پاک کلام کی تعلیم زندگی سنوارتی ہے
ایک ایسی عورت کو زندگی کا اصل مقصد کیسے ملا جسے خدا کے بارے میں جاننے کا کوئی شوق نہیں تھا اور جو اپنے کاروبار میں بہت کامیاب تھی؟ کیتھولک مذہب سے تعلق رکھنے والے ایک آدمی نے موت کے بارے میں ایسا کیا سیکھا جس کی وجہ سے اُس نے اپنی زندگی بدل لی؟ اور زندگی سے مایوس ایک آدمی نے خدا کے بارے میں ایسا کیا سیکھا جس سے اُس کے دل میں لوگوں کو خدا کے بارے میں سکھانے کی خواہش پیدا ہوئی؟ آئیں، اِن لوگوں کی کہانی، اِنہی کی زبانی سنیں۔
”مَیں کئی سالوں تک یہ سوچتی رہی کہ ”ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟““—روزلنڈ جان
پیدائش: 1963ء
پیدائش کا ملک: برطانیہ
ماضی: اپنے کاروبار میں کامیاب
میری سابقہ زندگی:
مَیں جنوبی لندن کے شہر کروئڈن میں پیدا ہوئی۔ ہم نو بہن بھائی تھے اور مَیں چھٹے نمبر پر تھی۔ میرے امی ابو کیریبیئن کے جزیرے سینٹ وینسینٹ سے تھے۔ میری امی میتھوڈسٹ چرچ جایا کرتی تھیں۔ حالانکہ مجھے علم حاصل کرنے کا بڑا شوق تھا لیکن مجھے خدا کے بارے میں جاننے میں ذرا بھی دلچسپی نہیں تھی۔ مَیں سکول کی چھٹیوں میں اپنا زیادہتر وقت مقامی جھیل پر گزارتی تھی جہاں مَیں لائبریری سے ڈھیر ساری کتابیں لا کر پڑھا کرتی تھی۔
سکول کی پڑھائی ختم کرنے کے کچھ سال بعد میرے دل میں کمزور اور بےسہارا لوگوں کی مدد کرنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ مَیں بےگھر، معذور اور ایسے لوگوں کی مدد کرنے کے لیے کام کرنے لگی جنہیں پڑھنے لکھنے میں مشکل ہوتی تھی۔ اِس کے بعد مَیں نے یونیورسٹی سے میڈیکل سائنس کا کورس کِیا۔ گریجویشن کے بعد مَیں کامیابی کی سیڑھیاں چڑھتی گئی اور ایک بہت ہی پُرآسائش زندگی جینے لگی۔ مَیں کہیں ملازمت نہیں کرتی تھی بلکہ گھر بیٹھے ہی کمپنیوں کی صلاحکار اور سماجی تحقیقدان کے طور پر کام کرتی تھی۔ مجھے کام کرنے کے لیے بس لیپٹاپ اور اِنٹرنیٹ ہی چاہیے ہوتا تھا۔ جب مَیں کچھ ہفتوں کے لیے ملک سے باہر جاتی تو اِس دوران مَیں بڑے عالیشان ہوٹل میں ٹھہرتی، وہاں کے خوبصورت ماحول کا بھرپور مزہ لیتی اور خود کو فٹ رکھنے کے لیے وہاں کی سہولتیں اِستعمال کرتی۔ مَیں سوچتی تھی کہ یہی زندگی ہے۔ لیکن مَیں نے بےسہارا اور مجبور لوگوں کی فکر کرنی کبھی نہیں چھوڑی۔
پاک کلام کی تعلیم کا اثر:
مَیں کئی سالوں تک یہ سوچتی رہی کہ ”ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟“ لیکن مَیں نے کبھی بائبل سے اِس سوال کا جواب جاننے کی کوشش نہیں کی۔ میری چھوٹی بہن مارگریٹ یہوواہ کی گواہ تھی۔ 1999ء میں وہ ایک دن اپنی ایک دوست کے ساتھ مجھ سے ملنے آئی جو کہ یہوواہ کی گواہ تھی۔ اُس کی دوست میرے ساتھ بڑے پیار اور خلوص سے پیش آئی۔ مجھے تو خود پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ مَیں اُس سے بائبل کورس کرنے کو راضی ہو گئی۔ مگر مَیں بہت آہستہ آہستہ یہ کورس کر رہی تھی کیونکہ مَیں جس طرح کی زندگی جی رہی تھی اور جو کام کر رہی تھی، اُس میں میرا بہت وقت لگ جاتا تھا۔
2002ء میں گرمی کے موسم میں مَیں جنوب مغربی اِنگلینڈ شفٹ ہو گئی۔ مَیں پیایچڈی کرنے کے لیے وہاں کی یونیورسٹی سے سماجی سائنس کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے لگی۔ ساتھ ہی ساتھ مَیں اپنے بیٹے کو لے کر یہوواہ کے گواہوں کی مقامی عبادتگاہ میں اَور باقاعدگی سے جانے لگی۔ مجھے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے کافی خوشی مل رہی تھی۔ لیکن اِس سے بھی کہیں زیادہ خوشی مجھے بائبل کورس کرنے سے ملی کیونکہ اِس سے مَیں یہ سمجھ پائی کہ ہمیں زندگی میں مسئلوں کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے اور اِن کا حل کیا ہے۔ مَیں متی 6:24 میں پائی جانے والی سچائی کو بھی سمجھ گئی جہاں لکھا ہے کہ ہم دو مالکوں کی غلامی نہیں کر سکتے۔ مجھے یا تو خدا کی غلامی کرنی ہوگی یا پھر دولت کی۔ مَیں جانتی تھی کہ مجھے یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ مَیں اپنی زندگی میں کن چیزوں کو زیادہ اہمیت دوں گی۔
اِس سے ایک سال پہلے مَیں اکثر یہوواہ کے گواہوں کے ایک گروپ کے کتابی مطالعے میں حاضر ہوا کرتی تھی جہاں وہ لوگ کتاب ”اِز دئیر اے کریئٹر ہو کیئرز اباؤٹ یو؟“ * سے مطالعہ کِیا کرتے تھے۔ مَیں اِس بات پر قائل ہو گئی کہ صرف ہمارے خالق یہوواہ کے پاس ہی اِنسانوں کے مسئلوں کا حل ہے۔ لیکن اب یونیورسٹی میں مجھے یہ سکھایا جا رہا تھا کہ ہماری زندگی کے مقصد کا خدا سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ مجھے یہ باتیں سُن کر بہت غصہ آتا تھا۔ لہٰذا دو مہینے بعد مَیں نے یونیورسٹی چھوڑ دی اور یہ فیصلہ کِیا کہ اب مَیں خدا کے قریب ہونے میں زیادہ وقت صرف کروں گی۔
بائبل کی جس آیت کو پڑھ کر میرے دل میں اپنے طرزِزندگی کو بدلنے کی خواہش پیدا ہوئی، وہ امثال 3:5، 6 تھی۔ اِن آیتوں میں لکھا ہے: ”سارے دل سے [یہوواہ] پر توکل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔ اپنی سب راہوں میں اُس کو پہچان اور وہ تیری راہنمائی کرے گا۔“ اپنے پیارے خدا کے بارے میں سیکھ کر مجھے جتنی خوشی ملی اُتنی دولت یا کسی ڈگری کو حاصل کرنے سے نہیں مل سکتی تھی۔ جتنا زیادہ مَیں یہ سیکھتی گئی کہ یہوواہ خدا نے زمین کے لیے کیا سوچ رکھا ہے اور یسوع نے اپنی جان قربان کر کے ہمارے لیے کیا کچھ ممکن بنایا ہے اُتنا ہی زیادہ میرے دل میں یہ خواہش بڑھنے لگی کہ مَیں اپنے خالق کے لیے اپنی زندگی وقف کروں۔ لہٰذا اپریل 2003ء میں مَیں نے یہوواہ کی ایک گواہ کے طور پر بپتسمہ لے لیا۔ اِس کے بعد مَیں آہستہ آہستہ اپنی زندگی کو سادہ بنانے لگی۔
میری زندگی سنور گئی:
میری نظر میں یہوواہ کی دوستی بہت انمول ہے۔ اُس کے بارے میں جان کر مجھے سچی خوشی اور دلی سکون ملا ہے۔ مجھے یہوواہ کے باقی بندوں کے ساتھ وقت گزار کر بھی بہت زیادہ خوشی ملتی ہے۔
میرے دل میں علم حاصل کرنے کی جو پیاس ہے، وہ بائبل کا مطالعہ کرنے اور عبادتوں پر سکھائی جانے والی باتوں سے بجھ جاتی ہے۔ مجھے دوسروں کو اپنے ایمان کے بارے میں بتانے سے بڑی خوشی ملتی ہے۔ اب یہی میری زندگی کا مقصد بن گیا ہے جس کے ذریعے مَیں لوگوں کی صحیح طور پر مدد کر سکتی ہوں۔ اِس طرح لوگ نہ صرف اب ایک بہتر زندگی گزار سکتے ہیں بلکہ نئی دُنیا میں ایک شاندار زندگی حاصل کرنے کی اُمید بھی رکھ سکتے ہیں۔ مَیں جون 2008ء سے کُلوقتی طور پر خدا کی خدمت کر رہی ہوں۔ اور جتنی خوش اور مطمئن مَیں اب ہوں اُتنی کبھی نہیں تھی۔ مجھے زندگی کا اصل مقصد مل گیا ہے اور اِس کے لیے مَیں یہوواہ خدا کی دل سے شکرگزار ہوں!
”اپنے دوست کی موت کا میرے دل پر بہت گہرا اثر ہوا“—رومن اینسبیغا
پیدائش: 1973ء
پیدائش کا ملک: آسٹریا
ماضی: جُوئےباز
میری سابقہ زندگی:
مَیں آسٹریا کے ایک چھوٹے شہر براناؤ میں پلا بڑھا۔ ہم ایک امیر علاقے میں رہتے تھے اور یہاں بہت ہی کم جُرم ہوا کرتے تھے۔ میرے گھر والے کیتھولک تھے اور اُنہوں نے مجھے بھی اِسی مذہب کی تعلیم دی۔
بچپن میں میرے ساتھ ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے مجھ پر بہت گہرا اثر ڈالا۔ مجھے یاد ہے کہ جب 1984ء میں مَیں 11 سال کا تھا تو ایک دن مَیں اپنے ایک قریبی دوست کے ساتھ فٹبال کھیل رہا تھا۔ اُسی دوپہر ایک ایکسیڈنٹ میں اُس کی موت ہو گئی۔ اپنے دوست کی موت کا میرے دل پر بہت گہرا اثر ہوا۔ اُس حادثے کے کئی سالوں بعد بھی مَیں سوچتا رہا کہ مرنے کے بعد ہمارے ساتھ کیا ہوتا ہے۔
سکول کی پڑھائی ختم کرنے کے بعد مَیں ایک الیکٹریشن کے طور پر کام کرنے لگا۔ مجھے جُوا کھیلنے کی عادت پڑ گئی۔ حالانکہ مَیں اِس میں بہت پیسے لگاتا تھا لیکن مجھے کبھی پیسے کی تنگی نہیں ہوئی۔ مَیں طرح طرح کے کھیلوں میں بھی بہت وقت گزارنے لگا اور میرے دل میں ہیوی میٹل اور راک میوزک کا شوق بڑھنے لگا۔ میری زندگی بس ڈسکو میں اور پارٹیاں کرنے میں گزر رہی تھی۔ مَیں ایک بدچلن اور موج مستی سے بھری زندگی گزار رہا تھا۔ مگر مجھے اپنی زندگی خالی خالی سی لگتی تھی۔
پاک کلام کی تعلیم کا اثر:
1995ء میں ایک عمررسیدہ یہوواہ کا گواہ میرے گھر پر آیا اور اُس نے مجھے بائبل پر مبنی ایک کتاب دی جس میں بائبل سے اِس سوال کا جواب دیا گیا تھا کہ مرنے پر ایک شخص کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ مَیں ابھی تک اپنے دوست کی موت کا غم بھول نہیں پایا تھا۔ اِس لیے مَیں نے وہ کتاب لے لی۔ اُس میں مَیں نے صرف وہی باب نہیں پڑھا جس میں موت کے بارے میں بات کی گئی تھی بلکہ مَیں نے پوری کتاب پڑھ ڈالی۔
مَیں نے اِس میں جو باتیں پڑھیں، اُن سے مجھے میرے اُن سوالوں کے جواب مل گئے جو میرے ذہن میں موت کے حوالے سے تھے۔ لیکن مَیں نے اِس کتاب سے اَور بھی بہت سی باتیں سیکھیں۔ چونکہ مَیں نے ایک کیتھولک گھرانے میں پرورش پائی تھی اِس لیے میرے ایمان کی بنیاد صرف اور صرف یسوع تھے۔ لیکن بائبل کا گہرائی سے مطالعہ کرنے سے مَیں یسوع مسیح کے باپ یہوواہ کے ساتھ دوستی کر پایا۔ مَیں یہ جان کر بڑا حیران اور خوش ہوا کہ یہوواہ خدا کو ہماری بہت فکر ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ہم اُس کے بارے میں جانیں۔ (متی 7:7-11) مَیں نے سیکھا کہ یہوواہ خدا احساسات رکھتا ہے۔ مَیں نے یہ بھی سیکھا کہ وہ ہمیشہ اپنے وعدوں کو پورا کرتا ہے۔ اِس بات سے میرے دل میں بائبل میں لکھی پیشگوئیوں اور اِن کی تکمیل کے بارے میں سیکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ مَیں نے جو کچھ پڑھا،اُس سے خدا پر میرا ایمان بہت مضبوط ہوا۔
جلد ہی مَیں یہ سمجھ گیا کہ صرف یہوواہ کے گواہ ہی وہ لوگ ہیں جو دل سے دوسروں کو بائبل میں لکھی باتیں سمجھانا چاہتے ہیں۔ اُن کی کتابوں میں بائبل کی جو آیتیں لکھی تھیں، اُنہیں مَیں نے اپنی کیتھولک بائبل میں کھول کر دیکھا۔ مَیں جتنی زیادہ تحقیق کرتا گیا، مجھے محسوس ہونے لگا کہ مجھے سچائی مل گئی ہے۔
بائبل کا مطالعہ کرنے سے مَیں نے سیکھا کہ یہوواہ خدا مجھ سے یہ توقع کرتا ہے کہ مَیں اُس کے معیاروں کے مطابق زندگی گزاروں۔ مَیں نے اِفسیوں 4:22-24 میں جو بات پڑھی، اُس سے مَیں یہ جان گیا کہ مجھے اپنی ” پُرانی شخصیت“ کو اُتار پھینکنا ہوگا جو کہ میرے ”پچھلے چالچلن کے مطابق ڈھلی ہوئی“ تھی اور مجھے اُس ’ نئی شخصیت کو پہن لینا ہوگا جو خدا کی مرضی کے مطابق ڈھالی گئی ہے۔‘ اِس لیے مَیں نے بدچلن زندگی گزارنا چھوڑ دی۔ مَیں نے جُوا کھیلنا بھی چھوڑ دیا کیونکہ یہ لالچ اور دولت کے نشے کو فروغ دیتا ہے۔ (1-کُرنتھیوں 6:9، 10) مَیں جانتا تھا کہ اپنی زندگی میں یہ تبدیلیاں لانے کے لیے مجھے اپنے پُرانے دوستوں سے ناتا توڑنا ہوگا اور ایسے لوگوں سے دوستی کرنی ہوگی جو بائبل کے معیاروں پر چلتے ہیں۔
میرے لیے اپنی زندگی میں اِن تبدیلیوں کو لانا آسان نہیں تھا۔ مَیں نے یہوواہ کے گواہوں کی عبادتوں پر جانا شروع کر دیا اور اُن سے دوستی کرنے لگا۔ مَیں ذاتی طور پر بھی پاک کلام کا گہرائی سے مطالعہ کرنے لگا۔ اِس طرح کے قدم اُٹھانے سے مَیں بُری موسیقی چھوڑنے کے قابل ہوا، مَیں نے اپنے لیے اچھے منصوبے بنائے اور اپنے حُلیے کو سنوار لیا۔ 1995ء میں مَیں نے یہوواہ کے ایک گواہ کے طور پر بپتسمہ لے لیا۔
میری زندگی سنور گئی:
اب مَیں پیسے اور زندگی کی آسائشوں کے بارے میں مناسب سوچ رکھتا ہوں۔ ایک وقت تھا جب مَیں بہت غصیلا ہوا کرتا تھا۔ لیکن اب مَیں نے اپنے غصے پر قابو پانا سیکھ لیا ہے۔ اِس کے علاوہ اب مَیں آنے والے کل کو لے کر حد سے زیادہ پریشان نہیں ہوں۔
مجھے ایسے لوگوں میں شامل ہو کر بہت خوشی ملی ہے جو یہوواہ کی عبادت کرتے ہیں۔ اِن میں ایسے کئی لوگ ہیں جو مشکلوں کا سامنا کرنے کے باوجود خدا کے وفادار ہیں۔ مجھے اِس بات کی بڑی خوشی ہے کہ اب مَیں اپنا وقت اور اپنی طاقت اپنی خواہشوں کو پورا کرنے میں نہیں لگاتا بلکہ یہوواہ خدا کی خدمت کرنے اور دوسروں کی مدد کرنے میں لگاتا ہوں۔
”آخرکار مجھے زندگی کا مقصد مل گیا ہے!“—ایئن کنگ
پیدائش: 1963ء
پیدائش کا ملک: اِنگلینڈ
ماضی: زندگی سے مایوس
میری سابقہ زندگی:
میری پیدائش اِنگلینڈ میں ہوئی۔ لیکن جب مَیں سات سال کا تھا تو ہم لوگ آسٹریلیا شفٹ ہو گئے۔ ہم ریاست کوئنزلینڈ کے ساحلی شہر گولڈ کوسٹ رہنے لگے۔ یہ ایک ایسا شہر ہے جہاں لوگ گھومنے پھرنے کے لیے آتے ہیں۔ میرے گھر والے امیر تو نہیں تھے لیکن ہمارے پاس ضرورت کی ہر چیز ہوتی تھی۔
حالانکہ میرا بچپن بڑا آرامدہ گزرا لیکن مجھے کبھی بھی سچی خوشی نہیں ملی۔ مَیں اپنی زندگی سے کافی مایوس تھا۔ میرے ابو حد سے زیادہ شراب پیا کرتے تھے۔ مَیں نے کبھی اُن کے لیے اِتنی محبت محسوس نہیں کی اور اِس کی اہم وجہ یہی تھی کہ وہ شرابی تھے اور امی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے تھے۔ لیکن جب مجھے پتہ چلا کہ اُنہوں نے ملایا (جو کہ اب ملیشیا کہلاتا ہے) میں ایک فوجی کے طور پر کن کن باتوں کا تجربہ کِیا تو مجھے تبھی سمجھ آیا کہ اُن کا برتاؤ ایسا کیوں تھا۔
جب مَیں سکول میں پڑھ رہا تھا تو مَیں نے حد سے زیادہ شراب پینی شروع کر دی۔ 16 سال کی عمر میں مَیں نے سکول چھوڑ دیا اور نیوی میں چلا گیا۔ مَیں طرح طرح کا نشہ کرنے لگا اور سگریٹ پینے کی لت میں پڑ گیا۔ اِس کے علاوہ مَیں شرابی بھی بن گیا۔ پہلے مَیں ہفتے اِتوار کو شراب میں ڈوبا کرتا تھا لیکن پھر مَیں ہر دن ہی ایسا کرنے لگا۔
جب مَیں تقریباً 22 یا 23 سال کا تھا تو مَیں خدا کے وجود پر شک کرنے لگا۔ مَیں سوچتا تھا: ”اگر خدا واقعی موجود ہے تو وہ لوگوں کو تکلیفیں اور موت کیوں سہنے دیتا ہے؟“ مَیں نے تو ایک نظم بھی لکھی جس میں مَیں نے دُنیا میں ہونے والی ہر بُرائی کے لیے خدا کو قصوروار ٹھہرایا۔
23 سال کی عمر میں مَیں نے نیوی چھوڑ دی۔ اِس کے بعد مَیں نے فرق فرق جگہوں پر نوکری کی اور ایک سال کے لیے تو مَیں فرق فرق ملکوں میں بھی گیا۔ لیکن کسی بھی چیز سے میری مایوسی دُور نہ ہو سکی۔ میرے دل میں کوئی بھی منصوبہ بنانے یا اِسے پورا کرنے کی خواہش نہیں تھی۔ کوئی بھی چیز میرے دل کو اچھی نہیں لگتی تھی، مثلاً اپنا گھر بنانا، ایک اچھی ملازمت کرنا اور کامیابی حاصل کرنا، یہ سب مجھے بےکار لگتا تھا۔ مجھے صرف شراب پینے اور موسیقی سننے سے ہی سکون ملتا تھا۔
مجھے وہ لمحہ آج بھی یاد ہے جب میرے دل میں زندگی کا مقصد جاننے کی شدید خواہش پیدا ہوئی۔ اُس وقت مَیں پولینڈ میں تھا اور آؤشوٹس کے ہولناک قیدی کیمپ کو دیکھنے گیا تھا۔ مَیں نے اِس بارے میں پڑھا تھا کہ وہاں کتنی بےرحمی سے لوگوں کو قتل کِیا گیا۔ لیکن جب مَیں نے خود وہاں جا کر دیکھا کہ یہ کیمپ کس قدر بڑا ہے تو اِس کا میرے جذبات پر بہت گہرا اثر ہوا۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ ایک اِنسان دوسرے اِنسان پر اِتنا زیادہ ظلم کیسے کر سکتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ کیمپ کے گِرد چکر لگاتے وقت میری آنکھیں آنسوؤں سے بھری تھیں اور مَیں خود سے یہی سوال کر رہا تھا کہ ”کیوں؟“
پاک کلام کی تعلیم کا اثر:
1993ء میں آسٹریلیا واپس آنے کے بعد مَیں بائبل سے اپنے سوالوں کے جواب تلاش کرنے لگا۔ اِس کے تھوڑے ہی عرصے بعد دو یہوواہ کی گواہوں نے میرے گھر کا دروازہ بجایا اور مجھے اپنے ایک اِجتماع کا دعوتنامہ دیا جو قریب ہی ایک سٹیڈیم میں ہونا تھا۔ مَیں نے وہاں جانے کا فیصلہ کِیا۔
کچھ ہی مہینے پہلے مَیں اُس سٹیڈیم میں ایک میچ دیکھنے گیا تھا۔ لیکن تب وہاں جو ماحول تھا، اُس میں اور اِجتماع کے دوران سٹیڈیم کے ماحول میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ وہاں گواہ بہت ہی پیار سے مل رہے تھے، اُنہوں نے اچھے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور اُن کے بچے بڑے تمیزدار تھے۔ کھانے کے وقفے کے دوران جو کچھ مَیں نے دیکھا، اُس سے تو مَیں بہت ہی متاثر ہوا۔ سینکڑوں گواہ کھیل کے میدان میں کھانا کھا رہے تھے لیکن جب اپنی سیٹوں پر واپس جانے کا وقت آیا تو میدان میں ذرا بھی کچرا نہیں تھا! سب سے بڑھ کر وہ لوگ بہت ہی خوش اور مطمئن دِکھائی دے رہے تھے۔ اِسی خوشی اور اِطمینان کو پانے کے لیے مَیں ترستا تھا۔ اُس دن جو تقریریں ہوئیں، اُن میں سے مجھے ایک بھی یاد نہیں۔ لیکن گواہوں کا چالچلن میرے دل پر گہری چھاپ چھوڑ گیا۔
اُس شام مجھے اپنا ایک کزن یاد آیا جو بائبل پڑھا کرتا تھا اور مختلف مذہبوں کا مطالعہ کرتا تھا۔ سالوں پہلے اُس نے مجھ سے کہا تھا کہ یسوع نے کہا تھا کہ ہم سچے مذہب کو اُس کے پھلوں سے پہچان لیں گے۔ (متی 7:15-20) مَیں نے سوچا کہ مجھے کم سے کم یہ تو ضرور دیکھنا چاہیے کہ گواہ کس وجہ سے دوسرے مذہب کے لوگوں سے اِتنے فرق ہیں۔ زندگی میں پہلی بار مَیں کسی بات کو لے کر تھوڑا بہت پُراُمید تھا۔
اِجتماع کے اگلے ہفتے وہ دو یہوواہ کی گواہ جنہوں نے مجھے اِجتماع پر آنے کی دعوت دی تھی، دوبارہ میرے گھر آئیں۔ اُنہوں نے مجھے بائبل کورس کرنے کی پیشکش کی جسے مَیں نے قبول کر لیا۔ مَیں اُن کے ساتھ اُن کی عبادتوں پر بھی جانے لگا۔
جیسے جیسے مَیں بائبل کورس کرتا گیا، خدا کے بارے میں میری سوچ بدلتی گئی۔ مَیں نے سیکھا کہ بُرائی اور مصیبتوں کے پیچھے اُس کا ہاتھ نہیں ہے۔ اُسے تو اُس وقت بہت دُکھ ہوتا ہے جب لوگ بُرے کام کرتے ہیں۔ (پیدایش 6:6؛ زبور 78:40، 41) مَیں نے پکا عزم کِیا کہ مَیں اپنی طرف سے پوری کوشش کروں گا کہ مَیں کبھی یہوواہ کو کوئی دُکھ نہ دوں۔ مَیں اُسے خوش کرنا چاہتا تھا۔ (امثال 27:11) مَیں نے سگریٹ اور حد سے زیادہ شراب پینی چھوڑ دی۔ اِس کے علاوہ مَیں نے حرامکاری کرنا بھی چھوڑ دی۔ مارچ 1994ء میں مَیں نے یہوواہ کے ایک گواہ کے طور پر بپتسمہ لے لیا۔
میری زندگی سنور گئی:
مجھے سچی خوشی اور دلی سکون مل گیا ہے۔ اب مَیں اپنی پریشانیوں سے بھاگنے کے لیے شراب کا سہارا نہیں لیتا۔ اِس کی بجائے مَیں نے سیکھ لیا ہے کہ مَیں اپنا بوجھ یہوواہ خدا پر ڈال سکتا ہوں۔—زبور 55:22۔
مَیں نے کیرن نامی ایک یہوواہ کی گواہ سے شادی کی ہے جو بہت اچھی اِنسان ہیں اور اُن کی ایک بڑی پیاری بیٹی بھی ہے جس کا نام نیلا ہے۔ ہماری شادی کو دس سال ہو گئے ہیں۔ ہم تینوں مل کر اپنا زیادہتر وقت دوسروں کو خدا کے بارے میں سچائی سکھانے میں صرف کرتے ہیں۔ آخرکار مجھے زندگی کا مقصد مل گیا ہے!
^ پیراگراف 11 اِس کتاب کو یہوواہ کے گواہوں نے شائع کِیا ہے۔