نوجوانوں کا سوال
مَیں مسلسل تھکاوٹ سے کیسے بچ سکتا ہوں؟
کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ مسلسل تھکاوٹ کا شکار ہونے کے خطرے میں ہیں؟ اگر ایسا ہے تو یہ مضمون آپ کے بہت کام آ سکتا ہے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟
دباؤ۔ جولی نامی لڑکی جس کی عمر 21 سال ہے، کہتی ہے: ”ہم پر اکثر اِس بات کا دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ ہم ہر کام اچھے سے اچھے طریقے سے کریں، خود کو اَور بہتر بنائیں، اپنے لیے بڑے بڑے منصوبے قائم کریں اور کامیابی کی چوٹیوں کو چھوئیں۔ ہر وقت اِس دباؤ میں رہنا آسان نہیں۔“
ٹیکنالوجی۔ موبائل فون، ٹیبلٹ وغیرہ کی وجہ سے آج لوگ 24 گھنٹے ہم سے رابطے میں رہ سکتے ہیں۔ یہ بات کبھی کبھار ٹینشن کا باعث بن سکتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک شخص کو مسلسل تھکاوٹ میں مبتلا کر سکتی ہے۔
نیند کی کمی۔ 24 سالہ لڑکی جس کا نام مرینڈا ہے، کہتی ہے: ”سکول، کام اور تفریح کی وجہ سے بہت سے نوجوان صبح سویرے اُٹھتے ہیں اور رات دیر تک جاگتے رہتے ہیں جو کہ اُن کے لیے کافی نقصاندہ ہے۔“ نیند کا پورا نہ ہونا اکثر مسلسل تھکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔
یہ معاملہ اِتنا اہم کیوں ہے؟
پاک کلام میں ہماری حوصلہافزائی کی گئی ہے کہ ہم محنتی بنیں۔ (امثال 6:6-8؛ رومیوں 12:11) لیکن اِس میں یہ نہیں کہا گیا کہ ہم کام میں اِس قدر مگن ہو جائیں کہ اِس کا اثر ہماری زندگی، یہاں تک کہ ہماری صحت پر پڑنے لگے۔
”ایک بار تو مجھے احساس ہوا کہ مَیں اپنی ذمےداریوں کو نبھانے میں اِتنی گم ہو گئی تھی کہ مَیں نے پورا دن کھانا ہی نہیں کھایا۔ مَیں نے سیکھا کہ اپنی صحت کو نظرانداز کر کے ہر کام کرنے کی حامی بھرنا اچھا نہیں ہوتا۔“—ایشلی۔
اِسی لیے پاک کلام میں یہ کہا گیا ہے: ”زندہ کتا مُردہ شیر سے بہتر ہے۔“ (واعظ 9:4) شاید آپ کو لگے کہ آپ میں شیروں جیسی طاقت ہے اور آپ ہر اُس کام کو کر لیں گے جو آپ کو دیا جائے گا۔ لیکن اگر آپ خود کو تھکن سے چُور کر لیں گے تو آپ کی صحت پر بہت بُرا اثر پڑ سکتا ہے۔
مَیں کیا کر سکتا ہوں؟
نہ کہنا سیکھیں۔ پاک کلام میں لکھا ہے: ”خاکساروں کے ساتھ حکمت ہے۔“ (امثال 11:2) خاکسار لوگ جانتے ہیں کہ کون سے کام کرنا اُن کے بس میں ہے اور کون سے نہیں۔ اِس لیے وہ اُتنے ہی کام کرنے کی حامی بھرتے ہیں جتنے وہ کر سکتے ہیں۔
”عام طور پر وہی شخص مسلسل تھکاوٹ کا شکار ہوتا ہے جسے نہ کہنا نہیں آتا اور جو ہر کام کو قبول کر لیتا ہے۔ ایسا شخص خاکساری سے کام نہیں لے رہا ہوتا اور کبھی نہ کبھی تھکاوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔“—جارڈن۔
آرام کریں۔ پاک کلام میں لکھا ہے: ”ایک مٹھی بھر آرام محنت اور ہوا کے تعاقب سے بھری ہوئی دو مٹھیوں سے بہتر ہے۔“ (واعظ 4:6، کیتھولک ترجمہ) نیند کو ”دماغ کی غذا“ کہا جاتا ہے لیکن زیادہتر نوجوان رات کو آٹھ سے دس گھنٹے کی نیند نہیں لیتے جو اُن کے لیے ضروری ہوتی ہے۔
”جب مجھے بہت سے کام نپٹانے ہوتے ہیں تو مَیں پوری نیند نہیں لیتی۔ لیکن ایک دو گھنٹے زیادہ سو جانے سے اگلے دن مَیں اکثر اَور اچھی طرح سے کاموں کو کر پاتی ہوں اور میرا موڈ اچھا رہتا ہے۔“—بروکلن۔
منصوبے بنائیں۔ پاک کلام میں لکھا ہے: ”محنتی شخص کے منصوبے منافعبخش ہوتے ہیں۔“ (امثال 21:5، نیو اُردو بائبل ورشن) پہلے سے یہ طے کرنا سیکھیں کہ آپ ایک دن میں کتنے کام کریں گے اور اِنہیں کب کریں گے۔ یہ بات سیکھنے سے آپ کو زندگی بھر فائدہ ہوگا۔
”اگر آپ ایک شیڈول بنائیں گے تو آپ بِلاوجہ کی ٹینشن سے بچ جائیں گے۔ جب آپ اپنے شیڈول کو سامنے رکھ کر کوئی کام کریں گے تو آپ کے لیے اندازہ لگانا آسان ہوگا کہ کن کاموں میں ردوبدل کی جا سکتی ہے تاکہ آپ مسلسل تھکاوٹ کا شکار نہ ہو جائیں۔“—ونیسا۔