بڑھاپا—پریشانی یا زینت؟
جب آپ بڑھاپے کے بارے میں سوچتے ہیں تو آپ کو کیسا محسوس ہوتا ہے؟ بہت سے لوگ شاید پریشان ہو جائیں یا پھر ڈر جائیں۔ دراصل بڑھاپے کا خیال آتے ہی ذہن میں منفی باتیں آنے لگتی ہیں جیسے کہ چہرے کی جھریاں، جھکی کمر، کمزور یادداشت اور طرح طرح کی بیماریاں۔
لیکن ہمیں اِس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ بڑھتی عمر کے اثرات سب لوگوں پر ایک جیسے نہیں ہوتے۔ بعض لوگ بڑھاپے میں بھی جسمانی اور ذہنی اِعتبار سے کسی حد تک صحتمند رہتے ہیں۔ اِس کے علاوہ طبی میدان میں ترقی کی وجہ سے بہت سی بیماریوں پر قابو پانا یا اُن کا مکمل علاج کرنا ممکن ہو گیا ہے۔ اِس لیے کچھ ملکوں میں لمبی اور تندرست زندگی پانے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
چاہے کسی کو بڑھاپے کے مسائل کا سامنا ہو یا نہ ہو، وہ یہی چاہتا ہے کہ اُس کا بڑھاپا اچھا گزرے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ اِس کا اِنحصار اِس بات پر ہے کہ آپ بڑھاپے کو کیسا خیال کرتے ہیں اور اِس کے ساتھ آنے والی تبدیلیوں کو کس حد تک قبول کرتے ہیں۔ اِس سلسلے میں خدا کے کلام کے کچھ اصول آپ کی مدد کر سکتے ہیں۔ آئیں، چند اصولوں پر غور کریں۔
خاکساری سے کام لیں: ”خاکساروں کے ساتھ حکمت ہے۔“ (امثال 11:2) اگر بڑھاپے کے حوالے سے دیکھا جائے تو ”خاکساروں“ سے مُراد وہ لوگ ہیں جو بڑھاپے کے ساتھ آنے والی تبدیلیوں سے آنکھ نہیں چراتے بلکہ اِنہیں قبول کر لیتے ہیں۔ برازیل کے رہنے والے چارلس اِس وقت 93 سال کے ہیں اور وہ کہتے ہیں: ”اگر آپ لمبی عمر پانا چاہتے ہیں تو یاد رکھیں کہ بڑھاپا بھی ضرور آئے گا۔ آپ وقت کا پہیہ پیچھے کو نہیں گھما سکتے۔“
لیکن خاکسار ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ زندگی سے ہار مان جائیں۔ آپ کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ”اب تو مَیں بوڑھا ہو گیا ہوں۔ میرے لیے اب زندگی میں کیا رکھا ہے؟“ ایسی سوچ آپ کے جوش اور جذبے کو کم کر سکتی ہے۔ خدا کے کلام میں لکھا ہے: ”اگر تُو مصیبت کے دن ہمت ہار کر ڈھیلا ہو جائے تو تیری طاقت جاتی رہے گی۔“ (امثال 24:10، اُردو جیو ورشن) خاکسار شخص تو دانشمندی سے کام لیتا ہے اور جو کچھ اُس کے بس میں ہوتا ہے، وہ کرتا ہے۔
کوراڈو کی عمر 77 سال ہے اور وہ اِٹلی میں رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ”چڑھائی چڑھنے کے لیے آپ کو گیئر بدل کر گاڑی کی رفتار کم کرنی پڑتی ہے تاکہ انجن بند نہ ہو جائے۔“ اِسی طرح بڑھاپے میں آپ کو اپنے معمول میں کچھ تبدیلیاں کرنی پڑتی ہیں تاکہ آپ کی صحت خراب نہ ہو۔ کوراڈو اور اُن کی بیوی نے گھر کے کامکاج کا ایک شیڈول بنایا ہے۔ وہ اپنے روزمرہ کے کام آرام آرام سے کرتے ہیں تاکہ دن کے آخر پر تھک کر چُور
نہ ہو جائیں۔ میرین 81 سال کی ہیں اور برازیل میں رہتی ہیں۔ وہ بھی تسلیم کرتی ہیں کہ اب وہ اُس رفتار سے کام نہیں کر سکتیں جیسے وہ پہلے کرتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں: ”مَیں اب ٹھہر ٹھہر کر کام کرتی ہوں۔ جب مَیں ایک کام کر لیتی ہوں تو دوسرا شروع کرنے سے پہلے مَیں بیٹھ کر یا لیٹ کر کوئی کتاب پڑھتی ہوں یا کچھ گانے سنتی ہوں۔ مَیں مانتی ہوں کہ میرے اندر اب پہلے جیسی طاقت اور پھرتی نہیں رہی۔“اپنے پہناوے کا خیال رکھیں: ”عورتیں حیادار لباس سے شرم اور پرہیزگاری کے ساتھ اپنے آپ کو سنواریں۔“ (1-تیمُتھیُس 2:9) اِس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں لباس کے سلسلے میں سمجھداری اور اچھے ذوق سے کام لینا چاہیے۔ باربرا کینیڈا سے ہیں اور اُن کی عمر 74 سال ہے۔ وہ کہتی ہیں: ”میری نظر میں یہ بہت اہم ہے کہ مَیں ہمیشہ صاف ستھری نظر آؤں۔ مَیں پُرانی طرز کا لباس نہیں پہنتی۔ مَیں یہ نہیں سوچتی کہ ”اب مَیں بوڑھی ہو گئی ہوں اِس لیے میری وضع قطع جیسی بھی ہو، کوئی فرق نہیں پڑتا۔““ برازیل کی رہنے والی فرن کی عمر 91 سال ہے۔ وہ کہتی ہیں: ”وقتاًفوقتاً نئے کپڑے خریدنے سے مجھے بڑی خوشی ہوتی ہے۔“ لباس اور صفائی ستھرائی کے سلسلے میں عمررسیدہ مردوں کی رائے کیا ہے؟ برازیل کے رہنے والے 73 سالہ اینٹونیو کہتے ہیں: ”مَیں صاف ستھرا اور نئی طرز کا لباس پہنتا ہوں۔ مَیں ہر روز داڑھی بناتا اور نہاتا ہوں۔“
لیکن اچھا نظر آنے کی کوشش میں اپنی عمر کو نہ بھولیں۔ جنوبی کوریا کی 69 سالہ بوکیم اپنے پہناوے کے سلسلے میں بڑی سمجھداری کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ”مَیں سمجھتی ہوں کہ اب مَیں ویسا لباس نہیں پہن سکتی جیسا مَیں جوانی میں پہنتی تھی۔“
اپنی سوچ مثبت رکھیں: ”مصیبتزدہ کے تمام ایّام بُرے ہیں پر خوشدل ہمیشہ جشن کرتا ہے۔“ (امثال 15:15) شاید آپ اُس وقت کو یاد کر کے اُداس ہو جائیں جب آپ میں زیادہ طاقت تھی اور آپ سب کچھ کر لیتے تھے۔ آپ کی اُداسی جائز ہے۔ لیکن کوشش کریں کہ آپ اِس کے بوجھ تلے دب نہ جائیں۔ ماضی کو یاد کرتے رہنے سے آپ مایوسی کا شکار ہو سکتے ہیں اور آپ شاید وہ کام بھی نہ کر پائیں جو آپ ابھی بھی کر سکتے ہیں۔ جوزف 79 سال کے ہیں اور کینیڈا میں رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ”ہر وقت ماضی کو یاد کرنے کی بجائے مَیں آج کی قدر کرتا ہوں اور جو کام مَیں ابھی کر سکتا ہوں، اُنہیں کرنے سے لطف اُٹھاتا ہوں۔“
کتابیں پڑھنے اور نئی نئی باتیں سیکھنے سے بھی آپ کی سوچ مثبت اور وسیع ہو سکتی ہے۔ اِس لیے جب بھی آپ کو کچھ پڑھنے اور سیکھنے کا موقع ملے تو اِسے ہاتھ سے جانے نہ دیں۔ فلپائن کے 74 سالہ ارنسٹو لائبریری جاتے ہیں اور پڑھنے کے لیے دلچسپ کتابیں لاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ”مجھے اچھے ناول پڑھنا بہت پسند ہے۔ اِن کے ذریعے مَیں اپنے گھر کی قید سے نکل کر دُنیا کی سیر کرنے لگتا ہوں۔“ سویڈن کے 75 سالہ لینارٹ نے تو ایک نئی زبان سیکھنے کا بیڑا اُٹھایا۔
فراخدلی سے کام لیں: ”دیا کرو۔ تمہیں بھی دیا جائے گا۔“ (لُوقا 6:38) دوسروں کی مدد کرنے کے لیے اپنا وقت اور وسائل اِستعمال کریں۔ اِس سے آپ کو خوشی اور اِطمینان ملے گا۔ اوسا 85 سال کی ہیں اور برازیل میں رہتی ہیں۔ وہ بڑھاپے کے مسائل کے باوجود دوسروں کی مدد کرنے کی پوری کوشش کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ”مَیں اپنے اُن دوستوں کو فون کرتی ہوں یا خط لکھتی ہوں جو بیمار ہیں یا پھر کسی وجہ سے بےحوصلہ ہو گئے ہیں۔ کبھی کبھار مَیں اُنہیں کوئی چھوٹا سا تحفہ بھیجتی ہوں۔ مجھے اپنے بیمار دوستوں کے لیے کھانا پکانا یا کوئی میٹھی چیز بنانا بھی اچھا لگتا ہے۔“
اگر آپ فراخدل ہیں تو دوسرے بھی آپ کے ساتھ فراخدلی سے پیش آئیں گے۔ سویڈن میں رہنے والے 66 سالہ یان کہتے ہیں: ”جب آپ دوسروں سے پیار کرتے ہیں تو وہ بھی آپ کے ساتھ پیار اور محبت سے پیش آتے ہیں۔“ واقعی ایک فراخدل شخص محبت کی ایسی فضا پیدا کرتا ہے جس سے سبھی لطفاندوز ہوتے ہیں۔
دوست بنیں اور بنائیں: ”جو اپنے آپ کو سب سے الگ رکھتا ہے اپنی خواہش کا طالب ہے اور ہر معقول بات سے برہم ہوتا ہے۔“ (امثال 18:1) ظاہری بات ہے کہ آپ کبھی کبھار اکیلے وقت گزارنا چاہتے ہیں لیکن خیال رکھیں کہ آپ دوسروں سے بالکل کٹ نہ جائیں۔ اِنوسینٹ کی عمر 72 سال ہے اور وہ نائجیریا میں رہتے ہیں۔ اُنہیں اپنے دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا بہت اچھا لگتا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ”مجھے ہر عمر کے لوگوں کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا پسند ہے۔“ بریا کا تعلق سویڈن سے ہے اور وہ 85 سال کے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ”مجھے جوانوں کے ساتھ وقت گزارنا بڑا پسند ہے۔ اُن کے جوش اور جذبے کو دیکھ کر میرا دل بھی جوان ہو جاتا ہے۔“ آپ بھی اپنے دوستوں کو کبھی کبھار اپنے گھر پر بلائیں۔ جنوبی کوریا کے رہنے والے 72 سالہ ہینسک کہتے ہیں: ”ہم میاں بیوی کی دوستی جوان اور بوڑھے دونوں طرح کے لوگوں سے ہے۔ ہم اُنہیں اپنے گھر کھانے پر بلاتے ہیں اور کبھی کبھی ہم ویسے ہی باتیں کرنے کے لیے اِکٹھے ہوتے ہیں۔“
ایک اچھا دوست نہ صرف اپنے دوستوں سے بات کرتا ہے بلکہ اُن کی بات سنتا بھی ہے۔ لہٰذا اپنے دوستوں کے حالات اور احساسات کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں۔ ہیلنا موزمبیق میں رہتی ہیں اور اُن کی عمر 71 سال ہے۔ وہ کہتی ہیں: ”مَیں اپنے دوستوں سے بڑے پیار اور عزت سے پیش آتی ہوں اور اُن کی بات دھیان سے سنتی ہوں۔ یوں مجھے اُن کے احساسات اور پسند ناپسند کا پتہ چلتا ہے۔“ برازیل کے 73 سالہ یوزے کہتے ہیں: ”لوگ اکثر ایسے اشخاص سے دوستی کرنا چاہتے ہیں جو اُن کی بات دھیان سے سنیں؛ جن کے دل میں اُن کے لیے ہمدردی ہو؛ جو اُنہیں داد دیں اور جو ہنسی مذاق کرنے والے ہوں۔“
جب آپ دوسروں سے بات کریں تو خیال رکھیں کہ آپ کا ”کلام ہمیشہ . . . پُرفضل اور نمکین ہو۔“ (کُلسّیوں 4:6) سوچ سمجھ کر بات کریں اور دوسروں کا حوصلہ بڑھائیں۔
شکرگزاری ظاہر کریں: ”تُم شکرگذار رہو۔“ (کُلسّیوں 3:15) جب کوئی آپ کی مدد کرتا ہے تو اُس کا شکریہ ادا کریں۔ ایسا کرنے سے آپ اور اُس شخص کے درمیان تعلقات اَور اچھے ہوں گے۔ کینیڈا کی رہنے والی 74 سالہ میری پال کہتی ہیں: ”مَیں اور میرا شوہر کچھ عرصہ پہلے اپنے بڑے گھر سے ایک فلیٹ میں منتقل ہوئے۔ ہمارے بہت سے دوستوں نے سارا سامان منتقل کرنے میں ہماری مدد کی۔ ہم اُن کا جتنا بھی شکریہ ادا کریں، کم ہے۔ ہم نے اُنہیں کارڈ بھیجے اور اب تک ہم اُن میں سے کچھ کو اپنے گھر کھانے پر بلا چکے ہیں۔“ جےوان جنوبی کوریا سے ہیں اور اُن کی عمر 76 سال ہے۔ وہ اپنے اُن دوستوں کی بڑی شکرگزار ہیں جو اُنہیں اپنی گاڑی میں عبادت کے لیے لے کر جاتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ”مَیں اُن کی دل سے شکرگزار ہوں۔ اِس لیے مَیں گاڑی کے پٹرول کا خرچہ اُٹھانے میں اُن کی کچھ مدد کرتی ہوں۔ مَیں اُن کا شکریہ ادا کرنے کے لیے کبھی کبھار اُنہیں کارڈ کے ساتھ کوئی چھوٹا تحفہ دیتی ہوں۔“
سب سے بڑھ کر زندگی کی نعمت کے لیے خدا کا شکر ادا کریں کیونکہ ’زندگی کا چشمہ اُس کے پاس ہے۔‘ (زبور 36:9) لہٰذا بڑھاپے کے بارے میں مثبت نظریہ رکھیں اور اِس کے ساتھ آنے والی تبدیلیوں کو قبول کریں۔ یوں آپ بڑھاپے سے پریشان یا خوفزدہ نہیں ہوں گے بلکہ اِسے زینت خیال کریں گے۔