مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

باب نمبر 7

خدا کی طرح زندگی کو بیش‌قیمت خیال کریں

خدا کی طرح زندگی کو بیش‌قیمت خیال کریں

‏”‏زندگی کا چشمہ تیرے پاس ہے۔‏“‏—‏زبور 36:‏9‏۔‏

1،‏ 2.‏ (‏الف)‏ یہوواہ خدا نے ہمیں کون سا بیش‌قیمت تحفہ دیا ہے؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ ہماری مدد کیسے کرتا ہے تاکہ ہم اچھی زندگی گزار سکیں؟‏

یہوواہ خدا نے ہم میں سے ہر ایک کو زندگی کی شان‌دار نعمت سے نوازا ہے۔‏ (‏پیدایش 1:‏27‏)‏ وہ چاہتا ہے کہ ہم بہترین زندگی گزاریں۔‏ اِس لیے اُس نے ہمیں ایسے اصول دیے ہیں جن کی مدد سے ہم اچھے فیصلے کر سکتے ہیں۔‏ ہمیں اِن اصولوں کو کام میں لانا چاہیے تاکہ ہم ”‏اچھے اور بُرے میں تمیز کر سکیں۔‏“‏ (‏عبرانیوں 5:‏14‏)‏ اِس طرح ہم اپنی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں بہتری لا پائیں گے۔‏ خدا کے اصولوں کے مطابق چلنے سے ہماری زندگی سنور جائے گی اور یوں ہم اِن اصولوں کی اَور زیادہ قدر کرنے لگیں گے۔‏

2 ہمیں زندگی میں طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‏ کبھی کبھی ایسی صورتحال کھڑی ہو جاتی ہیں جن کے حوالے سے بائبل میں کوئی قانون نہیں ہے۔‏ مثال کے طور پر ہمیں کسی ایسے علاج کے سلسلے میں فیصلہ کرنا پڑ سکتا ہے جس میں خون اِستعمال ہوتا ہے۔‏ اِس صورت میں ہم ایسے فیصلے کیسے کر سکتے ہیں جن سے یہوواہ خوش ہو؟‏ بائبل میں کئی اصول درج ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ زندگی اور خون کے سلسلے میں یہوواہ کا نظریہ کیا ہے۔‏ اگر ہم اِن اصولوں کو سمجھتے ہیں تو ہم اچھے فیصلے کر پائیں گے اور ہمارا ضمیر صاف رہے گا۔‏ (‏امثال 2:‏6-‏11‏)‏ آئیں،‏ اِن میں سے کچھ اصولوں پر غور کریں۔‏

زندگی اور خون کے بارے میں یہوواہ کا نظریہ

3،‏ 4.‏ (‏الف)‏ خون کے حوالے سے خدا کا نظریہ کن واقعات سے ظاہر ہوتا ہے؟‏ (‏ب)‏ خون کس چیز کی علامت ہے؟‏

3 یہوواہ کی نظر میں زندگی بیش‌قیمت ہے۔‏ بائبل کے مطابق خون زندگی کی علامت ہے اِس لیے یہوواہ خون کو مُقدس خیال کرتا ہے۔‏ جب قائن نے اپنے بھائی کو قتل کِیا تو یہوواہ نے اُس سے کہا:‏ ”‏تیرے بھائی کا خون زمین سے مجھ کو پکارتا ہے۔‏“‏ (‏پیدایش 4:‏10‏)‏ چونکہ ہابل کا خون اُن کی زندگی کی علامت تھا اِس لیے جب یہوواہ نے ہابل کے خون کا ذکر کِیا تو وہ اُن کی زندگی کی بات کر رہا تھا۔‏

4 نوح کے طوفان کے بعد خدا نے اِنسانوں کو گوشت کھانے کی اِجازت دی۔‏ لیکن اِس کے ساتھ ساتھ اُس نے اُنہیں یہ حکم دیا:‏ ”‏تُم گوشت کے ساتھ خون کو جو اُس کی جان ہے نہ کھانا۔‏“‏ (‏پیدایش 9:‏4‏)‏ یہ حکم نوح کی ساری اولاد پر لاگو ہوتا ہے جس میں ہم بھی شامل ہیں۔‏ اِس سب سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ کی نظر میں خون زندگی کی علامت ہے۔‏ اور اِس حوالے سے ہمیں بھی یہوواہ جیسا نظریہ رکھنا چاہیے۔‏—‏زبور 36:‏9‏۔‏

5،‏ 6.‏ موسیٰ کی شریعت سے ہم زندگی اور خون کے حوالے سے یہوواہ کے نظریے کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں؟‏

5 یہوواہ خدا نے موسیٰ کو جو شریعت دی،‏ اُس میں لکھا تھا:‏ ”‏جو کوئی کسی طرح کا خون کھائے مَیں اُس خون کھانے والے کے خلاف ہوں گا اور اُسے اُس کے لوگوں میں سے کاٹ ڈالوں گا۔‏ کیونکہ جسم کی جان خون میں ہے۔‏“‏—‏احبار 17:‏10،‏ 11‏۔‏

6 شریعت کے مطابق جب کوئی شخص خوراک کی خاطر کسی جانور کو ذبح کرتا تھا تو اُسے اُس جانور کا خون زمین پر اُنڈیلنا ہوتا تھا۔‏ اِس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اُس جانور کی زندگی یہوواہ کی ہے۔‏ (‏اِستثنا 12:‏16؛‏ حِزقی‌ایل 18:‏4‏)‏ لیکن یہوواہ بنی‌اِسرائیل سے یہ توقع نہیں کرتا تھا کہ وہ جانور کے خون کا ایک ایک قطرہ نکالیں۔‏ اگر وہ بس جانور کو ذبح کر کے اُس کا خون نکال دیتے تو وہ صاف ضمیر سے اُس کا گوشت کھا سکتے تھے۔‏ جانور کے خون کو زمین پر اُنڈیلنے سے وہ زندگی کے خالق یہوواہ کے لیے احترام ظاہر کرتے تھے۔‏ شریعت میں بنی‌اِسرائیل کو یہ حکم بھی دیا گیا تھا کہ وہ اپنے گُناہوں کی معافی کے لیے جانوروں کی قربانیاں چڑھائیں۔‏—‏کتاب کے آخر میں نکتہ نمبر 19 اور 20 کو دیکھیں۔‏

7.‏ داؤد نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ خون کو مُقدس خیال کرتے ہیں؟‏

7 ایک مرتبہ جب داؤد فلستیوں کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے تو اُنہوں نے ظاہر کِیا کہ وہ خون کو مُقدس خیال کرتے ہیں۔‏ اِس موقعے پر داؤد کو سخت پیاس لگی۔‏ جب یہ بات اُن کے بندوں کو پتہ چلی تو وہ اپنی جان خطرے میں ڈال کر اُن کے لیے پانی لانے ایسی جگہ چلے گئے جو دُشمن کے قبضے میں تھی۔‏ لیکن جب وہ وہاں سے پانی لے کر آئے تو داؤد نے ”‏اُسے [‏یہوواہ]‏ کے حضور اُنڈیل دیا۔‏“‏ داؤد نے کہا:‏ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏ مجھ سے یہ ہرگز نہ ہو کہ مَیں ایسا کروں۔‏ کیا مَیں اُن لوگوں کا خون پیوں جنہوں نے اپنی جان جوکھوں میں ڈالی؟‏“‏ اِس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ داؤد اِس بات کو سمجھتے تھے کہ خدا زندگی اور خون کو کتنا بیش‌قیمت خیال کرتا ہے!‏—‏2-‏سموئیل 23:‏15-‏17‏۔‏

8،‏ 9.‏ آج مسیحیوں کو خون کے بارے میں کیسا نظریہ رکھنا چاہیے؟‏

8 یسوع مسیح کی موت کے بعد مسیحی،‏ موسیٰ کی شریعت کے پابند نہیں تھے۔‏ لیکن یہوواہ خدا چاہتا تھا کہ مسیحی،‏ شریعت کے کچھ حکموں پر عمل کریں۔‏ حالانکہ اُنہیں جانوروں کی قربانیاں چڑھانے کی ضرورت نہیں تھی پھر بھی اُنہیں ’‏خون سے گریز‘‏ کرنا تھا۔‏ ایسا کرنا اُتنا ہی ضروری تھا جتنا حرام‌کاری یا بُت‌پرستی سے کنارہ کرنا۔‏—‏اعمال 15:‏28،‏ 29‏۔‏

مَیں خون کے اجزا سے علاج کروانے کے سلسلے میں اپنے فیصلے کی وضاحت کیسے کروں گا؟‏

9 آج بھی یہ حکم مسیحیوں پر لاگو ہوتا ہے۔‏ ہم جانتے ہیں کہ یہوواہ زندگی کا سرچشمہ ہے اور ہر جان‌دار کی زندگی اُس کی ہے۔‏ ہم اِس بات سے بھی واقف ہیں کہ خون مُقدس ہے اور یہ زندگی کی علامت ہے۔‏ لہٰذا جب ہم کسی ایسے علاج کے سلسلے میں فیصلہ کرتے ہیں جس میں خون کا اِستعمال ہو تو ہم بائبل کے اصولوں پر ضرور غور کرتے ہیں۔‏

علاج کے سلسلے میں خون کا اِستعمال

10،‏ 11.‏ (‏الف)‏ یہوواہ کے گواہ خون لینے اور خون کے چار بنیادی حصوں سے علاج کروانے کو کیسا خیال کرتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ خون کے سلسلے میں ہر مسیحی کو کیا فیصلہ کرنا چاہیے؟‏

10 یہوواہ کے گواہ اِس بات کو سمجھتے ہیں کہ ’‏خون سے گریز‘‏ کرنے کا مطلب محض اِسے کھانے پینے سے گریز کرنا نہیں ہے۔‏ اِس میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم خون نہ لگوائیں،‏ اِس کا عطیہ نہ دیں اور اِس مقصد سے اپنا خون ذخیرہ نہ کروائیں کہ اِسے بعد میں لگوائیں گے۔‏ اِس کے علاوہ خون سے گریز کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم خون کے چار بنیادی حصوں یعنی سُرخ خلیوں،‏ سفید خلیوں،‏ پلیٹ‌لیٹس اور پلازمہ سے علاج نہ کروائیں۔‏

11 خون کے اِن چار بنیادی حصوں سے مختلف اجزا حاصل کیے جاتے ہیں۔‏ ہر مسیحی کو خود یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ اِن اجزا سے اپنا علاج کروائے گا یا نہیں۔‏ یہ بات ایسے علاج پر بھی لاگو ہوتی ہے جس میں مریض کے خون کو کسی عمل سے گزارا جاتا ہے۔‏ ہر مسیحی کو اِس بات پر غور کرنا چاہیے کہ کسی آپریشن،‏ خون کے ٹیسٹ یا کسی اَور طبی عمل کے دوران اُس کے خون کے ساتھ کیا کِیا جائے گا اور پھر اُسے اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے۔‏—‏کتاب کے آخر میں نکتہ نمبر 21 کو دیکھیں۔‏

12.‏ (‏الف)‏ ہم اپنے ضمیر کے مطابق جو فیصلے کرتے ہیں،‏ وہ یہوواہ کی نظر میں اہم کیوں ہیں؟‏ (‏ب)‏ علاج کے سلسلے میں ہم سوچ سمجھ کر فیصلے کیسے کر سکتے ہیں؟‏

12 کیا یہوواہ کو ہمارے اُن فیصلوں سے کوئی فرق پڑتا ہے جو ہم اپنے ضمیر کے مطابق کرتے ہیں؟‏ جی بالکل۔‏ ہمارے فیصلوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے دل میں کیا ہے اور یہوواہ اِس بات میں گہری دلچسپی رکھتا ہے۔‏ ‏(‏امثال 17:‏3؛‏ 24:‏12 کو پڑھیں۔‏)‏ لہٰذا ہمیں کسی علاج کے بارے میں کوئی فیصلہ کرتے وقت دُعا میں یہوواہ سے رہنمائی مانگنی چاہیے اور پھر اُس علاج کے حوالے سے تحقیق کرنی چاہیے۔‏ اِس کے بعد ہمیں بائبل سے تربیت‌یافتہ اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے۔‏ ہمیں دوسروں سے یہ نہیں پوچھنا چاہیے کہ اگر وہ ہماری جگہ ہوتے تو وہ کیا فیصلہ کرتے اور دوسروں کو بھی اِصرار نہیں کرنا چاہیے کہ ہم اُن جیسا فیصلہ کریں۔‏ بائبل میں لکھا ہے کہ ہر مسیحی ”‏اپنی ذمےداری کا بوجھ اُٹھائے گا۔‏“‏—‏گلتیوں 6:‏5؛‏ رومیوں 14:‏12‏۔‏

خدا کے حکم اُس کی محبت کا ثبوت

13.‏ ہم خون کے حوالے سے یہوواہ کے حکموں اور اصولوں سے اُس کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں؟‏

13 یہوواہ خدا ہمیں جو بھی کرنے کو کہتا ہے،‏ وہ ہماری بھلائی کے لیے ہوتا ہے۔‏ (‏زبور 19:‏7-‏11‏)‏ لیکن ہم اُس کے حکم صرف اِس لیے نہیں مانتے کہ ہمیں اِن سے فائدہ ہوتا ہے بلکہ اِس لیے بھی کہ ہم خدا سے محبت کرتے ہیں۔‏ یہوواہ سے محبت رکھنے کی وجہ سے ہم خون نہیں لگواتے۔‏ (‏اعمال 15:‏20‏)‏ اِس فیصلے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ ہم بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔‏ زیادہ‌تر لوگ خون لگوانے کے خطرات سے واقف ہیں،‏ یہاں تک کہ بہت سے ڈاکٹر بھی مانتے ہیں کہ ایسے آپریشن زیادہ کامیاب رہتے ہیں جن میں مریض کو خون نہیں دیا جاتا۔‏ یقیناً یہوواہ کے ہر حکم سے اُس کی دانش‌مندی اور محبت ظاہر ہوتی ہے۔‏‏—‏یسعیاہ 55:‏9 کو پڑھیں؛‏ یوحنا 14:‏21،‏ 23‏۔‏

14،‏ 15.‏ (‏الف)‏ یہوواہ نے اپنے بندوں کو حادثوں سے محفوظ رکھنے کے لیے کون سے حکم دیے؟‏ (‏ب)‏ آپ اِن حکموں میں پائے جانے والے اصولوں کو اپنی زندگی میں کیسے لاگو کر سکتے ہیں؟‏

14 خدا کے حکم شروع سے ہی اُس کے بندوں کی بھلائی کے لیے رہے ہیں۔‏ یہوواہ نے بنی‌اِسرائیل کو حادثوں سے بچانے کے لیے قوانین دیے۔‏ مثال کے طور پر ایک قانون یہ تھا کہ گھر کا مالک اپنے گھر کی چھت پر چھوٹی دیوار بنوائے تاکہ کوئی وہاں سے گِر نہ جائے۔‏ ‏(‏اِستثنا 22:‏8‏)‏ ایک اَور قانون کا تعلق جانوروں سے تھا۔‏ اگر کسی اِسرائیلی کے بیل کو سینگ مارنے کی عادت ہوتی تو بیل کو قابو میں رکھنا اُس کی ذمےداری تھی تاکہ بیل کسی پر حملہ کر کے اُسے زخمی یا ہلاک نہ کر دے۔‏ (‏خروج 21:‏28،‏ 29‏)‏ اگر کوئی اِسرائیلی اِن حکموں پر عمل نہیں کرتا تھا اور کسی کی جان چلی جاتی تھی تو وہ اِسرائیلی اِس کا ذمےدار ہوتا تھا۔‏

15 اِن مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ کی نظر میں زندگی بیش‌قیمت ہے۔‏ یہ جان کر ہمیں ترغیب ملتی ہے کہ ہم اپنے گھر اور گاڑی کو اچھی حالت میں رکھیں،‏ احتیاط سے گاڑی چلائیں اور سوچ سمجھ کر تفریح کا اِنتخاب کریں۔‏ یوں ہم ظاہر کریں گے کہ ہم زندگی کی نعمت کی قدر کرتے ہیں۔‏ کچھ لوگ،‏ خاص طور پر نوجوان اِس سوچ کے ساتھ اپنی جان داؤ پر لگاتے ہیں کہ اُنہیں کچھ نہیں ہوگا۔‏ لیکن یہوواہ کو ایسا رویہ پسند نہیں ہے۔‏ وہ چاہتا ہے کہ ہم اپنی اور دوسروں کی زندگی کی قدر کریں۔‏—‏امثال 22:‏3؛‏ واعظ 11:‏9،‏ 10‏۔‏

16.‏ یہوواہ بچہ ضائع کرنے کو کیسا خیال کرتا ہے؟‏

16 یہوواہ کی نظر میں ہر اِنسان کی زندگی اہم ہے،‏ یہاں تک کہ وہ ماں کے پیٹ میں پلنے والے بچے کی زندگی کو بھی بیش‌قیمت خیال کرتا ہے۔‏ موسیٰ کی شریعت کے مطابق اگر ایک شخص غیراِرادی طور پر کسی حاملہ عورت کو چوٹ پہنچاتا تھا اور اِس وجہ سے اُس عورت یا اُس کے بچے کی جان چلی جاتی تھی تو وہ شخص یہوواہ کی نظر میں خونی ٹھہرتا تھا۔‏ حالانکہ یہ حادثہ ہوتا تھا پھر بھی اُس شخص کو سزائےموت دی جاتی تھی کیونکہ وہ کسی کی موت کا ذمےدار ہوتا تھا۔‏ ‏(‏خروج 21:‏22،‏ 23 کو فٹ‌نوٹ سے پڑھیں۔‏ *‏)‏ اِس قانون سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کے نزدیک ماں کے پیٹ میں پلنے والا بچہ ایک جان ہے۔‏ اب ذرا سوچیں کہ خدا بچہ ضائع کرنے کو کیسا خیال کرتا ہے؟‏ آپ کے خیال میں ہر سال جب کروڑوں بچوں کو پیدا ہونے سے پہلے ہی مار دیا جاتا ہے تو خدا کو کیسا محسوس ہوتا ہے؟‏

17.‏ اگر ایک عورت نے یہوواہ کے معیاروں کے بارے میں سیکھنے سے پہلے اپنا بچہ ضائع کروایا تھا تو اُسے کس بات سے تسلی مل سکتی ہے؟‏

17 شاید ایک عورت نے یہوواہ کے معیاروں کے بارے میں سیکھنے سے پہلے اپنا بچہ ضائع کروایا ہو۔‏ لیکن وہ اِس بات پر یقین رکھ سکتی ہے کہ یہوواہ،‏ یسوع کی قربانی کی بِنا پر اُسے معاف کر سکتا ہے۔‏ (‏لُوقا 5:‏32؛‏ اِفسیوں 1:‏7‏)‏ جس عورت سے ماضی میں یہ غلطی ہوئی ہے،‏ اگر وہ دل سے معافی مانگتی ہے تو اُسے شرمندگی کے احساس تلے دبے نہیں رہنا چاہیے۔‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ رحیم اور کریم ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ جیسے پورب پچّھم سے دُور ہے ویسے ہی اُس نے ہماری خطائیں ہم سے دُور کر دیں۔‏“‏—‏زبور 103:‏8-‏14‏۔‏

اپنے دل میں نفرت نہ پیدا ہونے دیں

18.‏ اگر ہمارے دل میں کسی کے لیے نفرت ہے تو ہمیں اِسے نکالنے کی پوری کوشش کیوں کرنی چاہیے؟‏

18 اگر ہم زندگی کو خدا کی نعمت خیال کرتے ہیں تو ہم دوسروں سے نفرت نہیں کریں گے۔‏ یوحنا رسول نے لکھا:‏ ”‏جو شخص اپنے بھائی سے نفرت کرتا ہے،‏ وہ قاتل ہے۔‏“‏ (‏1-‏یوحنا 3:‏15‏)‏ ہو سکتا ہے کہ کسی شخص کے لیے ہماری ناپسندیدگی اِتنی بڑھ جائے کہ یہ نفرت میں بدل جائے اور ہمیں اِس کا احساس بھی نہ ہو۔‏ نفرت کی وجہ سے شاید ایک شخص دوسروں کی بےعزتی کرے،‏ اُن پر جھوٹے اِلزام لگائے،‏ یہاں تک کہ یہ چاہے کہ وہ مر جائیں۔‏ لیکن یاد رکھیں کہ یہوواہ جانتا ہے کہ ہم دوسروں کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں۔‏ (‏احبار 19:‏16؛‏ اِستثنا 19:‏18-‏21؛‏ متی 5:‏22‏)‏ اگر ہمارے دل میں کسی کے لیے نفرت ہے تو ہمیں اِسے نکالنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔‏—‏یعقوب 1:‏14،‏ 15؛‏ 4:‏1-‏3‏۔‏

19.‏ زندگی کے لیے قدر ظاہر کرنے کا ایک اَور طریقہ کیا ہے؟‏

19 ہم ایک اَور طریقے سے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم زندگی کی قدر کرتے ہیں۔‏ زبور 11:‏5 سے پتہ چلتا ہے کہ ”‏شریر اور ظلم دوست سے [‏یہوواہ]‏ کی روح کو نفرت ہے۔‏“‏ اگر ہم ایسی تفریح کرتے ہیں جس میں مار دھاڑ یا خون‌خرابہ پایا جاتا ہے تو اِس سے ظاہر ہوگا کہ ہم تشدد کو پسند کرتے ہیں۔‏ بےشک ہم اپنے ذہن کو پُرتشدد خیالوں،‏ تصویروں یا منظروں سے نہیں بھرنا چاہتے۔‏ اِس کی بجائے ہم اپنے ذہن کو پاک اور پُرامن خیالات سے بھرنا چاہتے ہیں۔‏‏—‏فِلپّیوں 4:‏8،‏ 9 کو پڑھیں۔‏

خون‌خرابے کو فروغ دینے والی تنظیموں کا حصہ نہ بنیں

20-‏22.‏ (‏الف)‏ یہوواہ خدا شیطان کی دُنیا کو کیسا خیال کرتا ہے؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ کے بندے کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ وہ ”‏دُنیا کا حصہ نہیں ہیں“‏؟‏

20 شیطان کی دُنیا میں زندگی کی کوئی قدر نہیں ہے اور یہ دُنیا یہوواہ کی نظر میں خونی ہے۔‏ صدیوں کے دوران اِس دُنیا کی حکومتوں نے کروڑوں لوگوں کو قتل کروایا ہے جن میں یہوواہ کے بہت سے بندے بھی شامل تھے۔‏ بائبل میں اِن حکومتوں کو وحشی درندہ کہا گیا ہے۔‏ (‏دانی‌ایل 8:‏3،‏ 4،‏ 20-‏22؛‏ مکاشفہ 13:‏1،‏ 2،‏ 7،‏ 8‏)‏ اِس دُنیا میں ہتھیاروں کی خریدوفروخت بھی بہت بڑا کاروبار ہے۔‏ لوگ خطرناک ہتھیاروں کو بیچ کر بڑا منافع کماتے ہیں۔‏ لہٰذا اِس میں کوئی شک نہیں کہ ”‏پوری دُنیا شیطان کے قبضے میں ہے۔‏“‏—‏1-‏یوحنا 5:‏19‏۔‏

21 لیکن سچے مسیحی ”‏دُنیا کا حصہ نہیں ہیں۔‏“‏ یہوواہ کے بندے سیاسی معاملوں اور جنگوں میں غیرجانب‌دار رہتے ہیں۔‏ وہ نہ تو خود کسی کو قتل کرتے ہیں اور نہ ہی ایسی تنظیموں یا گروہوں کی حمایت کرتے ہیں جو جنگ یا خون‌خرابے کو فروغ دیتی ہیں۔‏ (‏یوحنا 15:‏19؛‏ 17:‏16‏)‏ جب مسیحیوں کو اذیت کا سامنا ہوتا ہے تو وہ اپنے دِفاع کے لیے تشدد کا سہارا نہیں لیتے۔‏ یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کو سکھایا کہ اُنہیں اپنے دُشمنوں سے بھی محبت کرنی چاہیے۔‏—‏متی 5:‏44؛‏ رومیوں 12:‏17-‏21‏۔‏

22 حکومتوں کے علاوہ مذہب بھی کروڑوں لوگوں کی موت کا ذمےدار ہے۔‏ بابلِ‌عظیم یعنی جھوٹے مذاہب کے بارے میں بائبل میں یوں لکھا ہے:‏ ”‏اُس .‏ .‏ .‏ میں نبیوں اور مُقدسوں کا اور اُن سب کا خون پایا گیا جنہیں بےرحمی سے مار ڈالا گیا۔‏“‏ اِسی لیے یہوواہ نے حکم دیا:‏ ”‏اَے میرے بندو،‏ اُس میں سے نکل آؤ!‏“‏ جو لوگ یہوواہ کی عبادت کرتے ہیں،‏ وہ کسی بھی لحاظ سے جھوٹے مذاہب کا حصہ نہیں ہیں۔‏—‏مکاشفہ 17:‏6؛‏ 18:‏2،‏ 4،‏ 24‏۔‏

23.‏ بابلِ‌عظیم سے نکلنے میں کیا شامل ہے؟‏

23 بابلِ‌عظیم سے نکلنے میں یہ شامل ہے کہ ہم واضح کریں کہ اب ہم کسی بھی لحاظ سے جھوٹے مذاہب کا حصہ نہیں ہیں۔‏ مثال کے طور پر اگر کسی مذہب کے ارکان کی فہرست میں ہمارا نام لکھا ہے تو ہمیں اِسے کٹوانا چاہیے۔‏ لیکن صرف یہ کافی نہیں ہے۔‏ ہمیں جھوٹے مذاہب کے بُرے کاموں سے نفرت بھی کرنی چاہیے اور اِن سے گریز کرنا چاہیے۔‏ جھوٹے مذاہب حرام‌کاری کرنے،‏ لالچ کرنے اور سیاست میں حصہ لینے کو غلط خیال نہیں کرتے بلکہ اِنہیں فروغ دیتے ہیں۔‏ (‏زبور 97:‏10 کو پڑھیں؛‏ مکاشفہ 18:‏7،‏ 9،‏ 11-‏17‏)‏ اِس وجہ سے سالوں کے دوران کروڑوں لوگوں کی جانیں جا چُکی ہیں۔‏

24،‏ 25.‏ یہوواہ کو جاننے سے ہمیں اِطمینان اور صاف ضمیر کیوں حاصل ہوتا ہے؟‏

24 یہوواہ کے بارے میں تعلیم حاصل کرنے سے پہلے ہم سب نے کسی نہ کسی طرح شیطان کی دُنیا کے بُرے کاموں کی حمایت کی تھی۔‏ لیکن اب ہم ایسا نہیں کرتے۔‏ ہم یسوع مسیح کی قربانی پر ایمان لے آئے ہیں اور اپنی زندگی خدا کے لیے وقف کر دی ہے۔‏ ہماری زندگی میں ”‏یہوواہ کی طرف سے تازگی کے دن“‏ آ گئے ہیں۔‏ ہمیں یہ جان کر اِطمینان اور صاف ضمیر حاصل ہوتا ہے کہ ہم یہوواہ کو خوش کر رہے ہیں۔‏—‏اعمال 3:‏19؛‏ یسعیاہ 1:‏18‏۔‏

25 اگر ماضی میں ہم کسی ایسی تنظیم کا حصہ تھے جو خون‌خرابے کو فروغ دیتی ہے تو یہوواہ،‏ یسوع مسیح کی قربانی کی بِنا پر ہمیں معاف کر سکتا ہے۔‏ بےشک ہم دل سے اِس نعمت کی قدر کرتے ہیں۔‏ اِس لیے ہم لوگوں کی مدد کرتے ہیں کہ وہ یہوواہ کے بارے میں سیکھیں،‏ شیطان کی دُنیا سے نکل آئیں اور یہوواہ سے گہری دوستی کریں۔‏—‏2-‏کُرنتھیوں 6:‏1،‏ 2‏۔‏

لوگوں کو یہوواہ کا پیغام سنائیں

26-‏28.‏ (‏الف)‏ یہوواہ خدا نے حِزقی‌ایل کو کون سی خاص ذمےداری دی؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ خدا نے ہمیں کون سی ذمےداری دی ہے؟‏

26 بنی‌اِسرائیل کے زمانے میں یہوواہ نے حِزقی‌ایل نبی کو یہ ذمےداری دی کہ وہ لوگوں کو بتائیں کہ بہت جلد یروشلیم تباہ ہونے والا ہے اور اِس تباہی سے بچنے کے لیے اُنہیں کیا کرنا ہوگا۔‏ اگر حِزقی‌ایل لوگوں کو یہ پیغام نہ دیتے تو یہوواہ حِزقی‌ایل کو اُن لوگوں کی موت کا ذمےدار ٹھہراتا۔‏ (‏حِزقی‌ایل 33:‏7-‏9‏)‏ حِزقی‌ایل نے پوری لگن سے لوگوں تک یہ اہم پیغام پہنچایا اور یوں ظاہر کِیا کہ وہ زندگی کی قدر کرتے ہیں۔‏

27 یہوواہ خدا نے ہمیں بھی یہ ذمےداری دی ہے کہ ہم لوگوں کو بتائیں کہ شیطان کی دُنیا بہت جلد ختم ہونے والی ہے۔‏ اِس ذمےداری میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم یہوواہ کو جاننے میں لوگوں کی مدد کریں تاکہ وہ نئی دُنیا میں جانے کے لائق ٹھہریں۔‏ (‏یسعیاہ 61:‏2؛‏ متی 24:‏14‏)‏ ہم دل‌وجان سے دوسروں تک یہوواہ کا پیغام پہنچانا چاہتے ہیں تاکہ پولُس رسول کی طرح ہم بھی یہ کہہ سکیں کہ ”‏مَیں تمام اِنسانوں کے خون سے بَری ہوں کیونکہ مَیں آپ کو خدا کی مرضی بتانے سے نہیں ہچکچایا۔‏“‏—‏اعمال 20:‏26،‏ 27‏۔‏

28 خدا کی محبت میں قائم رہنے کے لیے صرف زندگی کی قدر کرنا ہی کافی نہیں ہے۔‏ ہمیں ہر لحاظ سے پاک صاف رہنے کی بھی ضرورت ہے۔‏ اگلے باب میں اِسی موضوع پر بات کی جائے گی۔‏

^ پیراگراف 16 خروج 21:‏22،‏ 23 ‏(‏ترجمہ نئی دُنیا)‏:‏ ‏”‏اگر آدمی آپس میں مارپیٹ کریں اور کسی حاملہ عورت کو چوٹ پہنچائیں اور اُس کا بچہ نکل آئے لیکن کوئی جانی نقصان نہ ہو تو چوٹ پہنچانے والا شخص وہ جُرمانہ ادا کرے جو عورت کا شوہر عائد کرے اور وہ یہ جُرمانہ قاضیوں کے ذریعے ادا کرے۔‏ لیکن اگر جانی نقصان ہو جائے تو تُم جان کے بدلے جان لو۔‏“‏

^ پیراگراف 77 پیراگراف نمبر 16 میں آیت کے ساتھ دیے گئے فٹ‌نوٹ کو دیکھیں۔‏