پاک کلام کی تعلیم زندگی سنوارتی ہے
”اب مَیں تشدد کرنے کا عادی نہیں رہا“
پیدائش: 1956ء
پیدائش کا ملک: کینیڈا
ماضی: زندگی سے مایوس، بدچلن اور تشدد کرنے والا شخص
میری سابقہ زندگی
مَیں کینیڈا کے صوبے البرٹا کے شہر کیلگری میں پیدا ہوا۔ مَیں اُس وقت چند مہینوں کا بچہ ہی تھا جب میرے والدین میں طلاق ہو گئی اور امی مجھے لے کر نانانانی کے ہاں چلی گئیں۔ میرے نانا اور نامی مجھ سے اور امی سے بہت پیار کرتے تھے اور مَیں بہت ہنستا کھلکھلاتا بچہ تھا۔ مجھے آج بھی اپنے بچپن کا وہ خوشگوار وقت یاد ہے جو میں نے اپنے نانا نانی کے ہاں گزارا۔
جب مَیں سات سال کا ہوا تو امی نے ابو سے دوبارہ شادی کر لی اور ہم امریکہ کی ریاست مسوری کے شہر سینٹ لوئس منتقل ہو گئے۔ تب میری زندگی کا بُرا وقت شروع ہوا۔ جلد ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ میرے ابو بہت ہی ظالم اِنسان ہیں۔ مثال کے طور پر جب نئے سکول میں میرا پہلا دن تھا تو کچھ بچوں نے مجھے بہت ستایا لیکن مَیں نے آگے سے اُن کا مقابلہ نہیں کِیا۔ جب مَیں گھر پہنچا اور ابو کو یہ بات پتہ چلی کہ مَیں چپچاپ اُن بچوں کی سُن کر آ گیا ہوں تو وہ مجھ پر بھڑک اُٹھے۔ اُنہوں نے مجھے اِتنی زور سے مارا جتنی زور سے سکول کے بچوں نے بھی نہیں مارا تھا۔ البتہ اُن کی مار سے مَیں نے جو سبق سیکھا، اُسے مَیں نے اپنے دل میں بٹھا لیا اور سات سال کی عمر میں ہی دوسرے بچوں کے ساتھ لڑنا جھگڑنا شروع کر دیا۔
ابو کی گرم طبیعت نے امی کو بالکل چڑچڑا بنا دیا اور وہ دونوں آئے دن ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے لگے۔جب مَیں 11 سال کا ہوا تو مَیں نے منشیات لینی اور شراب پینی شروع کر دی۔ میرا غصہ دن بہدن بڑھتا گیا اور مَیں اکثر گلیوں میں لوگوں سے مارپیٹ کرنے لگا۔ جب مَیں نے اپنا سکول ختم کِیا تو تب تک مَیں اپنے پُرتشدد رویے کی وجہ سے ایک بالکل ہی الگ اِنسان بن چُکا تھا۔
جب مَیں 18 سال کا ہوا تو مَیں امریکی فوج میں بھرتی ہو گیا۔ وہاں مَیں نے دوسروں کو قتل کرنے کی جو تربیت حاصل کی، اُس نے میرے غصیلے مزاج کو اَور بگاڑ دیا۔ پانچ سال بعد مَیں نے فوج کو چھوڑ دیا اور نفسیات کی تعلیم حاصل کرنے لگا تاکہ ایف بی آئی (وفاقی اِدارۂتفتیش ) کے شعبے میں کام کر سکوں۔ مَیں امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں پڑھنے لگا اور پھر واپس کینیڈا جا کر اپنی تعلیم کو جاری رکھا۔
جب مَیں یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا تو لوگوں اور معاشرے سے میرا بھروسا بالکل اُٹھ گیا۔ مجھے لگتا تھا کہ دُنیا خودغرض لوگوں سے بھری پڑی ہے اور اِس کی ہر چیز کھوکھلی ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ اِنسانوں کو کبھی بھی اپنے مسئلوں سے چھٹکارا نہیں ملے گا۔ مَیں نے یہ اُمید ہی چھوڑ دی کہ اِنسان اِس دُنیا کو ایک بہتر جگہ بنا سکتے ہیں۔
چونکہ مجھے زندگی کا کوئی مقصد نظر نہیں آتا تھا اِس لیے مَیں شراب اور نشے میں ڈوب گیا، دولت کا لالچی بن گیا اور حرامکاری کرنے کی عادت میں پڑ گیا۔ میری زندگی کا مقصد بس ایک پارٹی سے دوسری پارٹی پر جانا اور ایک عورت سے دوسری عورت کے ساتھ تعلقات قائم کرنا ہو گیا۔ مَیں نے جو فوجی تربیت حاصل کی تھی، اُس کی وجہ سے مَیں اکثر مارکٹائی پر اُتر آتا تھا۔ مَیں سوچتا تھا کہ مَیں خود یہ فیصلہ کر سکتا ہوں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ اور جب کبھی مجھے لگتا کہ ایک شخص دوسرے شخص کے ساتھ زیادتی کر رہا ہے تو مَیں اُسے آڑے ہاتھوں لیتا تھا۔ سچ تو یہ تھا کہ تشدد کرنے کی میری عادت بڑھتی جا رہی تھی۔
پاک کلام کی تعلیم کا اثر
ایک دن جب مَیں اور میرا دوست میرے گھر کے تہہخانے میں نشے میں دُھت تھے اور چرس کی سمگلنگ کے لیے اِس کے پیکیٹ تیار کر رہے تھے تو میرے دوست نے مجھ سے پوچھا کہ کیا مَیں خدا پر ایمان رکھتا ہوں۔ اِس پر مَیں نے اُس سے کہا: ”اگر لوگوں پر آنے والی مصیبتوں کا ذمےدار خدا ہے تو مَیں اُس سے کوئی واسطہ نہیں رکھنا چاہتا۔“ اگلے دن نئی نوکری پر میرا پہلا دن تھا۔ وہاں یہوواہ کا ایک گواہ بھی کام کرتا تھا۔ اُس نے مجھ سے پوچھا: ”آپ کے خیال میں ہم پر جو مصیبتیں آتی ہیں، کیا اُن کا ذمےدار خدا ہے؟“ اُس کا سوال سُن کر مَیں ہکا بکا رہ گیا کیونکہ ٹھیک اِسی موضوع پر مَیں اور میرا دوست ایک دن پہلے بات کر رہے تھے۔ لہٰذا میرے دل میں اِس سوال کا جواب جاننے کا شوق بڑھا۔ پھر اگلے چھ مہینوں میں مَیں نے اور اُس گواہ نے اَور بھی بہت سے موضوعات پر باتچیت کی۔ اُس نے مجھے بائبل سے زندگی کے متعلق اُن مشکل سوالوں کے جواب بھی دِکھائے جو میرے ذہن میں تھے۔
میری منگیتر اُس وقت میرے ساتھ رہ رہی تھی۔ اُسے یہ بالکل پسند نہیں تھا کہ مَیں اُسے وہ باتیں بتاؤں جو مَیں سیکھ رہا تھا۔ ایک اِتوار مَیں نے اُسے بتایا کہ مَیں نے گواہوں کو ہمارے گھر بلایا ہے تاکہ وہ ہمیں بائبل کورس کرائیں۔ لیکن اگلے دن جب مَیں کام سے گھر لوٹا تو مَیں نے دیکھا کہ وہ گھر سے سارا سامان لے کر چلی گئی اور مجھے چھوڑ دیا۔ مَیں گھر سے باہر نکلا اور رونے لگا۔ مَیں نے خدا سے دُعا بھی کی اور اُس سے مِنت کرنے لگا کہ وہ میری مدد کرے۔ اُس وقت مَیں نے پہلی بار خدا کا ذاتی نام یہوواہ لے کر اُس سے دُعا کی۔—زبور 83:18۔
دو دن بعد مَیں نے ایک میاں بیوی سے جو یہوواہ کے گواہ تھے، بائبل کورس کرنا شروع کِیا۔ جب وہ میرے گھر سے نکلے تو اُن کے جانے کے بعد بھی مَیں وہ کتاب پڑھتا رہا جس سے اُنہوں نے مجھے بائبل کورس شروع کرایا تھا۔ کتاب کا نام تھا: ”آپ زمین پر فردوس میں ہمیشہ زندہ رہ سکتے ہیں۔“ a مَیں نے اِسے اُسی رات ختم کر لیا۔ مَیں نے یہوواہ خدا اور اُس کے بیٹے یسوع مسیح کے بارے میں جو کچھ سیکھا، اُس نے میرے دل کو چُھو لیا۔ مَیں نے سیکھا کہ یہوواہ بڑا ہی ہمدرد خدا ہےاور جب ہم مصیبتیں سہتے ہیں تو اُسے بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ (یسعیاہ 63:9) جن باتوں نے میرے دل کو خاص طور پر چُھوا، وہ یہ تھیں کہ یہوواہ مجھ سے بہت محبت کرتاہے اور اُس کے بیٹے نے میری خاطر اپنی جان قربان کی۔ (1-یوحنا 4:10) مَیں سمجھ گیا کہ یہوواہ میرے ساتھ ”صبر سے کام لے رہا ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ کوئی بھی شخص ہلاک ہو بلکہ وہ چاہتا ہے کہ سب لوگ توبہ کریں۔“ (2-پطرس 3:9) مَیں نے محسوس کِیا کہ یہوواہ مجھے اپنے قریب لا رہا ہے۔—یوحنا 6:44۔
جس ہفتے مَیں نے بائبل کورس کرنا شروع کِیا، اُسی ہفتے سے مَیں اِجلاسوں پر جانے لگا۔ حالانکہ میرے بال بہت لمبے تھے، مَیں نے کانوں میں بالیاں پہنی ہوئی تھیں اور میرا حلیہ ایسا تھا کہ لوگ مجھے دیکھ کر ڈر جاتے تھے لیکن پھر بھی یہوواہ کے گواہ مجھ سے ایسے ملے جیسے مَیں اُن کا کوئی رشتےدار ہوں جسے وہ بڑی مُدت بعد ملے ہوں۔ وہ میرے ساتھ اُسی طرح سے پیش آئے جس طرح مسیح کے سچے شاگردوں کو دوسروں کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔ مجھے ایسے لگا جیسے مَیں اپنے نانا نانی کے گھر واپس آ گیا ہوں۔ البتہ یہاں کا ماحول اُن کے گھر کے ماحول سے بھی کہیں زیادہ اچھا تھا۔
جلد ہی پاک کلام کی تعلیمات نے میری زندگی کو سنوارنا شروع کر دیا۔ مَیں نے اپنے لمبے بالوں کو کاٹ ڈالا، منشیات لینا، شراب پینی اور بدچلن زندگی گزارنی چھوڑ دی۔ (1-کُرنتھیوں 6:9، 10؛ 11:14) مَیں یہوواہ کو خوش کرنا چاہتا تھا۔ لہٰذا جب مجھے پتہ چلا کہ مَیں جو کام کر رہا تھا، یہوواہ اُنہیں سخت ناپسند کرتا ہے تو مَیں نے کبھی بھی اُنہیں کرنے کا بہانہ پیش نہیں کِیا۔ اِس کی بجائے میرے دل پر اکثر چوٹ لگا کرتی تھی اور مَیں خود سے کہتا تھا کہ ”اب مَیں آئندہ ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔“ مَیں نے بِنا دیر کیے اپنی سوچ اور اپنے کاموں کو بدلنا شروع کر دیا اور جلد ہی مجھے یہ محسوس ہوا کہ اُن کاموں کو کرنے سے میری زندگی کتنی بہتر ہوئی ہے جو یہوواہ مجھ سے چاہتا ہے۔ لہٰذا بائبل کورس کو شروع کرنے کے چھ مہینے بعد 29 جولائی 1989ء کو مَیں نے یہوواہ کے ایک گواہ کے طور پر بپتسمہ لے لیا۔
میری زندگی سنور گئی
خدا کے کلام نے میری شخصیت کو بہت نکھارا ہے۔ ایک وقت تھا کہ جب کوئی شخص مجھ سے لڑتا تھا تو مَیں تشدد کرنے پر اُتر آتا تھا۔ لیکن اب مَیں پوری کوشش کرتا ہوں کہ ”جہاں تک ممکن ہو، اپنی طرف سے سب کے ساتھ امن“ سے رہوں۔ (رومیوں 12:18) اِس میں میرا کوئی کمال نہیں ہے بلکہ مَیں یہوواہ کے کلام اور اُس کی پاک روح کے لیے اُس کا شکرگزار ہوں جن میں زندگیاں بدلنے کی طاقت ہے۔—گلتیوں 5:22، 23؛ عبرانیوں 4:12۔
اب مَیں منشیات، تشدد اور حرامکاری کا عادی نہیں رہا۔ اِس کی بجائے اب مَیں یہوواہ خدا کو خوش کرنے اور جی جان سے اُس کی خدمت کرنے کی پوری کوشش کرتا ہوں۔ اِس میں دوسروں کو اُس کے بارے میں سکھانا بھی شامل ہے۔ بپتسمہ لینے کے کچھ سال بعد مَیں کسی اَور ملک شفٹ ہو گیا تاکہ مَیں ایسے علاقوں میں تبلیغ کر سکوں جہاں خدا کی بادشاہت کا پیغام سنانے والوں کی زیادہ ضرورت ہے۔ گزرے سالوں کے دوران مجھے بہت سے لوگوں کو پاک کلام کی تعلیمات سکھا کر بہت خوشی ملی ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر بھی بہت خوشی ہوتی ہے کہ خدا کے کلام نے اِن لوگوں کی زندگی کو بھی کتنا سنورا ہے۔ مَیں اِس بات سے بھی بہت خوش ہوں کہ میری امی بھی یہوواہ کی گواہ بن گئی ہیں اور اِس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ میرے اچھے رویے اور چالچلن سے بہت متاثر ہوئیں۔
سن 1999ء میں مَیں نے ملک ایلسلواڈور میں یہوواہ کے گواہوں کے ایک سکول سے تربیت حاصل کی جسے اب بادشاہت کے مُنادوں کے لیے سکول کہا جاتا ہے۔ اِس سکول کے ذریعے میری تربیت ہوئی کہ مَیں تبلیغی کام میں اچھی طرح سے پیشوائی کیسے کر سکتا ہوں اور یہوواہ کے گواہوں کی کلیسیا میں ایک اچھا چرواہا کیسے بن سکتا ہوں۔ اِسی سال بعد میں مَیں نے اپنی پیاری بیوی یوہینیا سے شادی کر لی۔ ابھی ہم دونوں کُلوقتی مُنادوں کے طور پر ملک گواٹیمالا میں خدا کی خدمت کر رہے ہیں۔
اب مَیں اپنی زندگی سے مایوس نہیں بلکہ اِس سے بےحد خوش ہوں۔ خدا کے کلام کی تعلیمات نے مجھے بدکاری اور تشدد بھری زندگی سے آزاد کروایا ہے اور اِسے سچی محبت اور اِطمینان سے بھر دیا ہے۔
a اب یہوواہ کے گواہ بائبل کورس کرانے کے لیے اکثر کتاب ”خوشیوں بھری زندگی“ اِستعمال کرتے ہیں۔