مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

باب نمبر 17

دُعا—‏ایک بہت بڑا اعزاز

دُعا—‏ایک بہت بڑا اعزاز

‏”‏آسمان اور زمین“‏ کا خالق ہماری دُعاؤں کو سننا چاہتا ہے۔‏—‏زبور 115:‏15‏۔‏

1،‏ 2.‏ (‏الف)‏ آپ کے خیال میں دُعا ایک قیمتی تحفہ کیوں ہے؟‏ (‏ب)‏ ہمیں یہ جاننے کی ضرورت کیوں ہے کہ پاک کلام میں دُعا کے بارے میں کیا بتایا گیا ہے؟‏

کائنات کے مقابلے میں زمین بہت چھوٹی سی ہے۔‏ جب یہوواہ خدا زمین پر دیکھتا ہے تو اُسے تمام اِنسان ایسے ہی لگتے ہیں جیسے بالٹی میں سے پانی کی ایک بوند۔‏ (‏زبور 115:‏15؛‏ یسعیاہ 40:‏15‏)‏ اگرچہ ہم کائنات کے مقابلے میں بہت ہی چھوٹے ہیں تو بھی زبور 145:‏18،‏ 19 میں لکھا ہے:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ اُن سب کے قریب ہے جو اُس سے دُعا کرتے ہیں۔‏ یعنی اُن سب کے جو سچائی سے دُعا کرتے ہیں۔‏ جو اُس سے ڈرتے ہیں وہ اُن کی مُراد پوری کرے گا۔‏ وہ اُن کی فریاد سنے گا اور اُن کو بچا لے گا۔‏“‏ ذرا سوچیں کہ یہ کتنا بڑا اعزاز ہے کہ پوری کائنات کا خالق یہوواہ خدا ہمارے قریب آنا چاہتا ہے اور ہماری دُعاؤں کو سننا چاہتا ہے۔‏ بِلاشُبہ دُعا ایک قیمتی تحفہ ہے جو یہوواہ خدا نے ہم میں سے ہر ایک کو دیا ہے۔‏

2 لیکن یہوواہ خدا اُسی صورت میں ہماری دُعا سنے گا اگر ہم اُس کی مرضی کے مطابق دُعا کریں گے۔‏ ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ پاک کلام میں دُعا کے بارے میں کیا بتایا گیا ہے۔‏

ہمیں یہوواہ خدا سے دُعا کیوں کرنی چاہیے؟‏

3.‏ آپ کو یہوواہ خدا سے دُعا کیوں کرنی چاہیے؟‏

3 یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ آپ اُس سے دُعا کریں اور اُس سے بات کریں۔‏ ہم یہ کیسے جانتے ہیں؟‏ فِلپّیوں 4:‏6،‏ 7 کو پڑھیں۔‏ ذرا اِن آیتوں کے الفاظ پر غور کریں۔‏ پوری کائنات کا حاکم یہوواہ خدا آپ سے بہت پیار کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ آپ اُسے اپنے احساسات اور مشکلات کے بارے میں بتائیں۔‏

4.‏ جب ہم باقاعدگی سے یہوواہ خدا سے دُعا کرتے ہیں تو اُس کے ساتھ ہماری دوستی گہری کیوں ہو جاتی ہے؟‏

4 یہوواہ خدا سے دُعا کرنے سے اُس کے ساتھ ہماری دوستی مضبوط ہوتی ہے۔‏ جب دوست باقاعدگی سے ایک دوسرے کو اپنے خیالات،‏ احساسات اور پریشانیوں کے بارے میں بتاتے ہیں تو اُن کی دوستی مضبوط ہوتی ہے۔‏ اِسی طرح جب ہم باقاعدگی سے یہوواہ خدا سے دُعا کرتے ہیں اور اُسے اپنے احساسات کے بارے میں بتاتے ہیں تو اُس کے ساتھ ہماری دوستی گہری ہو جاتی ہے۔‏ یہوواہ خدا بائبل کے ذریعے ہمیں اپنے خیالات اور احساسات سے آگاہ کرتا ہے اور یہ بھی بتاتا ہے کہ وہ مستقبل میں کیا کرے گا۔‏ آپ یہوواہ خدا کو اپنے دل کی باتیں بھی بتا سکتے ہیں۔‏ اِس طرح اُس کے ساتھ آپ کی دوستی اَور گہری ہو جائے گی۔‏—‏یعقوب 4:‏8‏۔‏

ہمیں کیا کرنا چاہیے تاکہ یہوواہ خدا ہماری دُعا سنے؟‏

5.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ یہوواہ خدا تمام دُعاؤں کو نہیں سنتا؟‏

5 کیا یہوواہ خدا تمام دُعاؤں کو سنتا ہے؟‏ جی نہیں۔‏ یسعیاہ نبی کے زمانے میں یہوواہ خدا نے بنی‌اِسرائیل سے کہا:‏ ”‏جب تُم دُعا پر دُعا کرو گے تو مَیں نہ سنوں گا۔‏ تمہارے ہاتھ تو خون‌آلودہ ہیں۔‏“‏ ‏(‏یسعیاہ 1:‏15‏)‏ لہٰذا اگر ہم محتاط نہیں رہتے تو شاید ہم کوئی ایسا کام کر بیٹھیں جو ہمیں یہوواہ خدا سے دُور لے جائے اور پھر وہ ہماری دُعائیں نہ سنے۔‏

6.‏ (‏الف)‏ ایمان رکھنا کیوں ضروری ہے؟‏ (‏ب)‏ آپ اپنے ایمان کا ثبوت کیسے دے سکتے ہیں؟‏

6 اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہماری دُعاؤں کو سنے تو ہمیں اُس پر ایمان رکھنا چاہیے۔‏ (‏مرقس 11:‏24‏)‏ پولُس رسول نے لکھا:‏ ”‏ایمان کے بغیر خدا کو خوش کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ جو شخص خدا کی عبادت کرتا ہے،‏ اُس کو ایمان رکھنا ہوگا کہ وہ ہے اور اُن سب کو اجر دے گا جو لگن سے اُس کی خدمت کرتے ہیں۔‏“‏ (‏عبرانیوں 11:‏6‏)‏ لیکن صرف یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ ہم ایمان رکھتے ہیں۔‏ ہمیں ہر روز یہوواہ خدا کے حکموں پر عمل بھی کرنا چاہیے اور یوں اپنے ایمان کا ثبوت دینا چاہیے۔‏‏—‏یعقوب 2:‏26 کو پڑھیں۔‏

7.‏ (‏الف)‏ ہمیں یہوواہ خدا سے خاکساری اور احترام کے ساتھ دُعا کیوں کرنی چاہیے؟‏ (‏ب)‏ یہ کیسے ظاہر ہوگا کہ ہم دل سے یہوواہ خدا سے دُعا کرتے ہیں؟‏

7 ہمیں یہوواہ خدا سے خاکساری اور احترام کے ساتھ دُعا کرنی چاہیے۔‏ ذرا سوچیں کہ اگر آپ کو کسی بادشاہ یا صدر سے بات کرنے کا موقع ملے تو آپ اُس سے کس طرح بات کریں گے۔‏ یقیناً آپ بڑے احترام سے اُس سے بات کریں گے۔‏ یہوواہ خدا تو ساری کائنات کا مالک ہے۔‏ اُس سے تو ہمیں اَور بھی زیادہ احترام اور خاکساری سے بات کرنی چاہیے۔‏ (‏پیدایش 17:‏1؛‏ زبور 138:‏6‏)‏ اِس کے علاوہ ہمیں پورے دل سے یہوواہ خدا سے دُعا کرنی چاہیے اور بار بار ایک جیسے الفاظ نہیں دُہرانے چاہئیں۔‏—‏متی 6:‏7،‏ 8‏۔‏

8.‏ جب ہم یہوواہ خدا سے کسی چیز کے بارے میں دُعا کرتے ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‏

8 جب ہم یہوواہ خدا سے کسی بات کے بارے میں دُعا کرتے ہیں تو ہمیں اپنی دُعا کے مطابق عمل کرنے کی پوری کوشش بھی کرنی چاہیے۔‏ مثال کے طور پر اگر ہم یہوواہ خدا سے اپنی روزمرہ ضرورتوں کے بارے میں دُعا کرتے ہیں تو ہمیں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھنا چاہیے اور نہ ہی یہ سوچنا چاہیے کہ یہوواہ خدا ہماری سب ضرورتوں کو پورا کرے گا۔‏ اِس کی بجائے ہمیں محنت کرنی چاہیے اور جو بھی کام ملے،‏ اُسے کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔‏ (‏متی 6:‏11؛‏ 2-‏تھسلُنیکیوں 3:‏10‏)‏ یا اگر ہم یہوواہ خدا سے دُعا کرتے ہیں کہ وہ کسی غلط کام کو چھوڑنے میں ہماری مدد کرے تو ہمیں ہر ایسی صورتحال سے گریز کرنا چاہیے جس میں ہم وہ کام کرنے کے خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔‏ (‏کُلسّیوں 3:‏5‏)‏ آئیں،‏ اب دُعا کے سلسلے میں کچھ سوالوں پر غور کریں۔‏

دُعا کے بارے میں کچھ سوال

9.‏ (‏الف)‏ ہمیں کس سے دُعا کرنی چاہیے؟‏ (‏ب)‏ یوحنا 14:‏6 سے ہم دُعا کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں؟‏

9 ہمیں کس سے دُعا کرنی چاہیے؟‏ یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کو سکھایا کہ وہ ”‏آسمانی باپ“‏ سے دُعا کریں۔‏ (‏متی 6:‏9‏)‏ اُنہوں نے یہ بھی کہا:‏ ”‏مَیں راستہ اور سچائی اور زندگی ہوں۔‏ لوگ صرف اور صرف میرے ذریعے باپ کے پاس جا سکتے ہیں۔‏“‏ (‏یوحنا 14:‏6‏)‏ لہٰذا ہمیں صرف یہوواہ خدا سے دُعا کرنی چاہیے اور یسوع مسیح کے ذریعے کرنی چاہیے۔‏ یسوع مسیح کے ذریعے دُعا کرنے کا کیا مطلب ہے؟‏ اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہماری دُعاؤں کو قبول کرے تو ہمیں اُس خاص مرتبے کا احترام کرنا ہوگا جو یہوواہ خدا نے یسوع مسیح کو دیا ہے۔‏ ہم نے سیکھا ہے کہ یسوع مسیح ہمیں گُناہ اور موت سے چھٹکارا دِلانے کے لیے زمین پر آئے۔‏ (‏یوحنا 3:‏16؛‏ رومیوں 5:‏12‏)‏ یہوواہ خدا نے اُنہیں کاہنِ‌اعظم اور منصف بھی مقرر کِیا ہے۔‏—‏یوحنا 5:‏22؛‏ عبرانیوں 6:‏20‏۔‏

آپ کسی بھی وقت یہوواہ خدا سے دُعا کر سکتے ہیں۔‏

10.‏ کیا ہمیں دُعا کرتے وقت کوئی خاص انداز اپنانا چاہیے؟‏ وضاحت کریں۔‏

10 کیا ہمیں دُعا کرتے وقت کوئی خاص انداز اپنانا چاہیے؟‏ جی نہیں۔‏ یہوواہ خدا نے اِس سلسلے میں کوئی خاص حکم نہیں دیا۔‏ مثال کے طور پر اُس نے یہ نہیں کہا کہ ہمیں گھٹنے ٹیک کر،‏ بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر دُعا کرنی چاہیے۔‏ پاک کلام کے مطابق ہم کسی بھی مہذب انداز میں یہوواہ خدا سے بات کر سکتے ہیں۔‏ (‏1-‏تواریخ 17:‏16؛‏ نحمیاہ 8:‏6؛‏ دانی‌ایل 6:‏10؛‏ مرقس 11:‏25‏)‏ یہوواہ خدا کی نظر میں یہ اہم نہیں کہ ہم کس انداز میں اُس سے دُعا کرتے ہیں بلکہ یہ اہم ہے کہ ہم کس نیت سے دُعا کرتے ہیں۔‏ ہم کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت اُونچی آواز میں یا دل میں خدا سے دُعا کر سکتے ہیں۔‏ جب ہم یہوواہ خدا سے دُعا کرتے ہیں تو ہم پورا یقین رکھ سکتے ہیں کہ وہ اُس وقت بھی ہماری بات سنتا ہے جب کوئی اَور نہیں سُن رہا ہوتا۔‏—‏نحمیاہ 2:‏1-‏6‏۔‏

11.‏ ہم یہوواہ خدا سے کن باتوں کے بارے میں دُعا کر سکتے ہیں؟‏

11 ہم کن باتوں کے بارے میں دُعا کر سکتے ہیں؟‏ ہم کسی بھی ایسی بات کے بارے میں دُعا کر سکتے ہیں جو یہوواہ خدا کی مرضی کے مطابق ہو۔‏ پاک کلام میں لکھا ہے:‏ ”‏ہم اُس کی مرضی کے مطابق جو کچھ مانگیں گے،‏ وہ ہماری سنے گا۔‏“‏ (‏1-‏یوحنا 5:‏14‏)‏ کیا ہم ذاتی معاملوں کے بارے میں بھی دُعا کر سکتے ہیں؟‏ جی ہاں۔‏ یہوواہ خدا سے دُعا کرنا ایسے ہی ہے جیسے کسی قریبی دوست سے بات کرنا۔‏ ہم یہوواہ خدا کو اپنے دل کی ہر بات بتا سکتے ہیں۔‏ (‏زبور 62:‏8‏)‏ ہم اُس سے دُعا کر سکتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنی پاک روح دے تاکہ ہم صحیح کام کر سکیں۔‏ (‏لُوقا 11:‏13‏)‏ ہم اُس سے دانش‌مندی بھی مانگ سکتے ہیں تاکہ ہم صحیح فیصلے کر سکیں۔‏ اِس کے علاوہ ہم مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے اُس سے طاقت مانگ سکتے ہیں۔‏ (‏یعقوب 1:‏5‏)‏ ہمیں یہوواہ خدا سے اپنے گُناہوں کی معافی بھی مانگنی چاہیے۔‏ (‏اِفسیوں 1:‏3،‏ 7‏)‏ ہمیں دوسروں کے لیے بھی دُعا کرنی چاہیے جیسے کہ اپنے گھر والوں اور کلیسیا کے ارکان کے لیے۔‏—‏اعمال 12:‏5؛‏ کُلسّیوں 4:‏12‏۔‏

12.‏ ہمیں اپنی دُعاؤں میں سب سے زیادہ اہمیت کسے دینی چاہیے؟‏

12 ہمیں اپنی دُعاؤں میں سب سے زیادہ اہمیت کسے دینی چاہیے؟‏ یہوواہ خدا اور اُس کی مرضی کو۔‏ ہمیں اُن تمام کاموں کے لیے دل سے یہوواہ خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے جو اُس نے ہمارے لیے کیے ہیں۔‏ (‏1-‏تواریخ 29:‏10-‏13‏)‏ جب یسوع مسیح زمین پر تھے تو اُنہوں نے اپنے شاگردوں کو سکھایا کہ اُنہیں کیسے دُعا کرنی چاہیے۔‏ ‏(‏متی 6:‏9-‏13 کو پڑھیں۔‏)‏ اُنہوں نے کہا کہ ہمیں سب سے پہلے اِس بات کے بارے میں دُعا کرنی چاہیے کہ خدا کا نام پاک مانا جائے۔‏ پھر اُنہوں نے کہا کہ ہمیں یہ دُعا کرنی چاہیے کہ خدا کی بادشاہت آئے اور زمین پر اُس کی مرضی ہو۔‏ یسوع مسیح نے کہا کہ اِن اہم باتوں کے متعلق دُعا کرنے کے بعد ہمیں اپنی ضرورتوں کے بارے میں دُعا کرنی چاہیے۔‏ جب ہم اپنی دُعاؤں میں یہوواہ خدا اور اُس کی مرضی کو ترجیح دیتے ہیں تو ہم یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارے لیے کیا اہم ہے۔‏

13.‏ ہماری دُعائیں کتنی لمبی ہونی چاہئیں؟‏

13 ہماری دُعائیں کتنی لمبی ہونی چاہئیں؟‏ پاک کلام میں اِس سلسلے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔‏ ہماری دُعائیں صورتحال کے مطابق چھوٹی یا لمبی ہو سکتی ہیں۔‏ مثال کے طور پر ہم کھانا کھانے سے پہلے چھوٹی سی دُعا کر سکتے ہیں جبکہ یہوواہ خدا کا شکر ادا کرتے وقت یا اُسے اپنی پریشانیوں کے بارے میں بتاتے وقت ہم لمبی دُعا کر سکتے ہیں۔‏ (‏1-‏سموئیل 1:‏12،‏ 15‏)‏ ہم دوسروں کو متاثر کرنے کے لیے لمبی لمبی دُعائیں نہیں کرتے جیسے یسوع مسیح کے زمانے کے کچھ لوگ کِیا کرتے تھے۔‏ (‏لُوقا 20:‏46،‏ 47‏)‏ یہوواہ خدا ایسی دُعاؤں سے خوش نہیں ہوتا۔‏ اُس کے نزدیک یہ اہم ہے کہ ہم دل سے دُعا کریں۔‏

14.‏ (‏الف)‏ ہمیں کتنی بار دُعا کرنی چاہیے؟‏ (‏ب)‏ اِس سے ہم یہوواہ خدا کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں؟‏

14 ہمیں کتنی بار دُعا کرنی چاہیے؟‏ یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ ہم باقاعدگی سے اُس سے بات کریں۔‏ پاک کلام میں لکھا ہے کہ ”‏دُعا کرتے رہیں،‏“‏ ”‏دُعا کرنے میں لگے رہیں“‏ اور ”‏ہر وقت دُعا کریں۔‏“‏ (‏متی 26:‏41؛‏ رومیوں 12:‏12؛‏ 1-‏تھسلُنیکیوں 5:‏17‏)‏ یہوواہ خدا ہماری دُعاؤں کو سننے کے لیے ہمیشہ تیار ہے۔‏ ہم ہر روز اُس کی محبت اور فراخ‌دلی کے لیے اُس کا شکر ادا کر سکتے ہیں۔‏ ہم اُس سے یہ درخواست بھی کر سکتے ہیں کہ وہ ہمیں رہنمائی،‏ طاقت اور تسلی دے۔‏ اگر ہم دُعا کرنے کے اعزاز کی قدر کرتے ہیں تو ہم ہر موقعے پر یہوواہ خدا سے دُعا کریں گے۔‏

15.‏ ہمیں دُعا کے آخر پر ”‏آمین“‏ کیوں کہنا چاہیے؟‏

15 ہمیں دُعا کے آخر پر ”‏آمین“‏ کیوں کہنا چاہیے؟‏ لفظ ”‏آمین“‏ کا مطلب ہے:‏ ”‏یقیناً“‏ یا ”‏ایسا ہی ہو۔‏“‏ آمین کہنے سے ہم ظاہر کرتے ہیں کہ ہم نے دُعا میں جو کچھ بھی کہا ہے،‏ دل سے کہا ہے۔‏ (‏زبور 41:‏13‏)‏ پاک کلام کے مطابق ہم اُس وقت بھی دل میں یا اُونچی آواز میں ”‏آمین“‏ کہہ سکتے ہیں جب کوئی اَور دُعا کرتا ہے۔‏ اِس طرح ہم ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم اُس کی دُعا سے متفق ہیں۔‏—‏1-‏تواریخ 16:‏36؛‏ 1-‏کُرنتھیوں 14:‏16‏۔‏

خدا ہماری دُعاؤں کا جواب کیسے دیتا ہے؟‏

16.‏ کیا یہوواہ خدا واقعی ہماری دُعاؤں کو سنتا ہے؟‏ وضاحت کریں۔‏

16 کیا یہوواہ خدا واقعی ہماری دُعاؤں کو سنتا ہے؟‏ جی ہاں۔‏ پاک کلام میں اُسے ’‏دُعا کا سننے والا‘‏ کہا گیا ہے۔‏ (‏زبور 65:‏2‏)‏ یہوواہ خدا اُن لاکھوں لوگوں کی دُعائیں سنتا ہے جو دل سے اُس سے دُعا کرتے ہیں اور وہ فرق فرق طریقے سے اِن دُعاؤں کا جواب بھی دیتا ہے۔‏

17.‏ یہوواہ خدا اپنے فرشتوں اور اپنے بندوں کے ذریعے ہماری دُعاؤں کا جواب کیسے دیتا ہے؟‏

17 یہوواہ خدا اپنے فرشتوں اور اپنے بندوں کے ذریعے ہماری دُعاؤں کا جواب دیتا ہے۔‏ (‏عبرانیوں 1:‏13،‏ 14‏)‏ مثال کے طور پر کئی بار ایسا ہوا ہے کہ کسی شخص نے پاک کلام کو سمجھنے کے لیے خدا سے دُعا کی اور اِس کے کچھ ہی دیر بعد یہوواہ کے گواہ اُس سے ملنے گئے۔‏ پاک کلام سے پتہ چلتا ہے کہ فرشتے پوری دُنیا میں ”‏خوش‌خبری“‏ پھیلانے کے کام میں حصہ لیتے ہیں۔‏ ‏(‏مکاشفہ 14:‏6 کو پڑھیں۔‏)‏ اِس کے علاوہ ہم میں سے زیادہ‌تر نے دیکھا ہے کہ جب ہم نے اپنی کسی پریشانی یا کسی ضرورت کے بارے میں یہوواہ خدا سے دُعا کی تو اُس نے کلیسیا کے کسی بھائی یا بہن کے ذریعے ہماری مدد کی۔‏—‏امثال 12:‏25؛‏ یعقوب 2:‏16‏۔‏

یہوواہ خدا کلیسیا کے بہن بھائیوں کے ذریعے ہماری دُعاؤں کا جواب دے سکتا ہے۔‏

18.‏ یہوواہ خدا پاک روح اور پاک کلام کے ذریعے ہماری دُعاؤں کا جواب کیسے دیتا ہے؟‏

18 یہوواہ خدا اپنی پاک روح کے ذریعے بھی ہماری دُعاؤں کا جواب دیتا ہے۔‏ جب ہم کسی مشکل سے نمٹنے کے لیے یہوواہ خدا سے دُعا کرتے ہیں تو وہ اپنی پاک روح کے ذریعے ہماری رہنمائی کر سکتا ہے اور ہمیں طاقت دے سکتا ہے۔‏ (‏2-‏کُرنتھیوں 4:‏7‏)‏ یہوواہ خدا اپنے کلام کے ذریعے بھی ہماری دُعاؤں کا جواب دیتا ہے اور صحیح فیصلے کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔‏ پاک کلام کو پڑھتے وقت ہمیں ایسی آیتیں مل سکتی ہیں جو ہمارے کام آ سکتی ہیں۔‏ یہوواہ خدا کسی بہن یا بھائی کو بھی یہ ترغیب دے سکتا ہے کہ وہ اِجلاس پر کوئی ایسا جواب دے جو ہماری صورتحال کے مطابق ہو۔‏ اِس کے علاوہ وہ کلیسیا کے کسی بزرگ کو بھی یہ ترغیب دے سکتا ہے کہ وہ پاک کلام کی آیتوں کے ذریعے ہماری حوصلہ‌افزائی کرے۔‏—‏گلتیوں 6:‏1‏۔‏

19.‏ ہمیں ایسا کیوں لگ سکتا ہے کہ یہوواہ خدا نے اب تک ہماری دُعاؤں کا جواب نہیں دیا؟‏

19 کبھی کبھار شاید ہم سوچیں:‏ ”‏یہوواہ خدا نے اب تک میری دُعاؤں کا جواب کیوں نہیں دیا؟‏“‏ یاد رکھیں کہ یہوواہ خدا کو پتہ ہے کہ اُس نے کب اور کیسے ہماری دُعاؤں کا جواب دینا ہے۔‏ وہ جانتا ہے کہ ہمیں کس چیز کی ضرورت ہے۔‏ شاید ہمیں کسی معاملے کے بارے میں کئی بار دُعا کرنی پڑے تاکہ ہم یہ ظاہر کر سکیں کہ ہم سچے دل سے دُعا کر رہے ہیں اور ہم یہوواہ خدا پر مضبوط ایمان رکھتے ہیں۔‏ (‏لُوقا 11:‏5-‏10‏)‏ کبھی کبھار یہوواہ خدا کسی ایسے طریقے سے ہماری دُعاؤں کا جواب دیتا ہے جس کی ہمیں توقع بھی نہیں ہوتی۔‏ مثال کے طور پر شاید ہم کسی مشکل کے بارے میں یہوواہ خدا سے دُعا کریں لیکن وہ اِس مشکل کو دُور کرنے کی بجائے ہمیں اِسے برداشت کرنے کی طاقت دے۔‏‏—‏فِلپّیوں 4:‏13 کو پڑھیں۔‏

20.‏ ہمیں یہوواہ خدا سے بار بار دُعا کیوں کرنی چاہیے؟‏

20 بِلاشُبہ یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے کہ ہم یہوواہ خدا سے دُعا کر سکتے ہیں۔‏ ہم اِس بات پر پورا یقین رکھ سکتے ہیں کہ وہ ہماری دُعاؤں کو سنے گا۔‏ (‏زبور 145:‏18‏)‏ ہم یہوواہ خدا سے جتنی زیادہ دُعا کریں گے،‏ اُس کے ساتھ ہماری دوستی اُتنی زیادہ مضبوط ہوگی۔‏