مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

باب نمبر 14

ہر بات میں ایمان‌داری سے کام لیں

ہر بات میں ایمان‌داری سے کام لیں

‏”‏ہم ہر بات میں ایمان‌داری سے کام لینا چاہتے ہیں۔‏“‏—‏عبرانیوں 13:‏18‏۔‏

1،‏ 2.‏ جب ہم ایمان‌داری سے کام لینے کی پوری کوشش کرتے ہیں تو یہوواہ کیسا محسوس کرتا ہے؟‏

ذرا تصور کریں کہ ایک لڑکا سکول سے گھر جا رہا ہے۔‏ راستے میں اُسے پیسوں سے بھرا بٹوا ملتا ہے۔‏ وہ لڑکا کیا کرے گا؟‏ وہ چاہے تو اِس بٹوے کو اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔‏ لیکن وہ ایسا نہیں کرتا بلکہ اِسے اِس کے مالک کو لوٹا دیتا ہے۔‏ جب اُس لڑکے کی ماں کو یہ بات پتہ چلتی ہے تو اُسے اپنے بیٹے پر بڑا فخر محسوس ہوتا ہے۔‏

2 زیادہ‌تر والدین اُس وقت بہت خوش ہوتے ہیں جب اُن کے بچے ایمان‌داری سے کام لیتے ہیں۔‏ ہمارا آسمانی باپ یہوواہ ’‏سچائی کا خدا‘‏ ہے اور جب ہم ایمان‌داری سے کام لیتے ہیں تو اُسے خوشی ہوتی ہے۔‏ (‏زبور 31:‏5‏)‏ ہم یہوواہ کو خوش کرنا چاہتے ہیں اور ”‏ہر بات میں ایمان‌داری سے کام لینا چاہتے ہیں۔‏“‏ (‏عبرانیوں 13:‏18‏)‏ آئیں،‏ زندگی کے چار ایسے حلقوں پر غور کریں جن میں ایمان‌داری سے کام لینا مشکل ہو سکتا ہے۔‏ اِس کے بعد ہم دیکھیں گے کہ ایمان‌داری سے کام لینے کے کیا فائدے ہیں۔‏

ایمان‌داری سے اپنا جائزہ لیں

3-‏5.‏ (‏الف)‏ بعض لوگ خود کو دھوکا کیسے دیتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ کون سی چیزیں ایمان‌داری سے اپنا جائزہ لینے میں ہماری مدد کر سکتی ہیں؟‏

3 ہمیں ایمان‌داری سے اپنا جائزہ لینا چاہیے اور اپنی خامیوں کو تسلیم کرنا چاہیے۔‏ لیکن ایسا کرنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔‏ پہلی صدی عیسوی میں لودیکیہ کی کلیسیا کے بہن بھائی یہ سوچ کر خود کو دھوکا دے رہے تھے کہ وہ خدا کو خوش کر رہے ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔‏ (‏مکاشفہ 3:‏17‏)‏ ہو سکتا ہے کہ ہم بھی ایسی سوچ کا شکار ہو کر خود کو دھوکا دے رہے ہوں۔‏

4 یسوع کے شاگرد یعقوب نے لکھا:‏ ”‏اگر کسی کا خیال ہے کہ وہ خدا کی عبادت کرتا ہے لیکن وہ اپنی زبان پر قابو نہیں رکھتا تو وہ خود کو دھوکا دیتا ہے اور اُس کی عبادت فضول ہے۔‏“‏ (‏یعقوب 1:‏26‏)‏ بعض لوگ یہ سوچ کر خود کو دھوکا دیتے ہیں کہ چونکہ وہ کچھ اچھے کام کر رہے ہیں اِس لیے اگر وہ کسی سے بدتمیزی کریں گے،‏ کسی پر طنز کریں گے یا کسی سے جھوٹ بولیں گے تو خدا ناراض نہیں ہوگا۔‏ ہم خود کو دھوکا دینے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏

5 جب ہم خود کو شیشے میں دیکھتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہم کیسے دِکھ رہے ہیں۔‏ لیکن جب ہم بائبل کو پڑھتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہم اندر سے کیسے اِنسان ہیں۔‏ بائبل کی مدد سے ہم اپنی خوبیوں اور خامیوں کے بارے میں جان سکتے ہیں اور یہ بھی سیکھ سکتے ہیں کہ ہمیں اپنی باتوں،‏ کاموں،‏ اور سوچ میں کون سی تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے۔‏ ‏(‏یعقوب 1:‏23-‏25 کو پڑھیں۔‏)‏ لیکن اگر ہم یہ سوچ کر خود کو دھوکا دیتے ہیں کہ ہم میں کوئی خامی نہیں ہے تو ہم اپنی شخصیت میں بہتری نہیں لا پائیں گے۔‏ لہٰذا ہمیں بائبل کی مدد سے ایمان‌داری سے اپنا جائزہ لینا چاہیے۔‏ (‏نوحہ 3:‏40؛‏ حجی 1:‏5‏)‏ دُعا کرنے سے بھی ہم یہ جان سکتے ہیں کہ ہم اصل میں کیسے اِنسان ہیں۔‏ ہم یہوواہ سے درخواست کر سکتے ہیں کہ وہ ہمیں جانچے اور اپنی خامیوں کو پہچاننے میں ہماری مدد کرے تاکہ ہم اپنی اِصلاح کر سکیں۔‏ (‏زبور 139:‏23،‏ 24‏)‏ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ”‏بُری راہ پر چلنے والے سے [‏یہوواہ]‏ گھن کھاتا ہے جبکہ سیدھی راہ پر چلنے والوں کو وہ اپنے رازوں سے آگاہ کرتا ہے۔‏“‏—‏امثال 3:‏32‏،‏ اُردو جیو ورشن۔‏

گھر میں ایمان‌داری سے کام لیں

6.‏ شادی کے بندھن میں ایمان‌داری سے کام لینا کیوں اہم ہے؟‏

6 اپنے گھرانے میں ایمان‌داری سے کام لینا بہت ضروری ہے۔‏ جب میاں بیوی ایک دوسرے سے سچ بولتے ہیں اور کُھل کر بات کرتے ہیں تو اُنہیں تحفظ کا احساس ہوتا ہے اور ایک دوسرے پر اُن کا بھروسا مضبوط ہوتا ہے۔‏ لیکن آج‌کل بہت سے لوگ مختلف طریقوں سے اپنے شریکِ‌حیات کو دھوکا دیتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر شاید ایک شادی‌شُدہ شخص کسی کے ساتھ فلرٹ کرے،‏ فحش مواد دیکھے یا چھپ کر کسی مخالف جنس کے ساتھ محبت بھرا تعلق قائم کرے۔‏ ذرا زبورنویس کے اِن الفاظ پر غور کریں:‏ ”‏مَیں بےہودہ لوگوں [‏”‏دھوکےبازوں،‏“‏ اُردو جیو ورشن‏]‏ کے ساتھ نہیں بیٹھا۔‏ مَیں ریاکاروں کے ساتھ کہیں نہیں جاؤں گا۔‏“‏ (‏زبور 26:‏4‏)‏ ایک شادی‌شُدہ شخص اُس صورت میں بھی اپنے شریکِ‌حیات کو دھوکا دیتا ہے جب وہ اپنے ذہن میں کسی اَور کے بارے میں گندی سوچ آنے دیتا ہے۔‏

ایسی چیزوں سے فوراً مُنہ موڑ لیں جن سے آپ کا شادی کا بندھن کمزور پڑ سکتا ہے۔‏

7،‏ 8.‏ والدین اپنے بچوں کو ایمان‌داری کی اہمیت سکھانے کے لیے بائبل کو کیسے اِستعمال کر سکتے ہیں؟‏

7 بچوں کو بھی ایمان‌داری کی اہمیت سکھانا بہت ضروری ہے۔‏ اِس سلسلے میں والدین بائبل سے رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔‏ بائبل میں ایسے لوگوں کی مثالیں درج ہیں جنہوں نے ایمان‌داری سے کام نہیں لیا تھا جیسے کہ عکن،‏ جیحازی اور یہوداہ۔‏ عکن نے چوری کی،‏ جیحازی نے پیسوں کے لالچ میں جھوٹ بولا اور یہوداہ پیسوں کے ڈبے سے پیسے چُراتا تھا اور بعد میں اُس نے چاندی کے 30 سِکوں کی خاطر یسوع مسیح سے غداری کی۔‏—‏یشوع 6:‏17-‏19؛‏ 7:‏11-‏25؛‏ 2-‏سلاطین 5:‏14-‏16،‏ 20-‏27؛‏ متی 26:‏14،‏ 15؛‏ یوحنا 12:‏6‏۔‏

8 بائبل میں ایسے لوگوں کی مثالیں بھی پائی جاتی ہیں جنہوں نے ایمان‌داری سے کام لیا تھا جیسے کہ یعقوب،‏ اِفتاح اور اُن کی بیٹی اور یسوع مسیح۔‏ یعقوب نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ وہ اُن پیسوں کو واپس لے جائیں جو اُنہیں اپنے بوروں میں ملے تھے۔‏ اِفتاح نے وہ وعدہ نبھایا جو اُنہوں نے خدا سے کِیا تھا اور اُن کی بیٹی نے اُن کا ساتھ دیا۔‏ اور یسوع مسیح نے اِنتہائی مشکل صورتحال میں بھی ایمان‌داری سے کام لیا۔‏ (‏پیدایش 43:‏12؛‏ قضاۃ 11:‏30-‏40 *‏؛‏ یوحنا 18:‏3-‏11‏)‏ اِن مثالوں کے ذریعے بچوں کو یہ سکھایا جا سکتا ہے کہ ایمان‌داری سے کام لینا کتنا اہم ہے۔‏

9.‏ اگر والدین ایمان‌داری سے کام لیتے ہیں تو بچوں پر کیا اثر ہوتا ہے؟‏

9 والدین بائبل کے اِس اہم اصول کو یاد رکھ سکتے ہیں کہ ”‏آپ جو دوسروں کو سکھاتے ہیں،‏ کیا خود کو نہیں سکھاتے؟‏ آپ جو نصیحت کرتے ہیں کہ ”‏چوری نہ کرو،‏“‏ کیا آپ خود چوری کرتے ہیں؟‏“‏ (‏رومیوں 2:‏21‏)‏ جب والدین کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں تو یہ بچوں کی نظر سے چھپا نہیں رہتا۔‏ اگر ہم اپنے بچوں سے کہتے ہیں کہ وہ ایمان‌داری سے کام لیں لیکن ہم خود ایسا نہیں کرتے تو بچے اُلجھن میں پڑ جائیں گے۔‏ اگر بچے دیکھتے ہیں کہ اُن کے والدین چھوٹے چھوٹے معاملوں میں بھی جھوٹ بولتے ہیں تو بہت ممکن ہے کہ وہ بھی ایسا ہی کریں۔‏ ‏(‏لُوقا 16:‏10 کو پڑھیں۔‏)‏ لیکن جب بچے دیکھتے ہیں کہ اُن کے والدین ایمان‌دار ہیں تو غالباً وہ بھی مستقبل میں اپنے بچوں کے لیے ایمان‌داری سے کام لینے کی اچھی مثال قائم کریں گے۔‏—‏امثال 22:‏6؛‏ اِفسیوں 6:‏4‏۔‏

کلیسیا میں ایمان‌داری سے کام لیں

10.‏ کلیسیا کے بہن بھائیوں سے بات‌چیت کرتے وقت ہم ایمان‌داری سے کام کیسے لے سکتے ہیں؟‏

10 ہمیں کلیسیا میں بھی ایمان‌داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔‏ جب ہم کلیسیا کے بہن بھائیوں کے بارے میں بات‌چیت کرتے ہیں تو یہ بڑی آسانی سے چغلیوں،‏ یہاں تک کہ جھوٹے اِلزاموں کا رُوپ اِختیار کر سکتی ہے۔‏ اگر ہم یہ نہیں جانتے کہ ایک بات سچ ہے یا نہیں اور دوسروں کو اِس کے بارے میں بتاتے ہیں تو شاید ہم جھوٹ پھیلا رہے ہوں۔‏ لہٰذا اچھا ہوگا کہ ہم اپنے ”‏ہونٹوں کو قابو“‏ میں رکھیں۔‏ (‏امثال 10:‏19‏)‏ ایمان‌دار ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم ہر وہ بات دوسروں کو بتائیں جو ہمارے ذہن میں ہے،‏ جو ہم جانتے ہیں یا جو ہم نے سنی ہے۔‏ اگر ایک بات سچ ہو بھی تو شاید یہ کسی ایسے معاملے کے بارے میں ہو جس میں ہمیں دخل نہیں دینا چاہیے،‏ شاید اِس بات کو دُہرانا مناسب نہ ہو یا شاید اِس سے کسی کو ٹھیس پہنچے۔‏ (‏1-‏تھسلُنیکیوں 4:‏11‏)‏ کچھ لوگ دوسروں سے بدتمیزی کرتے ہیں اور یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ ”‏مَیں تو سیدھی بات کرتا ہوں۔‏“‏ لیکن یہوواہ کے بندوں کے طور پر ہم ہمیشہ ایسی باتیں کہنا چاہتے ہیں جو دلکش ہوں اور جن سے دوسروں کو ٹھیس نہ پہنچے۔‏‏—‏کُلسّیوں 4:‏6 کو پڑھیں۔‏

11،‏ 12.‏ (‏الف)‏ اگر کسی شخص سے کوئی سنگین غلطی ہو جائے تو اُسے بزرگوں کو سب کچھ سچ سچ کیوں بتانا چاہیے؟‏ (‏ب)‏ اگر ہمیں پتہ چلے کہ ہمارے کسی دوست نے کوئی سنگین غلطی کی ہے تو ہمیں کس سوچ سے گریز کرنا چاہیے اور کیوں؟‏ (‏ج)‏ ہم یہوواہ کی تنظیم کو معلومات دیتے وقت ایمان‌داری سے کام کیسے لے سکتے ہیں؟‏

11 یہوواہ نے بزرگوں کو کلیسیا کے بہن بھائیوں کی مدد کرنے کی ذمےداری دی ہے۔‏ جب ہم اُن سے ہمیشہ سچ بولتے ہیں تو اُن کے لیے ہماری مدد کرنا زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔‏ اِس سلسلے میں ایک مثال پر غور کریں۔‏ فرض کریں کہ آپ بیمار ہیں اور ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں۔‏ اگر آپ ڈاکٹر کو اپنا مسئلہ پوری طرح نہیں بتائیں گے تو کیا وہ آپ کی مدد کر پائے گا؟‏ اِسی طرح اگر ہم سے کوئی سنگین غلطی ہو جاتی ہے تو ہمیں اِسے چھپانا نہیں چاہیے بلکہ بزرگوں کے پاس جا کر اُنہیں سب کچھ سچ سچ بتانا چاہیے۔‏ (‏زبور 12:‏2؛‏ اعمال 5:‏1-‏11‏)‏ اب ذرا ایک فرق صورتحال پر غور کریں۔‏ اگر آپ کو پتہ چلتا ہے کہ آپ کے کسی دوست نے کوئی سنگین غلطی کی ہے تو آپ کیا کریں گے؟‏ (‏احبار 5:‏1‏)‏ کیا آپ یہ سوچیں گے کہ ”‏مَیں اُس کا سچا دوست ہوں اِس لیے مَیں یہ بات کسی کو نہیں بتاؤں گا“‏؟‏ یا کیا آپ یہ ذہن میں رکھیں گے کہ بزرگ اُس کی مدد کر سکتے ہیں تاکہ وہ یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی بحال کر سکے؟‏—‏عبرانیوں 13:‏17؛‏ یعقوب 5:‏14،‏ 15‏۔‏

12 ہمیں اُس وقت بھی ایمان‌داری سے کام لینا چاہیے جب ہم یہوواہ کی تنظیم کو کوئی معلومات دیتے ہیں جیسے کہ مُنادی کی رپورٹ ڈالتے وقت اور پہل‌کار کے طور پر خدمت کرنے یا کسی اَور خدمت کے لیے فارم پُر کرتے وقت۔‏‏—‏امثال 6:‏16-‏19 کو پڑھیں۔‏

13.‏ جب ملازمت یا کاروبار کی بات آتی ہے تو ہم اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ ایمان‌داری کا مظاہرہ کیسے کر سکتے ہیں؟‏

13 مسیحی یہوواہ کی عبادت اور کاروباری معاملوں کو الگ الگ رکھتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر ہم کنگڈم ہال میں یا مُنادی کے دوران کاروبار نہیں کرتے۔‏ اِس کے علاوہ جب ملازمت یا کاروبار کی بات آتی ہے تو ہم اپنے بہن بھائیوں سے فائدہ نہیں اُٹھاتے۔‏ اگر آپ کسی یہوواہ کے گواہ کو نوکری پر رکھتے ہیں تو اُسے وقت پر تنخواہ دیں،‏ اُتنی تنخواہ دیں جتنی طے کی گئی ہے اور وہ تمام سہولتیں دیں جو حکومت کی طرف سے مقرر ہیں،‏ مثلاً علاج کے اخراجات یا تنخواہ کاٹے بغیر چھٹی۔‏ (‏1-‏تیمُتھیُس 5:‏18؛‏ یعقوب 5:‏1-‏4‏)‏ اور اگر آپ کسی یہوواہ کے گواہ کے ہاں نوکری کرتے ہیں تو یہ توقع نہ کریں کہ وہ آپ کے ساتھ رعایت برتے۔‏ (‏اِفسیوں 6:‏5-‏8‏)‏ ایمان‌داری سے اُتنے گھنٹے کام کریں جتنے ٹھہرائے گئے ہیں اور وہ تمام کام کریں جن کے لیے آپ کو تنخواہ دی جاتی ہے۔‏—‏2-‏تھسلُنیکیوں 3:‏10‏۔‏

14.‏ کسی بہن یا بھائی کے ساتھ کوئی کاروبار کرنے سے پہلے ایک مسیحی کو کیا کرنا چاہیے؟‏

14 شاید آپ کسی بہن یا بھائی کے ساتھ کوئی کاروبار کریں جیسے کہ اپنا سرمایہ لگائیں یا اُسے اُدھار دیں۔‏ ایسی صورت میں آپ کو اُن شرائط کو تحریری شکل دینی چاہیے جو آپ کے درمیان طے ہوئی ہیں۔‏ یہ اصول بائبل پر مبنی ہے۔‏ جب یرمیاہ نبی نے کچھ زمین خریدی تو اُنہوں نے دو ’‏قبالے‘‏ یعنی دستاویز بنائیں،‏ اِن میں سے ایک پر گواہوں سے دستخط کرائے اور پھر دونوں دستاویز سنبھال دیں تاکہ یہ مستقبل میں کام آ سکیں۔‏ (‏یرمیاہ 32:‏9-‏12؛‏ پیدایش 23:‏16-‏20 کو بھی دیکھیں۔‏)‏ بعض بہن بھائی سوچتے ہیں کہ اگر وہ کوئی تحریری دستاویز بنوائیں گے تو ایسا لگے گا کہ وہ اپنے بہن بھائیوں پر بھروسا نہیں کرتے۔‏ لیکن دراصل ایسی دستاویز بنوانے سے بہت سی غلط‌فہمیوں اور اِختلافات سے بچا جا سکتا ہے۔‏ یاد رکھیں کہ کوئی بھی کاروباری معاملہ اِتنا اہم نہیں ہے کہ اِس پر کلیسیا کا امن‌واِتحاد قربان کِیا جائے۔‏—‏1-‏کُرنتھیوں 6:‏1-‏8‏؛‏ کتاب کے آخر میں نکتہ نمبر 30 کو دیکھیں۔‏

سب کے ساتھ ایمان‌داری سے کام لیں

15.‏ جب لوگ کاروباری معاملوں میں بےایمانی کرتے ہیں تو یہوواہ کو کیسا لگتا ہے؟‏

15 ہمیں نہ صرف یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ بلکہ ایسے لوگوں کے ساتھ بھی ایمان‌داری سے کام لینا چاہیے جو یہوواہ کے گواہ نہیں ہیں۔‏ یہوواہ کے نزدیک یہ بات بہت اہم ہے کہ ہم ایمان‌دار ہوں۔‏ بائبل میں لکھا ہے کہ ”‏دغا کے ترازو سے [‏یہوواہ]‏ کو نفرت ہے لیکن پورا باٹ اُس کی خوشی ہے۔‏“‏ (‏امثال 11:‏1؛‏ 20:‏10،‏ 23‏)‏ قدیم زمانے میں بعض تاجر گاہکوں کو کم چیز تول کر دیتے تھے یا پھر اُن سے چیز کی زیادہ قیمت لیتے تھے اور یوں گاہکوں کے ساتھ بےایمانی کرتے تھے۔‏ آج بھی کاروباری معاملوں میں بےایمانی بہت عام ہے۔‏ یہوواہ قدیم زمانے میں بھی بےایمانی سے نفرت کرتا تھا اور آج بھی ایسا ہی ہے۔‏

16،‏ 17.‏ ہم کن صورتحال میں بےایمانی کرنے کی آزمائش میں پڑ سکتے ہیں؟‏

16 ہم سب کو کبھی نہ کبھی ایسی صورتحال کا سامنا ہوتا ہے جس میں ہم بےایمانی کرنے کی آزمائش میں پڑ سکتے ہیں جیسے کہ نوکری کے لیے درخواست دیتے وقت،‏ کوئی سرکاری فارم پُر کرتے وقت یا سکول میں اِمتحان دیتے وقت۔‏ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ جھوٹ بولنے،‏ حقائق کو بڑھا چڑھا کر بتانے یا توڑ مروڑ کر پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔‏ لیکن یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کیونکہ بائبل میں آخری زمانے کے بارے میں پیش‌گوئی کی گئی تھی کہ لوگ ’‏خود غرض،‏ پیسے سے پیار کرنے والے اور نیکی کے دُشمن ہوں گے۔‏‘‏—‏2-‏تیمُتھیُس 3:‏1-‏5‏۔‏

17 کبھی کبھار ایسا لگتا ہے کہ بےایمان لوگ دُنیا میں بہت کامیاب ہو رہے ہیں۔‏ (‏زبور 73:‏1-‏8‏)‏ دوسری طرف ہو سکتا ہے کہ ایک مسیحی کو ایمان‌داری کی وجہ سے اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے،‏ مالی نقصان اُٹھانا پڑے اور کام کی جگہ پر بُرے سلوک کا سامنا کرنا پڑے۔‏ لیکن ہمیں ایمان‌دار رہنے کے لیے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار رہنا چاہیے۔‏ ایسا کیوں ہے؟‏

ایمان‌داری سے کام لینے کے فائدے

18.‏ اگر ہم ایک ایمان‌دار شخص کے طور پر جانے جاتے ہیں تو ہمیں کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟‏

18 اِس دُنیا میں ایمان‌دار اور قابلِ‌بھروسا لوگ مشکل سے ملتے ہیں اِس لیے اُن کی بڑی قدر ہوتی ہے۔‏ بےشک ہم سب کی خواہش ہے کہ ہم ایک ایمان‌دار شخص کے طور پر جانے جائیں۔‏ (‏میکاہ 7:‏2‏)‏ سچ ہے کہ بعض لوگ ہماری ایمان‌داری کی وجہ سے ہمارا مذاق اُڑاتے ہیں اور ہمیں بےوقوف کہتے ہیں۔‏ لیکن کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو اِس خوبی کی وجہ سے ہماری قدر کرتے ہیں اور ہم پر بھروسا کرتے ہیں۔‏ پوری دُنیا میں یہوواہ کے گواہ اپنی ایمان‌داری کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔‏ کچھ لوگ یہوواہ کے گواہوں کو اِس لیے نوکری پر رکھتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہوواہ کے گواہ بےایمانی نہیں کرتے۔‏ اور جب دوسرے ملازموں کو بےایمانی کرنے کی وجہ سے نوکری سے نکالا جاتا ہے تو یہوواہ کے گواہوں کی نوکریاں اکثر محفوظ رہتی ہیں۔‏

جب ہم محنت سے کام کرتے ہیں تو یہوواہ کی بڑائی ہوتی ہے۔‏

19.‏ اگر ہم ایمان‌داری سے کام لیتے ہیں تو اِس کا یہوواہ کے ساتھ ہماری دوستی پر کیا اثر پڑے گا؟‏

19 اگر ہم ہر بات میں ایمان‌داری سے کام لیں گے تو ہمارا ضمیر صاف رہے گا اور ہمیں ذہنی سکون حاصل ہوگا۔‏ پھر ہم پولُس رسول کی طرح یہ کہہ سکیں گے کہ ”‏ہمیں یقین ہے کہ ہمارا ضمیر صاف ہے۔‏“‏ (‏عبرانیوں 13:‏18‏)‏ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارا شفیق آسمانی باپ یہوواہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوگا کہ ہم ہر بات میں ایمان‌داری سے کام لینے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔‏‏—‏زبور 15:‏1،‏ 2 کو پڑھیں؛‏ امثال 22:‏1 کو فٹ‌نوٹ سے پڑھیں۔‏ *

^ پیراگراف 8 اصلی عبرانی متن میں قضاۃ 11:‏30-‏40 سے پتہ چلتا ہے کہ اِفتاح کی بیٹی نے ساری عمر خیمۂ‌اِجتماع میں خدمت کی اور کبھی شادی نہیں کی۔‏

^ پیراگراف 19 امثال 22:‏1 ‏(‏اُردو جیو ورشن)‏:‏ ‏”‏نیک نام بڑی دولت سے قیمتی،‏ اور منظورِنظر ہونا سونے چاندی سے بہتر ہے۔‏“‏