گھریلو زندگی کو خوشگوار بنائیں
اپنے بچے کی تعلیمی کارکردگی کو بہتر بنانے میں اُس کی مدد کریں
آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ آپ کے بچے کو سکول کی کوئی پرواہ نہیں اور وہ پڑھائی اور ہومورک سے جی چراتا ہے۔ نتیجہ؟ اُس کے نمبر کم آنے لگتے ہیں۔ آپ اپنے بچے کی تعلیمی کارکردگی کو بہتر بنانے میں اُس کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟
اِن باتوں کو ذہن میں رکھیں
دباؤ ڈالنے سے مسئلہ بڑھتا ہے۔ اگر آپ بچے پر پڑھائی کرنے کا دباؤ ڈالیں گے تو وہ سکول میں اور گھر میں پریشانی کا شکار ہو جائے گا۔ شاید وہ اپنی پریشانی سے چھٹکارا پانے کے لیے آپ سے جھوٹ بولے، اپنے کم نمبر چھپائے، رپورٹ کارڈ پر آپ کے نقلی دستخط کرنے کی کوشش کرے یا سکول سے غیرحاضر رہے۔ یوں مسئلہ اَور بگڑ جائے گا۔
اِنعام کا لالچ دینے سے نقصان ہوتا ہے۔ اینڈرو نامی والد کہتے ہیں: ”ہم چاہتے تھے کہ ہماری بیٹی پڑھائی پر توجہ دے اِس لیے جب بھی وہ اچھے نمبر لاتی، ہم اُسے اِنعام دیتے۔ لیکن ہماری اِس کوشش کا اُس پر اُلٹا اثر ہوا۔ ہم نے دیکھا کہ اُس کا سارا دھیان صرف اِنعام پانے پر رہتا تھا۔ جب بھی اُس کے کم نمبر آتے تو اُسے اِس بات کا اِتنا دُکھ نہیں ہوتا تھا جتنا کہ اِنعام نہ ملنے کا۔“
اُستادوں کے سر اِلزام ڈالنے سے بچے کا بھلا نہیں ہوگا۔ اگر آپ اپنے بچے کی کوتاہیوں کے لیے اُستادوں کو قصوروار ٹھہرائیں گے تو ہو سکتا ہے کہ بچہ یہ سوچنے لگے کہ اچھے نمبر حاصل کرنے کے لیے اُسے خود محنت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اِس طرح شاید وہ اپنی غلطیاں اَوروں کے سر ڈالنا سیکھے گا اور دوسروں سے یہ توقع کرے گا کہ وہ اُس کی مشکلات کا حل ڈھونڈیں۔ دوسرے لفظوں میں کہیں تو آپ کا بچہ زندگی کی ایک اہم بات سیکھنے سے محروم رہ جائے جو آگے چل کر اُس کے کام آئے گی یعنی یہ کہ وہ اپنے کاموں کا خود ذمےدار ہے۔
آپ کیا کر سکتے ہیں؟
اپنے جذبات پر قابو رکھیں۔ اگر بچے کے بُرے نمبر دیکھ کر آپ کا پارہ چڑھ جاتا ہے تو بہتر ہوگا کہ آپ غصے کی حالت میں اُس سے اِس موضوع پر بات نہ کریں۔ اِس سلسلے میں بریٹ نامی والد کہتے ہیں: ”مَیں نے اور میری بیوی نے دیکھا ہے کہ جب ہم ٹھنڈے ہو کر اور شفیق انداز میں بچوں سے بات کرتے ہیں تو اِس کا زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔“
پاک کلام کا اصول: ”ہر ایک سننے میں جلدی کرے لیکن بولنے میں جلدی نہ کرے اور غصہ کرنے میں جلدبازی نہ کرے۔“—یعقوب 1:19۔
اصل مسئلے کو پہچانیں۔ بچے کے بُرے نمبر آنے کی عموماً یہ وجوہات ہو سکتی ہیں: شاید سکول میں بدمعاش بچے اُسے تنگ کرتے ہیں؛ اُس کا سکول بدل دیا گیا ہے؛ اُسے اِمتحانوں سے ڈر لگتا ہے؛ گھر میں کوئی مسئلہ چل رہا ہے؛ اُس کی نیند پوری نہیں ہوتی؛ اُس کے ہومورک کرنے کا کوئی معمول نہیں ہے یا اُسے ٹک کر پڑھنا مشکل لگتا ہے۔ وجہ چاہے کچھ بھی ہو، فوراً یہ نہ سوچ لیں کہ آپ کا بچہ کاہل ہے۔
پاک کلام کا اصول: ”جو فہم کی محافظت کرتا ہے فائدہ اُٹھائے گا۔“—امثال 19:8۔
ایسا ماحول بنائیں جس میں بچہ توجہ سے پڑھ سکے۔ بچے کے ساتھ مل کر ہومورک کرنے کا شیڈول بنائیں۔ بچے کے ہومورک کرنے کے لیے ایسی جگہ کا اِنتخاب کریں جہاں کوئی ایسی چیز نہ ہو جس سے اُس کا دھیان بھٹک سکتا ہے، مثلاً ٹیوی یا موبائل وغیرہ۔ بچے کی توجہ پڑھائی پر رکھنے کے لیے ہر مضمون پر تھوڑا تھوڑا وقت صرف کریں۔ ذرا جرمنی میں رہنے والے ہیکٹر نامی والد کی بات پر غور کریں۔ وہ کہتے ہیں: ”اگر ہمارے بچے کا کوئی ٹیسٹ آنے والا ہوتا ہے تو ہم اِس کے سر پر آنے کا اِنتظار نہیں کرتے بلکہ ہر دن اُسے اِس کی تھوڑی تھوڑی تیاری کرواتے ہیں۔“
پاک کلام کا اصول: ”ہر کام کا ... ایک وقت ہے۔“—واعظ 3:1۔
بچے پر پڑھائی کی اہمیت کو واضح کریں۔ جتنا زیادہ آپ کا بچہ اِس بات کو سمجھے گا کہ اُسے ابھی سکول جانے سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے اُتنا ہی زیادہ اُس میں پڑھنے کا شوق بڑھے گا۔ مثال کے طور پر ریاضی کے مضمون کی مدد سے وہ سیکھے گا کہ وہ اپنے جیب خرچ کا حساب کیسے رکھ سکتا ہے۔
پاک کلام کا اصول: ”حکمت حاصل کر۔ فہم حاصل کر۔ ... اُس کی تعظیم کر۔“—امثال 4:5، 8۔
تجویز: اپنے بچے کی ہومورک کرنے میں تو مدد کریں لیکن خود اُس کا ہومورک نہ کریں۔ اینڈرو کہتے ہیں: ”جب ہم اپنی بیٹی کو اُس کا ہوم ورک کرواتے ہیں تو وہ اپنا دماغ نہیں لڑاتی بلکہ سب کچھ ہم پر چھوڑ دیتی ہے۔“ اپنے بچے کو سکھائیں کہ وہ خود اپنا ہومورک کیسے کر سکتا ہے۔