ہیسوس مارٹن | آپبیتی
”یہوواہ نے مشکل وقت میں میرا ساتھ دیا“
مَیں 1936ء میں سپین کے دارالحکومت میدرِد میں پیدا ہوا۔ یہ سال سپین کے لوگ کبھی نہیں بھول سکتے کیونکہ اِس سال سپین میں ایک بہت ہی خطرناک خانہجنگی شروع ہوئی تھی۔
سپین میں یہ خانہجنگی تقریباً تین سال تک چلتی رہی اور اِس کی وجہ سے لوگوں کو جسمانی اور جذباتی لحاظ سے بہت نقصان ہوا۔ میرے ابو کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ وہ ہمیشہ سے خدا پر یقین رکھتے تھے لیکن جب اُنہوں نے دیکھا کہ کیتھولک مذہب کے لوگ جنگ میں پوری طرح شریک ہیں تو وہ بہت مایوس ہو گئے اور اُنہیں بہت غصہ آتا تھا۔ اِس لیے اُنہوں نے فیصلہ کِیا کہ مجھے اور میرے بھائی کو کیتھولک چرچ میں بپتسمہ نہیں دیا جائے گا۔
1950ء میں یہوواہ کے دو گواہوں نے ہمارے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ میرے ابو نے بڑے اچھے سے اُن کی بات سنی اور ہر ہفتے بائبل کورس کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ اُس وقت مَیں 14 سال کا تھا اور فٹبال ہی میری زندگی تھی۔ ابو نے بڑی کوشش کی کہ مَیں اُن کتابوں کو پڑھوں جو یہوواہ کے گواہ ہمیں دے کر جاتے تھے لیکن مَیں ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ ایک دن جب مَیں دوپہر کو فٹبال میچ کھیل کے گھر واپس آیا تو مَیں نے امی سے پوچھا: ”امی کیا یہوواہ کے گواہ پھر سے آ گئے ہیں؟“ امی نے کہا: ”جی وہ آپ کے ابو کے ساتھ اندر کمرے میں ہیں۔“ مَیں پھر سے گھر سے باہر بھاگ گیا۔
مجھے اِس بات نے بہت متاثر کِیا کہ بھلے ہی مجھے بائبل کی تعلیم میں کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن اِس وجہ سے ابو بےحوصلہ نہیں ہوئے۔ اُنہیں تو بائبل کی اُس تعلیم سے بہت محبت تھی جو وہ سیکھ رہے تھے۔ اِس لیے 1953ء میں اُنہوں نے یہوواہ کے گواہ کے طور پر بپتسمہ لے لیا۔ اِس وجہ سے میرے دل میں بڑا تجسّس پیدا ہوا اور مَیں اُن سے بہت سے سوال پوچھنے لگا۔ مَیں نے اُن سے یہ بھی کہا کہ وہ مجھے ایک بائبل پڑھنے کے لیے دیں۔ ابو نے ایک بھائی سے کہا کہ وہ مجھے بائبل کورس کرائیں۔ اُس بھائی کا نام میکسیمو مُرسیا تھا۔ دو سال بعد جب مَیں 19 سال کا ہوا تو مَیں نے یہوواہ کے ایک گواہ کے طور پر بپتسمہ لے لیا۔ مَیں نے میدرِد کے مشرق کی طرف ایک دریا میں بپتسمہ لیا۔ اِس دریا کا نام حراما تھا۔
فرانسسکو فرانکو کی حکومت میں مُنادی کرنا
1950ء کے لگ بھگ ہمارے لیے مُنادی کرنا اور عبادت کے لیے ایک جگہ جمع ہونا بہت ہی مشکل ہو گیا تھا۔ آمر فرانسسکو فرانکو سپین پر حکومت کر رہا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ اِس ملک میں صرف کیتھولک ہوں۔ اِس وجہ سے پولیس اکثر یہوواہ کے گواہوں کو پریشان کرتی تھی۔ ہم عبادت کے لیے کچھ گھروں میں جمع ہوتے تھے اور اِس بات کا پورا خیال رکھتے تھے کہ اِردگِرد کے لوگوں کی نظر ہم پر نہ پڑے کیونکہ وہ پولیس کو ہمارے بارے میں بتا سکتے تھے۔ ہم گھر گھر مُنادی کرتے وقت بھی بہت محتاط رہتے تھے۔ ہم دو یا تین گھروں میں مُنادی کر کے فوراً اگلے علاقے میں چلے جاتے تھے۔ بہت سے لوگ ہمارے پیغام کو سنتے تھے لیکن ہر کسی کو یہ پسند نہیں آتا تھا۔
ایک بار مُنادی کرتے وقت مجھے کیتھولک چرچ کا ایک پادری ملا۔ جب مَیں نے اُسے اپنے آنے کا مقصد بتایا تو اُس نے پوچھا: ”تُم کس کی اِجازت سے یہ کر رہے ہو؟ کیا تمہیں پتہ ہے کہ مَیں پولیس کو تمہارے بارے میں بتا سکتا ہوں؟“ مَیں نے اُسے بتایا کہ ہم جانتے ہیں کہ لوگ پولیس کو ہمارے بارے میں بتا سکتے ہیں۔ مَیں نے اُس سے کہا: ”یسوع مسیح کے دُشمنوں نے اُنہیں گِرفتار کرنے کی کوشش کی تھی۔ اِس لیے ہمیں یہ توقع ہے کہ اُن کے پیروکاروں کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے۔“ اُسے میرا جواب سُن کر بہت غصہ آیا اور وہ پولیس کو فون کرنے کے لیے اندر چلا گیا۔ اِس لیے مَیں فوراً وہاں سے چلا گیا۔
کچھ بُرے تجربوں کے باوجود بھی سپین میں رہنے والے مبشروں کو بہت سے ایسے لوگ ملے جو بائبل کے پیغام میں دلچسپی رکھتے تھے۔ فروری 1956ء میں تنظیم نے مجھے خصوصی پہلکار a بنا دیا۔ اُس وقت مَیں 19 سال کا ہی تھا۔ ہم میں سے زیادہتر پہلکار نوجوان تھے اور ہمیں اِتنا تجربہ نہیں تھا۔ لیکن کچھ مشنریوں نے ہمیں ٹریننگ دی اور ہمارا حوصلہ بڑھایا۔ مجھے اور ایک اَور بھائی کو پہلکاروں کے طور پر شہر ایلاکانتے بھیج دیا گیا جہاں ابھی تک کسی نے مُنادی نہیں کی تھی۔ کچھ ہی مہینوں میں ہم بہت سے لوگوں کو بائبل کورس کرانے لگے اور ہم نے لوگوں کو ہزاروں کتابیں دیں۔
بہت سے لوگوں کا اِس بات پر دھیان گیا کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ ابھی ہمیں ایلاکانتے میں کچھ ہی مہینے ہوئے تھے کہ پولیس نے ہمیں گِرفتار کر لیا اور ہماری بائبل ضبط کر لی۔ اُنہوں نے ہمیں 33 دن جیل میں رکھا اور اِس کے بعد میدرِد لے جا کر ہمیں رِہا کر دیا۔ یہ 33 دنوں کی قید آنے والے وقت کی بس ایک جھلک تھی۔
میری زندگی کا ایک کٹھن وقت
21 سال کی عمر میں مجھے حکومت کی طرف سے یہ حکم ملا کہ مَیں فوج میں بھرتی ہو جاؤں۔ مجھے شمالی مراکش کے شہر نیڈر میں فوجیوں کے کیمپ میں جانا تھا۔ اُس وقت وہاں سپین کی حکومت تھی۔ وہاں مَیں نے فوجی افسر کو بڑے احترام سے لیکن صاف بتایا کہ نہ تو مَیں فوج میں بھرتی ہوں گا اور نہ مَیں وردی پہنوں گا۔ فوجی مجھے شہر ملیلا لے گئے جہاں مجھے روستروگوردو جیل میں رکھا گیا۔ مجھے تب تک وہاں رکھا گیا جب تک فوجی عدالت میں میرا مُقدمہ نہیں چلایا گیا۔
میرے مُقدمے سے پہلے مراکش میں سپین کے ایک فوجی افسر نے فیصلہ کِیا کہ فوجی مجھے تب تک مارتے رہیں گے جب تک مَیں اپنا فیصلہ بدل نہیں لیتا۔ اِس کے نتیجے میں میری بہت بےعزتی کی گئی۔ مجھے 20 منٹ تک مارا گیا اور پھر مَیں زمین پر گِر گیا۔ لیکن وہ تب بھی نہیں رُکے۔ فوج کا اعلیٰ افسر تب تک اپنے بوٹ سے میرے سر پر مارتا رہا جب تک میرے سر سے خون نہیں نکل آیا۔ اِس کے بعد وہ مجھے اپنے آفس لے گیا اور چلّا کر مجھ سے کہنے لگا: ”یہ نہ سوچو کہ مَیں بس کر دوں گا۔ ہر روز اِس سے بھی زیادہ مار کھانے کے لیے تیار ہو جاؤ۔“ اُس نے اپنے گارڈ سے کہا کہ وہ مجھے تہخانے کی جیل میں بند کر دے۔ جیل میں بہت نمی اور اندھیرا تھا۔ لیکن مجھے اپنا مستقبل تو اِس سے بھی زیادہ تاریک نظر آ رہا تھا۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب مَیں جیل کی زمین پر لیٹا ہوا تھا تو میرے سر سے ابھی بھی خون نکل رہا تھا۔ میرے پاس بس ایک پتلا سا کمبل تھا اور کچھ چوہوں کا ساتھ تھا جو ہر تھوڑی تھوڑی دیر بعد باہر نکل آتے تھے۔ مَیں بس یہوواہ سے یہ دُعا کر رہا تھا کہ وہ مجھے ہمت دے اور اِس مشکل کو برداشت کرنے میں میری مدد کرے۔ اِس ٹھنڈی اور اندھیری جیل میں مَیں بار بار یہوواہ سے دُعا کرتا رہا۔ b
اگلے دن مجھے پھر سے مارا پیٹا گیا اور اِس بار ایک فرق فوجی افسر نے مجھے مارا۔ فوجیوں کا اِنچارج مجھے دیکھتا رہا تاکہ مجھے تب تک پٹواتا رہے جب تک اُسے سکون نہ مل جائے۔ اُس وقت مجھے لگ رہا تھا کہ شاید مَیں اِس تکلیف کو زیادہ دیر تک برداشت نہ کر پاؤں۔ جیل میں دوسری رات مَیں نے یہوواہ سے مدد کی اِلتجا کی۔
تیسرے دن مجھے پھر سے فوجیوں کے اِنچارج کے آفس لے جایا گیا۔ مجھے ڈر تھا کہ مجھے پھر سے مارا پیٹا جائے گا۔ جب مَیں آفس کی طرف جا رہا تھا تو مَیں نے یہوواہ سے دُعا کی۔ فوجی عدالت کا سیکرٹری ڈون ایسٹبن c میرا اِنتظار کر رہا تھا۔ وہ میرے خلاف مُقدمہ شروع کرنے آیا تھا۔
جب ڈون ایسٹبن نے میرے سر پر پٹی دیکھی تو اُس نے پوچھا کہ کیا ہوا ہے۔ مَیں اُسے کچھ بتانے سے ڈر رہا تھا کیونکہ مجھے لگ رہا تھا کہ ایسا کرنے کی وجہ سے مجھے اَور مارا پیٹا جائے گا۔ لیکن مَیں نے پھر بھی اُسے سب کچھ بتا دیا۔ میری بات سننے کے بعد اُس نے کہا: ”مَیں تُم پر مُقدمہ چلنے سے تو نہیں روک سکتا لیکن آئندہ تمہیں کوئی ہاتھ نہیں لگائے گا۔“
جیسا اُس نے کہا تھا ویسا ہی ہوا۔ جب تک مَیں جیل میں رہا، کسی نے مجھے اُنگلی تک نہیں لگائی۔ مجھے اب تک نہیں پتہ کہ ڈون ایسٹبن نے اُس دن مجھ سے کیوں بات کی۔ لیکن مَیں یہ ضرور جانتا ہوں کہ یہوواہ نے بڑے حیرتانگیز طریقے سے میری دُعاؤں کا جواب دیا۔ مَیں یہ دیکھ سکتا تھا کہ یہوواہ اِس کٹھن وقت میں میری مدد کر رہا ہے اور اُس نے مجھے میری برداشت سے زیادہ اذیت نہیں سہنے دی۔ (1-کُرنتھیوں 10:13) مُقدمے کے دوران مَیں یہوواہ پر پورا بھروسا کرتا رہا۔
عدالت نے مجھے 19 سال کی قید کی سزا سنائی جس میں تین سال صرف اِس لیے بڑھا دیے گئے کیونکہ اُنہیں لگ رہا تھا کہ مَیں اُن کی بات نہیں مان رہا۔ مجھے مراکش میں 15 مہینے رکھنے کے بعد سپین کی اوکانا جیل بھیج دیا گیا جو میدرِد سے بہت زیادہ دُور نہیں تھی۔ وہاں جانا میرے لیے ایک برکت ثابت ہوا۔ یہ روستروگوردو جیل سے کہیں بہتر جگہ تھی۔ مجھے ایک بیڈ، ایک گدّا اور کچھ چادریں دی گئیں۔ کچھ وقت بعد مجھے جیل کے خزانچی کی ذمےداری دے دی گئی۔ لیکن مَیں بہت اکیلا محسوس کرتا تھا۔ میرے لیے سب سے مشکل یہ تھا کہ مَیں اپنے ہمایمانوں کے ساتھ نہیں تھا۔
میرے امی ابو مجھ سے کبھی کبھار ملنے آتے تھے لیکن مجھے اَور بھی زیادہ حوصلے کی ضرورت تھی۔ امی ابو نے مجھے بتایا کہ اَور بھی بھائیوں نے فوج میں بھرتی ہونے سے اِنکار کِیا ہے اور اُن کے ساتھ بھی یہی سب ہو رہا ہے۔ اِس لیے مَیں نے یہوواہ سے دُعا کی کہ کم سے کم ایک بھائی میرے ساتھ اِس جیل میں آ جائے۔ یہوواہ نے ایک بار پھر سے بڑے زبردست طریقے سے میری دُعا کا جواب دیا اور اِس بار تو اُس نے ایسے طریقے سے میری دُعا کا جواب دیا جس کی مَیں نے توقع بھی نہیں کی تھی۔ جلد ہی بھائی البرتو کونتاک، بھائی فرانسکو ڈیاز اور بھائی انتونیو سینچیز اوکانا جیل میں آ گئے۔ چار سال اکیلے رہنے کے بعد آخرکار مجھے میرے بھائیوں کا ساتھ مل گیا تھا۔ اب ہم چاروں مل کر خدا کے کلام کا مطالعہ کر سکتے تھے اور دوسرے قیدیوں میں مُنادی کر سکتے تھے۔
رِہائی اور پھر سے یہوواہ کی خدمت
آخرکار 1964ء میں مجھے ضمانت پر رِہا کر دیا گیا۔ میری 22 سال کی قید کو کم کر کے ساڑھے 6 سال کر دیا گیا۔ جس دن مَیں جیل سے رِہا ہوا اُسی دن مَیں عبادت پر گیا۔ حالانکہ میرے پاس تھوڑے سے پیسے تھے لیکن میدرِد واپس جانے کے لیے مَیں نے وہ پیسے کرائے میں دے دیے۔ مَیں وقت پر عبادت کے لیے پہنچ گیا۔ مَیں بہن بھائیوں سے دوبارہ مل کر بہت خوش تھا۔ لیکن میرے لیے یہی کافی نہیں تھا۔ مَیں دوبارہ سے پہلکار کے طور پر خدمت شروع کرنا چاہتا تھا۔ حالانکہ ابھی بھی پولیس بہن بھائیوں کو ڈرا دھمکا رہی تھی لیکن بہت سے لوگ بادشاہت کی خوشخبری کو قبول کر رہے تھے اور ابھی بھی بہت سا کام باقی تھا۔
اِس دوران میری ملاقات مرسیڈیز سے ہوئی۔ وہ بہت ہی جوش سے خصوصی پہلکار کے طور پر خدمت کر رہی تھیں۔ وہ بہت خاکسار تھیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بادشاہت کی خوشخبری سنانا چاہتی تھیں۔ وہ بہت ہی شفیق اور فراخدل تھیں اور اُن کی یہی خوبیاں مجھے بھا گئیں۔ ہمیں ایک دوسرے سے محبت ہو گئی اور ایک سال بعد ہم نے شادی کر لی۔ مرسیڈیز کا ساتھ میرے لیے یہوواہ کی طرف سے ایک بہت بڑی برکت ہے۔
ہماری شادی کے کچھ مہینوں بعد مجھے حلقے کے نگہبان کے طور پر خدمت کرنے کو کہا گیا۔ ہم ہر ہفتے فرق فرق کلیسیاؤں کا دورہ کرتے تھے۔ ہم بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر عبادت اور مُنادی کرتے تھے۔ پورے سپین میں بہت سی نئی کلیسیائیں تھیں اور بہن بھائیوں کو مدد اور حوصلے کی ضرورت تھی۔ کچھ وقت کے لیے مجھے بارسیلونا میں یہوواہ کے گواہوں کے ایک ایسے دفتر میں کام کرنے کا اعزاز بھی ملا جہاں سے حکومت سے بچ کر مُنادی کے کام میں مدد کی جاتی تھی۔
1967ء میں سپین کی حکومت نے یہ قانون بنایا کہ سپین کے سب شہریوں کو مذہبی آزادی ملنی چاہیے۔ اِس لیے ہمیں چھپ کر یہوواہ کی عبادت کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ آخرکار 1970ء میں یہوواہ کے گواہوں کو قانونی حیثیت مل گئی۔ اب ہم آزادی سے ایک دوسرے سے مل سکتے تھے اور اپنی عبادتگاہیں بنا سکتے اور اپنی برانچ کھول سکتے تھے۔
یہوواہ کی خدمت میں نئی ذمےداریاں
1971ء میں مجھے اور مرسیڈیز کو ہماری بارسیلونا برانچ میں خدمت کرنے کے لیے بُلایا گیا۔لیکن ایک سال بعد ہمیں پتہ چلا کہ مرسیڈیز ماں بننے والی ہیں۔ ہماری بہت ہی پیاری سی بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام ہم نے ابیگیل رکھا۔ اِس وجہ سے ہمیں بیتایل چھوڑنا پڑا۔ لیکن اب ہمیں ایک نئی ذمےداری مل گئی تھی۔ ہمیں اپنی بیٹی کی پرورش کرنی تھی۔
جب ہماری بیٹی پندرہ سولہ سال کی ہو گئی تو برانچ نے ہم سے پوچھا کہ کیا ہم دوبارہ سے کلیسیاؤں کا دورہ کرنا شروع کر سکتے ہیں۔ ہم نے اِس معاملے کے بارے میں یہوواہ سے دُعا کی اور کچھ تجربہکار بھائیوں سے مشورہ کِیا۔ کلیسیا کے ایک بزرگ نے مجھ سے کہا: ”ہیسوس! اگر بھائی چاہتے ہیں کہ آپ پھر سے کلیسیاؤں کا دورہ کریں تو آپ کو اِس سے اِنکار نہیں کرنا چاہیے۔“ اِس لیے ہم نے اپنی زندگی کا ایک نیا سفر شروع کِیا۔ شروع میں ہم اپنے علاقے کی قریبی کلیسیاؤں کا دورہ کرتے تھے تاکہ ہم ساتھ ساتھ ابیگیل کا بھی دھیان رکھ سکیں۔ جب ابیگیل بڑی ہو گئی تو ہمیں پھر سے خصوصی کُلوقتی طور پر یہوواہ کی خدمت کرنے کا موقع ملا۔
مَیں نے 23 سال تک حلقے کے نگہبان کے طور پر خدمت کی اور مرسیڈیز نے میرا ساتھ دیا۔ مجھے یہ کام کر کے بہت خوشی ملی تھی اور اِس سے مجھے یہ موقع ملا کہ مَیں اپنے تجربے سے نوجوان بہن بھائیوں کا حوصلہ بڑھا سکوں۔ جب ہم میدرِد کے بیتایل میں تھے تو کچھ وقت کے لیے مَیں نے بزرگوں اور کُلوقتی طور پر خدمت کرنے والے بہن بھائیوں کو ٹریننگ دی۔ بڑی دلچسپی کی بات ہے کہ یہ بیتایل دریائے حراما سے تین کلو (2 میل) میٹر دُور تھا۔ یہ وہی دریا تھا جہاں 1955ء میں مَیں نے بپتسمہ لیا تھا۔ مَیں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ مَیں اِتنے سالوں بعد اُسی علاقے میں واپس آؤں گا اور یہاں آ کر اَور نوجوان بہن بھائیوں کی مدد کروں گا تاکہ وہ یہوواہ کی خدمت میں بڑی ذمےداریاں اُٹھانے کے تیار ہو سکیں۔
2013ء سے ہم پھر سے خصوصی پہلکاروں کے طور پر خدمت کر رہے ہیں۔ سفری نگہبان کے طور پر خدمت کرنے کے بعد پھر سے خصوصی پہلکار کے طور پر خدمت کرنا آسان نہیں تھا۔ لیکن ایسا کرنا ہی صحیح تھا۔ حال ہی میں مجھے صحت کے کچھ مسئلوں کا سامنا ہوا ہے اور میرے دل کا آپریشن بھی ہوا ہے۔ اِن موقعوں پر بھی مَیں نے یہوواہ پر بھروسا رکھا ہے اور ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی اُس نے میرا ساتھ نہیں چھوڑا۔ میری اور مرسیڈیز کی شادی کو 56 سال ہو گئے ہیں۔ اِس سارے عرصے میں وہ میرے لیے بہت اچھی ساتھی ثابت ہوئی ہیں۔ اُنہوں نے یہوواہ کی خدمت میں ملنے والی ذمےداریوں کو نبھانے میں میرا پورا ساتھ دیا ہے۔
مَیں اکثر اُس وقت کے بارے میں سوچتا ہوں جب مَیں بزرگوں اور اُن بہن بھائیوں کو ٹریننگ دیتا تھا جو کُلوقتی خدمت طور پر یہوواہ کی خدمت کر رہے تھے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ اُن کے چہرے پر اُن کا جوش صاف نظر آتا تھا۔ اُن کا جوش دیکھ کر مجھے اپنی جوانی کا وقت یاد آ جاتا تھا اور وہ وقت بھی جب مَیں نے یہوواہ کی خدمت کرنا شروع کی تھی۔ سچ ہے کہ مجھے کچھ مشکلوں سے گزرنا پڑا لیکن مجھے بہت سے شاندار تجربے بھی ہوئے۔ اِن مشکلوں میں سب سے اہم بات جو مَیں نے سیکھی، وہ یہ تھی کہ مجھے کبھی بھی اپنی طاقت پر بھروسا نہیں کرنا۔ اِن مشکلوں میں مَیں یہ دیکھ پایا کہ یہوواہ کتنے حیرتانگیز طریقے سے میری مدد کر رہا ہے اور مجھے طاقت دے رہا ہے۔—فِلپّیوں 4:13۔
a خصوصی پہلکار ایک ایسا کُلوقتی خادم ہوتا ہے جسے یہوواہ کے گواہوں کی برانچ کسی ایسی جگہ بھیجتی ہے جہاں بائبل سے تعلیم دینے والوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
b مَیں سات مہینوں تک ایک ایسی جیل میں رہا جو صرف 4 مربع میٹر کی تھی اور اُس میں کوئی ٹوائلٹ نہیں تھا۔ مَیں گندے فرش پر بس ایک کمبل لے کر سوتا تھا۔
c سپینش زبان بولنے والے ملکوں میں ”ڈون“ کسی شخص کو عزت دینے کے لیے اُس کے نام سے پہلے لگایا جاتا ہے۔