آپ منفی سوچ سے لڑ سکتے ہیں!
آپ منفی سوچ سے لڑ سکتے ہیں!
جب آپ کو زندگی میں کسی مایوسی کا سامنا ہوتا ہے تو آپ کا ردِعمل کیا ہوتا ہے؟ بہت سے ماہرین کا ماننا ہے کہ ایک شخص اِس سوال کا جو جواب دیتا ہے، اُس سے کافی حد تک یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آیا وہ منفی سوچ کا مالک ہے یا مثبت سوچ کا مالک۔ ہر شخص کو زندگی میں مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کچھ لوگوں کو کم مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ کچھ لوگوں کو زیادہ۔ لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کچھ لوگ زندگی کی مشکلوں سے لڑکھڑانے کے بعد اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور کوشش کرنا جاری رکھتے ہیں جبکہ کچھ چھوٹی سی مشکل کا سامنا کرنے پر ہی ہمت ہار بیٹھتے ہیں؟
مثال کے طور پر فرض کریں کہ آپ ایک نوکری تلاش کر رہے ہیں۔ آپ ایک جگہ اِنٹرویو دینے کے لیے جاتے ہیں لیکن آپ کو اُس نوکری کے لیے چُنا نہیں جاتا۔ اِس پر آپ کیسا محسوس کریں گے؟ شاید آپ اِس بات کو دل پر لے لیں اور یہ سوچنے لگیں: ”مجھے کبھی کوئی نوکری پر نہیں رکھے گا۔“ شاید آپ اِس ایک واقعے سے اِتنے مایوس ہو جائیں کہ آپ یہ سوچنے لگیں کہ آپ زندگی کے کسی بھی پہلو میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ شاید آپ خود سے کہیں: ”مَیں کسی کام کا نہیں ہوں۔“ ایسی سوچ سراسر منفی ہے۔
منفی سوچ سے کیسے لڑیں؟
آپ منفی سوچ سے کیسے لڑ سکتے ہیں؟ سب سے پہلے تو آپ کو منفی خیالات کو پہچان لینے کی ضرورت ہے۔ پھر آپ کو اِن پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کو نوکری کے لیے نہیں چُنا جاتا تو یہ سوچیں کہ اِس کے پیچھے کیا وجوہات ہو سکتی ہیں۔ کیا آپ کو واقعی اِس لیے نہیں چُنا گیا کیونکہ کوئی آپ کو نوکری پر نہیں رکھنا چاہتا؟ یا اِس کی محض یہ وجہ ہے کہ باس کو اُس نوکری کے لیے ایک ایسے شخص کی ضرورت تھی جو آپ سے زیادہ تجربہکار ہو۔
اگر آپ کُھلے ذہن سے پوری صورتحال پر غور کریں گے تو آپ یہ دیکھ پائیں گے کہ جو منفی باتیں آپ کے ذہن میں آ رہی ہیں، وہ بالکل بےبنیاد ہیں۔ اگر آپ کو صرف اِس نوکری کے لیے نہیں چُنا جاتا تو کیا اِس کا یہ مطلب ہے کہ آپ واقعی کسی کام کے نہیں ہیں؟ کیا آپ زندگی کے کچھ ایسے پہلوؤں کے بارے میں سوچ سکتے ہیں جن میں آپ کافی کامیاب رہے ہیں جیسے کہ خدا کی خدمت کرنے، رشتے نبھانے اور دوست بنانے میں؟ لہٰذا جب بھی آپ کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ کچھ بُرا ہوگا تو خود کو یہ یقین دِلائیں کہ یہ صرف آپ کی اپنی سوچ ہے۔ خود ہی سوچیں کہ کیا آپ سو فیصد یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ کو کبھی نوکری نہیں ملے گی؟ منفی سوچ کو رد کرنے کے لیے آپ کچھ اَور بھی کر سکتے ہیں۔
منصوبے بنائیں اور اِنہیں پورا کریں
حالیہ سالوں میں تحقیقدانوں نے اُمید کی ایک بہت دلچسپ تشریح پیش کی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اُمید اِس بات پر یقین رکھنا ہے کہ ہم نے جو منصوبے بنائے ہیں، ہم اُن کو ضرور پورا کر پائیں گے۔ لیکن جیسا کہ ہم اگلے مضمون میں دیکھیں گے، اُمید میں اَور بھی کئی باتیں شامل ہیں۔ مگر تحقیقدانوں نے اُمید کی جو تشریح پیش کی ہے، اُس میں بھی سچائی ہے۔ اُمید کی اِس تشریح پر غور کرنے سے ہم مثبت سوچ رکھنے کے قابل ہوں گے۔
اگر آپ اپنے لیے منصوبے بنائیں گے اور اِنہیں پورا کریں گے تو آپ کو اِس بات پر پکا یقین ہو جائے گا کہ آپ آئندہ جو منصوبے بنائیں گے، اُنہیں بھی ضرور پورا کر پائیں گے۔ اگر آپ نے ابھی تک اُن منصوبوں کو پورا نہیں کِیا جو آپ نے اپنے لیے بنائے تھے تو اِس بارے میں سوچیں کہ آپ نے کس طرح کے منصوبے بنائے تھے۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھیں کہ آیا آپ نے کوئی منصوبہ بنایا بھی ہے یا نہیں۔ ہم بڑی آسانی سے روزمرہ کی مصروفیات میں مگن ہو سکتے ہیں جس کی وجہ سے شاید ہمیں یہ سوچنے کا موقع نہ ملے کہ آخر ہم اپنی زندگی سے چاہتے کیا ہیں اور کون سی باتیں ہمارے لیے سب سے زیادہ اہم ہیں۔ زندگی میں زیادہ اہم باتوں کو ترجیح دینے کے حوالے سے خدا کے کلام میں کئی صدیاں پہلے ہی یہ ہدایت دے دی گئی تھی: ”آپ معلوم کرتے رہیں کہ کون سی باتیں زیادہ اہم ہیں۔“—فِلپّیوں 1:10۔
ایک بار جب ہم یہ طے کر لیتے ہیں کہ کون سی باتیں زیادہ اہم ہیں تو ہمارے لیے زندگی کے مختلف حلقوں میں اپنے لیے کچھ منصوبے بنانا اَور زیادہ آسان ہو جاتا ہے جیسے کہ ہم یہ دیکھ پاتے ہیں کہ ہم خدا کی خدمت، گھریلو زندگی اور ملازمت کے حوالے سے اپنے لیے کون سے منصوبے بنائیں گے۔ البتہ ہمیں اِس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ ہم ایک ہی دم اپنے لیے بہت سارے منصوبے نہ بنا لیں۔ اِس کے علاوہ ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ہم ایسے منصوبے بنائیں جنہیں ہم آسانی سے پورا بھی کر سکیں۔ اگر ہم کوئی ایسا منصوبہ بنائیں گے جسے پورا کرنا ہمارے لیے بہت مشکل ہے تو ہو سکتا ہے کہ ہم گھبرا کر ہمت ہار بیٹھیں۔ لہٰذا یہ اچھا ہوگا کہ اگر ہم نے کوئی بڑا منصوبہ بنایا ہے تو اِسے پورا کرنے کے لیے ہم چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھائیں۔
کہتے ہیں: ”جہاں چاہ ہے وہاں راہ ہے۔“ کہنے کو تو یہ ایک قدیم کہاوت ہے لیکن اِس میں کافی حد تک سچائی پائی جاتی ہے۔ جب ہم منصوبے بنا لیتے ہیں تو اِنہیں پورا کرنے کے لیے ہمیں اپنے اندر خواہش پیدا کرنے اور اپنے عزم پر ڈٹے رہنے کی ضرورت ہے۔ اپنے عزم کو مضبوط کرنے کے لیے ہم اِس بات پر غور کر سکتے ہیں کہ ہم نے جو منصوبے بنائے ہیں، وہ کتنے اہم ہیں اور جب ہم اِنہیں پورا کریں گے تو ہمیں اِن سے کون سے فائدے حاصل ہوں گے۔ یہ بات سچ ہے کہ جب آپ اپنے منصوبوں کو پورا کرنے کے لیے قدم بڑھائیں گے تو آپ کو کئی رُکاوٹوں کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن اِن رُکاوٹوں کو ایک چیلنج خیال کریں نہ کہ اِن کی وجہ سے ہمت ہار بیٹھیں۔
لیکن ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ہم کن طریقوں سے اپنے منصوبوں کو پورا کریں گے۔ مصنف رِک سنائیڈر جنہوں نے اُمید کی اہمیت پر کافی تحقیق کی ہے، یہ مشورہ دیتے ہیں کہ اگر ایک شخص اپنے کسی منصوبے کو پورا کرنا چاہتا ہے تو اُسے ایسے کئی طریقوں کے بارے میں سوچنا چاہیے جن سے وہ ایسا کر سکتا ہے۔ یوں اگر ایک طریقہ کام نہیں کرے گا تو دوسرا طریقہ اپنایا جا سکتا ہے یا پھر تیسرا یا پھر کوئی اَور۔
رِک یہ بھی مشورہ دیتے ہیں کہ ہمیں یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم کب ایک منصوبے کو چھوڑ کر دوسرے منصوبے کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں۔ اگر ہم کسی وجہ سے اپنا ایک منصوبہ پورا نہیں کر پاتے تو اُس پر خود کو کوستے رہنے سے مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ لیکن اگر ہم اُس کی جگہ کوئی ایسا منصوبہ بنائیں گے جسے پورا کرنا ہمارے بس میں ہے تو ہم پُراُمید ہو جائیں گے۔
پاک کلام میں اِس حوالے سے بڑی ہی عمدہ مثال پائی جاتی ہے۔ یہ مثال بادشاہ داؤد کی ہے جنہوں نے یہ منصوبہ بنایا تھا کہ ایک دن وہ یہوواہ خدا کے لیے ہیکل تعمیر کریں گے۔ لیکن خدا نے داؤد سے کہا کہ ہیکل بنانے کا اعزاز اُنہیں نہیں بلکہ اُن کے بیٹے سلیمان کو ملے گا۔ اِس بات پر دُکھی ہونے یا اپنی منمانی کرنے کی بجائے داؤد نے اپنے منصوبوں کو ہی بدل لیا۔ وہ جی جان لگا کر عطیات اور وہ سازوسامان اِکٹھا کرنے لگے جو بعد میں ہیکل تعمیر کرتے وقت اُن کے بیٹے کے کام آنا تھا۔—1-سلاطین 8:17-19؛ 1-تواریخ 29:3-7۔
اگر ہم منفی سوچ سے لڑتے ہیں اور اپنے لیے ایسے منصوبے بناتے ہیں جنہیں ہم پورا کر سکتے ہیں تو پھر بھی شاید ہمیں نااُمیدی کا سامنا کرنا پڑے۔ ایسا کیوں ہو سکتا ہے؟ کیونکہ اِس دُنیا میں ہم ایسی باتوں کی وجہ سے نااُمید ہو جاتے ہیں جن پر ہمارا کوئی اِختیار نہیں۔ جب آپ اُن مسئلوں پر غور کرتے ہیں جن کا آج اِنسانوں کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے جیسے کہ غربت، جنگوں، نااِنصافیوں، بیماریوں اور موت کا تو آپ تب بھی پُراُمید کیسے رہ سکتے ہیں؟
[صفحہ 7 پر تصویر]
اگر آپ کو کسی نوکری کے لیے نہیں چُنا جاتا تو کیا آپ کو یہ سوچ لینا چاہیے کہ آپ کو کبھی کوئی نوکری پر نہیں رکھے گا؟
[صفحہ 8 پر تصویر]
بادشاہ داؤد نے نئی صورتحال کے مطابق اپنے منصوبوں کو بدل لیا۔