مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

باب نمبر 5

ہم دُنیا سے الگ کیسے رہ سکتے ہیں؟‏

ہم دُنیا سے الگ کیسے رہ سکتے ہیں؟‏

‏”‏آپ دُنیا کا حصہ نہیں ہیں۔‏“‏—‏یوحنا 15:‏19‏۔‏

1.‏ اپنی موت سے کچھ گھنٹے پہلے یسوع مسیح کس حوالے سے فکرمند تھے؟‏

یسوع مسیح کی موت میں کچھ ہی گھنٹے باقی تھے۔‏ وہ جانتے تھے کہ تھوڑی ہی دیر میں وہ اپنے شاگردوں سے جُدا ہو جائیں گے اِس لیے وہ اُن کو لے کر بہت فکرمند تھے۔‏ یسوع نے اُن سے کہا:‏ ”‏آپ دُنیا کا حصہ نہیں ہیں۔‏“‏ (‏یوحنا 15:‏19‏)‏ اِس کے بعد اُنہوں نے یہوواہ سے دُعا کرتے وقت اپنے شاگردوں کے بارے میں کہا:‏ ”‏وہ دُنیا کا حصہ نہیں ہیں جس طرح مَیں دُنیا کا حصہ نہیں ہوں۔‏“‏ (‏یوحنا 17:‏15،‏ 16‏)‏ یسوع مسیح کی اِس بات کا کیا مطلب تھا؟‏

2.‏ یسوع مسیح کس ”‏دُنیا“‏ کی بات کر رہے تھے؟‏

2 یسوع مسیح جس ”‏دُنیا“‏ کی بات کر رہے تھے،‏ اُس کا اِشارہ ایسے لوگوں کی طرف ہے جو یہوواہ کی عبادت نہیں کرتے اور شیطان کے قبضے میں ہیں۔‏ (‏یوحنا 14:‏30؛‏ اِفسیوں 2:‏2؛‏ یعقوب 4:‏4؛‏ 1-‏یوحنا 5:‏19‏)‏ ہم کس لحاظ سے ”‏دُنیا کا حصہ“‏ نہیں ہیں؟‏ ہم یہوواہ کی بادشاہت کی حمایت کرتے ہیں اور غیرجانب‌دار رہتے ہیں یعنی ہم سیاسی معاملوں میں حصہ نہیں لیتے؛‏ ہم دُنیا کی روح کا مقابلہ کرتے ہیں؛‏ ہم حیادار لباس پہنتے ہیں اور پیسے کے بارے میں مناسب سوچ رکھتے ہیں۔‏ اِس کے علاوہ ہم وہ جنگی لباس پہنتے ہیں جو خدا نے ہمیں دیا ہے۔‏ اِس باب میں ہم اِن سب باتوں پر غور کریں گے۔‏—‏کتاب کے آخر میں نکتہ نمبر 16 کو دیکھیں۔‏

خدا کی بادشاہت کی حمایت کریں

3.‏ یسوع مسیح نے سیاسی معاملوں کے حوالے سے کیسی مثال قائم کی؟‏

3 جب یسوع مسیح زمین پر تھے تو اُنہوں نے دیکھا کہ لوگوں کی زندگی کتنی مشکلوں سے بھری ہے۔‏ اُنہیں دل سے لوگوں کی فکر تھی اور وہ اُن کی مدد کرنا چاہتے تھے۔‏ لیکن کیا ایسا کرنے کے لیے وہ سیاسی رہنما بن گئے؟‏ جی نہیں۔‏ وہ جانتے تھے کہ لوگوں کے مسئلے کوئی سیاسی رہنما نہیں بلکہ صرف خدا کی بادشاہت ہی حل کر سکتی ہے۔‏ اِسی لیے زمین پر خدمت کرتے وقت اُنہوں نے لوگوں کی توجہ خاص طور پر خدا کی بادشاہت پر دِلائی جس کا اُنہوں نے بادشاہ بننا تھا۔‏ (‏دانی‌ایل 7:‏13،‏ 14؛‏ لُوقا 4:‏43؛‏ 17:‏20،‏ 21‏)‏ یسوع مسیح نے کبھی بھی سیاسی معاملوں میں حصہ نہیں لیا۔‏ جب یسوع رومی گورنر پُنطیُس پیلاطُس کے سامنے پیش کیے گئے تو اُنہوں نے اُن سے کہا:‏ ”‏میری بادشاہت کا اِس دُنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‏“‏ (‏یوحنا 18:‏36‏)‏ یسوع مسیح کے شاگرد بھی اُن کی طرح غیرجانب‌دار رہتے تھے۔‏ تاریخ کی ایک کتاب میں اِبتدائی مسیحیوں کے بارے میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ ”‏سیاسی عہدے رکھنے سے اِنکار کرتے تھے۔‏“‏ آج ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔‏ ہم خدا کی بادشاہت کی حمایت کرتے ہیں اور اِس دُنیا کے سیاسی معاملوں میں غیرجانب‌دار رہتے ہیں۔‏—‏متی 24:‏14‏۔‏

کیا آپ دوسروں کو یہ سمجھا سکتے ہیں کہ آپ غیرجانب‌دار کیوں رہتے ہیں؟‏

4.‏ یہوواہ کے بندے اُس کی بادشاہت کی حمایت کیسے کرتے ہیں؟‏

4 پولُس رسول نے مسح‌شُدہ مسیحیوں سے کہا:‏ ”‏ہم مسیح کی جگہ سفیر ہیں۔‏“‏ (‏2-‏کُرنتھیوں 5:‏20‏)‏ سفیر وہ شخص ہوتا ہے جو کسی غیرملک میں رہ کر اپنے ملک کی حکومت کی نمائندگی کرتا ہے۔‏ اِس لیے وہ اُس غیرملک کے سیاسی معاملوں میں نہیں پڑتا۔‏ مسح‌شُدہ مسیحی آسمان پر مسیح کے ساتھ حکمرانی کرنے کی اُمید رکھتے ہیں۔‏ وہ خدا کی حکومت کی نمائندگی کرتے ہیں اِس لیے وہ اِس دُنیا کے سیاسی معاملوں میں نہیں اُلجھتے۔‏ (‏فِلپّیوں 3:‏20‏)‏ اِس کی بجائے وہ لاکھوں لوگوں کو خدا کی بادشاہت کے بارے میں تعلیم دیتے ہیں۔‏ مسح‌شُدہ مسیحیوں کے علاوہ مسیح کی ”‏اَور بھی بھیڑیں“‏ ہیں جو زمین پر ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کی اُمید رکھتی ہیں۔‏ وہ اِن مسح‌شُدہ مسیحیوں کا بھرپور ساتھ دیتی ہیں اور اِن کی طرح غیرجانب‌دار رہتی ہیں۔‏ (‏یوحنا 10:‏16؛‏ متی 25:‏31-‏40‏)‏ لہٰذا خدا کا کوئی بھی بندہ اِس دُنیا کے سیاسی معاملوں میں حصہ نہیں لیتا۔‏‏—‏یسعیاہ 2:‏2-‏4 کو پڑھیں۔‏

5.‏ ایک وجہ بتائیں جس کی بِنا پر خدا کے بندے جنگ میں حصہ نہیں لیتے۔‏

5 یہوواہ کے بندے اپنے سب ہم‌ایمانوں کو اپنے گھر کا فرد سمجھتے ہیں اور اُن کے ساتھ متحد رہتے ہیں پھر چاہے اُن کا تعلق کسی بھی ملک یا پس‌منظر سے ہو۔‏ (‏1-‏کُرنتھیوں 1:‏10‏)‏ اگر ہم جنگ میں حصہ لیں گے تو ہم اپنے ہم‌ایمانوں یعنی اپنے گھر کے افراد سے لڑ رہے ہوں گے جبکہ یسوع مسیح نے اُن سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے۔‏ (‏یوحنا 13:‏34،‏ 35؛‏ 1-‏یوحنا 3:‏10-‏12‏)‏ اُنہوں نے تو ہمیں اپنے دُشمنوں تک سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے۔‏—‏متی 5:‏44؛‏ 26:‏52‏۔‏

6.‏ یہوواہ کے بندے کس حد تک حکومت کے فرمانبردار رہتے ہیں؟‏

6 حالانکہ مسیح کے شاگردوں کے طور پر ہم جنگ اور سیاسی معاملوں میں حصہ نہیں لیتے لیکن ہم اچھے شہری بننے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر ہم حکومت کے بنائے قوانین کو مانتے ہیں اور ٹیکس ادا کرتے ہیں۔‏ مگر ہم اِس بات کا بھی ہمیشہ خیال رکھتے ہیں کہ ”‏جو چیزیں خدا کی ہیں،‏“‏ وہ ”‏خدا کو دیں۔‏“‏ (‏مرقس 12:‏17؛‏ رومیوں 13:‏1-‏7؛‏ 1-‏کُرنتھیوں 6:‏19،‏ 20‏)‏ اِس کا مطلب ہے کہ ہم خدا سے محبت کرتے ہیں،‏ اُس کی فرمانبرداری کرتے ہیں اور اُس کی عبادت کرتے ہیں۔‏ ہم تو یہوواہ کے حکم ماننے کی خاطر اپنی جان تک قربان کرنے کو تیار ہیں۔‏—‏لُوقا 4:‏8؛‏ 10:‏27؛‏ اعمال 5:‏29؛‏ رومیوں 14:‏8 کو پڑھیں۔‏

‏”‏دُنیا کی روح“‏ کا مقابلہ کریں

7،‏ 8.‏ ”‏دُنیا کی روح“‏ کیا ہے اور یہ لوگوں پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے؟‏

7 شیطان کی دُنیا سے الگ رہنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم ”‏دُنیا کی روح“‏ کا مقابلہ کریں۔‏ یہ روح اِنسانوں میں ایسی سوچ اور ایسا مزاج پیدا کرتی ہے جیسا شیطان میں پایا جاتا ہے۔‏ یہ روح اُن لوگوں کو اپنے قابو میں کر لیتی ہے جو یہوواہ کی عبادت نہیں کرتے۔‏ مگر مسیحی دُنیا کی روح کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیتے۔‏ وہ پولُس رسول کے اِن الفاظ کو یاد رکھتے ہیں کہ ”‏ہمیں دُنیا کی روح نہیں دی گئی بلکہ خدا کی روح دی گئی۔‏“‏—‏1-‏کُرنتھیوں 2:‏12؛‏ اِفسیوں 2:‏2،‏ 3‏؛‏ کتاب کے آخر میں نکتہ نمبر 17 کو دیکھیں۔‏

8 دُنیا کی روح لوگوں میں خودغرضی،‏ غرور اور بغاوت کا رُجحان پیدا کرتی ہے۔‏ یہ لوگوں میں اِس سوچ کو فروغ دیتی ہے کہ اُنہیں خدا کے حکم ماننے کی ضرورت نہیں ہے۔‏ شیطان چاہتا ہے کہ لوگ جو دل میں آئے،‏ وہ کریں اور اِس بارے میں نہ سوچیں کہ اُن کے کاموں کا انجام کیا ہوگا۔‏ وہ لوگوں کو یقین دِلانا چاہتا ہے کہ ”‏جسم کی خواہش اور آنکھوں کی خواہش“‏ کو پورا کرنا ہی زندگی میں سب سے زیادہ اہم ہے۔‏ (‏1-‏یوحنا 2:‏16؛‏ 1-‏تیمُتھیُس 6:‏9،‏ 10‏)‏ شیطان خاص طور پر خدا کے بندوں کو گمراہ کرنا چاہتا ہے۔‏ وہ بڑی مکاری سے اُن میں اپنی سوچ پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔‏—‏یوحنا 8:‏44؛‏ اعمال 13:‏10؛‏ 1-‏یوحنا 3:‏8‏۔‏

9.‏ دُنیا کی روح ہم پر کیسے اثرانداز ہو سکتی ہے؟‏

9 دُنیا کی روح ہوا کی طرح ہے جو ہمارے چاروں طرف موجود ہے۔‏ اِس لیے اگر ہم اِس روح کا مقابلہ کرنے کے لیے جی‌توڑ کوشش نہیں کریں گے تو یہ ہم پر اثرانداز ہو جائے گی۔‏ ‏(‏امثال 4:‏23 کو پڑھیں۔‏)‏ یہ روح اِتنی خاموشی سے ہم پر اثر ڈالنے لگے گی کہ ہمیں پتہ بھی نہیں چلے گا۔‏ شاید ہم ایسے لوگوں کی سوچ اور رویے اپنانے لگیں جو یہوواہ کی عبادت نہیں کرتے۔‏ (‏امثال 13:‏20؛‏ 1-‏کُرنتھیوں 15:‏33‏)‏ یا پھر یہ کسی اَور طریقے سے ہم پر حاوی ہو سکتی ہے جیسے کہ گندی تصویریں دیکھنے سے،‏ برگشتہ لوگوں کی بات سننے سے یا ظلم‌وتشدد سے بھرے کھیل دیکھنے سے۔‏—‏کتاب کے آخر میں نکتہ نمبر 18 کو دیکھیں۔‏

10.‏ ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ دُنیا کی روح ہم پر حاوی نہ ہو؟‏

10 تو پھر ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ دُنیا کی روح ہم پر حاوی نہ ہو؟‏ اِس کے لیے ضروری ہے کہ ہم یہوواہ کے قریب رہیں اور اُس کی رہنمائی کے مطابق چلیں۔‏ اِس کے علاوہ ہمیں خدا سے لگاتار پاک روح مانگنی چاہیے اور اُس کی خدمت میں مصروف رہنا چاہیے۔‏ ہم جانتے ہیں کہ یہوواہ خدا کائنات کی سب سے طاقت‌ور ہستی ہے۔‏ اِس لیے ہمیں پورا یقین ہے کہ وہ دُنیا کی روح کا مقابلہ کرنے میں ہماری مدد کر سکتا ہے۔‏—‏1-‏یوحنا 4:‏4‏۔‏

اپنے لباس سے خدا کی بڑائی کریں

11.‏ دُنیا کی روح سے متاثر لوگ کس طرح کا لباس پہنتے ہیں؟‏

11 ہم اپنے لباس اور حُلیے سے بھی اِس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ ہم اِس دُنیا کا حصہ نہیں ہیں۔‏ آج دُنیا میں بہت سے لوگ ایسے کپڑے پہنتے ہیں جن سے وہ دوسروں کی توجہ اپنی طرف دِلا سکیں،‏ اُن میں غلط خواہشیں بھڑکا سکیں،‏ اپنے پیسے کا دِکھاوا کر سکیں یا معاشرے سے باغی نظر آ سکیں۔‏ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں اِس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ وہ کیسے دِکھ رہے ہیں۔‏ شاید وہ بےڈھنگے یا گندے کپڑے پہنتے ہیں۔‏ لیکن مسیحیوں کو نہ تو ایسا لباس پہننا چاہیے اور نہ ہی ایسا حلیہ اپنانا چاہیے جس سے دُنیا کی سوچ ظاہر ہو۔‏

کیا میرے لباس سے یہوواہ کی بڑائی ہوتی ہے؟‏

12،‏ 13.‏ لباس کا اِنتخاب کرتے وقت بائبل کے کون سے اصول ہمارے کام آ سکتے ہیں؟‏

12 یہوواہ کے بندوں کے طور پر ہمیں ہمیشہ ایسا لباس پہننا چاہیے جو صاف ستھرا اور موقعے کی مناسبت سے ہو۔‏ ہمیں ’‏حیاداری اور سمجھ‌داری سے خود کو سنوارنا‘‏ چاہیے تاکہ یہ ظاہر ہو کہ ہم ”‏خدا کی بندگی“‏ کرتے ہیں۔‏—‏1-‏تیمُتھیُس 2:‏9،‏ 10؛‏ یہوداہ 21‏۔‏

13 ہم جس طرح کے کپڑے پہنتے ہیں،‏ اُنہیں دیکھ کر لوگ یہوواہ اور اُس کے بندوں کے بارے میں اچھی یا بُری رائے قائم کر سکتے ہیں۔‏ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ہر کام سے ”‏خدا کی بڑائی“‏ ہو۔‏ (‏1-‏کُرنتھیوں 10:‏31‏)‏ غور کریں کہ 1-‏تیمُتھیُس 2:‏9 میں یونانی زبان کے جس لفظ کا ترجمہ ”‏حیاداری“‏ کِیا گیا ہے،‏ اُس کا مطلب ہے:‏ ”‏دوسروں کے احساسات کا لحاظ رکھنا اور اُن کی رائے کا احترام کرنا۔‏“‏ لہٰذا جب ہم اِس بات کا اِنتخاب کرتے ہیں کہ ہم کس طرح کے کپڑے پہنیں گے اور کیسا حلیہ اپنائیں گے تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے فیصلوں کا دوسروں پر کیا اثر ہوگا۔‏—‏1-‏کُرنتھیوں 4:‏9؛‏ 2-‏کُرنتھیوں 6:‏3،‏ 4؛‏ 7:‏1‏۔‏

14.‏ اِجلاسوں اور مُنادی کے لیے کپڑوں کا اِنتخاب کرتے وقت ہمیں کن باتوں پر غور کرنا چاہیے؟‏

14 ہم اِجلاسوں اور مُنادی میں کیسا لباس پہنتے ہیں؟‏ کیا ہم اپنے لباس سے دوسروں کی توجہ اپنے اُوپر دِلانا چاہتے ہیں؟‏ کیا ہمارے لباس کو دیکھ کر دوسروں کی آنکھیں شرم سے جھک جاتی ہیں؟‏ کیا ہم یہ سوچتے ہیں کہ دوسروں کا اِس بات سے کوئی لینا دینا نہیں کہ ہم کس طرح کے کپڑے پہنتے ہیں؟‏ (‏فِلپّیوں 4:‏5؛‏ 1-‏پطرس 5:‏6‏)‏ ظاہری بات ہے کہ ہم سب اچھے دِکھنا چاہتے ہیں۔‏ لیکن جو چیز ہمیں واقعی خوب‌صورت بناتی ہے،‏ وہ ہماری خوبیاں ہیں۔‏ جب یہوواہ ہمیں دیکھتا ہے تو وہ ہماری ظاہری صورت پر نہیں بلکہ ہماری خوبیوں پر نظر کرتا ہے۔‏ اِن خوبیوں سے پتہ چلتا ہے کہ ہم ’‏اندر سے یعنی دل سے‘‏ کیسے اِنسان ہیں اور یہی بات خدا کی نظر میں زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔‏—‏1-‏پطرس 3:‏3،‏ 4‏۔‏

15.‏ یہوواہ نے ہمیں لباس کے سلسلے میں قانون کیوں نہیں دیے؟‏

15 یہوواہ نے ہمیں اِس حوالے سے کوئی قانون نہیں دیا کہ ہم کس طرح کے کپڑے پہنیں اور کس طرح کے نہیں۔‏ لیکن اُس نے ہمیں بائبل میں ایسے اصول دیے ہیں جن کی مدد سے ہم اچھے فیصلے کر سکتے ہیں۔‏ (‏عبرانیوں 5:‏14‏)‏ وہ چاہتا ہے کہ ہمارے ہر چھوٹے بڑے فیصلے سے ظاہر ہو کہ ہم اُس سے اور دوسروں سے محبت کرتے ہیں۔‏ ‏(‏مرقس 12:‏30،‏ 31 کو پڑھیں۔‏)‏ پوری دُنیا میں یہوواہ کے گواہ اپنی ثقافت اور پسند کے مطابق فرق فرق لباس پہنتے ہیں۔‏ اور اِس فرق سے زندگی زیادہ حسین ہو جاتی ہے۔‏

پیسے کے بارے میں مناسب نظریہ رکھیں

16.‏ (‏الف)‏ پیسے کے حوالے سے دُنیا کی سوچ یسوع کی تعلیم سے کیسے فرق ہے؟‏ (‏ب)‏ ہمیں خود سے کون سے سوال پوچھنے چاہئیں؟‏

16 شیطان لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوچ ڈالنا چاہتا ہے کہ پیسہ اور آسائشیں ہی اِنسان کو خوشی بخشتی ہیں۔‏ لیکن یہوواہ کے بندے جانتے ہیں کہ یہ سچ نہیں ہے۔‏ ہم یسوع کے اِن الفاظ پر یقین رکھتے ہیں کہ ”‏ایک شخص جتنا بھی امیر ہو،‏ اُسے اُس کے مال سے زندگی نہیں ملتی۔‏“‏ (‏لُوقا 12:‏15‏)‏ پیسے سے ہمیں حقیقی خوشی نہیں مل سکتی۔‏ اِس کے ذریعے ہم سچے دوست،‏ دلی سکون یا ہمیشہ کی زندگی نہیں خرید سکتے۔‏ ظاہری بات ہے کہ گزربسر کرنے کے لیے ہمیں تھوڑے بہت پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے اور ہم زندگی سے لطف بھی اُٹھانا چاہتے ہیں۔‏ لیکن یسوع مسیح نے ہمیں سکھایا کہ ہم تبھی خوش رہ سکتے ہیں اگر ہم یہوواہ کی قُربت میں رہیں گے اور اُس کی عبادت کو اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت دیں گے۔‏ (‏متی 5:‏3؛‏ 6:‏22‏)‏ لہٰذا خود سے پوچھیں:‏ ”‏کہیں مَیں پیسے کے حوالے سے دُنیا کی سوچ تو نہیں اپنانے لگا؟‏ کیا مَیں زیادہ‌تر وقت پیسے کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں یا اِس کے بارے میں بات کرتا رہتا ہوں؟‏“‏—‏لُوقا 6:‏45؛‏ 21:‏34-‏36؛‏ 2-‏یوحنا 6‏۔‏

17.‏ اگر ہم پیسے کے حوالے سے دُنیا کے نظریے کو رد کریں گے تو ہماری زندگی میں کیا بہتری آئے گی؟‏

17 اگر ہم اپنا دھیان خدا کی خدمت پر رکھیں گے اور پیسے کے حوالے سے دُنیا کے نظریے کو رد کریں گے تو ہماری زندگی بہتر ہو جائے گی۔‏ ہم اُسی میں خوش رہیں گے جو ہمارے پاس ہے اور ہمیں دلی سکون ملے گا۔‏ (‏متی 6:‏31،‏ 32؛‏ رومیوں 15:‏13‏)‏ ہم اُن پریشانیوں سے بچ جائیں گے جو پیسے کے پیچھے بھاگنے سے ہوتی ہیں۔‏ ‏(‏1-‏تیمُتھیُس 6:‏9،‏ 10 کو پڑھیں۔‏)‏ ہم میں دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ پیدا ہوگا جس سے ہمیں خوشی ملے گی۔‏ (‏اعمال 20:‏35‏)‏ اِس کے علاوہ سادہ زندگی بسر کرنے سے ہم اپنے عزیزوں کے ساتھ زیادہ وقت گزار پائیں گے۔‏ اور شاید ہم زیادہ اچھی نیند بھی سو پائیں گے۔‏—‏واعظ 5:‏12‏۔‏

‏”‏جنگی لباس پہن لیں“‏

18.‏ شیطان کیا کرنے کی سخت کوشش کر رہا ہے؟‏

18 شیطان یہوواہ کے ساتھ ہماری دوستی کو توڑنے کی سخت کوشش کر رہا ہے۔‏ لہٰذا ہمیں اِس دوستی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے۔‏ یاد رکھیں کہ ہماری لڑائی ”‏بُرے فرشتوں کے آسمانی لشکروں سے“‏ ہے۔‏ (‏اِفسیوں 6:‏12‏)‏ شیطان اور باقی بُرے فرشتے یہ ہرگز نہیں چاہتے کہ ہم خوش رہیں اور ہمیشہ کی زندگی حاصل کریں۔‏ (‏1-‏پطرس 5:‏8‏)‏ ہم ایسے دُشمنوں سے لڑ رہے ہیں جو ہم سے کہیں زیادہ طاقت‌ور ہیں لیکن یہوواہ کی مدد سے ہم یہ لڑائی جیت سکتے ہیں!‏

19.‏ اِفسیوں 6:‏14-‏18 میں اُس ”‏جنگی لباس“‏ کو کس طرح سے بیان کِیا گیا ہے جو خدا نے اپنے بندوں کو دیا ہے؟‏

19 قدیم زمانے میں فوجی لڑائی کے میدان میں خود کو محفوظ رکھنے کے لیے جنگی لباس پہنتے تھے۔‏ اِسی طرح ہمیں بھی وہ ”‏جنگی لباس“‏ پہننا چاہیے جو یہوواہ خدا نے ہمیں دیا ہے۔‏ (‏اِفسیوں 6:‏13‏)‏ یہ ہمیں شیطان کے واروں سے محفوظ رکھے گا۔‏ اِس جنگی لباس کا ذکر اِفسیوں 6:‏14-‏18 میں کِیا گیا ہے جہاں لکھا ہے:‏ ”‏لہٰذا ثابت‌قدم رہیں،‏ اپنی کمر پر سچائی کی پیٹی باندھیں،‏ سینے پر نیکی کا بکتر پہنیں اور پاؤں میں امن کی خوش‌خبری کے جُوتے پہن کر تیار رہیں۔‏ اِس کے ساتھ ساتھ ایمان کی بڑی ڈھال اُٹھا لیں جس سے آپ شیطان کے تمام جلتے تیروں کو بجھا سکیں گے،‏ سر پر نجات کا ہیلمٹ پہن لیں اور ہاتھ میں روح کی تلوار یعنی خدا کا کلام اُٹھا لیں۔‏ اِس کے علاوہ ہر موقعے پر پاک روح کے اثر سے طرح طرح کی دُعائیں اور اِلتجائیں کرتے رہیں۔‏ اِس کام کے لیے چوکس رہیں تاکہ آپ سارا وقت مُقدس لوگوں کے لیے اِلتجا کر سکیں۔‏“‏

20.‏ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ”‏جنگی لباس“‏ ہمیں محفوظ رکھے تو ہمیں کیا کرنا ہوگا؟‏

20 اگر ایک فوجی جنگی لباس میں شامل کسی حصے کو پہننا بھول جاتا تھا تو دُشمن اُس کے جسم پر اُسی جگہ وار کرتا تھا جو غیرمحفوظ ہوتی تھی۔‏ لہٰذا اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا جنگی لباس ہمیں محفوظ رکھے تو ہمیں اِس کے کسی بھی حصے کو پہننے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔‏ ہمیں اِسے ہر وقت پہن کر رکھنا چاہیے اور اِسے اچھی حالت میں رکھنا چاہیے۔‏ شیطان سے ہماری لڑائی تب تک چلتی رہے گی جب تک اِس بُری دُنیا کو تباہ نہیں کر دیا جاتا اور اِس کے حاکم شیطان اور بُرے فرشتوں کا نام‌ونشان زمین سے مٹا نہیں دیا جاتا۔‏ (‏مکاشفہ 12:‏17؛‏ 20:‏1-‏3‏)‏ لہٰذا اگر ہم کسی بُری خواہش یا خامی سے لڑ رہے ہیں تو یہ بہت ضروری ہے کہ ہم ایسا کرنے میں ہمت نہ ہاریں۔‏—‏1-‏کُرنتھیوں 9:‏27‏۔‏

21.‏ ہم شیطان کو کیسے ہرا سکتے ہیں؟‏

21 ہم اپنے بل‌بوتے پر شیطان کی طاقت کے آگے نہیں ٹک سکتے۔‏ لیکن یہوواہ کی مدد سے ہم ایسا کر سکتے ہیں۔‏ شیطان کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں یہوواہ سے دُعا کرنے،‏ اُس کے کلام کا مطالعہ کرنے اور بہن بھائیوں کی قُربت میں رہنے کی ضرورت ہے۔‏ (‏عبرانیوں 10:‏24،‏ 25‏)‏ اِس طرح ہم یہوواہ کے وفادار رہ پائیں گے اور اُن لوگوں کو مؤثر طریقے سے جواب دے پائیں گے جو ہمارے عقیدوں پر اِعتراض کرتے ہیں۔‏

اپنے عقیدوں کا دِفاع کریں

22،‏ 23.‏ (‏الف)‏ ہم دوسروں کو اپنے عقیدوں کے بارے میں جواب دینے کے لیے ہر وقت تیار کیسے رہ سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ اگلے باب میں ہم کس بارے میں بات کریں گے؟‏

22 جب لوگ ہمارے عقیدوں پر اِعتراض کرتے ہیں تو ہمیں اُن کو مؤثر طریقے سے جواب دینے کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔‏ (‏یوحنا 15:‏19‏)‏ بعض معاملوں کے بارے میں یہوواہ کے گواہوں کا نظریہ دُنیا کے زیادہ‌تر لوگوں سے بالکل فرق ہے۔‏ اِس حوالے سے خود سے پوچھیں:‏ ”‏کیا مجھے واقعی پتہ ہے کہ ہم فلاں نظریے کو کیوں مانتے ہیں؟‏ کیا مجھے اِس بات کا پورا یقین ہے کہ جو کچھ بائبل میں لکھا ہے اور جو کچھ وفادار اور سمجھ‌دار غلام ہمیں بتاتا ہے،‏ وہ درست ہے؟‏ (‏متی 24:‏45؛‏ یوحنا 17:‏17‏)‏ کیا مجھے یہوواہ کا گواہ ہونے پر فخر ہے؟‏ (‏زبور 34:‏2؛‏ متی 10:‏32،‏ 33‏)‏ کیا مَیں دوسروں کے سامنے اپنے عقیدوں کی وضاحت کر سکتا ہوں؟‏“‏‏—‏1-‏پطرس 3:‏15 کو پڑھیں۔‏

23 ایسی بہت سی صورتحال ہیں جن میں یہ بالکل واضح ہوتا ہے کہ ہمیں دُنیا سے الگ رہنے کے لیے کیا کرنا ہے۔‏ لیکن بعض صورتوں میں یہ اِتنا واضح نہیں ہوتا۔‏ اِسی بات کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے شیطان ہمیں اپنے پھندوں میں پھنسانے کی کوشش کرتا ہے۔‏ اُس کا ایک پھندا تفریح ہے۔‏ اگلے باب میں ہم دیکھیں گے کہ ہم سمجھ‌داری سے تفریح کا اِنتخاب کیسے کر سکتے ہیں۔‏