مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

پانچواں باب

ہم دُنیا سے الگ کیسے رہ سکتے ہیں؟‏

ہم دُنیا سے الگ کیسے رہ سکتے ہیں؟‏

‏”‏تُم دُنیا کے نہیں۔‏“‏—‏یوحنا ۱۵:‏۱۹‏۔‏

۱.‏ اپنی موت سے کچھ گھنٹے پہلے یسوع مسیح نے کس بات پر زور دیا؟‏

اپنی موت سے کچھ گھنٹے پہلے یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کے لئے یوں دُعا کی:‏ ”‏مَیں یہ درخواست نہیں کرتا کہ تُو اُنہیں دُنیا سے اُٹھا لے بلکہ یہ کہ اُس شریر سے اُن کی حفاظت کر۔‏ جس طرح مَیں دُنیا کا نہیں وہ بھی دُنیا کے نہیں۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۷:‏۱۵،‏ ۱۶‏)‏ یسوع مسیح کی اِس دُعا سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُسے اپنے پیروکاروں سے گہری محبت تھی۔‏ اِسی رات وہ اپنے شاگردوں سے کہہ چکا تھا کہ ”‏تُم دُنیا کے نہیں۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۵:‏۱۹‏)‏ پھر اُس نے اپنی دُعا میں اِس بات کا دوبارہ ذکر کِیا۔‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یسوع مسیح کے نزدیک یہ بہت اہم تھا کہ اُس کے پیروکار دُنیا سے الگ رہیں۔‏

۲.‏ یسوع مسیح نے جس ”‏دُنیا“‏ کا ذکر کِیا اِس سے کیا مُراد ہے؟‏

۲ یسوع مسیح نے جس ”‏دُنیا“‏ کا ذکر کِیا اِس سے کیا مُراد ہے؟‏ اِس سے مُراد وہ لوگ ہیں جو خدا سے دُور ہیں۔‏ اِن کا حاکم شیطان ہے اور اُس کی طرح یہ لوگ بھی خودغرض اور مغرور ہیں۔‏ (‏یوحنا ۱۴:‏۳۰؛‏ افسیوں ۲:‏۲؛‏ ۱-‏یوحنا ۵:‏۱۹‏)‏ اِس لئے ”‏دُنیا سے دوستی رکھنا خدا سے دُشمنی کرنا ہے۔‏“‏ (‏یعقوب ۴:‏۴‏)‏ لیکن جو لوگ خدا کی محبت میں قائم رہنا چاہتے ہیں وہ دُنیا میں رہنے کے باوجود اِس سے الگ کیسے رہ سکتے ہیں؟‏ آئیں ہم اِس سلسلے میں پانچ نکتوں پر غور کریں۔‏ (‏۱)‏ ہمیں وفاداری سے خدا کی بادشاہت کی حمایت کرنی چاہئے اور سیاسی معاملوں میں حصہ نہیں لینا چاہئے۔‏ (‏۲)‏ ہمیں دُنیا کی روح کا مقابلہ کرنا چاہئے۔‏ (‏۳)‏ ہمارا لباس اور بناؤسنگھار حیادار اور مناسب ہونا چاہئے۔‏ (‏۴)‏ ہمیں اپنی زندگی سادہ رکھنی چاہئے۔‏ (‏۵)‏ ہمیں خدا کے سب ہتھیار باندھ لینے چاہئیں۔‏

وفاداری سے خدا کی بادشاہت کی حمایت کریں

۳.‏ (‏ا)‏ یسوع مسیح نے سیاست میں حصہ لینے سے کیوں انکار کِیا؟‏ (‏ب)‏ ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ ممسوح مسیحی ایلچی ہیں؟‏ (‏فٹ‌نوٹ پر بھی غور کریں۔‏)‏

۳ سیاست میں حصہ لینے کی بجائے یسوع مسیح نے خدا کی بادشاہت کی مُنادی کی۔‏ وہ جانتا تھا کہ یہ بادشاہت آسمان پر قائم ہوگی اور وہ اُس کا بادشاہ ہوگا۔‏ (‏دانی‌ایل ۷:‏۱۳،‏ ۱۴؛‏ لوقا ۴:‏۴۳؛‏ ۱۷:‏۲۰،‏ ۲۱‏)‏ جب یسوع مسیح کو رومی حاکم پُنطیُس پیلاطُس کے سامنے پیش کِیا گیا تو اُس نے کہا:‏ ”‏میری بادشاہی اِس دُنیا کی نہیں۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۸:‏۳۶‏)‏ یسوع مسیح کے پیروکار اُس کی مثال پر عمل کرتے ہیں۔‏ وہ یسوع مسیح اور اُس کی بادشاہت کی حمایت کرتے ہیں اور اِس بادشاہت کی مُنادی کرتے ہیں۔‏ (‏متی ۲۴:‏۱۴‏)‏ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏ہم مسیح کے ایلچی ہیں۔‏ گویا ہمارے وسیلہ سے خدا التماس کرتا ہے۔‏ ہم مسیح کی طرف سے مِنت کرتے ہیں کہ خدا سے میل‌ملاپ کر لو۔‏“‏ *‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۵:‏۲۰‏۔‏

۴.‏ ماضی اور حال میں سچے مسیحیوں نے خدا کی بادشاہت کی حمایت کیسے کی؟‏ (‏ صفحہ ۵۲ پر بکس کو دیکھیں‏۔‏)‏

۴ ایلچی ایک غیر مُلک میں رہ کر اپنے مُلک کی نمائندگی کرتے ہیں۔‏ اِس لئے وہ اُس مُلک کے اندرونی معاملوں میں مداخلت نہیں کرتے جس میں وہ رہ رہے ہیں بلکہ وہ اپنے وطن کے فائدے کے لئے کام کرتے ہیں۔‏ یہی بات یسوع مسیح کے ممسوح پیروکاروں کے بارے میں بھی سچ ہے جن کا ”‏وطن آسمان پر ہے۔‏“‏ (‏فلپیوں ۳:‏۲۰‏)‏ وہ بڑے جوش سے خدا کی آسمانی بادشاہت کی مُنادی کرتے ہیں۔‏ اِس کے نتیجے میں یسوع مسیح کی ”‏اَور بھی بھیڑیں“‏ لاکھوں کی تعداد میں جمع کی گئی ہیں۔‏ اِنہوں نے ”‏خدا سے میل‌ملاپ“‏ کر لیا ہے یعنی اُنہیں خدا کی قربت حاصل ہو گئی ہے۔‏ (‏یوحنا ۱۰:‏۱۶؛‏ متی ۲۵:‏۳۱-‏۴۰‏)‏ یہ لوگ اِس مفہوم میں یسوع مسیح کے نمائندے ہیں کہ وہ اُس کے ممسوح بھائیوں کی حمایت کرتے ہیں۔‏ دونوں گروہ وفاداری سے خدا کی بادشاہت کے فائدے کے لئے کام کرتے ہیں اور دُنیا کے معاملات میں ہرگز مداخلت نہیں کرتے‏۔‏—‏یسعیاہ ۲:‏۲-‏۴‏۔‏

۵.‏ سچے مسیحی کس لحاظ سے بنی‌اسرائیل سے فرق ہیں اور اِس کے نتیجے میں وہ اِس دُنیا کے سیاسی معاملوں کو کیسا خیال کرتے ہیں؟‏

۵ لیکن سچے مسیحی ایک اَور وجہ سے بھی دُنیا کے معاملوں میں مداخلت نہیں کرتے۔‏ بنی‌اسرائیل کے زمانے میں خدا کے خادم ایک ہی مُلک میں رہتے تھے جبکہ آجکل یہوواہ کے گواہ پوری دُنیا میں پائے جاتے ہیں۔‏ اِس کے باوجود ہمارا اتحاد مثالی ہے۔‏ (‏متی ۲۸:‏۱۹؛‏ ۱-‏پطرس ۲:‏۹‏)‏ لیکن اگر ہم مختلف سیاسی پارٹیوں کی حمایت کرنے لگیں گے تو ہمارا اتحاد برقرار نہ رہے گا۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱:‏۱۰‏)‏ اگر ہم سیاست‌دانوں کی حمایت کریں گے تو ہم لوگوں کو یہ کیسے بتا سکیں گے کہ خدا کی بادشاہت ہی انسانوں کے مسئلوں کو حل کرے گی؟‏ اِس کے علاوہ جنگ ہونے کی صورت میں ہم اپنے ہم‌ایمانوں کے خلاف لڑ رہے ہوں گے جبکہ یسوع مسیح نے حکم دیا تھا کہ ہمیں اپنے ہم‌ایمانوں سے گہری محبت رکھنی چاہئے۔‏ (‏یوحنا ۱۳:‏۳۴،‏ ۳۵؛‏ ۱-‏یوحنا ۳:‏۱۰-‏۱۲‏)‏ اِسی وجہ سے یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو کہا کہ وہ جنگوں میں حصہ نہ لیں۔‏ یہاں تک کہ اُس نے یہ بھی کہا کہ وہ اپنے دُشمنوں سے محبت رکھیں۔‏—‏متی ۵:‏۴۴؛‏ ۲۶:‏۵۲‏؛‏  صفحہ ۵۵ پر بکس ”‏کیا مَیں واقعی دُنیا سے الگ رہتا ہوں؟‏“‏ کو دیکھیں۔‏

۶.‏ جن لوگوں نے خدا کے لئے اپنی زندگی وقف کر لی ہے وہ کس حد تک انسانی حکمرانوں کے فرمانبردار رہتے ہیں؟‏

۶ سچے مسیحیوں کے طور پر ہم نے اپنی زندگی خدا کے لئے وقف کر لی ہے،‏ نہ کہ کسی انسان،‏ انسانی ادارے یا قوم کے لئے۔‏ پہلے کرنتھیوں ۶:‏۱۹،‏ ۲۰ میں لکھا ہے:‏ ”‏تُم اپنے نہیں۔‏ کیونکہ قیمت سے خریدے گئے ہو۔‏“‏ اِس لئے سچے مسیحی ”‏قیصر“‏ یعنی حکمرانوں کا احترام کرتے ہیں،‏ اُن کے قوانین پر عمل کرتے ہیں اور دیانتداری سے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔‏ لیکن اِس کے ساتھ‌ساتھ وہ اِس اصول پر بھی عمل کرتے ہیں:‏ ”‏جو خدا کا ہے خدا کو ادا کرو۔‏“‏ (‏مرقس ۱۲:‏۱۷؛‏ رومیوں ۱۳:‏۱-‏۷‏)‏ اِس کا مطلب ہے کہ ہم یہوواہ خدا کی عبادت کرتے ہیں،‏ پورے دل سے اُس سے محبت رکھتے ہیں،‏ اُس کے فرمانبردار رہتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر اُس کے لئے اپنی جان تک دینے کو تیار ہیں۔‏—‏لوقا ۴:‏۸؛‏ ۱۰:‏۲۷؛‏ اعمال ۵:‏۲۹؛‏ رومیوں ۱۴:‏۸‏۔‏

‏”‏دُنیا کی روح“‏ کا مقابلہ کریں

۷،‏ ۸.‏ (‏ا)‏ ”‏دُنیا کی روح“‏ کیا ہے؟‏ (‏ب)‏ یہ روح انسانوں میں کیسے ”‏تاثیر کرتی“‏ ہے؟‏

۷ دُنیا سے الگ رہنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہم دُنیا کی بُری روح کا مقابلہ کریں۔‏ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏ہم نے نہ دُنیا کی روح بلکہ وہ روح پایا جو خدا کی طرف سے ہے۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۲:‏۱۲‏)‏ پولس رسول نے شہر افسس کے مسیحیوں سے کہا:‏ ”‏تُم .‏ .‏ .‏ دُنیا کی روِش پر چلتے تھے اور ہوا کی عملداری کے حاکم یعنی اُس روح کی پیروی کرتے تھے جو اب نافرمانی کے فرزندوں میں تاثیر کرتی ہے۔‏“‏—‏افسیوں ۲:‏۲،‏ ۳‏۔‏

۸ دُنیا کی ”‏ہوا“‏ یعنی دُنیا کی روح ایک ایسی قوت ہے جو لوگوں کو خدا کی نافرمانی کرنے پر اُکساتی ہے اور اُن میں ”‏جسم کی خواہش اور آنکھوں کی خواہش“‏ کو اُبھارتی ہے۔‏ (‏۱-‏یوحنا ۲:‏۱۶؛‏ ۱-‏تیمتھیس ۶:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ اِس روح کی ”‏عملداری“‏ یعنی اختیار یوں ظاہر ہوتا ہے کہ انسان اِس سے آسانی سے متاثر ہو جاتے ہیں۔‏ ہوا کی طرح یہ روح ہر وقت اور ہر جگہ موجود ہے اور اِسے پہچاننا مشکل ہوتا ہے۔‏ یہ انسان میں اِس طرح ”‏تاثیر کرتی“‏ ہے کہ یہ اُس میں خودغرضی،‏ غرور اور لالچ جیسی خامیاں اور بغاوت کرنے کی خواہش پیدا کرتی ہے۔‏ دُنیا کی روح انسان میں ایسی سوچ اور ایسا مزاج پیدا کرتی ہے جیسا کہ شیطان میں پایا جاتا ہے۔‏—‏یوحنا ۸:‏۴۴؛‏ اعمال ۱۳:‏۱۰؛‏ ۱-‏یوحنا ۳:‏۸،‏ ۱۰‏۔‏

۹.‏ دُنیا کی روح ہمارے دل پر کیسے اثر کر سکتی ہے؟‏

۹ کیا دُنیا کی روح آپ کے دل پر بھی اثر کر سکتی ہے؟‏ جی‌ہاں۔‏ لیکن یہ صرف اُس صورت میں ہو سکتا ہے اگر آپ اپنے دل کی حفاظت نہیں کریں گے۔‏ (‏امثال ۴:‏۲۳‏)‏ شروع میں شاید آپ کو اِس بات کا احساس ہی نہ ہو کہ دُنیا کی روح آپ پر اثر کر رہی ہے۔‏ مثال کے طور پر شاید آپ کے کچھ ایسے دوست ہوں جو آپ کے خیال میں نیک ہیں لیکن اُن کے دل میں یہوواہ خدا کے لئے محبت نہیں ہے۔‏ ایسے لوگ آپ کی سوچ کو بگاڑ سکتے ہیں۔‏ (‏امثال ۱۳:‏۲۰؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۳۳‏)‏ اِس کے علاوہ دُنیا کی روح آپ پر دوسرے طریقوں سے بھی اثر ڈال سکتی ہے،‏ مثلاً انٹرنیٹ پر پائی جانے والی گندی تصویروں یا برگشتہ لوگوں کے ویب‌سائٹس کے ذریعے،‏ نامناسب تفریح کے ذریعے،‏ ایسے کھیلوں کے ذریعے جن میں سخت مقابلہ‌بازی ہو،‏ ایسی کتابوں اور رسالوں کے ذریعے جو مسیحیوں کے لئے نامناسب ہوں،‏ وغیرہ۔‏ دراصل دُنیا کی روح ہر ایسی چیز اور ہر ایسے شخص کے ذریعے ہم پر اثر ڈال سکتی ہے جو شیطان کی سوچ کو فروغ دیتا ہے۔‏

۱۰.‏ ہم دُنیا کی روح کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۱۰ خدا کی محبت میں قائم رہنے کے لئے ہمیں دُنیا کی روح کا مقابلہ کرنا ہوگا۔‏ ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں؟‏ ہمیں اُن نعمتوں کا بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہئے جو یہوواہ خدا نے ہماری مدد کے لئے فراہم کی ہیں مثلاً خدا کا کلام بائبل،‏ کلیسیا کے اجلاس،‏ وغیرہ۔‏ اِس کے علاوہ ہمیں یہوواہ خدا کی پاک روح کے لئے دُعا کرتے رہنا چاہئے۔‏ یاد رکھیں کہ یہوواہ خدا شیطان اور اُس کی بُری دُنیا سے کہیں زیادہ طاقت‌ور ہے۔‏ (‏۱-‏یوحنا ۴:‏۴‏)‏ لہٰذا یہ بہت ضروری ہے کہ ہم باقاعدگی سے دُعا کریں اور یوں خدا کی قربت میں رہیں۔‏

بناؤسنگھار میں حیاداری ظاہر کریں

۱۱.‏ لباس اور بناؤسنگھار کے سلسلے میں دُنیا کی روح لوگوں پر کیسے تاثیر کرتی ہے؟‏

۱۱ اگر ایک شخص پر دُنیا کی روح تاثیر کر رہی ہے تو یہ اُس کے لباس اور بناؤسنگھار سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔‏ بہت سے ممالک میں لباس اور بناؤسنگھار کے سلسلے میں بےحیائی پائی جاتی ہے۔‏ یہ رجحان اِس قدر بڑھ رہا ہے کہ ایک ٹی‌وی شو کے میزبان نے کہا کہ آئندہ عام لڑکیوں اور بازاری عورتوں میں فرق کرنا مشکل ہو جائے گا۔‏ ایک اخبار کے مطابق چھوٹی عمر کی لڑکیاں بھی ایسے فیشن کرنے لگی ہیں جن سے جسم کی نمائش ہوتی ہے۔‏ اِس کے علاوہ اُوٹ‌پٹانگ قسم کے کپڑے پہننے کا رواج عام ہو گیا ہے اور بہت سے لوگ جان‌بوجھ کر کپڑے سلیقے سے نہیں پہنتے جس سے وہ اپنے باغی رجحان کو ظاہر کرتے ہیں۔‏

۱۲،‏ ۱۳.‏ لباس اور بناؤسنگھار کے سلسلے میں ہمیں بائبل کے کونسے اصولوں کو عمل میں لانا چاہئے؟‏

۱۲ یہوواہ خدا کے خادم ہونے کے ناطے ہم ہمیشہ صاف‌ستھرے،‏ حیادار اور موقعے کے لئے مناسب لباس پہننا چاہتے ہیں۔‏ ہماری خواہش ہے کہ لوگ ہمیں ’‏خداپرستی کا اقرار کرنے والوں‘‏ کے طور پر پہچانیں۔‏ اِس لئے چاہے ہم مرد ہوں یا عورت،‏ ہمیں ’‏نیک کام‘‏ کرنے کے علاوہ خود کو ’‏حیادار لباس سے شرم کے ساتھ سنوارنا‘‏ چاہئے۔‏ ہم دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے ایسا نہیں کرتے بلکہ ہم ’‏اپنے آپ کو خدا کی محبت میں قائم رکھنے‘‏ کے لئے ایسا کرتے ہیں۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۲:‏۹،‏ ۱۰؛‏ یہوداہ ۲۱‏)‏ جی‌ہاں،‏ ہمیں اپنی ”‏باطنی آرایش کی طرف دھیان“‏ دینا چاہئے کیونکہ ”‏خدا کی نظر میں باطنی حسن کی بڑی قدر ہے۔‏“‏—‏۱-‏پطرس ۳:‏۳،‏ ۴‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن۔‏

۱۳ یاد رکھیں کہ لوگ ہمارے لباس اور بناؤسنگھار کو دیکھ کر ہمارے مذہب کے بارے میں یا تو اچھی یا پھر بُری رائے قائم کریں گے۔‏ جس لفظ کا ترجمہ اُردو میں ”‏شرم“‏ کِیا گیا ہے،‏ یونانی زبان میں اِس کا مطلب ہے:‏ ”‏دوسروں کا احترام کرنا اور اُن کے احساسات کا لحاظ رکھنا۔‏“‏ لہٰذا ہمیں اِس بات کو زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہئے کہ لباس اور بناؤسنگھار کے سلسلے میں ہمارا کیا حق بنتا ہے بلکہ ہمیں ٹھان لینی چاہئے کہ ہم دوسروں کے لئے ٹھوکر کا باعث نہیں بنیں گے۔‏ ہمارے لئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہوواہ خدا کی بڑائی ہو اور اُس کے خادموں کی نیک‌نامی ہو۔‏ جب ہم ’‏سب کچھ خدا کے جلال کے لئے کرتے ہیں‘‏ تو یہ ظاہر ہوگا کہ ہم سچے خدا کے خادم ہیں۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۴:‏۹؛‏ ۱۰:‏۳۱؛‏ ۲-‏کرنتھیوں ۶:‏۳،‏ ۴؛‏ ۷:‏۱‏۔‏

کیا میرے لباس اور بناؤسنگھار کے ذریعے خدا کی بڑائی ہوتی ہے؟‏

۱۴.‏ لباس اور بناؤسنگھار کے سلسلے میں ہمیں خود سے کونسے سوال پوچھنے چاہئیں؟‏

۱۴ خاص طور پر مُنادی کے کام میں اور اجلاسوں پر ہمیں اِس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہمارا بناؤسنگھار مناسب ہو اور ہمارا جسم اور کپڑے صاف‌ستھرے ہوں۔‏ خود سے پوچھیں کہ ”‏کیا میرے کپڑوں یا بناؤسنگھار کا انداز ایسا ہے کہ لوگ میری طرف متوجہ ہوتے ہیں؟‏ کیا لوگ اِس لئے میری طرف متوجہ ہوتے ہیں کیونکہ میرا جسم اور کپڑے میلے ہیں؟‏ کیا میرے لباس اور بناؤسنگھار کو دیکھ کر لوگ اُلجھن میں پڑ جاتے ہیں؟‏ اگر میرے لباس اور بناؤسنگھار کی وجہ سے مجھے کلیسیا میں ذمہ‌داریاں نہیں سونپی جا رہی ہیں تو کیا مَیں تبدیلیاں لانے کو تیار ہوں؟‏ یاپھر کیا مَیں بناؤسنگھار کے سلسلے میں اپنی من‌مانی کرنے کو زیادہ اہمیت دیتا ہوں؟‏“‏—‏زبور ۶۸:‏۶؛‏ فلپیوں ۴:‏۵؛‏ ۱-‏پطرس ۵:‏۶‏۔‏

۱۵.‏ خدا کے کلام میں لباس اور بناؤسنگھار کے سلسلے میں تفصیلی حکم کیوں نہیں دئے گئے ہیں؟‏

۱۵ بائبل میں مسیحیوں کو لباس اور بناؤسنگھار کے سلسلے میں تفصیلی حکم نہیں دئے گئے ہیں۔‏ یہوواہ خدا نے ہمیں خود فیصلہ کرنے کی آزادی دی ہے۔‏ وہ چاہتا ہے کہ ہم بائبل کے اصولوں پر غور کریں اور سوچ‌سمجھ کر فیصلہ کریں۔‏ وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ ہم اپنے ”‏حواس“‏ کو کام میں لائیں تاکہ وہ ”‏نیک‌وبد میں امتیاز کرنے کے لئے تیز“‏ ہو جائیں۔‏ (‏عبرانیوں ۵:‏۱۴‏)‏ خدا اِس بات کو بڑی اہمیت دیتا ہے کہ ہم اپنے فیصلوں سے اُس کے لئے اور پڑوسی کے لئے محبت ظاہر کریں۔‏ (‏مرقس ۱۲:‏۳۰،‏ ۳۱‏)‏ اِن اصولوں پر عمل کرتے ہوئے ہم طرح‌طرح کے لباس اور بناؤسنگھار کا انتخاب کر سکتے ہیں۔‏ اِس لئے دُنیابھر میں یہوواہ کے گواہوں میں بناؤسنگھار کے فرق‌فرق انداز اور مختلف قسم کے لباس دیکھنے میں آتے ہیں۔‏

اپنی زندگی سادہ رکھیں

۱۶.‏ (‏ا)‏ دُنیا کی روح لوگوں کو کس دھوکے میں رکھتی ہے؟‏ (‏ب)‏ یسوع مسیح نے اِس سلسلے میں کونسی تعلیم دی؟‏ (‏ج)‏ ہمیں خود سے کونسے سوال پوچھنے چاہئیں؟‏

۱۶ دُنیا کی روح لوگوں کو اِس دھوکے میں رکھنا چاہتی ہے کہ مال‌ودولت سے حقیقی خوشی حاصل ہوتی ہے۔‏ البتہ یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏کسی کی زندگی اُس کے مال کی کثرت پر موقوف نہیں۔‏“‏ (‏لوقا ۱۲:‏۱۵‏)‏ اِس صحیفے میں یسوع مسیح یہ نہیں کہنا چاہتا تھا کہ ہمیں خود کو زندگی کی ہر آسائش سے محروم رکھنا چاہئے۔‏ لیکن اُس نے اِس بات پر زور دیا کہ جو لوگ ”‏اپنی روحانی ضروریات سے باخبر ہیں“‏ وہ ہی حقیقی خوشی حاصل کریں گے۔‏ (‏متی ۵:‏۳‏،‏ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن‏)‏ یسوع مسیح نے یہ بھی کہا کہ ہمیں اپنی ‏”‏آنکھ درست“‏ رکھنی چاہئے یعنی ہمارا دھیان خدا کی خدمت کرنے پر رہنا چاہئے۔‏ (‏متی ۶:‏۲۲،‏ ۲۳‏)‏ خود سے پوچھیں کہ ”‏کیا مَیں یسوع مسیح کے اِن الفاظ کو سچ مانتا ہوں؟‏ یاپھر کیا مَیں ’‏جھوٹ کے باپ‘‏ کی سوچ اپنانے لگا ہوں؟‏ (‏یوحنا ۸:‏۴۴‏)‏ عام طور پر مَیں کن باتوں کے بارے میں بات‌چیت کرتا ہوں؟‏ میرا دھیان کن باتوں پر رہتا ہے؟‏ مستقبل کے لئے میرے ارادے کیا ہیں؟‏ میرے طرزِزندگی سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟‏“‏—‏لوقا ۶:‏۴۵؛‏ ۲۱:‏۳۴-‏۳۶؛‏ ۲-‏یوحنا ۶‏۔‏

۱۷.‏ اپنی زندگی سادہ رکھنے کے کونسے فائدے ہوتے ہیں؟‏

۱۷ مال‌ودولت کے سلسلے میں یسوع مسیح کی تعلیم پر عمل کرنے سے ہم حکمت ظاہر کرتے ہیں۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏حکمت اپنے کاموں سے راست ثابت ہوئی۔‏“‏ (‏متی ۱۱:‏۱۹‏)‏ جی‌ہاں،‏ بہت سے لوگوں نے پایا کہ اپنی زندگی سادہ رکھنے سے اُنہیں بڑا فائدہ ہوا ہے۔‏ مثال کے طور پر وہ خدا کی خدمت کے لئے زیادہ وقت صرف کرنے سے تازہ‌دم ہو جاتے ہیں۔‏ (‏متی ۱۱:‏۲۹،‏ ۳۰‏)‏ وہ بہت سی پریشانیوں سے بچے رہتے ہیں۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ وہ اپنے خاندان اور مسیحی بہن‌بھائیوں کے ساتھ زیادہ وقت گزار سکتے ہیں۔‏ چونکہ وہ پیسوں کے پیچھے نہیں بھاگتے اِس لئے وہ آرام کی نیند سوتے ہیں۔‏ (‏واعظ ۵:‏۱۲‏)‏ وہ اپنے مال،‏ اپنی توانائی اور اپنے وقت میں سے دوسروں کو دیتے ہیں جس سے اُنہیں بڑی خوشی حاصل ہوتی ہے۔‏ (‏اعمال ۲۰:‏۳۵‏)‏ اُن کا دھیان بادشاہت کی اُمید پر رہتا ہے اِس لئے وہ دلی سکون اور اطمینان پاتے ہیں۔‏ (‏رومیوں ۱۵:‏۱۳؛‏ متی ۶:‏۳۱،‏ ۳۲‏)‏ واقعی،‏ اپنی زندگی سادہ رکھنے سے ہمیں بہت سی برکتیں حاصل ہوتی ہیں۔‏

‏”‏خدا کے سب ہتھیار باندھ لو“‏

۱۸.‏ بائبل کے مطابق ہمارا دُشمن کون ہے اور وہ کس طریقے سے ہم پر وار کرتا ہے؟‏

۱۸ شیطان سچے مسیحیوں پر وار کرتا ہے تا کہ وہ یہوواہ خدا کی خدمت کرنا بند کر دیں اور یوں حقیقی خوشی اور ہمیشہ کی زندگی سے محروم ہو جائیں۔‏ لیکن جب تک ہم خدا کی محبت میں قائم رہتے ہیں،‏ خدا ہمیں شیطان کے اِن واروں سے محفوظ رکھے گا۔‏ (‏۱-‏پطرس ۵:‏۸‏)‏ پولس رسول نے کہا:‏ ”‏ہمیں خون اور گوشت سے کشتی نہیں کرنا ہے بلکہ .‏ .‏ .‏ تاریکی کے حاکموں اور شرارت کی اُن روحانی فوجوں سے جو آسمانی مقاموں میں ہیں۔‏“‏ (‏افسیوں ۶:‏۱۲‏)‏ غور کریں کہ شیطان ہم سے دُور کھڑا لڑائی نہیں کرتا بلکہ وہ ہم سے ”‏کشتی“‏ کر رہا ہے یعنی بہت نزدیک آ کر ہم سے لڑتا ہے۔‏ اِس کے علاوہ اِس آیت میں ”‏حاکموں“‏ اور ”‏روحانی فوجوں“‏ کا ذکر ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیطان کے لشکر منظم طریقے سے خدا کے خادموں پر وار کرتے ہیں۔‏

۱۹.‏ خدا کے ہتھیاروں میں کیا کچھ شامل ہے؟‏

۱۹ حالانکہ ہم کمزور انسان ہیں لیکن پھر بھی ہم شیطان پر غالب آ سکتے ہیں۔‏ ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟‏ ہمیں ’‏خدا کے سب ہتھیار باندھ لینے چاہئیں۔‏‘‏ (‏افسیوں ۶:‏۱۳‏)‏ خدا کے ہتھیاروں کے بارے میں افسیوں ۶:‏۱۴-‏۱۸ میں یوں بتایا گیا ہے:‏ ”‏سچائی سے اپنی کمر کس کر اور راستبازی کا بکتر لگا کر۔‏ اور پاؤں میں صلح کی خوشخبری کی تیاری کے جوتے پہن کر۔‏ اور اُن سب کے ساتھ ایمان کی سپر لگا کر قائم رہو۔‏ جس سے تُم اُس شریر کے سب جلتے ہوئے تیروں کو بجھا سکو۔‏ اور نجات کا خود [‏یعنی نجات کی اُمید]‏ اور روح کی تلوار جو خدا کا کلام ہے لے لو۔‏ اور ہر وقت اور ہر طرح سے رُوح میں دُعا اور مِنت کرتے رہو اور اِسی غرض سے جاگتے رہو کہ سب مُقدسوں کے واسطے بِلاناغہ دُعا کِیا کرو۔‏“‏

۲۰.‏ اصلی فوجیوں کی لڑائی کے برعکس مسیحیوں کی لڑائی کب تک جاری رہے گی؟‏

۲۰ خدا ہی ہمیں یہ ہتھیار مہیا کرتا ہے۔‏ اِس لئے ہم شیطان کا مقابلہ کرتے وقت ضرور کامیاب رہیں گے بشرطیکہ ہم یہ ہتھیار ہمیشہ باندھے رکھیں۔‏ اصلی فوجیوں کو لڑائی میں حصہ لینے کے بعد آرام کرنے کا موقع ملتا ہے۔‏ لیکن مسیحیوں کی جنگ اُس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ خدا اِس بُری دُنیا کو تباہ نہ کرے اور شیطان اور اُس کے فرشتوں کو اتھاہ گڑھے میں بند نہ کرے۔‏ (‏مکاشفہ ۱۲:‏۱۷؛‏ ۲۰:‏۱-‏۳‏)‏ شیطان کا مقابلہ کرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنی غلط خواہشات اور کمزوریوں پر قابو پائیں۔‏ ہم سب کو چاہئے کہ ہم اپنے بدن کو ’‏مارتے کوٹتے‘‏ رہیں تاکہ ہم یہوواہ خدا کے وفادار رہ سکیں۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۹:‏۲۷‏)‏ اِس لئے اگر آپ کسی کمزوری پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں تو ہمت نہ ہاریں۔‏ جب تک آپ لڑتے رہیں گے شیطان آپ پر غالب نہیں آئے گا۔‏

۲۱.‏ ہم شیطان کے خلاف اپنی جنگ میں کیسے فتح‌مند ہو سکتے ہیں؟‏

۲۱ ہم اپنی طاقت میں اِس لڑائی میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔‏ اِس لئے ہمیں یہوواہ خدا کی راہنمائی کی ضرورت ہے۔‏ پولس رسول نے تاکید کی:‏ ”‏ہر وقت اور ہر طرح سے رُوح میں دُعا .‏ .‏ .‏ کرتے رہو۔‏“‏ اِس کے ساتھ‌ساتھ ہمیں بائبل کا مطالعہ کرنا چاہئے اور اپنے مسیحی بہن‌بھائیوں کے ساتھ عبادت کے لئے جمع ہونا چاہئے۔‏ یاد رکھیں کہ ہم اپنے مسیحی ساتھیوں کے شانہ‌بشانہ شیطان کے خلاف لڑ رہے ہیں۔‏ (‏فلیمون ۲؛‏ عبرانیوں ۱۰:‏۲۴،‏ ۲۵‏)‏ اگر ہم یہوواہ خدا کی ہدایات پر عمل کریں گے تو ہم فتح‌مند ہوں گے۔‏ اِس کے علاوہ ہم اُن لوگوں کو مؤثر طریقے سے جواب دینے کے قابل ہوں گے جو ہمارے عقیدوں پر اعتراض اُٹھاتے ہیں۔‏

اپنے ایمان کی دلیل دینے کے لئے تیار رہیں

۲۲،‏ ۲۳.‏ (‏ا)‏ ہمیں اپنے ایمان کی دلیل دینے کے لئے کیوں تیار رہنا چاہئے؟‏ (‏ب)‏ ہمیں خود سے کونسے سوال پوچھنے چاہئیں؟‏ (‏ج)‏ ہم اگلے باب میں کس بات پر غور کریں گے؟‏

۲۲ یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏چُونکہ تُم دُنیا کے نہیں .‏ .‏ .‏ اِس واسطے دُنیا تُم سے عداوت رکھتی ہے۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۵:‏۱۹‏)‏ اِس لئے مسیحیوں کو اِس بات کی توقع کرنی چاہئے کہ اُن کے عقیدوں پر اعتراض اُٹھایا جائے گا۔‏ ایسی صورت میں اُنہیں نرم‌مزاجی اور احترام کے ساتھ اپنے ایمان کی دلیل دینی چاہئے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۳:‏۱۵‏)‏ خود سے پوچھیں:‏ ”‏کیا مَیں سمجھتا ہوں کہ یہوواہ کے گواہ کچھ ایسے نظریے کیوں رکھتے ہیں جو دوسرے لوگوں کو ناگوار گزرتے ہیں؟‏ کیا مجھے اُس وقت بھی اِس بات پر پورا یقین ہے کہ بائبل اور دیانتدار نوکر جماعت کی تعلیم صحیح ہے جب مجھے اپنے ایمان کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہوتا ہے؟‏ (‏متی ۲۴:‏۴۵؛‏ یوحنا ۱۷:‏۱۷‏)‏ کیا مَیں اِس بات پر فخر محسوس کرتا ہوں کہ یہوواہ خدا کے حکموں پر عمل کرنے کی وجہ سے مَیں دوسروں سے الگ ہوں؟‏“‏—‏زبور ۳۴:‏۲؛‏ متی ۱۰:‏۳۲،‏ ۳۳‏۔‏

۲۳ دُنیا سے الگ رہنے کے ہمارے عزم کو کمزور کرنے کے لئے شیطان اکثر چالاکی سے کام لیتا ہے۔‏ مثال کے طور پر وہ نامناسب تفریح کے پھندے کو استعمال کرتا ہے۔‏ ہم ایسی تفریح کا انتخاب کیسے کر سکتے ہیں جس سے ہمارا ضمیر صاف رہے گا اور ہم تازہ‌دم بھی ہو جائیں گے؟‏ اِس بات پر ہم اگلے باب میں غور کریں گے۔‏

^ پیراگراف 3 سن ۳۳ عیسوی کی عیدِپنتِکُست سے یسوع مسیح اپنے ممسوح پیروکاروں کی کلیسیا پر حکمرانی کرنے لگا۔‏ لہٰذا ممسوح مسیحی اُس وقت سے لے کر ”‏مسیح کے ایلچی“‏ تھے۔‏ (‏کلسیوں ۱:‏۱۳‏)‏ پھر ۱۹۱۴ میں ”‏دُنیا کی بادشاہی“‏ یسوع مسیح کی ہو گئی۔‏ اِس وجہ سے ممسوح مسیحی اب مسیح کی بادشاہت کے ایلچیوں کے طور پر خدمت انجام دیتے ہیں۔‏—‏مکاشفہ ۱۱:‏۱۵‏۔‏