باب 6
خدا نے زمین کو کیوں خلق کِیا؟
خدا کے کلام میں لکھا ہے: ”آسمان تو [یہوواہ] کا آسمان ہے لیکن زمین اُس نے بنیآدم کو دی ہے۔“ (زبور 115:16) اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا نے زمین کو انسانوں کے لئے خلق کِیا۔
آدم کو خلق کرنے سے پہلے خدا نے زمین کے ایک علاقے پر خوبصورت باغ لگایا۔ اِس کا نام باغِعدن تھا۔ پاک صحیفوں کے مطابق دریائےفرات اور دریائےدجلہ اِسی باغ سے نکلتے تھے۔ a خیال کِیا جاتا ہے کہ باغِعدن اُس علاقے میں واقع تھا جو آج تُرکی کے مشرق میں ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ باغِعدن زمین پر واقع تھا۔
خدا نے آدم کو خلق کِیا اور اُسے باغِعدن میں بسایا تاکہ وہ ”اُس کی باغبانی اور نگہبانی کرے۔“ (پیدایش 2:15) اِس کے کچھ عرصہ بعد خدا نے آدم کے لئے ایک بیوی خلق کی جس کا نام حوا تھا۔ خدا نے آدم اور حوا کو حکم دیا: ”پھلو اور بڑھو اور زمین کو معمورومحکوم کرو۔“ (پیدایش 1:28) اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا نے زمین کو بےوجہ پیدا نہیں کِیا ”بلکہ اُس کو آبادی کے لئے آراستہ کِیا۔“—یسعیاہ 45:18۔
لیکن آدم اور حوا نے جانبُوجھ کر خدا کی نافرمانی کی۔ اِس طرح اُنہوں نے خدا کے خلاف بغاوت کی۔ اِس لئے خدا نے اُنہیں باغِعدن سے نکال دیا۔ یوں انسانوں نے فردوس گنوا دیا۔ آدم نے جو گُناہ کِیا تھا، اِس کا اثر تمام انسانوں پر پڑا۔ پاک صحیفوں میں لکھا ہے: ”ایک آدمی کے سبب سے گُناہ دُنیا میں آیا اور گُناہ کے سبب سے موت آئی اور یوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی اِس لئے کہ سب نے گُناہ کِیا۔“—رومیوں 5:12۔
خدا نے زمین کو اِس مقصد کے لئے خلق کِیا کہ اِس پر فردوس یعنی ایک خوبصورت باغ قائم ہو اور انسان اِس میں خوشیخوشی زندگی گزاریں۔ لیکن جب آدم نے گُناہ کِیا تو کیا زمین کے سلسلے میں خدا کا ارادہ بدل گیا؟ جینہیں! پاک صحیفوں میں خدا نے کہا ہے: ”میرا کلام جو میرے مُنہ سے نکلتا ہے . . . بےانجام میرے پاس واپس نہ آئے گا بلکہ جو کچھ میری خواہش ہوگی وہ اُسے پورا کرے گا اور اُس کام میں جس کے لئے مَیں نے اُسے بھیجا مؤثر ہوگا۔“ (یسعیاہ 55:11) اِس لئے ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ زمین پر دوبارہ سے فردوس قائم ہوگا۔
جب زمین فردوس بن جائے گی تو زندگی کیسی ہوگی؟ اِس سلسلے میں اگلے دو صفحوں پر دی گئی آیات پر غور کریں۔
a توریت میں پیدایش 2:10-14 میں لکھا ہے: ”عدؔن سے ایک دریا باغ کے سیراب کرنے کو نکلا اور وہاں سے چار ندیوں میں تقسیم ہوا۔ پہلی کا نام فیسوؔن ہے۔ . . . دوسری ندی کا نام جیحوؔن ہے۔ . . . تیسری ندی کا نام دجلہؔ ہے جو اؔسُور کے مشرق کو جاتی ہے اور چوتھی ندی کا نام فرؔات ہے۔“ آج یہ بات واضح نہیں ہے کہ پہلی دو ندیاں کہاں واقع ہیں اور کس نام سے جانی جاتی ہیں۔