مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

باب نمبر 2

خدا کے سامنے اپنا ضمیر صاف رکھیں

خدا کے سامنے اپنا ضمیر صاف رکھیں

‏”‏اپنا ضمیر صاف رکھیں۔‏“‏—‏1-‏پطرس 3:‏16‏۔‏

1،‏ 2.‏ (‏الف)‏ جب ہم کسی انجان علاقے سے گزرتے ہیں تو ہمیں رہنمائی کی ضرورت کیوں ہوتی ہے؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ خدا نے ہماری رہنمائی کے لیے ہمیں کیا دیا ہے؟‏

فرض کریں کہ آپ کسی ریگستان سے گزرنے والے ہیں۔‏ آپ جانتے ہیں کہ اگر آپ کسی رہنمائی کے بغیر اِس ریگستان سے گزریں گے تو آپ راستہ بھٹک سکتے ہیں۔‏ تو پھر آپ اپنی منزل تک کیسے پہنچیں گے؟‏ شاید آپ کسی ایسے شخص سے مدد لیں جو اُس علاقے سے اچھی طرح واقف ہو۔‏ یا شاید آپ سورج اور ستاروں کی حرکت سے اپنی سمت کا اندازہ لگائیں یا کوئی نقشہ اِستعمال کریں۔‏ ایسی رہنمائی حاصل کرنا بہت اہم ہے کیونکہ صحیح راستے سے بھٹکنے کی صورت میں آپ کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے۔‏

2 زندگی کے سفر میں ہمیں طرح طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں ہمیں صحیح فیصلے کرنا مشکل لگ سکتا ہے۔‏ خوشی کی بات ہے کہ یہوواہ خدا نے ہماری رہنمائی کے لیے ہم میں سے ہر ایک کو ضمیر دیا ہے۔‏ (‏یعقوب 1:‏17‏)‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ ضمیر کیا ہے اور یہ ہماری رہنمائی کیسے کرتا ہے،‏ ہم اپنے ضمیر کی تربیت کیسے کر سکتے ہیں،‏ ہمیں دوسروں کے ضمیر کا احترام کیوں کرنا چاہیے اور صاف ضمیر رکھنے سے ہمیں کون سے فائدے ہو سکتے ہیں۔‏

ضمیر کیا ہے اور یہ ہماری رہنمائی کیسے کرتا ہے؟‏

3.‏ ضمیر کیا ہے؟‏

3 ضمیر واقعی یہوواہ خدا کی طرف سے ایک شان‌دار نعمت ہے۔‏ یہ ایسی صلاحیت ہے جس کے ذریعے ہم صحیح اور غلط میں فرق کر سکتے ہیں۔‏ بائبل میں یونانی زبان کے جس لفظ کا ترجمہ ”‏ضمیر“‏ کِیا گیا ہے،‏ اُس کا مطلب ہے:‏ ”‏اپنے بارے میں علم رکھنا۔‏“‏ جب ہمارا ضمیر صحیح طریقے سے کام کرتا ہے تو ہم ایمان‌داری سے اپنی سوچ اور احساسات کا جائزہ لینے کے قابل ہوتے ہیں۔‏ یہ ہمیں اچھے کام کرنے کی ترغیب دیتا ہے اور بُرے کاموں سے روکتا ہے۔‏ جب ہم کوئی اچھا فیصلہ کرتے ہیں تو ہمارا ضمیر ہمارے اندر خوشی کا احساس پیدا کرتا ہے اور جب ہم کوئی غلط فیصلہ کرتے ہیں تو یہ ہمیں کوستا ہے۔‏—‏کتاب کے آخر میں نکتہ نمبر 5 کو دیکھیں۔‏

4،‏ 5.‏ (‏الف)‏ جب آدم اور حوا نے اپنے ضمیر کی آواز کو نظرانداز کِیا تو اِس کا کیا نتیجہ نکلا؟‏ (‏ب)‏ بائبل سے ایسے لوگوں کی مثالیں دیں جنہوں نے اپنے ضمیر کی آواز سنی۔‏

4 یہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم اپنے ضمیر کی آواز سنیں گے یا نہیں۔‏ آدم اور حوا نے اپنے ضمیر کی آواز کو نظرانداز کر دیا اِس لیے وہ گُناہ کر بیٹھے۔‏ بعد میں اُنہیں اپنے گُناہ کا احساس ہوا مگر تب تک بہت دیر ہو چُکی تھی۔‏ (‏پیدایش 3:‏7،‏ 8‏)‏ وہ دونوں بےعیب تھے اور یقیناً اُن کے ضمیر نے اُنہیں خبردار کِیا ہوگا کہ وہ ایک غلط قدم اُٹھانے جا رہے ہیں۔‏ لیکن اُنہوں نے اِس کی آواز کو نظرانداز کر دیا۔‏

5 آدم اور حوا کے برعکس بہت سے عیب‌دار اِنسانوں نے اپنے ضمیر کی آواز سنی۔‏ اِن میں سے ایک اِنسان ایوب تھے۔‏ چونکہ اُنہوں نے اچھے فیصلے کیے تھے اِس لیے وہ کہہ سکتے تھے:‏ ”‏جب تک میری زندگی ہے میرا دل مجھے ملامت نہ کرے گا۔‏“‏ (‏ایوب 27:‏6‏)‏ اِس آیت میں جب ایوب نے لفظ ”‏دل“‏ اِستعمال کِیا تو اُن کا اِشارہ دراصل اپنے ضمیر یعنی صحیح اور غلط میں فرق کرنے کی صلاحیت کی طرف تھا۔‏ دوسری مثال داؤد بادشاہ کی ہے۔‏ بعض موقعوں پر اُنہوں نے اپنے ضمیر کی آواز کو نظرانداز کِیا اور یہوواہ کی نافرمانی کی۔‏ مگر بعد میں ”‏داؤد کے ضمیر نے اُسے ملامت کی۔‏“‏ (‏1-‏سموئیل 24:‏5‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن‏)‏ داؤد کا ضمیر اُنہیں احساس دِلا رہا تھا کہ اُنہوں نے جو کچھ کِیا ہے،‏ وہ غلط ہے۔‏ اپنے ضمیر کی آواز کو سننے سے داؤد کو اپنی غلطی نہ دُہرانے کی ترغیب ملی۔‏

6.‏ ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ ضمیر سب اِنسانوں کے لیے خدا کی طرف سے ایک نعمت ہے؟‏

6 جو لوگ یہوواہ کے حکموں سے واقف نہیں ہوتے،‏ وہ بھی اکثر یہ جانتے ہیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔‏ ایسے لوگوں کے بارے میں بائبل میں لکھا ہے:‏ ”‏اُن کے اپنے خیال اُن کو قصوروار یا بےقصور ٹھہراتے ہیں۔‏“‏ (‏رومیوں 2:‏14،‏ 15‏)‏ مثال کے طور پر زیادہ‌تر لوگ جانتے ہیں کہ قتل کرنا یا چوری کرنا غلط ہے۔‏ ایسے لوگ انجانے میں اپنے ضمیر کی آواز کو سُن رہے ہوتے ہیں۔‏ اِس طرح وہ ایک لحاظ سے خدا کے اُن اصولوں کے مطابق عمل کر رہے ہوتے ہیں جو اُس نے اِنسانوں کی رہنمائی کے لیے دیے ہیں۔‏

7.‏ کبھی کبھار ہمارا ضمیر ہمیں غلط راستے پر کیوں لے جا سکتا ہے؟‏

7 کبھی کبھار ہمارا ضمیر ہمیں غلط راستے پر لے جا سکتا ہے۔‏ ایسا اُس صورت میں ہو سکتا ہے جب ہمارے دل میں غلط سوچ اور خواہشات پیدا ہو جاتی ہیں۔‏ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ضمیر ہمیں صحیح راہ دِکھائے تو ہمیں اِس کی تربیت کرنی چاہیے۔‏ یوسف نے ایسا ہی کِیا تھا اِس لیے وہ آزمائش کی گھڑی میں یہوواہ کے وفادار رہے۔‏ (‏پیدایش 39:‏1،‏ 2،‏ 7-‏12‏)‏ اپنے ضمیر کی تربیت کرنے کے لیے یہوواہ نے ہمیں پاک روح اور بائبل کے اصول دیے ہیں۔‏ (‏رومیوں 9:‏1‏)‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ ہم اپنے ضمیر کی تربیت کیسے کر سکتے ہیں۔‏

ہم اپنے ضمیر کی تربیت کیسے کر سکتے ہیں؟‏

8.‏ (‏الف)‏ ہماری خواہشات ہمارے ضمیر پر کیا اثر ڈال سکتی ہیں؟‏ (‏ب)‏ کوئی کام کرنے سے پہلے ہمیں خود سے کیا پوچھنا چاہیے؟‏

8 بعض لوگوں کے نزدیک اپنے ضمیر کی آواز سننے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے دل کی ہر خواہش پوری کریں۔‏ لیکن بائبل میں لکھا ہے:‏ ”‏دل سب چیزوں سے زیادہ حیلہ‌باز اور لاعلاج ہے۔‏ اُس کو کون دریافت کر سکتا ہے؟‏“‏ (‏یرمیاہ 17:‏9‏)‏ عیب‌دار ہونے کی وجہ سے ہمارا دل ہمیں غلط راہ پر لے جا سکتا ہے۔‏ ہمارے دل میں پیدا ہونے والی خواہشیں کبھی کبھی اِتنی شدید ہو سکتی ہیں کہ ہمارا ضمیر صحیح طرح کام نہیں کرتا۔‏ اِس وجہ سے شاید ہم غلط کو صحیح سمجھنے لگیں۔‏ مثال کے طور پر پولُس رسول مسیحی بننے سے پہلے خدا کے بندوں پر سخت اذیت ڈھاتے تھے۔‏ اُن کی نظر میں یہ کام بالکل درست تھا۔‏ اُنہیں لگتا تھا کہ اُن کا ضمیر صاف ہے۔‏ لیکن بعد میں اُنہوں نے کہا:‏ ”‏یہوواہ مجھے جانچتا ہے۔‏“‏ (‏1-‏کُرنتھیوں 4:‏4؛‏ اعمال 23:‏1؛‏ 2-‏تیمُتھیُس 1:‏3‏)‏ جب پولُس کو پتہ چلا کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں،‏ وہ یہوواہ کی نظر میں غلط ہے تو اُنہیں احساس ہوا کہ اُنہیں خود میں تبدیلی کرنے کی ضرورت ہے۔‏ لہٰذا کوئی کام کرنے سے پہلے ہمیں خود سے پوچھنا چاہیے:‏ ”‏یہوواہ اِسے کیسا خیال کرتا ہے؟‏“‏

9.‏ خدا کا خوف ماننے کا کیا مطلب ہے؟‏

9 جب ہم کسی سے محبت کرتے ہیں تو ہم اُسے ناراض کرنے سے ڈرتے ہیں۔‏ چونکہ ہم یہوواہ سے محبت کرتے ہیں اِس لیے ہم کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتے جس سے وہ ناراض ہو۔‏ بےشک یہ بہت اہم ہے کہ ہمارے دل میں ایسا ڈر ہو۔‏ یہ بات نحمیاہ کی مثال سے ظاہر ہوتی ہے۔‏ وہ یہوداہ کے گورنر تھے لیکن اُنہوں نے امیر بننے کے لیے اپنے اِس عہدے کا غلط اِستعمال نہیں کِیا۔‏ اِس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ’‏خدا کا خوف‘‏ مانتے تھے۔‏ (‏نحمیاہ 5:‏15‏)‏ نحمیاہ کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتے تھے جس کی وجہ سے یہوواہ اُن سے ناراض ہو۔‏ نحمیاہ کی طرح ہمارے دل میں بھی یہ خوف ہونا چاہیے کہ ہم کوئی غلط کام کر کے یہوواہ کو ناراض نہ کریں۔‏ بائبل کو پڑھنے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہوواہ کن کاموں سے خوش ہوتا ہے۔‏—‏کتاب کے آخر میں نکتہ نمبر 6 کو دیکھیں۔‏

10،‏ 11.‏ شراب پینے کے سلسلے میں صحیح فیصلہ کرنے کے لیے ہم بائبل کے کن اصولوں سے رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں؟‏

10 اِس سلسلے میں ایک مثال پر غور کریں۔‏ شاید ایک مسیحی کو یہ فیصلہ کرنا ہو کہ وہ شراب پیئے گا یا نہیں۔‏ صحیح فیصلہ کرنے کے لیے وہ بائبل کے کن اصولوں سے رہنمائی حاصل کر سکتا ہے؟‏ آئیں،‏ شراب پینے کے حوالے سے کچھ اصولوں پر غور کریں۔‏ بائبل میں شراب پینے سے منع نہیں کِیا گیا بلکہ اِس میں بتایا گیا ہے کہ مے خدا کی طرف سے ایک نعمت ہے۔‏ (‏زبور 104:‏14،‏ 15‏)‏ لیکن یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کو خبردار کِیا کہ وہ ”‏بےتحاشا شراب“‏ نہ پئیں۔‏ (‏لُوقا 21:‏34‏)‏ پولُس رسول نے بھی مسیحیوں کو ’‏غیرمہذب دعوتوں اور نشہ‌بازی‘‏ سے دُور رہنے کی نصیحت کی۔‏ (‏رومیوں 13:‏13‏)‏ اُنہوں نے کہا کہ شرابی ”‏خدا کی بادشاہت کے وارث نہیں ہوں گے۔‏“‏—‏1-‏کُرنتھیوں 6:‏9،‏ 10‏۔‏

11 ایک مسیحی شراب پینے کے سلسلے میں صحیح فیصلہ کرنے کے لیے خود سے کچھ اِس طرح کے سوال پوچھ سکتا ہے:‏ ”‏میرے لیے شراب کتنی اہم ہے؟‏ کیا مَیں پُرسکون ہونے کے لیے شراب کا سہارا لیتا ہوں؟‏ کیا مَیں اِس لیے شراب پیتا ہوں تاکہ مَیں اپنے شرمیلےپن پر قابو پا سکوں؟‏ کیا مجھے اِس بات پر قابو ہے کہ مَیں کتنی شراب پیوں گا اور کتنی بار پیوں گا؟‏ * کیا مَیں اپنے دوستوں کی محفل میں اُس وقت بھی لطف اُٹھاتا ہوں جب شراب پیش نہیں کی جاتی؟‏“‏ ہم صحیح فیصلے کرنے کے لیے یہوواہ سے مدد مانگ سکتے ہیں۔‏ ‏(‏زبور 139:‏23،‏ 24 کو پڑھیں۔‏)‏ اِس طرح ہم اپنے ضمیر کی تربیت کرتے ہیں کہ وہ بائبل کے اصولوں کے مطابق فیصلے کرے۔‏ لیکن صرف اپنے ضمیر کی تربیت کرنا ہی کافی نہیں ہے۔‏ ہمیں دوسروں کے ضمیر کا بھی احترام کرنا چاہیے۔‏

ہمیں دوسروں کے ضمیر کا احترام کیوں کرنا چاہیے؟‏

12،‏ 13.‏ (‏الف)‏ لوگ اپنے ضمیر کے مطابق ایک دوسرے سے فرق فیصلہ کیوں کرتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ اگر کسی شخص کا فیصلہ ہمارے فیصلے سے فرق ہو تو ہمیں کیسا ردِعمل دِکھانا چاہیے؟‏

12 لوگ اپنے اپنے ضمیر کے مطابق ایک دوسرے سے فرق فیصلے کرتے ہیں۔‏ ہو سکتا ہے کہ آپ کا ضمیر آپ کو کوئی کام کرنے کی اِجازت دے لیکن کسی دوسرے شخص کا ضمیر اُسے وہ کام کرنے سے منع کرے۔‏ مثال کے طور پر شاید آپ شراب پینے کا فیصلہ کریں جبکہ کوئی دوسرا شخص اِسے نہ پینے کا فیصلہ کرے۔‏ لیکن دو لوگ ایک معاملے کے بارے میں فرق فرق نظریہ کیوں رکھتے ہیں؟‏

اگر آپ اپنے ضمیر کی تربیت کرتے ہیں تو یہ شراب پینے یا نہ پینے کے حوالے سے فیصلہ کرنے میں آپ کی مدد کرتا ہے۔‏

13 اِس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں جیسے کہ اُن کی پرورش کس ماحول میں ہوئی ہے،‏ اُس معاملے کے بارے میں اُن کے خاندان کا کیا نظریہ ہے اور زندگی میں اُنہیں کن تجربات سے گزرنا پڑا ہے۔‏ اگر ایک شخص ماضی میں بہت زیادہ شراب پیتا تھا تو شاید اب وہ بالکل شراب نہ پینے کا فیصلہ کرے۔‏ (‏1-‏سلاطین 8:‏38،‏ 39‏)‏ اگر آپ کسی شخص کو شراب پیش کرتے ہیں اور وہ اِسے پینے سے اِنکار کر دیتا ہے تو آپ کیسا ردِعمل ظاہر کریں گے؟‏ کیا آپ بُرا مان جائیں گے؟‏ کیا آپ اِصرار کریں گے؟‏ یا کیا آپ اُس کے اِنکار کی وجہ جاننے کی کوشش کریں گے؟‏ بےشک آپ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ آپ اُس شخص کے ضمیر کا احترام کرتے ہیں۔‏

14،‏ 15.‏ (‏الف)‏ پولُس رسول کے زمانے میں کون سی صورتحال کھڑی ہوئی؟‏ (‏ب)‏ پولُس نے کون سی نصیحت کی؟‏

14 پولُس رسول کے زمانے میں ایک ایسی صورتحال کھڑی ہوئی جس سے ظاہر ہوا کہ ہر شخص اپنے ضمیر کے مطابق فرق فرق فیصلہ کر سکتا ہے۔‏ اُس وقت بازاروں میں جو گوشت بکتا تھا،‏ اُس میں سے کچھ ایسا ہوتا تھا جو بُتوں کے سامنے چڑھایا جا چُکا ہوتا تھا۔‏ (‏1-‏کُرنتھیوں 10:‏25‏)‏ پولُس رسول کی نظر میں اُس گوشت کو خریدنا اور کھانا غلط نہیں تھا۔‏ وہ جانتے تھے کہ کھانے کی ہر چیز یہوواہ کی طرف سے ہے۔‏ لیکن کچھ ایسے بہن بھائیوں کی رائے پولُس سے فرق تھی جو پہلے بُتوں کی پوجا کرتے تھے۔‏ اُن کو لگتا تھا کہ ایسا گوشت کھانا غلط ہے۔‏ کیا پولُس نے یہ سوچا کہ ”‏یہ گوشت کھانے سے میرا ضمیر تو مجھے ملامت نہیں کرتا۔‏ مجھے یہ فیصلہ کرنے کا حق ہے کہ مَیں کیا کھاؤں گا اور کیا نہیں“‏؟‏

15 پولُس نے یہ نہیں سوچا۔‏ اُن کے نزدیک اُن کے بہن بھائیوں کے احساسات اُن کے اپنے احساسات سے زیادہ اہم تھے اِس لیے وہ خوشی سے اپنی پسند کو قربان کرنے کے لیے تیار تھے۔‏ اُنہوں نے کہا کہ ”‏ہمیں چاہیے کہ صرف اپنی خوشی کا نہ سوچیں .‏ .‏ .‏ کیونکہ مسیح نے بھی صرف اپنی خوشی کا نہیں سوچا۔‏“‏ (‏رومیوں 15:‏1،‏ 3‏)‏ یسوع مسیح کی طرح پولُس کو بھی خود سے زیادہ اپنے بہن بھائیوں کی پرواہ تھی۔‏‏—‏1-‏کُرنتھیوں 8:‏13؛‏ 10:‏23،‏ 24،‏ 31-‏33 کو پڑھیں۔‏

16.‏ اگر ایک مسیحی اپنے ضمیر کے مطابق کوئی فیصلہ کرتا ہے تو ہمیں اُس پر نکتہ‌چینی کیوں نہیں کرنی چاہیے؟‏

16 جب کوئی شخص اپنے ضمیر کے مطابق کوئی ایسا فیصلہ کرتا ہے جو ہمیں غلط لگتا ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟‏ ہمیں اِس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہم اُس پر نکتہ‌چینی نہ کریں اور اِس بات پر اِصرار نہ کریں کہ ہم صحیح ہیں اور وہ غلط۔‏ ‏(‏رومیوں 14:‏10 کو پڑھیں۔‏)‏ یہوواہ نے ہمیں ضمیر اِس لیے دیا ہے کہ ہم خود کو پرکھیں نہ کہ دوسروں کو۔‏ (‏متی 7:‏1‏)‏ ہم کبھی بھی یہ نہیں چاہیں گے کہ ہماری پسند یا ناپسند کی وجہ سے کلیسیا میں پھوٹ پڑے۔‏ اِس لیے ہم کلیسیا میں محبت اور اِتحاد کو فروغ دینے کے موقعوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔‏—‏رومیوں 14:‏19‏۔‏

صاف ضمیر رکھنے کے فائدے

17.‏ کچھ لوگوں کے ضمیر کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟‏

17 پطرس رسول نے لکھا کہ ”‏اپنا ضمیر صاف رکھیں۔‏“‏ (‏1-‏پطرس 3:‏16‏)‏ لیکن جب لوگ یہوواہ کے اصولوں کو بار بار نظرانداز کرتے ہیں تو آخرکار اُن کا ضمیر اُن کی رہنمائی کرنا چھوڑ دیتا ہے۔‏ پولُس رسول نے کہا کہ ایسے لوگوں کا ”‏ضمیر سُن ہو [‏جاتا]‏ ہے گویا اِسے گرم لوہے سے داغا گیا ہو۔‏“‏ (‏1-‏تیمُتھیُس 4:‏2‏)‏ کیا کبھی آپ کے جسم کا کوئی حصہ بُری طرح جلا ہے؟‏ جب ایسا ہوتا ہے تو اُس جگہ کی جِلد بالکل بےحس ہو جاتی ہے۔‏ اِسی طرح اگر ایک شخص بار بار غلط کام کرتا ہے تو اُس کا ضمیر بےحس ہو سکتا ہے اور آہستہ آہستہ اُس کی رہنمائی کرنا چھوڑ سکتا ہے۔‏

جب ہمارا ضمیر ہمیں صحیح راہ دِکھاتا ہے تو ہمیں خوشی اور اِطمینان ملتا ہے۔‏

18،‏ 19.‏ (‏الف)‏ جب ہمارا ضمیر ہمیں ملامت کرتا ہے تو اِس کا کیا فائدہ ہوتا ہے؟‏ (‏ب)‏ اگر توبہ کرنے کے بعد بھی ہمیں شرمندگی کا احساس ستاتا ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟‏

18 جب ہمارا ضمیر ہمیں ملامت کرتا ہے تو دراصل یہ ہمیں احساس دِلاتا ہے کہ ہم نے کوئی غلط کام کِیا ہے۔‏ یوں ہمیں ترغیب ملتی ہے کہ ہم اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں اور آئندہ اِنہیں نہ دُہرائیں۔‏ ذرا داؤد بادشاہ کی مثال پر غور کریں۔‏ جب اُنہوں نے گُناہ کِیا تو اُن کے ضمیر نے اُنہیں اِس گُناہ کا احساس دِلایا جس کی وجہ سے اُنہوں نے توبہ کر لی۔‏ اُنہیں اپنے کیے پر بہت پچھتاوا ہوا اور اُنہوں نے آئندہ یہوواہ کا فرمانبردار رہنے کا پکا اِرادہ کِیا۔‏ داؤد نے یہ تجربہ کِیا کہ یہوواہ ”‏نیک اور معاف کرنے کو تیار ہے۔‏“‏—‏زبور 51:‏1-‏19؛‏ 86:‏5‏؛‏ کتاب کے آخر میں نکتہ نمبر 7 کو دیکھیں۔‏

19 لیکن ہو سکتا ہے کہ توبہ کرنے کے کافی عرصے بعد بھی ایک شخص کو شرمندگی کا احساس ستاتا رہے۔‏ یہ احساس کافی تکلیف‌دہ ہو سکتا ہے اور اِس کی وجہ سے وہ شخص خود کو بےکار محسوس کر سکتا ہے۔‏ اگر آپ بھی کبھی کبھار ایسا محسوس کرتے ہیں تو یاد رکھیں کہ آپ اپنے ماضی کو نہیں بدل سکتے۔‏ چاہے آپ اِس بات سے واقف تھے یا نہیں کہ آپ کچھ غلط کر رہے ہیں،‏ یقین مانیں کہ آپ کے توبہ کرنے کے بعد یہوواہ نے آپ کو مکمل طور پر معاف کر دیا ہے اور آپ کے گُناہوں کو مٹا دیا ہے۔‏ آپ یہوواہ کی نظر میں پاک ہیں اور اب آپ وہ کام کر رہے ہیں جو صحیح ہیں۔‏ شاید آپ کا دل ابھی بھی آپ کو قصوروار ٹھہرائے لیکن بائبل میں لکھا ہے کہ ‏”‏خدا ہمارے دل سے بڑا ہے۔‏“‏ ‏(‏1-‏یوحنا 3:‏19،‏ 20 کو پڑھیں۔‏)‏ اِس بات کو ذہن میں رکھنے سے کہ یہوواہ ہم سے گہری محبت کرتا ہے اور اُس نے ہمیں معاف کر دیا ہے،‏ ہم شرمندگی یا پچھتاوے کے احساسات پر قابو پا سکتے ہیں۔‏ جب ایک شخص کو یقین ہو جاتا ہے کہ یہوواہ نے اُسے معاف کر دیا ہے تو اُس کا ضمیر مطمئن ہو جاتا ہے اور وہ خوشی سے یہوواہ کی خدمت کر پاتا ہے۔‏—‏1-‏کُرنتھیوں 6:‏11؛‏ عبرانیوں 10:‏22‏۔‏

20،‏ 21.‏ (‏الف)‏ اِس کتاب کو تیار کرنے کا مقصد کیا ہے؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ نے ہمیں کون سی آزادی دی ہے اور ہمیں اِسے کیسے اِستعمال کرنا چاہیے؟‏

20 اِس کتاب کو تیار کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ اپنے ضمیر کی تربیت کریں تاکہ یہ اِس بُرے زمانے میں آپ کو غلط کاموں سے خبردار کرے اور آپ کو نقصان سے محفوظ رکھے۔‏ یہ سچ ہے کہ اِس کتاب میں زندگی کے ہر معاملے کے بارے میں قوانین نہیں دیے گئے۔‏ لیکن اِس کے ذریعے آپ سیکھیں گے کہ آپ مختلف صورتحال میں بائبل کے اصولوں پر کیسے عمل کر سکتے ہیں۔‏ ہم ”‏مسیح کی شریعت“‏ پر عمل کرتے ہیں جس میں قوانین نہیں بلکہ خدا کے اصول پائے جاتے ہیں۔‏ (‏گلتیوں 6:‏2‏)‏ لہٰذا ہم اِس بات کو غلط کام کرنے کا بہانہ نہیں بناتے کہ فلاں صورتحال کے لیے کوئی قانون نہیں ہے۔‏ (‏2-‏کُرنتھیوں 4:‏1،‏ 2؛‏ عبرانیوں 4:‏13؛‏ 1-‏پطرس 2:‏16‏)‏ اِس کی بجائے ہم فیصلہ کرنے کی آزادی کو اِس طرح اِستعمال کرتے ہیں کہ یہوواہ کے لیے ہماری محبت ظاہر ہو۔‏

21 جب ہم بائبل کے اصولوں پر سوچ بچار کرتے ہیں اور اِن پر عمل کرتے ہیں تو ہم اپنی ”‏سوچنے سمجھنے کی صلاحیت“‏ کو صحیح طرح اِستعمال کرنا سیکھتے ہیں اور یہوواہ جیسی سوچ اپنانے کے قابل ہوتے ہیں۔‏ (‏عبرانیوں 5:‏14‏)‏ اِس طرح ہمارے ضمیر کی تربیت ہوتی ہے جو صحیح راہ پر چلتے رہنے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے۔‏ یوں ہم خدا کی محبت میں قائم رہ پاتے ہیں۔‏

^ پیراگراف 11 بہت سے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ جو لوگ شراب پینے کے عادی ہوتے ہیں،‏ اُن کے لیے اِس بات پر قابو رکھنا مشکل ہوتا ہے کہ وہ کتنی شراب پئیں گے۔‏ اِس لیے ڈاکٹر اُنہیں مشورہ دیتے ہیں کہ وہ بالکل شراب نہ پئیں۔‏