مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

باب نمبر 9

‏”‏حرام‌کاری سے بھاگیں!‏“‏

‏”‏حرام‌کاری سے بھاگیں!‏“‏

‏”‏اپنے جسم کے اعضا کو حرام‌کاری،‏ ناپاکی،‏ بےلگام جنسی خواہشوں،‏ نقصان‌دہ خواہشوں اور لالچ کے اِعتبار سے مار ڈالیں جو بُت‌پرستی کے برابر ہے۔‏“‏—‏کُلسّیوں 3:‏5‏۔‏

1،‏ 2.‏ بلعام نے یہوواہ کے بندوں کو نقصان پہنچانے کے لیے کیا کِیا؟‏

جب ایک مچھیرا مچھلی پکڑنے جاتا ہے تو وہ کسی ایسی جگہ جاتا ہے جہاں اُسے مچھلی مل سکتی ہے۔‏ وہ ڈوری کے ساتھ چارا باندھتا ہے اور اِسے پانی میں پھینک دیتا ہے۔‏ پھر وہ صبر سے اِنتظار کرتا ہے اور جیسے ہی مچھلی چارے کو مُنہ میں ڈالتی ہے،‏ وہ ڈوری کھینچ لیتا ہے۔‏

2 جیسے مچھلی کا شکار کِیا جاتا ہے ویسے ہی خدا کے بندوں کا بھی شکار کِیا جا سکتا ہے۔‏ اِس سلسلے میں ایک مثال پر غور کریں۔‏ جب بنی‌اِسرائیل ملک کنعان میں داخل ہونے والے تھے تو اُنہوں نے موآب کے میدانوں میں ڈیرے ڈالے تھے۔‏ موآب کے بادشاہ نے بلعام نامی ایک آدمی سے وعدہ کِیا کہ اگر وہ بنی‌اِسرائیل پر لعنت کرے گا تو وہ اُسے بہت سا پیسہ دے گا۔‏ آخرکار بلعام نے بنی‌اِسرائیل کو پھنسانے کے لیے ایک چارا پھینکا تاکہ خدا اُن پر لعنت کرے۔‏ اُس نے جوان موآبی عورتوں کو اِسرائیلیوں کے خیموں میں بھیجا تاکہ وہ اِسرائیلی مردوں کو غلط کام کرنے پر اُکسائیں۔‏—‏گنتی 22:‏1-‏7؛‏ 31:‏15،‏ 16؛‏ مکاشفہ 2:‏14‏۔‏

3.‏ کیا بلعام کی چال کامیاب ہوئی؟‏

3 کیا بلعام کی چال کامیاب ہوئی؟‏ جی۔‏ ہزاروں اِسرائیلی مردوں نے ”‏موآبی عورتوں کے ساتھ حرام‌کاری“‏ کی۔‏ وہ موآبیوں کے دیوی دیوتاؤں کو بھی پوجنے لگے۔‏ اِن میں سے ایک دیوتا بعل فغور تھا جس کی پوجا کرتے وقت لوگ آپس میں جنسی تعلقات قائم کرتے تھے۔‏ اِسرائیلیوں کی اِن حرکتوں کی وجہ سے ملک کنعان کی سرحد پر 24 ہزار اِسرائیلی مارے گئے۔‏—‏گنتی 25:‏1-‏9‏۔‏

4.‏ ہزاروں اِسرائیلیوں نے حرام‌کاری کیوں کی؟‏

4 اِتنے زیادہ اِسرائیلی بلعام کی چال میں کیوں پھنس گئے؟‏ کیونکہ وہ صرف اپنی خواہشوں کو پورا کرنے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔‏ وہ اُن سب کاموں کو بھول گئے تھے جو یہوواہ نے اُن کے لیے کیے تھے۔‏ اُس نے اُنہیں مصر کی غلامی سے آزاد کرایا تھا،‏ ویرانے میں اُن کے لیے خوراک کا بندوبست کِیا تھا اور اُنہیں حفاظت سے ملک کنعان کی سرحد تک پہنچایا تھا۔‏ (‏عبرانیوں 3:‏12‏)‏ اِن باتوں کی وجہ سے اُنہیں یہوواہ کے وفادار رہنا چاہیے تھا۔‏ لیکن وہ حرام‌کاری کے پھندے میں پھنس گئے۔‏ پولُس رسول نے لکھا:‏ ”‏اُن کی طرح حرام‌کاری بھی نہ کریں کیونکہ اُن کی حرام‌کاری کی وجہ سے اُن میں سے 23 (‏تیئیس)‏ ہزار لوگ ایک ہی دن میں ہلاک ہو گئے۔‏“‏ *‏—‏1-‏کُرنتھیوں 10:‏8‏۔‏

5،‏ 6.‏ موآب کے میدانوں میں جو کچھ ہوا،‏ اُس سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

5 جس طرح بنی‌اِسرائیل ملک کنعان کی سرحد پر پہنچ چُکے تھے اُسی طرح ہم بھی نئی دُنیا کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔‏ (‏1-‏کُرنتھیوں 10:‏11‏)‏ موآبیوں کی طرح آج‌کل بھی لوگوں پر جنسی تسکین حاصل کرنے کی دُھن سوار ہے۔‏ لوگوں کی یہ سوچ یہوواہ کے بندوں کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔‏ دراصل خدا کے بندوں کو پھنسانے کے لیے شیطان جن چیزوں کو چارے کے طور پر اِستعمال کرتا ہے،‏ اُن میں حرام‌کاری سب سے مؤثر ہے۔‏—‏گنتی 25:‏6،‏ 14؛‏ 2-‏کُرنتھیوں 2:‏11؛‏ یہوداہ 4‏۔‏

6 اِس لیے ہمیں خود سے پوچھنا چاہیے:‏ ”‏مَیں کیا کرنا چاہتا ہوں،‏ اپنی خواہش کو پورا کر کے وقتی خوشی حاصل کرنا یا نئی دُنیا میں ہمیشہ تک خوش رہنا؟‏“‏ بےشک ہم خدا کے اِس حکم پر عمل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنا چاہتے ہیں کہ ”‏حرام‌کاری سے بھاگیں!‏“‏—‏1-‏کُرنتھیوں 6:‏18‏۔‏

حرام‌کاری میں کیا شامل ہے؟‏

7،‏ 8.‏ (‏الف)‏ حرام‌کاری میں کیا کچھ شامل ہے؟‏ (‏ب)‏ یہ ایک سنگین معاملہ کیوں ہے؟‏

7 آج‌کل بہت سے لوگ ہٹ‌دھرمی سے جنسی معاملات کے بارے میں خدا کے قوانین کو نظرانداز کرتے ہیں۔‏ بائبل کے مطابق حرام‌کاری میں ایسے لوگوں کا آپس میں جنسی تعلقات قائم کرنا شامل ہے جن کی ایک دوسرے سے شادی نہیں ہوئی۔‏ یہ اِصطلاح اپنی جنس کے لوگوں کے ساتھ یا جانوروں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے کی طرف بھی اِشارہ کرتی ہے۔‏ جنسی تعلق میں مُنہ کے ذریعے جنسی فعل،‏ مقعد یعنی پاخانہ کرنے کی جگہ کے ذریعے جنسی عمل یا کسی کے جنسی اعضا سے چھیڑچھاڑ شامل ہے۔‏ اگرچہ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر کُھلے عام بات نہیں کی جاتی لیکن یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ حرام‌کاری میں کیا کچھ شامل ہے تاکہ ہم کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے خدا کو نفرت ہے۔‏—‏کتاب کے آخر میں نکتہ نمبر 23 کو دیکھیں۔‏

8 بائبل میں واضح کِیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص حرام‌کاری کرتا ہے اور اِس گُناہ سے توبہ نہیں کرتا تو اُسے کلیسیا سے خارج کر دیا جائے۔‏ (‏1-‏کُرنتھیوں 6:‏9؛‏ مکاشفہ 22:‏15‏)‏ حرام‌کاری کے ہمیشہ بُرے نتائج نکلتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر حرام‌کاری کرنے والا شخص اپنی نظروں میں گِر جاتا ہے،‏ اُس کا ضمیر اُسے ملامت کرنے لگتا ہے اور دوسروں کا اُس پر سے بھروسا اُٹھ جاتا ہے۔‏ اِس کے علاوہ حرام‌کاری کی وجہ سے شادی کے بغیر حمل ٹھہر سکتا ہے،‏ شادی‌شُدہ زندگی میں مسئلے کھڑے ہو سکتے ہیں اور بیماریاں لگ سکتی ہیں،‏ یہاں تک کہ ایک شخص کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔‏ ‏(‏گلتیوں 6:‏7،‏ 8 کو پڑھیں۔‏)‏ اگر کوئی شخص حرام‌کاری کے نتائج پر غور کرے تو غالباً وہ کبھی حرام‌کاری نہ کرے۔‏ لیکن جب لوگ حرام‌کاری کی طرف پہلا قدم اُٹھاتے ہیں تو وہ اکثر بس اپنی خواہشوں کو پورا کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں۔‏ اور زیادہ‌تر صورتوں میں یہ پہلا قدم فحش مواد کا اِستعمال ہوتا ہے۔‏

فحش مواد کے نقصان

9.‏ فحش مواد پڑھنا یا دیکھنا نقصان‌دہ کیوں ہے؟‏

9 فحش مواد پڑھنے یا دیکھنے سے کسی شخص کے دل میں جنسی خواہشیں اُبھرتی ہیں۔‏ آج‌کل فحش مواد ہر جگہ دستیاب ہے۔‏ کتابوں،‏ رسالوں،‏ گانوں،‏ ٹی‌وی پروگراموں،‏ فلموں اور اِنٹرنیٹ پر فحش مواد کی بھرمار ہے۔‏ بہت سے لوگوں کو لگتا ہے کہ فحش مواد پڑھنے یا دیکھنے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا لیکن اصل میں یہ بہت نقصان‌دہ ہے۔‏ اِس کی وجہ سے شاید ایک شخص ہر وقت جنسی تسکین حاصل کرنے کے بارے میں سوچنے لگے اور اُس کے دل میں گندی حرکتیں کرنے کی خواہش پیدا ہونے لگے۔‏ اگر ایک شخص فحش مواد پڑھنے یا دیکھنے کے پھندے میں پھنس جاتا ہے تو وہ خودلذتی کی عادت میں مبتلا ہو سکتا ہے اور اُس کی شادی‌شُدہ زندگی میں مسئلے کھڑے ہو سکتے ہیں،‏ یہاں تک کہ اُس کی طلاق بھی ہو سکتی ہے۔‏—‏رومیوں 1:‏24-‏27؛‏ اِفسیوں 4:‏19‏؛‏ کتاب کے آخر میں نکتہ نمبر 24 کو دیکھیں۔‏

ہمیں اِنٹرنیٹ کے اِستعمال کے حوالے سے احتیاط برتنی چاہیے۔‏

10.‏ یعقوب 1:‏14،‏ 15 میں پایا جانے والا اصول حرام‌کاری سے بچنے میں ہمارے کام کیسے آ سکتا ہے؟‏

10 ہمارے لیے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ہم حرام‌کاری کی طرف کیسے مائل ہو سکتے ہیں۔‏ ذرا یعقوب 1:‏14،‏ 15 میں درج اِس آگاہی پر غور کریں:‏ ”‏ہر شخص اپنی ہی خواہشوں کی وجہ سے آزمایا اور اُکسایا جاتا ہے۔‏ جب یہ خواہشیں دل میں بڑھتے بڑھتے پک جاتی ہیں تو گُناہ پیدا ہوتا ہے اور گُناہ کا انجام موت ہوتا ہے۔‏“‏ لہٰذا جیسے ہی آپ کے ذہن میں کوئی غلط سوچ آئے،‏ اِسے فوراً نکال دیں۔‏ اگر اچانک آپ کے سامنے جنسی جذبات کو بھڑکانے والی کوئی تصویر یا منظر آ جائے تو فوراً اپنی نظریں اِس سے ہٹا لیں۔‏ کمپیوٹر بند کر دیں یا ٹی‌وی کا چینل بدل دیں۔‏ غلط خواہشوں کو اپنے دل میں جگہ نہ دیں ورنہ یہ اِتنی شدید ہو جائیں گی کہ اِن پر قابو پانا اِنتہائی مشکل ہو جائے گا۔‏‏—‏متی 5:‏29،‏ 30 کو پڑھیں۔‏

11.‏ اگر ہمارے دل میں کوئی غلط خواہش ہو تو یہوواہ ہماری مدد کیسے کر سکتا ہے؟‏

11 یہوواہ ہمیں جتنی اچھی طرح جانتا ہے اُتنی اچھی طرح ہم بھی خود کو نہیں جانتے۔‏ وہ اِس بات سے واقف ہے کہ عیب‌دار ہونے کی وجہ سے ہمارے دل میں غلط خواہشیں پیدا ہوتی ہیں۔‏ لیکن وہ یہ بھی جانتا ہے کہ ہم اِن غلط خواہشوں پر قابو پا سکتے ہیں۔‏ اِس لیے وہ ہمیں نصیحت کرتا ہے:‏ ”‏اپنے جسم کے اعضا کو حرام‌کاری،‏ ناپاکی،‏ بےلگام جنسی خواہشوں،‏ نقصان‌دہ خواہشوں اور لالچ کے اِعتبار سے مار ڈالیں جو بُت‌پرستی کے برابر ہے۔‏“‏ (‏کُلسّیوں 3:‏5‏)‏ ایسا کرنا آسان نہیں ہے لیکن یہوواہ خدا ہمارے ساتھ صبر سے کام لیتا ہے اور ہماری مدد کرتا ہے۔‏ (‏زبور 68:‏19‏)‏ ایک نوجوان بھائی فحش مواد دیکھنے اور خودلذتی کرنے کی عادت میں پڑ گیا۔‏ اُس نے کہا کہ ”‏میرے سکول کے دوستوں کا کہنا تھا کہ اِس عمر میں ایسا ہوتا ہے۔‏ آہستہ آہستہ میرا ضمیر بالکل سُن ہو گیا اور مَیں حرام‌کاری کر بیٹھا۔‏“‏ آخرکار اُس بھائی کو احساس ہوا کہ اُسے اپنی غلط خواہشوں پر قابو پانا ہوگا اور یہوواہ کی مدد سے وہ اپنی بُری عادت کو چھوڑنے میں کامیاب ہو گیا۔‏ اگر آپ کے دل میں کوئی گندی سوچ ہے تو یہوواہ سے مدد مانگیں کہ وہ آپ کو وہ قوت دے جو ”‏اِنسانی قوت سے بڑھ کر ہے“‏ تاکہ آپ اپنی سوچ کو پاک کر سکیں۔‏—‏2-‏کُرنتھیوں 4:‏7؛‏ 1-‏کُرنتھیوں 9:‏27‏۔‏

12.‏ (‏الف)‏ دل سے کیا مُراد ہے؟‏ (‏ب)‏ ہمیں اپنے دل کی حفاظت کیوں کرنی چاہیے؟‏

12 بادشاہ سلیمان نے لکھا:‏ ”‏اپنے دل کی خوب حفاظت کر کیونکہ زندگی کا سرچشمہ وہی ہے۔‏“‏ (‏امثال 4:‏23‏)‏ ہمارے ”‏دل“‏ سے مُراد ہمارے اندر کا اِنسان ہے جسے یہوواہ خدا دیکھتا ہے۔‏ ہم جو کچھ دیکھتے ہیں،‏ اُس کا ہم پر بہت گہرا اثر ہو سکتا ہے۔‏ اِس لیے خدا کے بندے ایوب نے کہا:‏ ”‏مَیں نے اپنی آنکھوں سے عہد کِیا ہے۔‏ پھر مَیں کسی کنواری پر کیوں کر نظر کروں؟‏“‏ (‏ایوب 31:‏1‏)‏ ایوب کی طرح ہمیں بھی اپنی آنکھوں اور سوچ پر قابو رکھنا چاہیے۔‏ ہمیں زبورنویس کی طرح یہوواہ سے یہ دُعا بھی کرنی چاہیے کہ ”‏میری آنکھوں کو بےکار چیزوں کی طرف سے پھیر دے۔‏“‏—‏زبور 119:‏37‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن۔‏

دینہ کا غلط فیصلہ

13.‏ دینہ نے کس طرح کی لڑکیوں سے دوستی کی؟‏

13 ہمارے دوست ہم پر یا تو اچھا اثر ڈال سکتے ہیں یا پھر بُرا۔‏ اگر آپ ایسے لوگوں سے دوستی کرتے ہیں جو خدا کے معیاروں پر چلتے ہیں تو وہ آپ کی بھی ایسا کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔‏ (‏امثال 13:‏20؛‏ 1-‏کُرنتھیوں 15:‏33 کو پڑھیں۔‏‏)‏ دینہ کی مثال پر غور کرنے سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ سوچ سمجھ کر دوستوں کا اِنتخاب کرنا کیوں اہم ہے۔‏ دینہ یعقوب کی بیٹی تھیں۔‏ لہٰذا اُن کی پرورش ایک ایسے گھرانے میں ہوئی تھی جو یہوواہ کی عبادت کرتا تھا۔‏ دینہ بُری لڑکی نہیں تھیں لیکن اُنہوں نے کنعانی لڑکیوں سے دوستی کی جو یہوواہ کی عبادت نہیں کرتی تھیں۔‏ جنسی تعلقات کے حوالے سے کنعانیوں کی سوچ یہوواہ کے بندوں کی سوچ سے بالکل فرق تھی اور وہ اپنے بےحیا کاموں کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔‏ (‏احبار 18:‏6-‏25‏)‏ جب دینہ اپنی دوستوں کے ساتھ تھیں تو وہ ایک کنعانی آدمی سے ملیں جسے دینہ بہت پسند آئیں۔‏ اِس آدمی کا نام سِکم تھا۔‏ سِکم اپنے گھرانے میں ”‏سب سے معزز تھا۔‏“‏ لیکن وہ یہوواہ سے پیار نہیں کرتا تھا۔‏—‏پیدایش 34:‏18،‏ 19‏۔‏

14.‏ دینہ کے ساتھ کیا ہوا؟‏

14 سِکم نے ایک ایسا کام کِیا جو کنعانیوں کی نظر میں جائز تھا۔‏ چونکہ اُسے دینہ اچھی لگیں اِس لیے اُس نے ’‏اُنہیں لے جا کر اُن کے ساتھ مباشرت کی۔‏‘‏ ‏(‏پیدایش 34:‏1-‏4 کو پڑھیں۔‏)‏ سِکم کی اِس حرکت کے نتیجے میں ایسے واقعات ہوئے جن کی وجہ سے دینہ اور اُن کے پورے گھرانے کو تکلیف اُٹھانی پڑی۔‏—‏پیدایش 34:‏7،‏ 25-‏31؛‏ گلتیوں 6:‏7،‏ 8‏۔‏

15،‏ 16.‏ ہم دانش‌مند کیسے بن سکتے ہیں؟‏

15 دینہ کے ساتھ جو کچھ ہوا،‏ اُس پر غور کرنے سے ہم سیکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ کے معیار ہماری بھلائی کے لیے ہیں۔‏ اِس طرح ہم دینہ جیسی غلطی کرنے سے بچ سکتے ہیں۔‏ بائبل میں لکھا ہے کہ ”‏وہ جو داناؤں کے ساتھ چلتا ہے دانا ہوگا پر احمقوں کا ساتھی ہلاک کِیا جائے گا۔‏“‏ (‏امثال 13:‏20‏)‏ لہٰذا عزم کریں کہ آپ ’‏اچھی راہ کو سمجھیں گے‘‏ اور یوں خود کو غیرضروری تکلیف سے بچائیں گے۔‏—‏امثال 2:‏6-‏9؛‏ زبور 1:‏1-‏3‏۔‏

16 دانش‌مند بننے کے لیے ہمیں خدا کے کلام کا مطالعہ کرنا چاہیے،‏ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے خدا سے دُعا کرنی چاہیے اور وفادار اور سمجھ‌دار غلام کی ہدایت پر عمل کرنا چاہیے۔‏ (‏متی 24:‏45؛‏ یعقوب 1:‏5‏)‏ بےشک ہم سب اِس حقیقت کو مانتے ہیں کہ ہم عیب‌دار ہیں۔‏ (‏یرمیاہ 17:‏9‏)‏ لیکن ذرا سوچیں کہ اگر کوئی آپ کو یہ بتائے کہ آپ حرام‌کاری کرنے کے خطرے میں ہیں تو آپ کیا کریں گے؟‏ کیا آپ اُس کی بات کا بُرا منائیں گے یا کیا آپ خاکساری سے اُس کی بات پر دھیان دیں گے؟‏—‏2-‏سلاطین 22:‏18،‏ 19‏۔‏

17.‏ مثال دے کر بتائیں کہ ہمارے کسی ہم‌ایمان کا مشورہ ہمارے لیے فائدہ‌مند کیسے ہو سکتا ہے۔‏

17 ذرا اِس مثال پر غور کریں۔‏ ایک بہن جس جگہ کام کرتی ہے،‏ وہاں ایک آدمی اُسے خاص توجہ دینے لگتا ہے اور اُس سے کہتا ہے کہ وہ اُس کے ساتھ کہیں گھومنے چلے۔‏ وہ آدمی یہوواہ کی عبادت نہیں کرتا لیکن وہ بہت سلجھا ہوا اور نیک لگتا ہے۔‏ ایک دوسری بہن اُن دونوں کو ساتھ گھومتے ہوئے دیکھتی ہے اور بعد میں اُس بہن سے کہتی ہے کہ اُس آدمی کے ساتھ وقت گزارنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔‏ اِس پر وہ بہن کیسا ردِعمل دِکھائے گی؟‏ کیا وہ اپنی صفائی پیش کرے گی یا کیا وہ اِس بات کو سمجھے گی کہ اُس بہن کے مشورے پر عمل کرنا دانش‌مندی کی بات ہوگی؟‏ ایسا نہیں ہے کہ وہ بہن یہوواہ سے پیار نہیں کرتی یا صحیح کام نہیں کرنا چاہتی۔‏ لیکن اگر وہ اُس آدمی کے ساتھ گھومنے پھرنے جاتی رہے گی تو کیا وہ ’‏حرام‌کاری سے بھاگ‘‏ رہی ہوگی یا کیا وہ ’‏اپنے دل پر بھروسا‘‏ کر رہی ہوگی؟‏—‏امثال 22:‏3؛‏ 28:‏26؛‏ متی 6:‏13؛‏ 26:‏41‏۔‏

یوسف کی عمدہ مثال

18،‏ 19.‏ یوسف حرام‌کاری سے بھاگنے کے قابل کیسے ہوئے؟‏ وضاحت کریں۔‏

18 جب یوسف نوجوان تھے تو وہ مصر میں غلام تھے۔‏ اُن کے آقا کی بیوی ہر روز اُنہیں مجبور کرتی تھی کہ وہ اُس کے ساتھ جنسی تعلق قائم کریں۔‏ لیکن یوسف جانتے تھے کہ ایسا کرنا غلط ہے۔‏ یوسف یہوواہ سے پیار کرتے تھے اور اُسے خوش کرنا چاہتے تھے۔‏ اِس لیے جب بھی وہ عورت اُنہیں ورغلانے کی کوشش کرتی،‏ وہ اُسے اِنکار کر دیتے۔‏ چونکہ وہ ایک غلام تھے اِس لیے وہ اپنی مرضی سے اپنے آقا کو چھوڑ کر نہیں جا سکتے تھے۔‏ ایک دن جب اُس عورت نے اُنہیں اپنے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے کے لیے مجبور کِیا تو وہ وہاں سے ’‏بھاگے اور باہر نکل گئے۔‏‘‏‏—‏پیدایش 39:‏7-‏12 کو پڑھیں۔‏

19 اگر یوسف اُس عورت کے بارے میں سوچتے رہتے یا اپنے ذہن میں گندے خیال پیدا ہونے دیتے تو صورتحال بالکل فرق ہوتی۔‏ لیکن یوسف کی نظر میں یہوواہ خدا کے ساتھ اُن کی دوستی سب سے اہم تھی۔‏ اِس لیے اُنہوں نے اُس عورت سے کہا:‏ ”‏میرے آقا .‏ .‏ .‏ نے تیرے سوا کوئی چیز مجھ سے باز نہیں رکھی کیونکہ تُو اُس کی بیوی ہے سو بھلا مَیں کیوں ایسی بڑی بدی کروں اور خدا کا گنہگار بنوں؟‏“‏—‏پیدایش 39:‏8،‏ 9‏۔‏

20.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ یہوواہ خدا یوسف سے خوش تھا؟‏

20 حالانکہ یوسف اپنے گھر والوں سے دُور تھے لیکن وہ ہمیشہ خدا کے وفادار رہے۔‏ یہوواہ خدا اُن کی وفاداری سے خوش تھا اِس لیے اُس نے اُنہیں برکت دی۔‏ (‏پیدایش 41:‏39-‏49؛‏ امثال 27:‏11‏)‏ اِس دُنیا میں حرام‌کاری سے بھاگنا مشکل ہو سکتا ہے۔‏ اِس لیے زبورنویس کے اِن الفاظ کو یاد رکھیں:‏ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏ سے محبت رکھنے والو!‏ بدی سے نفرت کرو۔‏ وہ اپنے مُقدسوں [‏”‏وفاداروں،‏“‏ نیو اُردو بائبل ورشن‏]‏ کی جانوں کو محفوظ رکھتا ہے۔‏ وہ اُن کو شریروں کے ہاتھ سے چھڑاتا ہے۔‏“‏—‏زبور 97:‏10‏۔‏

21.‏ ایک بھائی نے یوسف کی مثال پر کیسے عمل کِیا؟‏

21 یہوواہ کے بندے ہر روز دلیری سے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ”‏بدی سے عداوت اور نیکی سے محبت“‏ کرتے ہیں۔‏ (‏عاموس 5:‏15‏)‏ چاہے آپ کی عمر جو بھی ہو،‏ آپ یہوواہ کے وفادار رہ سکتے ہیں۔‏ ایک نوجوان بھائی کی مثال پر غور کریں جس کے سکول میں اُس کے ایمان کی آزمائش ہوئی۔‏ ایک لڑکی نے اُس سے کہا کہ اگر وہ ریاضی کے ٹیسٹ میں اُس کی مدد کرے گا تو وہ اُس کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرے گی۔‏ اُس بھائی نے کیا کِیا؟‏ اُس نے یوسف کی مثال پر عمل کِیا اور فوراً اُس لڑکی کو اِنکار کر دیا۔‏ وہ بتاتا ہے کہ ”‏یہوواہ کا وفادار رہنے سے مَیں اپنی نظروں میں گِرنے سے بچ گیا۔‏“‏ حرام‌کاری سے ”‏وقتی مزہ“‏ حاصل ہوتا ہے مگر اِس کے نتائج اکثر بڑے تکلیف‌دہ اور دردناک ہوتے ہیں۔‏ (‏عبرانیوں 11:‏25‏)‏ لیکن یہوواہ خدا کی فرمانبرداری کرنے سے ہمیشہ حقیقی خوشی ملتی ہے۔‏—‏امثال 10:‏22‏۔‏

یہوواہ ”‏معاف کرنے کو تیار ہے“‏

22،‏ 23.‏ اگر ہم نے کوئی سنگین گُناہ کِیا ہے تو یہوواہ ہماری مدد کیسے کر سکتا ہے؟‏

22 ہم دیکھ چُکے ہیں کہ شیطان ہمیں اپنے جال میں پھنسانے کے لیے حرام‌کاری کو چارے کے طور پر اِستعمال کرتا ہے۔‏ اِس چارے سے بچنا آسان نہیں ہے کیونکہ وقتاً فوقتاً ہم سب کے ذہن میں غلط خیالات آتے ہیں۔‏ (‏رومیوں 7:‏21-‏25‏)‏ اور یہوواہ خدا اِس بات سے واقف ہے۔‏ ”‏اُسے یاد ہے کہ ہم خاک ہیں۔‏“‏ (‏زبور 103:‏14‏)‏ لہٰذا اگر ایک مسیحی حرام‌کاری جیسا سنگین گُناہ کر بیٹھے تو اُسے معافی مل سکتی ہے۔‏ بائبل میں لکھا ہے کہ یہوواہ ”‏معاف کرنے کو تیار ہے۔‏“‏ (‏زبور 86:‏5‏)‏ اِس لیے اگر ایک مسیحی دل سے توبہ کرے تو یہوواہ اُس کی مدد کرے گا۔‏—‏یعقوب 5:‏16؛‏ امثال 28:‏13 کو پڑھیں۔‏

23 یہوواہ نے ہمیں ”‏آدمیوں کے رُوپ میں نعمتیں“‏ یعنی بزرگ دیے ہیں جو ہم سے پیار کرتے ہیں اور جنہیں ہماری فکر ہے۔‏ (‏اِفسیوں 4:‏8،‏ 12؛‏ یعقوب 5:‏14،‏ 15‏)‏ بزرگ ہماری مدد کرتے ہیں تاکہ ہم یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی کو دوبارہ بحال کر سکیں۔‏—‏امثال 15:‏32‏۔‏

سمجھ‌داری سے کام لیں

24،‏ 25.‏ ایک سمجھ‌دار شخص حرام‌کاری سے بچنے کے قابل کیسے ہوتا ہے؟‏

24 اچھے فیصلے کرنے کے لیے ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہوواہ کے قوانین پر عمل کرنے سے ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے۔‏ ہمیں اُس نوجوان کی طرح نہیں بننا چاہیے جس کا ذکر امثال 7:‏6-‏23 میں کِیا گیا ہے۔‏ وہ ”‏بےعقل“‏ تھا اِس لیے وہ حرام‌کاری کر بیٹھا۔‏ جس عبرانی لفظ کا ترجمہ ”‏بےعقل“‏ کِیا گیا ہے،‏ وہ محض ذہانت کی کمی کی طرف اِشارہ نہیں کرتا بلکہ اِس میں سمجھ‌داری سے کام نہ لینا بھی شامل ہے۔‏ ایک سمجھ‌دار شخص خدا کی سوچ کو جاننے اور اِس پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔‏ وہ اِن الفاظ کو ہمیشہ یاد رکھتا ہے کہ ”‏جو [‏شخص]‏ حکمت حاصل کرتا ہے اپنی جان کو عزیز رکھتا ہے۔‏ جو فہم کی محافظت کرتا ہے فائدہ اُٹھائے گا۔‏“‏—‏امثال 19:‏8‏۔‏

25 کیا آپ کو پورا یقین ہے کہ خدا کے معیار صحیح ہیں؟‏ کیا آپ دل سے یہ مانتے ہیں کہ اِن پر عمل کرنے سے آپ خوش رہیں گے؟‏ (‏زبور 19:‏7-‏10؛‏ یسعیاہ 48:‏17،‏ 18‏)‏ اگر ابھی تک آپ کے ذہن میں کوئی شک ہے تو اُن سب کاموں کو یاد کریں جو یہوواہ نے آپ کے لیے کیے ہیں۔‏ بائبل میں لکھا ہے کہ ”‏آزما کر دیکھو کہ [‏یہوواہ]‏ کیسا مہربان ہے۔‏“‏ (‏زبور 34:‏8‏)‏ جتنا زیادہ آپ ایسا کریں گے اُتنا زیادہ آپ خدا سے محبت کرنے لگیں گے۔‏ اُن کاموں سے محبت کریں جن سے وہ محبت کرتا ہے اور اُن کاموں سے نفرت کریں جن سے وہ نفرت کرتا ہے۔‏ اپنے دل‌ودماغ کو اچھی باتوں سے بھریں یعنی ایسی باتوں سے جو سچی ہیں،‏ جو نیک ہیں،‏ جو پاک ہیں،‏ جو محبت کی ترغیب دیتی ہیں اور جو اچھی ہیں۔‏ (‏فِلپّیوں 4:‏8،‏ 9‏)‏ یوسف کی طرح ہم بھی یہوواہ کے معیاروں پر چلنے سے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔‏—‏یسعیاہ 64:‏8‏۔‏

26.‏ اگلے دو ابواب میں ہم کس بارے میں بات کریں گے؟‏

26 چاہے آپ شادی‌شُدہ ہوں یا غیرشادی‌شُدہ،‏ یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ آپ اپنی زندگی سے لطف اُٹھائیں اور خوش رہیں۔‏ اگلے دو ابواب میں بتایا جائے گا کہ شادی‌شُدہ جوڑے اپنی شادی کو کامیاب کیسے بنا سکتے ہیں۔‏

^ پیراگراف 4 گنتی کی کتاب میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد اِس لیے 24 ہزار بتائی گئی ہے کیونکہ اِن میں ’‏قوم کے سب سردار‘‏ بھی شامل تھے جنہیں ”‏بنی‌اِسرائیل کے حاکموں“‏ نے ہلاک کِیا تھا۔‏—‏گنتی 25:‏4،‏ 5‏۔‏