہری اصول دیا: ”جو کچھ تُم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں وہی تُم بھی اُن کے ساتھ کرو۔“ (متی 7:12) اِس کے علاوہ خدا کی بادشاہت نے جو قوانین بنائے ہیں، وہ نہ صرف ہمارے کاموں بلکہ ہماری سوچ اور احساسات پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر یسوع مسیح نے کہا: ”اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔“ (متی 22:39) چونکہ خدا اِنسان کے دل کو جانتا ہے اِس لیے وہ دیکھ سکتا ہے کہ آیا ہم ایسے حکموں پر عمل کرتے ہیں یا نہیں۔—1-سموئیل 16:7۔
5. قدریں
مسئلہ: کرپشن کے پیچھے لالچ اور خودغرضی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ سرکاری افسروں اور شہریوں میں اکثر یہ خامیاں پائی جاتی ہیں۔ پچھلے مضمون میں ہم نے شہر سیول میں ایک بڑی دُکان کے گِرنے کا ذکر کِیا تھا۔ یہ حادثہ لالچ کا ہی نتیجہ تھا کیونکہ سرکاری افسروں نے ٹھیکےداروں سے رشوت کھائی تھی اور ٹھیکےدار جانتے تھے کہ اگر وہ جانی تحفظ کے قوانین کی پابندی کریں گے اور تعمیراتی کام کے لیے معیاری مواد اِستعمال کریں گے تو اُنہیں بہت پیسہ لگانا پڑے گا جبکہ رشوت کے لیے اُنہیں زیادہ پیسہ نہیں دینا پڑے گا۔
کرپشن کو مٹانے کے لیے لوگوں کو یہ سیکھنا ہوگا کہ وہ اپنے اندر سے لالچ اور خودغرضی کو کیسے دُور کریں۔ لیکن اِنسانی حکومتیں نہ تو یہ خواہش رکھتی ہیں اور نہ ہی وہ اِس قابل ہیں کہ شہریوں کو یہ قدریں سکھائیں۔
مسئلے کا حل: خدا کی بادشاہت لوگوں کو سکھا رہی ہے کہ وہ اپنے اندر سے ایسی * اِس تعلیم کے ذریعے لوگ سیکھ رہے ہیں کہ وہ ’اپنی عقل [یعنی سوچ] کو نیا بناتے جائیں۔‘ (افسیوں 4:23) وہ اپنے اندر سے لالچ کو دُور کرتے ہیں، اُنہی چیزوں پر خوش رہتے ہیں جو اُن کے پاس ہیں اور اپنے فائدے کا سوچنے کی بجائے دوسروں کا فائدہ سوچتے ہیں۔—فلپیوں 2:4؛ 1-تیمتھیس 6:6۔
خامیوں کو کیسے دُور کر سکتے ہیں جن کی وجہ سے کرپشن پیدا ہوتی ہے۔ یوں وہ کرپشن کو اُس کی جڑ سے اُکھاڑ رہی ہے۔6. رعایا
مسئلہ: چاہے ایک ملک کا ماحول کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو اور شہریوں کو کتنے ہی اچھے معیار کیوں نہ سکھائے جائیں، کچھ لوگ پھر بھی بددیانتی سے کام لیتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اِسی وجہ سے حکومتیں کرپشن کا نامونشان نہیں مٹا سکتیں۔ وہ بس کسی حد تک کرپشن کو اور اِس سے ہونے والے نقصان کو کم کر سکتی ہیں۔
مسئلے کا حل: اقوامِمتحدہ نے کرپشن کے خلاف کی گئی قرارداد میں کہا کہ کرپشن سے لڑنے کے لیے حکومتوں کو ”دیانتداری اور فرضشناسی“ کو فروغ دینا ہوگا۔ یہ ایک اچھا اِرادہ ہے۔ لیکن خدا کی بادشاہت نہ صرف ایسی خوبیوں کو فروغ دیتی ہے بلکہ صاف صاف بتاتی ہے کہ صرف وہی لوگ اِس بادشاہت کی رعایا بن سکتے ہیں جو اپنے اندر ایسی خوبیاں پیدا کرتے ہیں۔ پاک کلام میں لکھا ہے کہ ”لالچی“ اور ’جھوٹے‘ لوگ خدا کی بادشاہت کے وارث نہیں ہوں گے۔—1-کرنتھیوں 6:9-11؛ مکاشفہ 21:8۔
لوگ خدا کے معیاروں کے مطابق چلنا سیکھ سکتے ہیں۔ یہ بات اِبتدائی مسیحیوں نے ثابت کی۔ مثال کے طور پر شمعون نامی آدمی معجزے کرنے کی نعمت حاصل کرنا چاہتے تھے اور اِس کے لیے اُنہوں نے یسوع مسیح کے شاگردوں کو رشوت دینے کی کوشش کی لیکن شاگردوں نے اِسے ٹھکرا دیا اور شمعون سے کہا: ”اپنی اِس بدی سے توبہ کر۔“ جب شمعون کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اُنہوں نے شاگردوں سے کہا کہ وہ اُن کے لیے دُعا کریں تاکہ وہ اپنے لالچ پر قابو پا سکیں۔—اعمال 8:18-24۔
آپ خدا کی بادشاہت کی رعایا کیسے بن سکتے ہیں؟
چاہے آپ کسی بھی ملک سے تعلق رکھتے ہوں، آپ خدا کی بادشاہت کی رعایا بن سکتے ہیں۔ (اعمال 10:34، 35) یہ بادشاہت پوری دُنیا میں لوگوں کو ایسے معیار سکھا رہی ہے جو اِس کی رعایا بننے کے لیے ضروری ہیں۔ یہوواہ کے گواہ آپ کو دِکھا سکتے ہیں کہ وہ لوگوں کے ساتھ بائبل کا مُفت مطالعہ کیسے کرتے ہیں۔ یہ مطالعہ ہر ہفتے دس منٹ میں بھی کِیا جا سکتا ہے۔ اِس مطالعے کے دوران آپ ”خدا کی بادشاہی کی خوشخبری“ کے بارے میں بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں جس میں یہ بھی شامل ہے کہ کرپشن کا خاتمہ کیسے ہوگا۔ (لوقا 4:43) کیوں نہ اپنے علاقے میں یہوواہ کے گواہوں سے رابطہ کریں یا پھر ہماری ویبسائٹ jw.org کو دیکھیں؟
^ پیراگراف 8 یہوواہ پاک کلام کے مطابق خدا کا ذاتی نام ہے۔
^ پیراگراف 22 مثال کے طور پر مینارِنگہبانی 1 نومبر 2012ء میں مضمون ”دیانتداری کی راہ پر چلنا ممکن ہے“ کو دیکھیں۔