”الفا اور اومیگا“ کون یا کیا ہے؟
پاک کلام کا جواب
”الفا اور اومیگا“ لامحدود قدرت کے مالک یہوواہ خدا کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔ پاک کلام میں یہ اِصطلاح تین بار ملتی ہے۔—مکاشفہ 1:8؛ 21:6؛ 22:13۔ a
خدا خود کو ”الفا اور اومیگا“ کیوں کہتا ہے؟
”الفا“ یونانی حروفِتہجی کا پہلا حرف ہے اور ”اومیگا“ اِس کا آخری حرف ہے۔ یہ وہ زبان ہے جس میں بائبل کا وہ حصہ لکھا گیا جو آج نئے عہدنامے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اِس حصے میں مکاشفہ کی کتاب بھی شامل ہے۔ یونانی حروفِتہجی میں اِن حروف کی جو جگہیں ہیں، اُن سے یہ ظاہر کِیا گیا ہے کہ صرف یہوواہ ہی آغاز اور اِختتام ہے۔ (مکاشفہ 21:6) وہ لامحدود قدرت کا مالک ہے جو اِبتدا سے ہے اور ہمیشہ ہمیشہ تک رہے گا۔ صرف وہ ہی ایک ایسی ہستی ہے جو ”ازل سے ابد تک“ ہے۔—زبور 90:2۔
’پہلا اور آخری‘ کس کی طرف اِشارہ کرتا ہے؟
پاک کلام میں یہ اِصطلاح یہوواہ خدا اور اُس کے بیٹے یسوع دونوں کے لیے ہی اِستعمال ہوئی ہے لیکن فرق فرق معنوں میں۔ اِس سلسلے میں اِن دو مثالوں پر غور کریں:
یسعیاہ 44:6 میں یہوواہ خدا نے کہا: ”مَیں ہی اوّل اور مَیں ہی آخر ہوں اور میرے سوا کوئی خدا نہیں۔“ اِس آیت میں یہوواہ خدا نے اِس بات پر زور دیا ہے کہ شروع سے وہ ہی سچا خدا ہے اور اُس کے علاوہ اَور کوئی خدا نہیں۔ (اِستثنا 4:35، 39) لہٰذا اِس آیت میں اِصطلاح ’اوّل اور آخر‘ کے وہی معنی ہیں جو الفا اور اومیگا کے ہیں۔
اِس کے علاوہ مکاشفہ 1:17، 18 اور 2:8 میں بھی اِصطلاح ’پہلا [یونانی لفظ”پروتوس“ نہ کہ الفا] اور آخری [یونانی لفظ”ایسخاتوس“ نہ کہ اومیگا]‘ اِستعمال ہوئی ہے۔ اِن آیتوں کے سیاقوسباق سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں اِصطلاح ’پہلا اور آخری‘ اُس شخص کی طرف اِشارہ کرتی ہے جو مر گیا لیکن بعد میں اُسے زندہ کِیا گیا۔ لہٰذا اِن آیتوں میں پہلا اور آخری کا اِشارہ خدا کی طرف نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ کبھی نہیں مر سکتا۔ (حبقوق 1:12) b البتہ یسوع مسیح فوت ہوئے تھے اور مُردوں میں سے زندہ بھی کیے گئے تھے۔ (اعمال 3:13-15) وہ پہلے اِنسان ہیں جنہیں زندہ کر کے آسمان پر غیرفانی زندگی دی گئی اور اب وہ وہاں ”ہمیشہ ہمیشہ تک زندہ“ رہیں گے۔ (مکاشفہ 1:18؛ کُلسّیوں 1:18) اِس کے بعد سے یسوع ہی تمام لوگوں کو زندہ کریں گے۔ (یوحنا 6:40، 44) لہٰذا وہ آخری ہیں جنہیں یہوواہ نے خود زندہ کِیا ہے۔ (اعمال 10:40) اِس لحاظ سے یسوع مسیح کے بارے میں یہ کہنا بالکل موزوں ہے کہ وہ ’پہلے اور آخری‘ ہیں۔
کیا مکاشفہ 22:13 سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یسوع مسیح ”الفا اور اومیگا“ ہیں؟
نہیں۔ مکاشفہ 22:13 سے واضح طور پر پتہ نہیں چلتا کہ اِس آیت میں کون بات کر رہا ہے کیونکہ اِس پورے باب میں مختلف اشخاص کی باتیں درج ہیں۔ مکاشفہ کے اِس باب پر بات کرتے ہوئے پروفیسر وِلیم بارکلے نے لکھا: ”لگتا ہے کہ اِس باب میں بتائی گئی باتوں کو ترتیب سے نہیں لکھا گیا۔ ... اِس لیے یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ کون سی بات کون سا شخص کر رہا ہے۔“ (دی ریویلیشن آف جان، جِلد 2، ریوائزڈ ایڈیشن، صفحہ نمبر 223) لہٰذا مکاشفہ 22:13 میں ”الفا اور اومیگا“یہوواہ خدا ہی ہے جس کے لیے یہ خطاب مکاشفہ کی کتاب میں باقی جگہوں پر بھی اِستعمال ہوا ہے۔
a پاک کلام کے ”کنگ جیمز ورشن“ ترجمے میں چوتھی بار اِس اِصطلاح کا ذکر مکاشفہ 1:11 میں کِیا گیا ہے۔ لیکن بہت سے جدید ترجموں میں اِس آیت سے یہ اِصطلاح نکال دی گئی ہے کیونکہ یہ قدیمترین یونانی نسخوں میں نہیں پائی جاتی۔ لیکن غالباً بعد میں اِن صحیفوں کی نقلیں بناتے وقت اِس اِصطلاح کو اِس آیت میں شامل کر دیا گیا تھا۔
b مسوراتی متن میں یہ آیت اِس طرح لکھی ہے: ”اَے یہوواہ! کیا تو ازل سے نہیں ہے؟ اَے میرے خدا! اَے میرے قدوس! ہم نہیں مریں گے۔“ لیکن اصلی متن میں اِس آیت میں خدا کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ”تُو نہیں مرے گا۔“