پاک کلام کی تعلیم زندگی سنوارتی ہے
ایک ایسا شخص جس نے ایک سے زیادہ شادیاں کی ہوئی تھیں اور جو کبھی یہوواہ کے گواہوں کے اِتنا خلاف ہوا کرتا تھا، اُس نے خود یہوواہ کا گواہ بننے کا فیصلہ کیوں کِیا؟ پینٹیکوسٹل چرچ کے ایک پادری نے کس وجہ سے اپنے عقیدوں کو چھوڑ دیا؟ ایک ایسی عورت جس کے والدین نے بچپن میں اُس کے ساتھ بُرا سلوک کِیا اور جو خود سے بہت نفرت کِیا کرتی تھی، وہ خدا کے قریب کیسے ہو پائی؟ ایک ایسا شخص جو کبھی ہیوی میٹل موسیقی کا دیوانہ ہوا کرتا تھا، وہ دوسروں کو یہوواہ خدا کے بارے میں کیوں بتانے لگا؟ آئیں، اِن لوگوں کی کہانی، اُنہی کی زبانی سنیں۔
”مَیں ایک اچھا شوہر بن گیا“—رِگوبرٹ ہوٹو
پیدائش: 1941ء
پیدائش کا ملک: بینین
ماضی: ایک سے زیادہ بیویوں کا شوہر اور یہوواہ کے گواہوں کا مخالف
میری سابقہ زندگی:
مَیں ملک بینین کے ایک بڑے شہر کوتونوؤ میں پلا بڑھا۔ حالانکہ میری پرورش ایک کیتھولک گھرانے میں ہوئی تھی لیکن مَیں باقاعدگی سے چرچ نہیں جاتا تھا۔ ہمارے علاقے میں بہت سے کیتھولک آدمیوں کی ایک سے زیادہ بیویاں تھیں کیونکہ اُس زمانے میں ایک سے زیادہ شادیاں کرنا قانونی طور پر جائز تھا۔ اِس لیے مَیں نے بھی چار عورتوں سے شادی کی ہوئی تھی۔
جب 1970ء کے دہے میں اِنقلاب آیا تو مَیں نے سوچا کہ اِس سے میرے ملک کو بہت فائدہ ہوگا۔ مَیں نے اِس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ایک سیاسی پارٹی میں شامل ہو گیا۔ اِنقلاب میں حصہ لینے والے لوگ یہوواہ کے گواہوں کو بالکل پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ گواہ سیاسی معاملوں میں کسی کی طرفداری نہیں کرتے تھے۔ مَیں بھی اُن لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے گواہوں کو اذیت دی۔ جب 1976ء میں گواہوں کے مشنریوں کو ملک سے نکال دیا گیا تو مجھے پورا یقین تھا کہ اب وہ دوبارہ کبھی نہیں لوٹیں گے۔
پاک کلام کی تعلیم کا اثر:
جیسے ہی 1990ء میں اِنقلاب ختم ہوا، یہوواہ کے گواہ پھر سے نظر آنے لگے۔ اُنہیں دوبارہ دیکھ کر مَیں بڑا حیران ہوا اور یہ سوچنے لگا کہ شاید خدا اِن لوگوں کے ساتھ ہے۔ اُسی دوران مَیں ایک نئی جگہ کام کرنے لگا۔ وہاں میرے ساتھ ایک یہوواہ کا گواہ کام کرتا تھا جس نے جلد ہی مجھے اپنے عقیدوں کے بارے میں بتانا شروع کر دیا۔ اُس نے مجھے بائبل سے ایسی آیتیں دِکھائیں جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ یہوواہ کتنا محبت کرنے والا اور اِنصاف سے کام کرنے والا خدا ہے۔ (اِستثنا 32:4؛ 1-یوحنا 4:8) یہوواہ خدا کی اِن خوبیوں نے میرے دل کو چُھو لیا اور میرے دل میں اُس کے بارے میں اَور زیادہ سیکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ اِس لیے مَیں نے گواہوں سے بائبل کورس کرنا شروع کر دیا۔
جلد ہی مَیں اُن کی عبادتوں پر جانے لگا۔ مَیں یہ دیکھ کر بڑا ہی متاثر ہوا کہ گواہ ایک دوسرے سے سچی محبت کرتے تھے اور مختلف قوموں سے ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے ذرا بھی تعصب نہیں کرتے تھے۔ جتنا زیادہ مَیں گواہوں کے ساتھ وقت گزارنے لگا اُتنا ہی زیادہ مجھ پر یہ واضح ہونے لگا کہ وہ مسیح کے سچے شاگرد ہیں۔—یوحنا 13:35۔ 1976
مَیں نے فیصلہ کِیا کہ مَیں یہوواہ کی خدمت کروں گا۔ لیکن مَیں یہ بھی جانتا تھا کہ ایسا کرنے کے لیے مجھے کیتھولک چرچ کو چھوڑنا ہوگا۔ مجھے ایسا کرنا بہت مشکل لگا رہا تھا کیونکہ مجھے اِس بات کا ڈر تھا کہ لوگ کیا کہیں گے۔ مگر ایک لمبے عرصے بعد یہوواہ کی مدد سے مَیں نے ہمت جٹائی اور کیتھولک چرچ سے ناتا توڑ لیا۔
مجھے اپنی زندگی میں ایک اَور بڑی تبدیلی لانے کی بھی ضرورت تھی۔ پاک کلام سے مَیں نے سیکھ لیا تھا کہ خدا اُن لوگوں سے خوش نہیں ہوتا جو ایک سے زیادہ شادیاں کرتے ہیں۔ (پیدایش 2:18-24؛ متی 19:4-6) اُس کی نظر میں صرف میری پہلی شادی جائز ہے۔ اِس لیے مَیں نے اپنی شادی کو رجسٹر کروایا اور اپنی باقی بیویوں کو چھوڑ دیا۔ لیکن مَیں نے اِس بات کا بندوبست کِیا کہ اُن کی بنیادی ضرورتیں پوری ہوتی رہیں۔ کچھ عرصے بعد میری دو سابقہ بیویاں بھی یہوواہ کی گواہ بن گئیں۔
میری زندگی سنور گئی:
حالانکہ میری بیوی کیتھولک ہی رہی مگر مَیں نے یہوواہ کی خدمت کرنے کا جو فیصلہ کِیا، اُس نے اُس کا احترام کِیا۔ ہم دونوں کو ہی یہ لگتا ہے کہ اب مَیں ایک اچھا شوہر بن گیا ہوں۔
مجھے لگتا تھا کہ سیاست میں حصہ لینے سے مَیں اپنے معاشرے کو بہتر بنا سکتا ہوں۔ لیکن میری کوششیں بےکار ثابت ہوئیں۔ اب مَیں جان گیا ہوں کہ صرف خدا کی بادشاہت ہی اِنسانوں کے تمام مسئلوں کو حل کر سکتی ہے۔ (متی 6:9، 10) مَیں یہوواہ خدا کا بہت شکرگزار ہوں کہ اُس نے مجھے سکھایا ہے کہ مَیں سچی خوشی کیسے حاصل کر سکتا ہوں۔
”میرے لیے اپنی زندگی میں تبدیلیاں لانا آسان نہیں تھا“—ایلکس لیموس سلوا
پیدائش: 1977ء
پیدائش کا ملک: برازیل
ماضی: پینٹیکوسٹل چرچ کا پادری
میری سابقہ زندگی:
مَیں برازیل کی ریاست ساؤ پاؤلو کے شہر ایتو سے باہر ایک علاقے میں پلا بڑھا۔ اِس علاقے میں جُرم بہت ہی زیادہ پھیلا ہوا تھا۔
مَیں ایک بہت ہی پُرتشدد اور بدچلن شخص تھا۔ اِس کے علاوہ مَیں منشیات کی خریدوفروخت بھی کِیا کرتا تھا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھے یہ احساس ہونے لگا کہ اگر مَیں ایسے ہی زندگی جیتا رہا تو میرا انجام یا تو جیل یا پھر قبر ہوگی۔ لہٰذا مَیں نے اُن کاموں کو چھوڑ دیا اور ایک پینٹیکوسٹل چرچ کا رُکن بن گیا اور بعد میں پادری بن گیا۔
مجھے لگتا تھا کہ چرچ میں میری خدمت سے لوگوں کو بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔ مَیں نے تو اپنے علاقے کے ایک ریڈیو چینل پر مذہبی پروگرام بھی کِیا جس کے بعد میں اپنے علاقے کے لوگوں میں کافی مشہور ہو گیا۔ البتہ وقت گزرنے پر مَیں نے دیکھا کہ چرچ کے لوگوں کو ایک دوسرے کی بھلائی میں کوئی دلچسپی نہیں۔ اُنہیں تو خدا کی عزت تک کرنے کی پرواہ نہیں۔ مَیں نے دیکھا کہ چرچ والوں کا بس یہی مقصد ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ پیسہ اِکٹھا کر سکیں۔ لہٰذا مَیں نے چرچ کو چھوڑ دیا۔
پاک کلام کی تعلیم کا اثر:
جب مَیں نے یہوواہ کے گواہوں سے بائبل کورس کرنا شروع کِیا تو فوراً ہی مجھے یہ اندازہ ہو گیا کہ گواہ دوسرے مذہب کے لوگوں سے کتنے فرق ہیں۔ اُن کی دو باتوں سے مَیں بڑا ہی متاثر ہوا۔ پہلی بات تو یہ تھی کہ وہ لوگ خدا اور پڑوسی سے محبت کرنے کی صرف باتیں ہی نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے کاموں سے اِسے ظاہر بھی کرتے تھے۔ اور دوسری بات یہ تھی کہ گواہ نہ تو جنگوں میں اور نہ ہی سیاسی معاملوں میں حصہ لیتے تھے۔ (یسعیاہ 2:4) اِن باتوں کی وجہ سے مجھے پورا یقین ہو گیا کہ مجھے سچا مذہب مل گیا ہے۔ ایک ایسا مذہب جو زندگی کی طرف لے جاتا ہے۔—متی 7:13، 14۔
مَیں یہ سمجھ گیا تھا کہ یہوواہ کو خوش کرنے کے لیے مجھے اپنی زندگی میں کچھ بڑی تبدیلیاں کرنی ہوں گی۔ مجھے اپنے گھر والوں کو اَور زیادہ محبت اور توجہ دینی ہوگی۔ اِس کے علاوہ مجھے اَور زیادہ خاکسار بننا ہوگا۔ میرے لیے اپنی زندگی میں یہ تبدیلیاں لانا آسان نہیں تھا۔ لیکن یہوواہ کی مدد سے مَیں ایسا کر پایا۔ میری بیوی اِس بات سے بڑا متاثر ہوئی کہ مَیں کتنا بدل گیا ہوں۔ اُس نے مجھ سے پہلے گواہوں سے بائبل کورس کرنا شروع کِیا تھا مگر اب وہ اَور تیزی سے پاک کلام کی سچائیاں سیکھنے لگی۔ جلد ہی ہم دونوں اِس بات پر پوری طرح سے قائل ہو گئے کہ ہم یہوواہ کے گواہ بننا چاہتے ہیں۔ لہٰذا ہم نے اپنی زندگیاں یہوواہ کے لیے وقف کیں اور ہمارا بپتسمہ ایک ہی دن پر ہوا۔
میری زندگی سنور گئی:
ہمارے تین بچے ہیں جن کی ہم مدد کر رہے ہیں کہ وہ یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی مضبوط کر سکیں۔ ہمارا گھرانہ ایک خوشگوار گھرانہ ہے۔ مَیں یہوواہ کا بڑا شکرگزار ہوں کہ اُس نے مجھے اُن سچائیوں کی طرف کھینچ لیا جو اُس کے کلام بائبل میں لکھی ہیں۔ اُس کے کلام میں واقعی لوگوں کی زندگیاں بدلنے کی طاقت ہے۔ اور مَیں اِس کا جیتا جاگتا ثبوت ہوں۔
”اب مَیں خود سے گِھن نہیں کھاتی اور پھر سے جینے لگی ہوں“—وِکٹوریہ ٹونگ
پیدائش: 1957ء
پیدائش کا ملک: آسٹریلیا
ماضی: درد بھرا بچپن
میری سابقہ زندگی:
مَیں آسٹریلیا کی ریاست نیو ساؤتھ ویلز کے شہر نیو کیسل میں پلی بڑھی۔ ہم سات بہن بھائی تھے اور مَیں سب سے بڑی تھی۔ میرے ابو شرابی اور بہت پُرتشدد تھے۔ میری امی بھی بہت پُرتشدد تھیں۔ وہ نہ صرف مجھے مارا پیٹا کرتی تھیں بلکہ بہت بُرا بھلا بھی کہا کرتی تھیں۔ وہ مجھ سے اکثر یہ کہا کرتی تھیں کہ مَیں بہت بُری ہوں اور دوزخ کی آگ میں ہی جلوں گی۔ اُن کی ایسی باتوں کی وجہ سے مَیں خوفزدہ رہنے لگی۔
امی کے مارنے پیٹنے کی وجہ سے مجھے نشان پڑ جاتے تھے جس کی وجہ سے مَیں اکثر سکول نہیں جا پاتی تھی۔ جب مَیں 11 سال کی ہوئی تو امی ابو کے بُرے سلوک کی وجہ سے حکومت نے مجھے اُن سے لے لیا۔ حکومت نے پہلے مجھے ایک سرکاری اِدارے میں ڈالا اور پھر کونونٹ میں۔ جب مَیں 14 سال کی ہوئی تو مَیں کونونٹ سے بھاگ گئی۔ مَیں اپنے گھر واپس نہیں جانا چاہتی تھی اِس لیے مَیں سڑکوں پر رہنے لگی۔
مَیں منشیات لینے، شراب پینے، فحش مواد دیکھنے اور جسمفروشی کرنے لگی۔ ایک بار تو میرے ساتھ کچھ ایسا ہوا کہ مَیں بہت ہی ڈر گئی۔ مَیں ایک نائٹ کلب کے مالک کے فلیٹ میں رہ رہی تھی۔ ایک شام اُس نائٹ کلب کے مالک سے دو آدمی ملنے آئے جس پر اُس نے مجھے بیڈروم میں جانے کو کہا۔ مگر وہ آپس میں جو باتیں کر رہے تھے، مَیں اُنہیں سُن سکتی تھی۔ دراصل نائٹ کلب کا مالک مجھے اُن آدمیوں کے ہاتھ بیچنے کی بات کر رہا تھا۔ اُن آدمیوں کا اِرادہ تھا کہ وہ مجھے سامان والے ایک بحری جہاز میں چھپا کر جاپان بھیج دیں گے۔ اُن کی باتیں سُن کر مَیں بہت ڈر گئی۔ مَیں نے بالکونی سے چھلانگ لگائی اور مدد کے لیے بھاگنے لگی۔
تبھی میری ملاقات ایک آدمی سے ہوئی جو سڈنی آیا ہوا تھا۔ مَیں نے اُسے ساری بات بتائی۔ مَیں چاہتی تھی کہ وہ مجھے تھوڑے پیسے دے کر میری مدد کر دے۔ اُس نے مجھے اپنے ساتھ اُس جگہ چلنے کو کہا جہاں وہ رہ رہا تھا تاکہ مَیں نہا دھو کر کچھ کھا پی لوں۔ اِس کے بعد سے مَیں اُس کے ساتھ ہی رہنے لگی اور ایک سال بعد ہم نے شادی کر لی۔
پاک کلام کی تعلیم کا اثر:
جب مَیں یہوواہ کے گواہوں سے بائبل کورس کر رہی تھی تو جو کچھ مَیں سیکھ رہی تھی، اُس کی وجہ سے میرے اندر کئی طرح کے جذبات پیدا ہوئے۔ مثال کے طور پر جب مَیں نے سیکھا کہ بُرائی کے پیچھے شیطان کا ہاتھ ہے تو مجھے بہت ہی غصہ آیا۔ مجھے ہمیشہ سے یہ سکھایا گیا تھا کہ ہم پر آنے والی مصیبتوں کا ذمےدار خدا ہے۔ مجھے یہ جان کر بہت ہی سکون ملا کہ خدا لوگوں کو سزا دینے کے لیے اُنہیں دوزخ کی آگ میں نہیں تڑپاتا۔ یہ ایسی تعلیم تھی جس نے بچپن ہی سے مجھے بڑے خوف میں رکھا ہوا تھا۔
مَیں اِس بات سے بڑی متاثر ہوئی کہ یہوواہ کے گواہ اپنی زندگی کا ہر فیصلہ بائبل کے اصولوں کو ذہن میں رکھ کر کرتے ہیں۔ وہ پاک کلام میں لکھی باتوں پر صرف ایمان ہی نہیں رکھتے بلکہ اِس کے مطابق زندگی بھی گزارتے ہیں۔ مَیں ایک ایسی اِنسان تھی جسے کسی بات پر قائل کرنا اِتنا آسان نہیں تھا۔ لیکن چاہے مَیں جو کچھ بھی کہتی یا کرتی، گواہ میرے ساتھ ہمیشہ پیار اور عزت سے پیش آتے تھے۔
اپنے جن احساسات سے لڑنا مجھے سب سے زیادہ مشکل لگا، وہ یہ تھے کہ مَیں خود کو بہت کمتر خیال کرتی تھی اور خود سے نفرت کرتی تھی۔ یہ احساسات تو یہوواہ کی گواہ بننے کے بعد بھی کافی لمبے عرصے تک مجھے ستاتے رہے۔ مَیں جانتی تھی کہ مَیں تو یہوواہ خدا سے محبت کرتی ہوں۔ مگر مجھے یقین تھا کہ یہوواہ مجھ جیسی اِنسان سے کبھی محبت نہیں کر سکتا۔
البتہ بپتسمے کے تقریباً 15 سال بعد میری سوچ بدل گئی۔ دراصل ایک دن عبادت کے دوران ایک بھائی نے اپنی تقریر میں یعقوب 1:23، 24 کا حوالہ دیا۔ اِن آیتوں میں خدا کے کلام کو ایک شیشے کی طرح کہا گیا ہے جس میں ہم خود کو یہوواہ کی نظر سے دیکھ سکتے ہیں۔ مَیں سوچنے لگی کہ شاید یہوواہ مجھے اُس نظر سے نہیں دیکھتا جس نظر سے مَیں خود کو دیکھتی ہوں۔ لیکن پھر مجھے لگا کہ یہ سچ نہیں ہو سکتا۔ مجھے ابھی بھی لگتا تھا کہ مجھے یہوواہ سے یہ توقع نہیں کرنی چاہیے کہ وہ مجھ سے پیار کرے۔
کچھ دن بعد مَیں نے ایک ایسی آیت پڑھی جس نے میری زندگی بدل دی۔ یہ یسعیاہ 1:18 تھی جس میں یہوواہ نے کہا ہے: ”اب آؤ ہم مل کر غور کریں۔ حالانکہ تمہارے گُناہ قرمزی ہیں، وہ برف کی مانند سفید ہو جائیں گے۔“ (نیو اُردو بائبل ورشن) مجھے لگا جیسے یہوواہ مجھ سے بات کر رہا ہو اور کہہ رہا ہو کہ ”آؤ، وِکٹوریہ! ہم آپس میں معاملات کو حل کریں۔ مَیں تمہیں جانتا ہوں، مجھے پتہ ہے کہ تُم سے کون سے گُناہ ہوئے ہیں، مَیں تمہارے دل کو بھی جانتا ہوں اور مَیں تُم سے بہت پیار کرتا ہوں۔“
اُس رات مَیں سو نہیں پائی۔ مجھے ابھی بھی اِس بات پر شک تھا کہ یہوواہ مجھ سے پیار کرتا ہے۔ لیکن پھر مَیں یسوع مسیح کی قربانی کے بارے میں سوچنے لگی۔ اور اچانک مجھے احساس ہوا کہ یہوواہ اِتنے لمبے عرصے سے میرے ساتھ صبر سے پیش آ رہا ہے اور فرق فرق طریقوں سے میرے لیے محبت ظاہر کر رہا ہے۔ لیکن مَیں جیسے اُس سے کہہ رہی ہوں کہ ”تیری محبت اِتنی عظیم نہیں کہ میرے لائق ہو۔ تیرے بیٹے کی قربانی اِتنی بڑی نہیں کہ میرے گُناہوں کو ڈھانپ سکے۔“ یہ ایسے تھا جیسے مَیں یہوواہ سے کہہ رہی ہوں کہ مجھے فدیے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن فدیے کے بندوبست پر غور کرنے سے مجھے احساس ہو گیا کہ یہوواہ واقعی مجھ سے بہت پیار کرتا ہے۔
میری زندگی سنور گئی:
مَیں نے خود سے گِھن کھانا چھوڑ دی اور پھر سے جینے لگی۔ میری شادیشُدہ زندگی بہت اچھی ہو گئی ہے۔ مجھے اِس بات کی بڑی خوشی ہے کہ مَیں اپنے تجربے سے دوسروں کا حوصلہ بڑھا سکتی ہوں۔ اب مَیں خود کو یہوواہ کے اَور قریب محسوس کرنے لگی ہوں۔
”مجھے میری دُعا کا جواب مل گیا ہے“—سرگے بوتانِکن
پیدائش: 1974ء
پیدائش کا ملک: روس
ماضی: ہیوی میٹل موسیقی کا دیوانہ
میری سابقہ زندگی:
مَیں شہر ووتکسنک میں پیدا ہوا۔ ہم لوگ بہت غریب تھے۔ میرے ابو ایک اچھے اِنسان تھے لیکن اُن کے شرابی ہونے کی وجہ سے ہمارے گھر میں ہمیشہ بدمزگی رہتی تھی۔
مَیں پڑھائی لکھائی میں اِتنا اچھا نہیں تھا اور جیسے جیسے مَیں بڑا ہوا، مَیں احساسِکمتری کا شکار ہو گیا۔ مَیں دوسروں پر بھروسا نہیں کرتا تھا اور اُن سے کٹا کٹا رہتا تھا۔ سکول جانے کے نام سے ہی میرے پیسنے چُھوٹنے لگتے تھے۔ اور جب مجھے اپنے سکول میں کوئی رپورٹ پیش کرنی ہوتی تھی تو مَیں اکثر سادہ سی باتوں کو بھی سمجھا نہیں پاتا تھا۔ جب مَیں نے سکول ختم کِیا تو میری رپورٹ میں لکھا تھا: ”میرا ذخیرۂالفاظ محدود ہے اور مَیں اچھی طرح سے کوئی بات نہیں بتا پاتا۔“ مَیں پہلے ہی خود کو بہت کمتر سمجھتا تھا اور اِن الفاظ نے تو مجھے بالکل ہی توڑ دیا۔ مَیں یہ سوچنے لگا کہ میرے جینے کا فائدہ ہی کیا ہے۔
جب مَیں نوجوان ہی تھا تو مَیں نے شراب پینی شروع کر دی۔ شروع شروع میں تو شراب پی کر مجھے اچھا محسوس ہوتا تھا لیکن جب مَیں بہت زیادہ پی لیتا تھا تو میرا ضمیر مجھے کوسنے لگتا تھا۔ مجھے اپنی زندگی بالکل بےمعنی لگنے لگی۔ مَیں ڈپریشن میں چلا گیا۔ اور کئی کئی دنوں تک تو مَیں اپنے گھر سے باہر ہی نہیں نکلتا تھا۔ مَیں تو خودکُشی کرنے کا سوچنے لگا۔
20 سال کی عمر میں مَیں ہیوی میٹل موسیقی کا دیوانہ ہو گیا۔ اِسے سنتے ہی مجھ پر جنون سا طاری ہو جاتا تھا۔ مَیں تو ایسے لوگوں کو تلاش کرتا تھا جو میری طرح اِسے سننے کا شوق رکھتے تھے۔ مَیں نے اپنے بال بڑھا لیے، اپنے کان چھدوا لیے اور اُن موسیقاروں جیسے کپڑے پہننے لگا جنہیں مَیں بہت پسند کرتا تھا۔ آہستہ آہستہ مَیں غصیلا بن گیا اور اکثر اپنے دوستوں اور رشتےداروں سے جھگڑنے لگا۔
مجھے لگتا تھا کہ ہیوی میٹل موسیقی کو سُن کر مجھے خوشی ملے گی۔ لیکن مجھ پر تو اُلٹا ہی اثر ہو رہا تھا۔ مَیں تو بالکل ایک الگ ہی اِنسان بنتا جا رہا تھا۔ اور جب مَیں نے اُن موسیقاروں کے بارے میں کچھ بُری باتیں سنیں جنہیں مَیں بہت پسند کِیا کرتا تھا تو مجھے ایسے لگا جیسے مجھے دھوکا دیا گیا ہو۔
مَیں ایک بار پھر اپنی جان لینے کے بارے میں سوچنے لگا اور اِس بار مَیں واقعی ایسا کرنا چاہتا تھا۔ لیکن پھر مَیں نے یہ سوچ کر خود کو روک لیا کہ میری امی یہ صدمہ برداشت نہیں کر پائیں گی۔ وہ مجھ سے بہت پیار کرتی تھیں اور اُنہوں نے میرے لیے بہت کچھ کِیا تھا۔ یہ سب میرے لیے بڑا ہی تکلیفدہ تھا۔ مَیں نہ تو جینا چاہتا تھا اور نہ ہی اپنی زندگی ختم کر سکتا تھا۔
اپنے ذہن سے اِن خیالوں کو نکالنے کے لیے مَیں نے روسی زبان کا ادب پڑھنا شروع کر دیا۔ ایک کتاب میں ایک ایسے ہیرو کی کہانی بتائی گئی تھی جو چرچ میں خدمت کِیا کرتا تھا۔ اچانک سے میرے دل میں بھی یہ شدید خواہش پیدا ہوئی کہ مَیں خدا اور دوسروں کے لیے کچھ کروں۔ مَیں نے دل کھول کر خدا سے دُعا کی جو کہ پہلے مَیں نے کبھی نہیں کِیا تھا۔ مَیں نے خدا سے اِلتجا کی کہ وہ مجھے میری زندگی کا مقصد بتا دے۔ دُعا کرنے سے میرے دل پر عجیب سا اِطمینان طاری ہونے لگا۔ اِس سے بھی حیرت کی بات تو کچھ دیر بعد ہوئی۔ دُعا کرنے کے دو گھنٹے بعد یہوواہ کے گواہوں نے میرا دروازہ کھٹکھٹایا اور مجھے بائبل کورس کی پیشکش کی۔ مجھے یقین ہو گیا کہ مجھے میری دُعا کا جواب مل گیا ہے۔ یوں میری نئی اور خوشیوں بھری زندگی کی شروعات ہوئی۔
پاک کلام کی تعلیم کا اثر:
حالانکہ میرے لیے ہیوی میٹل موسیقی سے تعلق رکھنے والی چیزوں کو پھینک دینا آسان نہیں تھا مگر مَیں نے پھر بھی ایسا کِیا۔ البتہ یہ موسیقی کافی لمبے عرصے تک میرے دماغ پر چھائی رہی۔ جب بھی مَیں کسی ایسے راستے پر چل رہا ہوتا تھا جہاں یہ موسیقی چل رہی ہوتی تھی تو مجھے فوراً اپنا ماضی یاد آ جاتا تھا۔ مَیں اُن بُری یادوں کو اُن اچھی باتوں کے بیچ نہیں آنے دینا چاہتا تھا جو اب میرے دل میں جگہ بنا رہی تھیں۔ لہٰذا مَیں ایسی جگہوں پر جانے سے ہی گریز کرنے لگا۔ اور جب بھی میرے ذہن میں ماضی کی کوئی بات آ جاتی تھی تو مَیں شدت سے دُعا کرتا تھا۔ یوں مجھے خدا کی طرف سے ایسا اِطمینان ملتا تھا ”جو سمجھ سے باہر ہے۔“—فِلپّیوں 4:7۔
جیسے جیسے مَیں پاک کلام کی تعلیم حاصل کرتا گیا، مَیں نے سیکھا کہ ایک مسیحی کا یہ فرض ہے کہ جو باتیں اُس نے سیکھی ہیں، اُنہیں وہ دوسروں کو بھی بتائے۔ (متی 28:19، 20) مجھے لگتا تھا کہ مَیں ایسا کبھی نہیں کر پاؤں گا۔ مگر جو باتیں مَیں سیکھ رہا تھا، اُن سے مجھے بہت زیادہ خوشی اور دلی سکون مل رہا تھا۔ مَیں یہ جانتا تھا کہ دوسروں کو بھی اِن سچائیوں کو جاننے کی ضرورت ہے۔ حالانکہ مجھے دوسروں کے ساتھ بات کرنے میں گھبراہٹ محسوس ہوتی تھی مگر مَیں پھر بھی اُنہیں وہ باتیں بتانے لگا جو مَیں سیکھ رہا تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت ہی حیرت ہوئی کہ دوسروں کو پاک کلام کی سچائیاں بتانے سے میرے اندر کتنا اِعتماد پیدا ہوا ہے اور اِن نئی سچائیوں پر میرا اپنا ایمان بھی کتنا مضبوط ہوا ہے۔
میری زندگی سنور گئی:
آج مَیں اپنی بیوی کے ساتھ خوشیوں بھری زندگی گزار رہا ہوں اور مجھے کچھ لوگوں کو پاک کلام کی سچائیاں سکھا کر بڑی خوشی ملی ہے جن میں میری بہن اور امی بھی شامل ہیں۔ یہوواہ خدا کی خدمت کرنے اور دوسروں کو اُس کے بارے میں بتانے سے میری زندگی کو ایک مقصد ملا ہے۔