مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

باب نمبر 11

اپنی شادی‌شُدہ زندگی میں دراڑ نہ آنے دیں

اپنی شادی‌شُدہ زندگی میں دراڑ نہ آنے دیں

‏”‏محبت کبھی ناکام نہیں ہوگی۔‏“‏—‏1-‏کُرنتھیوں 13:‏8‏،‏ فٹ‌نوٹ۔‏

1،‏ 2.‏ کیا شادی‌شُدہ زندگی میں مسئلے کھڑے ہونے کا یہ مطلب ہے کہ ہماری شادی ناکام ہو گئی ہے؟‏ وضاحت کریں۔‏

شادی یہوواہ کی طرف سے ایک نعمت ہے اور یہ بندھن خوشی کا باعث ہو سکتا ہے۔‏ لیکن ہر شادی میں مسئلے مسائل ہوتے ہیں۔‏ شاید میاں بیوی کو لگے کہ یہ مسئلے کبھی ختم نہیں ہوں گے اور اُن کا بندھن کبھی اُتنا مضبوط نہیں ہوگا جتنا پہلے تھا۔‏

2 کبھی کبھار ہماری شادی‌شُدہ زندگی میں بھی مسئلے مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں۔‏ ایسی صورت میں ہمیں پریشان نہیں ہونا چاہیے۔‏ شادی‌شُدہ زندگی میں مسئلے پیدا ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ہماری شادی ناکام ہو گئی ہے۔‏ ہم ایسا کیوں کہہ سکتے ہیں؟‏ کیونکہ کچھ جوڑوں کو اپنی شادی‌شُدہ زندگی میں سنگین مسئلوں کا سامنا ہوا ہے لیکن وہ اِنہیں حل کرنے اور اپنے بندھن کو پہلے سے زیادہ مضبوط کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔‏ میاں بیوی مسئلوں کے باوجود اپنے بندھن کو اَور مضبوط کیسے کر سکتے ہیں؟‏

خدا اور اپنے شریکِ‌حیات کے زیادہ قریب ہوں

3،‏ 4.‏ کبھی کبھار شادی‌شُدہ زندگی میں کیا ہو سکتا ہے؟‏

3 شادی دو ایسے لوگوں کو ایک بندھن میں باندھ دیتی ہے جن کی پسند اور ناپسند،‏ سوچ اور طورطریقے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔‏ اُن کا پس‌منظر اور ثقافت بھی فرق فرق ہو سکتی ہے۔‏ اِس لیے میاں بیوی کو ایک دوسرے کو اچھی طرح جاننے اور سمجھنے میں کچھ وقت لگتا ہے۔‏

4 شاید وقت کے ساتھ ساتھ میاں بیوی اپنی اپنی زندگی میں اِتنے مگن ہو جائیں کہ اُن میں دُوری پیدا ہو جائے۔‏ شاید وہ ایک ہی گھر میں اجنبیوں کی طرح رہنے لگیں۔‏ وہ پھر سے اپنے بندھن کو مضبوط کیسے کر سکتے ہیں؟‏

خوش‌گوار گھریلو زندگی کے لیے بائبل سے رہنمائی حاصل کرنا لازمی ہے۔‏

5.‏ (‏الف)‏ میاں بیوی کس نصیحت پر عمل کرنے سے ایک دوسرے کے قریب ہو سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ عبرانیوں 13:‏4 کے مطابق ہمیں شادی کے بندھن کو کیسا خیال کرنا چاہیے؟‏

5 یہوواہ شادی‌شُدہ جوڑوں کو ایک عمدہ نصیحت کرتا ہے جس پر عمل کرنے سے میاں بیوی یہوواہ خدا اور ایک دوسرے کے قریب ہو سکتے ہیں۔‏ (‏زبور 25:‏4؛‏ یسعیاہ 48:‏17،‏ 18‏)‏ وہ کہتا ہے:‏ ”‏شادی کا بندھن سب لوگوں کی نظر میں باعزت ہو۔‏“‏ (‏عبرانیوں 13:‏4‏)‏ اِس آیت میں جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”‏باعزت“‏ کِیا گیا ہے،‏ وہ ایک ایسی چیز کی طرف اِشارہ کرتا ہے جس کی قدر کی جاتی ہے اور جو بیش‌قیمت ہوتی ہے۔‏ ایسی چیز کو بہت سنبھال کر رکھا جاتا ہے اور معمولی خیال نہیں کِیا جاتا۔‏ یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ ہم شادی کے بندھن کو بھی ایسا ہی خیال کریں۔‏

یہوواہ سے محبت شادی کے بندھن کو مضبوط کر سکتی ہے

6.‏ متی 19:‏4-‏6 سے شادی کے بارے میں یہوواہ کے نظریے کے متعلق کیا پتہ چلتا ہے؟‏

6 یہوواہ خدا نے پہلے مرد اور عورت کو شادی کے بندھن میں باندھا۔‏ یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏کیا آپ نے نہیں پڑھا کہ جس نے اِنسانوں کو بنایا،‏ اُس نے شروع سے اُنہیں مرد اور عورت بنایا اور کہا:‏ ”‏اِس لیے مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑ دے گا اور اپنی بیوی کے ساتھ جُڑا رہے گا اور وہ دونوں ایک بن جائیں گے“‏؟‏ لہٰذا وہ دو نہیں رہے بلکہ ایک ہو گئے ہیں۔‏ اِس لیے جسے خدا نے جوڑا ہے،‏ اُسے کوئی اِنسان جُدا نہ کرے۔‏“‏ (‏متی 19:‏4-‏6‏)‏ شروع ہی سے یہوواہ خدا کا مقصد تھا کہ شادی کا بندھن ہمیشہ قائم رہے۔‏ وہ چاہتا تھا کہ خاندان کے افراد میں محبت ہو اور وہ مل کر ہنسی خوشی زندگی گزاریں۔‏

7.‏ میاں بیوی اپنی شادی کو پھر سے مضبوط کیسے بنا سکتے ہیں؟‏

7 شادی‌شُدہ جوڑوں کو ماضی میں اُتنی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا نہیں ہوتا تھا جتنی کا آج‌کل ہوتا ہے۔‏ کبھی کبھار تو یہ مشکلات اور پریشانیاں اِتنی بڑھ جاتی ہیں کہ میاں بیوی کو لگتا ہے کہ اب اُن کی شادی ٹوٹنے والی ہے اور وہ اِسے بچانے کی کوشش چھوڑ دیتے ہیں۔‏ لیکن شادی کے متعلق یہوواہ کے نظریے کو ذہن میں رکھنے سے وہ شادی کے بندھن کو ٹوٹنے سے بچا سکتے ہیں۔‏—‏1-‏یوحنا 5:‏3‏۔‏

8،‏ 9.‏ (‏الف)‏ ہمیں کن صورتوں میں شادی‌شُدہ زندگی کے سلسلے میں یہوواہ کی نصیحت پر عمل کرنا چاہیے؟‏ (‏ب)‏ ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم شادی کے بندھن کو بیش‌قیمت خیال کرتے ہیں؟‏

8 یہوواہ خدا کی رہنمائی ہمیشہ ہمارے لیے فائدہ‌مند ہوتی ہے۔‏ جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے،‏ وہ ہمیں نصیحت کرتا ہے کہ ”‏شادی کا بندھن سب لوگوں کی نظر میں باعزت ہو۔‏“‏ (‏عبرانیوں 13:‏4؛‏ واعظ 5:‏4‏)‏ اگر ہم اُس وقت بھی یہوواہ کی اِس نصیحت پر عمل کرتے ہیں جب ایسا کرنا مشکل ہو تو ہمیں ضرور فائدہ ہوگا۔‏—‏1-‏تھسلُنیکیوں 1:‏3؛‏ عبرانیوں 6:‏10‏۔‏

9 چونکہ شادی کا بندھن ہمارے لیے بیش‌قیمت ہے اِس لیے ہم کوئی ایسی بات نہیں کہنا چاہتے یا کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتے جس سے اِس بندھن کو نقصان پہنچے۔‏ اِس کے برعکس ہم اپنے شادی کے بندھن کو اَور مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔‏ ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟‏

اپنے شریکِ‌حیات کے احساسات کو ٹھیس نہ پہنچائیں

10،‏ 11.‏ (‏الف)‏ کچھ شادی‌شُدہ جوڑوں کے بیچ کون سا سنگین مسئلہ ہوتا ہے؟‏ (‏ب)‏ اگر میاں بیوی ایک دوسرے سے تکلیف‌دہ باتیں کہتے ہیں تو اِس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟‏

10 ایک شخص مختلف طریقوں سے اپنے شریکِ‌حیات کو دُکھ پہنچا سکتا ہے۔‏ ہم جانتے ہیں کہ مسیحیوں کو کبھی بھی اپنے ساتھی کو مارنا پیٹنا نہیں چاہیے اور نہ ہی کسی اَور طرح سے اُسے جسمانی طور پر نقصان پہنچانا چاہیے۔‏ لیکن شاید ہم اپنی باتوں سے ایک دوسرے کو تکلیف پہنچائیں۔‏ ایک عورت نے کہا کہ ”‏میرا شوہر اپنی باتوں سے میرے دل کو چھلنی کر دیتا ہے۔‏ وہ مجھ سے باربار کہتا ہے کہ ”‏تُم مجھ پر بوجھ ہو،‏“‏ ”‏تُم کسی کام کی نہیں ہو۔‏“‏ اُس کے طعنے سُن‌سُن کر میرا دل زخمی ہو گیا ہے۔‏“‏ ایک شوہر نے بتایا کہ اُس کی بیوی اپنی باتوں سے اُسے نیچا دِکھاتی ہے اور اُسے گالیاں دیتی ہے۔‏ اُس نے کہا کہ ”‏وہ اِتنے بُرے الفاظ اِستعمال کرتی ہے کہ مَیں دوسروں کے سامنے دُہرا بھی نہیں سکتا۔‏ اِس لیے مجھے اُس سے بات کرنا مشکل لگتا ہے اور مَیں دیر تک کام پر رہتا ہوں۔‏ کام پر رہنے سے مجھے اُس کی کڑوی باتیں نہیں سننی پڑتیں۔‏“‏ آج‌کل گالی‌گلوچ کرنا اور ایسی باتیں کہنا بہت عام ہے جن سے دوسروں کو ٹھیس پہنچے۔‏

11 جب میاں بیوی ایک دوسرے سے تکلیف‌دہ باتیں کہتے ہیں تو وہ اپنے شریکِ‌حیات کے دل پر ایسے زخم لگا رہے ہوتے ہیں جنہیں بھرنے میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔‏ ظاہر ہے کہ یہوواہ خدا یہ نہیں چاہتا کہ میاں بیوی ایک دوسرے سے اِس طرح پیش آئیں۔‏ مگر کبھی کبھار شاید ہم انجانے میں اپنے شریکِ‌حیات کو دُکھ پہنچا رہے ہوں۔‏ شاید ہمیں لگے کہ ہم اُس سے نرمی سے بات کرتے ہیں۔‏ لیکن کیوں نہ اُس سے پوچھیں کہ اُسے آپ کے بات کرنے کا انداز کیسا لگتا ہے۔‏ اگر آپ نے اپنے شریکِ‌حیات سے کوئی ایسی بات کہی ہے جس سے اُسے تکلیف پہنچی ہے تو کیا آپ اپنے اندر تبدیلی لانے کو تیار ہیں؟‏—‏گلتیوں 5:‏15؛‏ اِفسیوں 4:‏31 کو پڑھیں۔‏

12.‏ ایک شادی‌شُدہ شخص کو کس بات کا خیال رکھنا چاہیے؟‏

12 یہوواہ کی نظر میں یہ ایک سنگین معاملہ ہے کہ ہم اکیلے میں یا دوسروں کے سامنے اپنے شریکِ‌حیات سے کس طرح بات کرتے ہیں۔‏ ‏(‏1-‏پطرس 3:‏7 کو پڑھیں۔‏)‏ یعقوب 1:‏26 میں لکھا ہے کہ ”‏اگر کسی کا خیال ہے کہ وہ خدا کی عبادت کرتا ہے لیکن وہ اپنی زبان پر قابو نہیں رکھتا تو وہ خود کو دھوکا دیتا ہے اور اُس کی عبادت فضول ہے۔‏“‏

13.‏ میاں بیوی اَور کس طرح ایک دوسرے کے احساسات کا خیال رکھ سکتے ہیں؟‏

13 شادی‌شُدہ جوڑوں کو کچھ اَور طریقوں سے بھی ایک دوسرے کے احساسات کا خیال رکھنا چاہیے۔‏ مثال کے طور پر ذرا سوچیں کہ اگر آپ کسی مخالف جنس کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے لگیں تو آپ کے شریکِ‌حیات کو کیسا لگے گا؟‏ ہو سکتا ہے کہ آپ کسی بُری نیت سے ایسا نہ کر رہے ہوں۔‏ شاید آپ بس اُس کے ساتھ مُنادی کرتے ہوں یا کسی مسئلے کو حل کرنے میں اُس کی مدد کر رہے ہوں۔‏ لیکن اگر آپ کے شریکِ‌حیات کو بُرا لگتا ہے تو آپ کو اُس کے احساسات کا خیال رکھنا چاہیے۔‏ ایک بیوی نے کہا:‏ ”‏جب میرے شوہر کلیسیا کی کسی بہن کو بہت زیادہ توجہ اور وقت دیتے ہیں تو مجھے تکلیف ہوتی ہے۔‏ مجھے لگتا ہے کہ جیسے میری کوئی قدر نہیں۔‏“‏

14.‏ (‏الف)‏ پیدایش 2:‏24 میں کون سا اصول دیا گیا ہے؟‏ (‏ب)‏ ہمیں خود سے کون سا سوال پوچھنا چاہیے؟‏

14 مسیحیوں کے طور پر ہمیں اپنے والدین اور کلیسیا کے بہن بھائیوں کو وقت اور توجہ دینی چاہیے۔‏ لیکن شادی کے بعد ہمارا شریکِ‌حیات ہماری سب سے اہم ذمےداری بن جاتا ہے۔‏ پیدایش 2:‏24 میں یہوواہ نے کہا کہ ایک شوہر ”‏اپنی بیوی سے ملا رہے گا۔‏“‏ اِس لیے ہمارے شریکِ‌حیات کے احساسات ہمارے لیے بہت اہم ہونے چاہئیں۔‏ خود سے پوچھیں:‏ ”‏کیا مَیں اپنے شریکِ‌حیات کو وہ وقت،‏ توجہ اور محبت دے رہا ہوں جس کا وہ حق‌دار ہے؟‏“‏

15.‏ اگر ہم اپنے شریکِ‌حیات کے علاوہ کسی مخالف جنس کے بہت زیادہ قریب ہو جاتے ہیں تو کیا ہو سکتا ہے؟‏

15 اگر ہم اپنے شریکِ‌حیات کے علاوہ کسی مخالف جنس کے بہت زیادہ قریب ہو جاتے ہیں تو ہماری شادی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔‏ شاید ہمیں اُس شخص سے لگاؤ ہو جائے اور ہمارے دل میں اُس کے لیے محبت بھرے جذبات اُبھرنے لگیں۔‏ (‏متی 5:‏28‏)‏ وقت کے ساتھ ساتھ ایسے احساسات گہرے ہو سکتے ہیں اور اِن کی وجہ سے ہم کوئی ایسا کام کرنے کی طرف مائل ہو سکتے ہیں جس سے شادی کے بندھن کی بےحُرمتی ہو۔‏

‏”‏ازدواجی تعلقات پاک رہیں“‏

16.‏ عبرانیوں 13:‏4 میں کون سا حکم دیا گیا ہے؟‏

16 پولُس رسول نے یہ کہنے کے بعد کہ ”‏شادی کا بندھن سب لوگوں کی نظر میں باعزت ہو،‏“‏ یہ لکھا:‏ ”‏ازدواجی تعلقات پاک رہیں کیونکہ خدا حرام‌کاروں اور زِناکاروں کی عدالت کرے گا۔‏“‏ (‏عبرانیوں 13:‏4‏)‏ یہاں ”‏ازدواجی تعلقات“‏ سے مُراد میاں بیوی کے درمیان جنسی تعلقات ہیں۔‏ (‏امثال 5:‏18‏)‏ ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم ”‏ازدواجی تعلقات“‏ کو پاک خیال کرتے ہیں؟‏

17.‏ (‏الف)‏ آج‌کل بہت سے لوگ زِناکاری کو کیسا خیال کرتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ مسیحیوں کو زِناکاری کے بارے میں کیا نظریہ رکھنا چاہیے؟‏

17 بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ اپنے شریکِ‌حیات سے بےوفائی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔‏ لیکن ہمیں اِس سوچ کو اپنے دل‌ودماغ پر اثر نہیں کرنے دینا چاہیے۔‏ یہوواہ خدا نے بالکل واضح طور پر بتایا ہے کہ وہ حرام‌کاری اور زِناکاری سے نفرت کرتا ہے۔‏ (‏رومیوں 12:‏9 کو پڑھیں؛‏ عبرانیوں 10:‏31؛‏ 12:‏29‏)‏ اگر ہم اپنے شریکِ‌حیات کے علاوہ کسی اَور سے جنسی تعلق قائم کریں گے تو ہم شادی کے بندھن کو ناپاک کر رہے ہوں گے۔‏ اِس طرح ہم یہ ظاہر کر رہے ہوں گے کہ ہم یہوواہ کے معیاروں کا احترام نہیں کرتے۔‏ اِس سے یہوواہ کے ساتھ ہماری دوستی کو بھی نقصان پہنچے گا۔‏ اِس لیے ہمیں وہ پہلا قدم ہی نہیں اُٹھانا چاہیے جس کا نتیجہ زِناکاری کی صورت میں نکل سکتا ہے۔‏ اِس کا مطلب ہے کہ ہمیں اپنے دل میں کسی مخالف جنس کے بارے میں غلط خیالات نہیں آنے دینے چاہئیں۔‏—‏ایوب 31:‏1‏۔‏

18.‏ (‏الف)‏ زِناکاری کس لحاظ سے دیوی دیوتاؤں کی پوجا کرنے جیسا گُناہ تھا؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ زِناکاری کو کیسا خیال کرتا ہے؟‏

18 بنی‌اِسرائیل کو دی گئی شریعت میں زِناکاری اُتنا ہی سنگین گُناہ تھا جتنا دیوی دیوتاؤں کی پوجا کرنا۔‏ دونوں گُناہوں کی سزا موت تھی۔‏ (‏احبار 20:‏2،‏ 10‏)‏ زِناکاری کس لحاظ سے دیوی دیوتاؤں کی پوجا کرنے جیسا گُناہ تھا؟‏ اگر کوئی اِسرائیلی دیوی دیوتاؤں کی پوجا کرتا تھا تو وہ اپنے اِس وعدے کو توڑ دیتا تھا کہ وہ یہوواہ کا وفادار رہے گا۔‏ اِسی طرح اگر کوئی اِسرائیلی زِناکاری کرتا تھا تو وہ اپنے اِس وعدے کو توڑ دیتا تھا کہ وہ اپنے شریکِ‌حیات کا وفادار رہے گا۔‏ (‏خروج 19:‏5،‏ 6؛‏ اِستثنا 5:‏9؛‏ ملاکی 2:‏14 کو پڑھیں۔‏‏)‏ بےشک یہوواہ زِناکاری کو بےحد سنگین گُناہ خیال کرتا تھا۔‏

19.‏ کس بات کو ذہن میں رکھنے سے ہمیں زِناکاری نہ کرنے کی ترغیب ملے گی؟‏

19 یہ سچ ہے کہ ہم شریعت کے تحت نہیں ہیں لیکن زِناکاری کے بارے میں یہوواہ کا نظریہ آج بھی نہیں بدلا۔‏ جس طرح ہم یہوواہ کے علاوہ کسی اَور کی عبادت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے اُسی طرح ہمیں کبھی اپنے شریکِ‌حیات سے بےوفائی کرنے کا بھی نہیں سوچنا چاہیے۔‏ (‏زبور 51:‏1،‏ 4؛‏ کُلسّیوں 3:‏5‏)‏ اگر ہم اپنے شریکِ‌حیات سے بےوفائی کریں گے تو ہم شادی کے بندھن کو ناپاک کر رہے ہوں گے اور یہوواہ کی توہین کر رہے ہوں گے۔‏—‏کتاب کے آخر میں نکتہ نمبر 26 کو دیکھیں۔‏

ہم شادی کے بندھن کو مضبوط کیسے بنا سکتے ہیں؟‏

20.‏ جو شخص حکمت کا مالک ہوتا ہے،‏ وہ کیا کرتا ہے؟‏

20 آپ اپنے شادی کے بندھن کو اَور زیادہ مضبوط کیسے بنا سکتے ہیں؟‏ خدا کے کلام میں لکھا ہے:‏ ”‏حکمت سے گھر تعمیر کِیا جاتا ہے اور فہم سے اُس کو قیام ہوتا ہے۔‏“‏ (‏امثال 24:‏3‏)‏ شادی‌شُدہ زندگی ایک گھر کی طرح ہے۔‏ ایک گھر یا تو غیرآباد اور غیرمحفوظ ہو سکتا ہے یا پھر آباد اور محفوظ۔‏ جو شخص حکمت یعنی دانش‌مندی کا مالک ہوتا ہے،‏ وہ اپنی شادی‌شُدہ زندگی کو آباد اور محفوظ رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔‏

21.‏ علم کے ذریعے شادی کا بندھن اَور مضبوط کیسے ہو سکتا ہے؟‏

21 امثال 24:‏4 میں اِس گھر کے بارے میں لکھا ہے:‏ ”‏علم کے وسیلہ سے اُس کے کمرے نادر اور نفیس مال سے بھر دئے جاتے ہیں۔‏“‏ ‏(‏نیو اُردو بائبل ورشن)‏ بائبل کے علم سے آپ کی شادی‌شُدہ زندگی اَور بہتر ہو سکتی ہے۔‏ (‏رومیوں 12:‏2؛‏ فِلپّیوں 1:‏9‏)‏ جب آپ اپنے شریکِ‌حیات کے ساتھ مل کر بائبل اور ہماری مطبوعات پڑھتے ہیں تو اِس بارے میں بات‌چیت کریں کہ آپ اُن باتوں پر کیسے عمل کر سکتے ہیں جو آپ سیکھ رہے ہیں۔‏ ایک دوسرے کے لیے محبت،‏ فکر اور عزت ظاہر کرنے کے موقعوں کی تلاش میں رہیں۔‏ یہوواہ سے دُعا کریں کہ وہ ایسی خوبیاں پیدا کرنے میں آپ کی مدد کرے جن سے اپنے شریکِ‌حیات کے ساتھ آپ کا بندھن مضبوط ہو اور وہ آپ سے زیادہ پیار کرنے لگے۔‏—‏امثال 15:‏16،‏ 17؛‏ 1-‏پطرس 1:‏7‏۔‏

خاندانی عبادت کے دوران یہوواہ سے رہنمائی مانگیں۔‏

22.‏ ہمیں اپنے شریکِ‌حیات کے لیے محبت،‏ عزت اور احترام کیوں ظاہر کرنا چاہیے؟‏

22 ہمیں اپنے شریکِ‌حیات کے لیے محبت،‏ عزت اور احترام ظاہر کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔‏ اِس طرح ہماری شادی‌شُدہ زندگی زیادہ خوش‌گوار ہوگی اور ہمارا بندھن اَور مضبوط ہو جائے گا۔‏ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اِس طرح ہم یہوواہ خدا کو خوش کر رہے ہوں گے۔‏—‏زبور 147:‏11؛‏ رومیوں 12:‏10‏۔‏

^ پیراگراف 71 آیت کو پیراگراف نمبر 21 میں دیکھیں۔‏