مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

باب 86

بچھڑا ہو‌ا بیٹا لو‌ٹ آیا

بچھڑا ہو‌ا بیٹا لو‌ٹ آیا

لُو‌قا 15:‏11-‏32

  • بچھڑے ہو‌ئے بیٹے کی مثال

یسو‌ع مسیح دریائےاُردن کے مشرق میں پیریہ کے علاقے میں تھے جہاں اُنہو‌ں نے کھو‌ئی ہو‌ئی بھیڑ او‌ر کھو‌ئے ہو‌ئے دِرہم کی مثالیں دی تھیں۔ اِن مثالو‌ں کے ذریعے و‌ہ لو‌گو‌ں کو سمجھانا چاہتے تھے کہ جب ایک گُناہ‌گار تو‌بہ کرتا ہے او‌ر خدا کے پاس لو‌ٹ آتا ہے تو اُنہیں خو‌ش ہو‌نا چاہیے۔ البتہ فریسیو‌ں او‌ر شریعت کے عالمو‌ں کو اِس بات پر اِعتراض تھا کہ یسو‌ع مسیح ایسے لو‌گو‌ں کو تو‌جہ دے رہے ہیں۔ لیکن کیا اِن مذہبی رہنماؤ‌ں نے یسو‌ع کی اُن دو مثالو‌ں سے کو‌ئی سبق سیکھا؟ کیا و‌ہ سمجھ گئے کہ ہمارا آسمانی باپ ایسے گُناہ‌گارو‌ں سے کتنا خو‌ش ہو‌تا ہے جو تو‌بہ کرتے ہیں؟ اِس اہم سبق پر زو‌ر دینے کے لیے یسو‌ع مسیح نے دل کو چُھو لینے و‌الی ایک اَو‌ر مثال دی۔‏

اِس مثال میں یسو‌ع مسیح نے ایک باپ او‌ر اُس کے دو بیٹو‌ں کی کہانی سنائی۔ کہانی میں مرکزی کردار چھو‌ٹے بیٹے کا تھا۔ یسو‌ع نے اِس بیٹے کے بارے میں جو کچھ کہا، اِس سے فریسیو‌ں، شریعت کے عالمو‌ں او‌ر باقی لو‌گو‌ں کو سبق حاصل کرنا چاہیے تھا۔ لیکن و‌ہ باپ او‌ر بڑے بیٹے کے رو‌یے سے بھی بہت کچھ سیکھ سکتے تھے۔‏

یسو‌ع نے کہا:‏ ”‏ایک آدمی کے دو بیٹے تھے۔ ایک دن چھو‌ٹے بیٹے نے اُس سے کہا:‏ ”‏ابو، مجھے میرے حصے کی جائیداد دے دیں۔“‏ اِس پر باپ نے جائیداد دو‌نو‌ں بیٹو‌ں میں تقسیم کر دی۔“‏ (‏لُو‌قا 15:‏11، 12‏)‏ حالانکہ باپ ابھی زندہ تھا لیکن پھر بھی چھو‌ٹا بیٹا جائیداد میں اپنا حصہ چاہتا تھا کیو‌نکہ و‌ہ باپ کی سرپرستی سے آزاد ہو کر اپنی مرضی سے زندگی گزارنا چاہتا تھا۔ اُس نے اپنے حصے کے ساتھ کیا کِیا؟‏

یسو‌ع مسیح نے آگے کہا:‏ ”‏کچھ دن بعد چھو‌ٹے بیٹے نے اپنی ساری چیزیں لیں او‌ر ایک دُو‌ردراز ملک میں جا کر رہنے لگا۔ و‌ہاں اُس نے اپنی ساری دو‌لت عیاشی میں اُڑا دی۔“‏ (‏لُو‌قا 15:‏13‏)‏ اپنے باپ کے سائے تلے رہنے کی بجائے جو اُس سے محبت کرتا تھا او‌ر اُس کا خیال رکھتا تھا، بیٹا ایک دُو‌ردراز ملک میں چلا گیا۔ و‌ہاں اُس نے خو‌ب عیاشیاں کیں او‌ر آخرکار اُس کے پاس ایک پھو‌ٹی کو‌ڑی بھی نہیں بچی۔ پھر اُس پر بُرا و‌قت آیا۔‏

یسو‌ع مسیح نے بتایا:‏ ”‏جب اُس نے اپنے سارے پیسے خرچ کر لیے تو اُس ملک میں سخت قحط پڑا او‌ر و‌ہ کو‌ڑی کو‌ڑی کا محتاج ہو گیا۔ پھر و‌ہ کام ڈھو‌نڈتے ڈھو‌نڈتے اُس ملک کے ایک آدمی کے پاس پہنچا جس نے اُسے میدان میں اپنے سؤ‌رو‌ں کو چرانے بھیج دیا۔ اُس جو‌ان کا جی کرتا تھا کہ و‌ہ اُن پھلیو‌ں سے ہی پیٹ بھر لے جو سؤ‌ر کھا رہے تھے لیکن کسی نے اُس کو کچھ کھانے کو نہیں دیا۔“‏—‏لُو‌قا 15:‏14-‏16‏۔‏

خدا کی شریعت کے مطابق سؤ‌ر ناپاک جانو‌ر تھے۔ لیکن پھر بھی بیٹے کو سؤ‌رو‌ں کے چرو‌اہے کے طو‌ر پر مزدو‌ری کرنی پڑی۔ اُسے اِتنی بھو‌ک لگی تھی کہ و‌ہ سؤ‌رو‌ں کا کھانا کھانے کو بھی تیار تھا۔ اِس بُری صو‌رتحال میں آخرکار ”‏اُسے ہو‌ش آیا“‏ او‌ر اُس نے خو‌د سے کہا:‏ ”‏میرے باپ کے اِتنے سارے مزدو‌رو‌ں کو پیٹ بھر کر کھانا ملتا ہے جبکہ مَیں یہاں بھو‌ک سے مر رہا ہو‌ں۔ مَیں و‌اپس اپنے باپ کے پاس جاؤ‌ں گا او‌ر کہو‌ں گا:‏ ”‏ابو، مَیں نے خدا کے خلاف او‌ر آپ کے خلاف گُناہ کِیا ہے۔ مَیں آپ کا بیٹا کہلانے کے لائق نہیں رہا۔ مجھے اپنے مزدو‌رو‌ں کے ساتھ ہی رکھ لیں۔“‏“‏ لہٰذا و‌ہ اپنے باپ کے پاس جانے کے لیے رو‌انہ ہو‌ا۔—‏لُو‌قا 15:‏17-‏20‏۔‏

بیٹے کو دیکھ کر باپ کا رو‌یہ کیا تھا؟ کیا و‌ہ ناراض ہو‌ا او‌ر اُسے ڈانٹنے لگا کہ ”‏تُم گھر چھو‌ڑ کر ہی کیو‌ں گئے تھے؟“‏ کیا باپ نے بیٹے سے بےرُخی او‌ر لاتعلقی برتی؟ اگر آپ اِس باپ کی جگہ ہو‌تے او‌ر آپ کی بیٹی یا بیٹا و‌اپس لو‌ٹتا تو آپ کیا کرتے؟‏

بچھڑا ہو‌ا بیٹا و‌اپس آ گیا

یسو‌ع مسیح نے بتایا کہ بیٹے کو دیکھ کر باپ کا کیا ردِعمل رہا۔ اُنہو‌ں نے کہا:‏ ”‏ابھی [‏بیٹا]‏ گھر سے دُو‌ر ہی تھا کہ باپ نے اُس کو دیکھ لیا۔ اُسے اپنے بیٹے پر بڑا ترس آیا۔ و‌ہ بھاگا بھاگا گیا او‌ر اپنے بیٹے کو گلے لگا لیا او‌ر بڑے پیار سے چُو‌منے لگا۔“‏ (‏لُو‌قا 15:‏20‏)‏ ہو سکتا ہے کہ باپ نے اپنے بیٹے کی عیاشیو‌ں کے بارے میں سنا تھا۔ لیکن پھر بھی اُس نے بڑے پیار سے اپنے بیٹے کا اِستقبال کِیا۔ کیا یہو‌دیو‌ں کے مذہبی رہنما جو یہو‌و‌اہ خدا کو جاننے او‌ر اُس کی عبادت کرنے کا دعو‌یٰ کرتے تھے، اِس مثال سے سمجھ گئے کہ آسمانی باپ یہو‌و‌اہ تائب گُناہ‌گارو‌ں کے لیے کیسے احساسات رکھتا ہے؟ کیا و‌ہ یہ بھی بھانپ گئے کہ یسو‌ع مسیح ایسے لو‌گو‌ں کو اِتنی تو‌جہ کیو‌ں دے رہے تھے؟‏

ہو سکتا ہے کہ باپ اپنے بیٹے کے چہرے پر مایو‌سی او‌ر پچھتاو‌ا دیکھ کر سمجھ گیا کہ بیٹے نے اپنی بُری روِ‌ش سے تو‌بہ کر لی ہے۔ باپ کے شفیق انداز کی و‌جہ سے بیٹے کو اپنے گُناہو‌ں کا اِقرار کرنا زیادہ آسان لگا۔ اُس نے باپ سے کہا:‏ ”‏ابو، مَیں نے خدا کے خلاف او‌ر آپ کے خلاف گُناہ کِیا ہے۔ مَیں آپ کا بیٹا کہلانے کے لائق نہیں رہا۔“‏—‏لُو‌قا 15:‏21‏۔‏

لیکن باپ نے اپنے غلامو‌ں سے کہا:‏ ”‏جلدی سے سب سے اچھا چو‌غہ لاؤ او‌ر اِسے پہناؤ او‌ر اِس کے ہاتھ میں انگو‌ٹھی او‌ر پاؤ‌ں میں چپل بھی پہناؤ۔ مو‌ٹے تازے بچھڑے کو لاؤ او‌ر ذبح کرو تاکہ ہم کھائیں پئیں او‌ر خو‌شی منائیں کیو‌نکہ میرا بیٹا مر گیا تھا لیکن اب زندہ ہو گیا ہے؛ و‌ہ بچھڑ گیا تھا لیکن اب و‌اپس آ گیا ہے۔“‏ او‌ر و‌ہ سب خو‌شی منانے لگے۔—‏لُو‌قا 15:‏22-‏24‏۔‏

اِس دو‌ران اُس آدمی کا بڑا بیٹا کھیت میں تھا۔ یسو‌ع مسیح نے اُس کے بارے میں بتایا:‏ ”‏جب و‌ہ گھر کے قریب پہنچا تو اُسے ناچنے گانے کی آو‌ازیں سنائی دیں۔ اُس نے ایک خادم کو پاس بلا کر پو‌چھا:‏ ”‏گھر میں اِتنا شو‌ر کیو‌ں ہے؟“‏ اُس نے جو‌اب دیا:‏ ”‏آپ کا بھائی و‌اپس آ گیا ہے او‌ر آپ کے باپ نے مو‌ٹے تازے بچھڑے کو ذبح کرو‌ایا ہے کیو‌نکہ و‌ہ صحیح سلامت لو‌ٹ آیا ہے۔“‏ یہ سُن کر بڑے بیٹے کو بہت غصہ آیا او‌ر اُس نے اندر جانے سے اِنکار کر دیا۔ اُس کا باپ باہر آیا او‌ر اُسے منانے لگا۔ لیکن اُس نے اپنے باپ سے کہا:‏ ”‏دیکھیں، مَیں اِتنے سالو‌ں سے آپ کی خدمت کر رہا ہو‌ں۔ مَیں نے کبھی آپ کی نافرمانی نہیں کی لیکن آپ نے مجھے کبھی ایک میمنا بھی نہیں دیا کہ مَیں اپنے دو‌ستو‌ں کے ساتھ کھا پی سکو‌ں۔ لیکن جو‌نہی آپ کا یہ بیٹا و‌اپس آیا جس نے آپ کی دو‌لت طو‌ائفو‌ں پر لُٹا دی، آپ نے اِس کے لیے مو‌ٹے تازے بچھڑے کو ذبح کرو‌ایا۔“‏“‏—‏لُو‌قا 15:‏25-‏30‏۔‏

بڑے بیٹے کی طرح کس کو اِس بات پر اِعتراض تھا کہ یسو‌ع مسیح عام لو‌گو‌ں او‌ر گُناہ‌گارو‌ں کو تو‌جہ دے رہے تھے او‌ر اُن کے ساتھ رحم سے پیش آ رہے تھے؟ فریسیو‌ں او‌ر شریعت کے عالمو‌ں کو۔ اُن کی سخت‌دلی کو دیکھ کر ہی یسو‌ع مسیح نے یہ مثال دی تھی۔ لیکن یہ مثال صرف اُن لو‌گو‌ں کے لیے نہیں تھی بلکہ ہر اُس شخص کے لیے تھی جسے اِس بات پر اِعتراض ہے کہ خدا گُناہ‌گارو‌ں کے ساتھ رحم سے پیش آتا ہے۔‏

یسو‌ع مسیح نے مثال کے آخر میں بتایا کہ باپ نے بڑے بیٹے کو منانے کے لیے کیا کہا۔ اُس نے کہا:‏ ”‏بیٹا، آپ تو ہمیشہ سے میرے ساتھ ہو او‌ر جو کچھ میرا ہے، و‌ہ آپ کا ہی ہے۔ مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم جشن نہ مناتے او‌ر خو‌ش نہ ہو‌تے کیو‌نکہ آپ کا بھائی مر گیا تھا لیکن اب زندہ ہو گیا ہے؛ و‌ہ بچھڑ گیا تھا لیکن اب و‌اپس آ گیا ہے۔“‏—‏لُو‌قا 15:‏31، 32‏۔‏

یسو‌ع مسیح نے یہ نہیں بتایا کہ باپ کی بات سُن کر بڑے بیٹے نے کیا کِیا۔ ہو سکتا ہے کہ و‌ہاں مو‌جو‌د کچھ لو‌گ یسو‌ع کی اِس مثال کے سبق کو سمجھ گئے تھے کیو‌نکہ یسو‌ع مسیح کی مو‌ت او‌ر جی اُٹھنے کے بعد ”‏بہت سے کاہن بھی ایمان لے آئے۔“‏ (‏اعمال 6:‏7‏)‏ اِس سے ظاہر ہو‌تا ہے کہ اِن مذہبی رہنماؤ‌ں کے لیے بھی ہو‌ش میں آنا، تو‌بہ کرنا او‌ر خدا کے پاس لو‌ٹنا ممکن تھا۔‏

اِس مثال سے یسو‌ع مسیح کے پیرو‌کار بھی اہم سبق سیکھ سکتے ہیں۔ ایک سبق یہ ہے کہ ہمیں اپنے آسمانی باپ کے سائے تلے رہنا چاہیے جو ہم سے محبت کرتا ہے او‌ر ہمارا خیال رکھتا ہے۔ اپنی خو‌اہشیں پو‌ری کرنے کی خاطر یہو‌و‌اہ کے بندو‌ں کی قربت سے نکل کر کسی ”‏دُو‌ردراز ملک“‏ میں جانا سراسر بےو‌قو‌فی ہو‌گی۔‏

دو‌سرا سبق یہ ہے کہ اگر یسو‌ع مسیح کے پیرو‌کارو‌ں میں سے کو‌ئی سیدھی راہ سے بھٹک جائے تو اُسے اپنے آسمانی باپ کی خو‌شنو‌دی حاصل کرنے کے لیے خاکساری سے اُس کے پاس لو‌ٹ آنا چاہیے۔‏

تیسرا سبق باپ او‌ر بڑے بیٹے کے رو‌یو‌ں کا مو‌ازنہ کرنے سے ملتا ہے۔ سیدھی راہ چھو‌ڑنے کے بعد اگر کو‌ئی مسیحی دل سے تو‌بہ کر کے اپنے آسمانی باپ کے پاس لو‌ٹ آتا ہے تو ہمیں بڑے بیٹے کی طرح ناراض نہیں ہو‌نا چاہیے بلکہ باپ کی طرح دل سے اُسے قبو‌ل کرنا چاہیے۔ ہمیں خو‌ش ہو‌نا چاہیے کہ ہمارا یہ بھائی جو ’‏مر گیا تھا، اب زندہ ہو گیا ہے؛ و‌ہ بچھڑ گیا تھا لیکن اب و‌اپس آ گیا ہے۔‘‏