پاک کلام کی تعلیم زندگی سنوارتی ہے
”سڑکیں میرا گھر بن گئیں“
پیدائش: 1955ء
پیدائش کا ملک: سپین
ماضی میں پہچان: نشےباز اور متشدد
میرا ماضی:
کچھ لوگوں کو اپنی زندگی کے تلخ تجربوں سے سیکھنے میں کافی وقت لگتا ہے۔ مَیں بھی اُن میں سے ایک ہوں۔ میری پیدائش اور پرورش سپین کے دوسرے بڑے شہر بارسیلونا میں ہوئی۔ مَیں اپنے خاندان کے ساتھ ساحلِسمندر کے قریب ایک ایسے علاقے میں رہتا تھا جو جرائم اور منشیاتفروشی کے لیے مشہور تھا۔
میرے آٹھ بہن بھائی تھے جن میں مَیں سب سے بڑا تھا۔ چونکہ ہم بہت غریب تھے اِس لیے میرے ابو نے مجھے ایک مقامی ٹینس کلب میں کام کرنے کے لیے بھیج دیا۔ اُس وقت میری عمر دس سال تھی اور مَیں دن میں دس گھنٹے کام کرتا تھا۔ اِس وجہ سے مَیں سکول نہیں جا سکا۔ جب مَیں 14 سال کا ہوا تو مَیں نے ایک فیکٹری میں کام کرنا شروع کر دیا جہاں دھات کی فرق فرق چیزیں بنائی جاتی تھیں۔
اُس وقت سپین میں نوجوانوں کے لیے لازمی تھا کہ وہ کچھ عرصہ فوج میں کام کریں۔ 1975ء میں مجھے بھی فوج میں بھرتی کر دیا گیا۔ مَیں زندگی میں کچھ ہٹ کر کرنا چاہتا تھا۔ اِس لیے مَیں ایک خاص فوجی دستے میں بھرتی ہو گیا۔ یہ دستہ شمالی افریقہ کے ایک ایسے شہر میں تعینات تھا جس پر سپین کی حکومت تھی۔ اُسی دَور میں مجھے منشیات لینے اور حد سے زیادہ شراب پینے کی لت لگ گئی۔
جب مَیں نے اُس فوجی دستے کو چھوڑا تو مَیں بارسیلونا واپس آ گیا۔ وہاں مَیں نے اپنا ایک گینگ بنا لیا۔ ہم جو بھی چیز چوری کر سکتے تھے، کرتے تھے۔ پھر ہم چوری کی ہوئی چیزوں کو بیچتے تھے تاکہ منشیات خرید سکیں۔ منشیات کی لت کے علاوہ مَیں بدچلنی، شرابنوشی اور جُوئےبازی کی دَلدل میں بھی دھنستا گیا۔ اِس تباہکُن طرزِزندگی کی وجہ سے مَیں اَور زیادہ متشدد بننے لگا۔ میرے پاس ہمیشہ ایک چاقو، ایک چھوٹی کلہاڑی یا ایک خنجر ہوتا تھا اور مَیں ضرورت محسوس ہونے پر اِن چیزوں کو اِستعمال کرنے سے ذرا بھی نہیں ہچکچاتا تھا۔
ایک دفعہ ہم نے ایک کار چُرائی اور اِس وجہ سے پولیس ہمارے پیچھے لگ گئی۔ وہ واقعہ بالکل کسی فلم کے منظر جیسا تھا۔ ہم 30 کلومیٹر (20 میل) تک وہ کار چلاتے رہے اور پھر پولیس نے ہم پر گولیاں برسانی شروع کر دیں۔ آخرکار ہمارے گینگ کا جو بندہ کار چلا رہا تھا، اُس نے اِسے ایک جگہ ٹھوک دیا اور پھر ہم سب وہاں سے فرار ہو گئے۔ جب میرے ابو کو اِس سب کا پتہ چلا تو اُنہوں نے مجھے گھر سے نکال دیا۔
اگلے پانچ سال کے لیے سڑکیں میرا گھر بن گئیں۔ مَیں راہگزروں، ٹرکوں، پارک کے بینچوں اور قبرستانوں میں سویا کرتا تھا۔ کچھ عرصہ تو مَیں ایک غار میں بھی رہا۔ میری زندگی کا کوئی مقصد نہیں تھا اور مجھے لگتا تھا کہ مَیں جیوں یا مروں، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کئی بار مَیں نے منشیات کے نشے میں دُھت ہو کر اپنی کلائیوں اور بازؤں کو تیزدھار آلوں سے کاٹا۔ اُن زخموں کے نشان آج بھی میرے جسم پر موجود ہیں۔
پاک کلام کی تعلیم کا اثر:
جب مَیں 28 سال کا تھا تو میری امی مجھے ڈھونڈتے ڈھونڈتے میرے پاس آئیں اور مجھے گھر لوٹنے کے لیے کہنے لگیں۔ مَیں نے اُن کی بات مان لی اور وعدہ کِیا کہ مَیں اپنے طورطریقوں کو بدل لوں گا۔ مگر مجھے اپنے اِس وعدے کو پورا کرنے میں کافی وقت لگا۔
ایک دن یہوواہ کے دو گواہوں نے ہمارا دروازہ کھٹکھٹایا۔ جب مَیں اُن کی بات سُن رہا تھا تو ابو اندر سے چلّانے لگے کہ دروازہ بند کرو۔ چونکہ مجھے یہ بالکل پسند نہیں تھا کہ کوئی مجھ پر حکم چلائے اِس لیے مَیں نے ابو کی بات کو نظرانداز کر دیا۔ یہوواہ کے اُن گواہوں نے مجھے تین چھوٹی کتابیں دیں جنہیں مَیں نے خوشی سے لے لیا۔ مَیں نے اُن سے پوچھا کہ اُن کی عبادت کہاں پر ہوتی ہے اور کچھ ہی دن بعد مَیں یہوواہ کے گواہوں کی عبادتگاہ گیا۔
سب سے پہلی چیز جو مَیں نے وہاں دیکھی، وہ یہ تھی کہ سب نے بڑا صاف ستھرا لباس پہنا ہوا تھا۔ اُن کے برعکس میرے بال لمبے تھے، داڑھی بڑھی ہوئی تھی اور کپڑے گندے تھے۔ مجھے لگا کہ میری حالت ایسی نہیں ہے کہ مَیں اِن لوگوں کے ساتھ بیٹھوں اِس لیے مَیں باہر ہی رہا۔ لیکن پھر مَیں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وان نامی میرا ایک سابقہ ساتھی اور گینگ کا رُکن، سوٹ پہنے وہاں موجود ہے۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ وہ ایک سال پہلے ہی یہوواہ کا گواہ بنا ہے۔ اُسے دیکھ کر مجھ میں ہمت پیدا ہوئی کہ مَیں اندر جاؤں اور عبادت میں شریک ہوں۔ اور وہی وہ موقع تھا جس سے میری زندگی بدلنی شروع ہو گئی۔
مَیں نے بائبل کورس کی دعوت قبول کر لی اور مجھے جلد ہی یہ احساس ہو گیا کہ اگر مَیں خدا کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا ہوں تو مجھے اپنے غصے پر قابو پانا اور بُرے طورطریقوں کو چھوڑنا ہوگا۔ ایسی تبدیلیاں کرنا آسان نہیں تھا۔ مَیں نے سیکھا کہ یہوواہ خدا کو خوش کرنے کے لیے مجھے ”اپنی سوچ کا رُخ موڑ کر خود کو مکمل طور پر بدل“ لینا ہوگا۔ (رومیوں 12:2) خدا نے جس طرح مجھ پر رحم کِیا، اُس نے میرے دل کو چُھو لیا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میری ساری غلطیوں کے باوجود خدا مجھے خود میں سدھار لانے کا موقع دے رہا ہے۔ مَیں نے یہوواہ خدا کے بارے میں جو کچھ بھی سیکھا، اُس نے مجھ پر گہرا اثر کِیا۔ مجھے اِس بات کا یقین ہو گیا کہ واقعی ہمارا ایک خالق ہے جو سب کی فکر کرتا ہے، یہاں تک کہ میری بھی۔—1-پطرس 5:6، 7۔
اِس بات سے مجھے یہ ترغیب ملی کہ مَیں اپنے اندر تبدیلیاں کرنی شروع کروں۔ مثال کے طور پر جب میرے بائبل کورس کے دوران سگریٹ کی بات کی گئی تو مَیں نے خود سے کہا: ”اگر یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ مَیں ہر لحاظ سے پاک اور صاف ہوں تو مجھے سگریٹنوشی چھوڑنی ہوگی۔“ (2-کُرنتھیوں 7:1) اور پھر مَیں نے اپنے سارے سگریٹ کچرے کے ڈبے میں پھینک دیے۔
اِس کے علاوہ مجھے منشیات لینا اور اِنہیں بیچنا بھی چھوڑنا تھا۔ یہ ایسا کام تھا جس کے لیے زیادہ وقت اور کوشش درکار تھی۔ اور مجھے یہ احساس ہو گیا کہ اِس کے لیے مجھے اپنے سابقہ ساتھیوں سے ناتا توڑنا ہوگا۔ اُن کے اثر کی وجہ سے میرے لیے خدا کے معیاروں پر چلنا مشکل ہو رہا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ مَیں خدا پر اَور زیادہ بھروسا کرنے لگا۔ اِس کے علاوہ مَیں اپنے نئے دوستوں سے بھی مدد لیتا رہا جو مَیں نے یہوواہ کے گواہوں کی کلیسیا (یعنی جماعت) میں بنائے تھے۔ اُنہوں نے میرے لیے جو پیار اور فکرمندی ظاہر کی، اُس کا تجربہ مَیں نے پہلے کبھی نہیں کِیا تھا۔ آخرکار کچھ مہینے بعد مَیں نے منشیات کی عادت کو مکمل طور پر ترک کر دیا اور اُس ’نئی شخصیت کو پہن‘ لیا جس کے ذریعے مَیں خدا کی خوشنودی حاصل کر سکتا تھا۔ (اِفسیوں 4:24) اگست 1985ء میں مَیں نے یہوواہ کے ایک گواہ کے طور پر بپتسمہ لے لیا۔
میری زندگی سنور گئی:
پاک کلام کے ذریعے میری زندگی بہت بہتر ہو گئی ہے۔ اِس کی مدد سے مَیں ایک نقصاندہ طرزِزندگی کو چھوڑنے کے قابل ہوا ہوں جس کی وجہ سے میری صحت اور عزتِنفس تباہ ہو رہی تھی۔ میرے سابقہ ساتھیوں میں سے 30 سے زیادہ ایڈز یا منشیات سے لگنے والی دیگر بیماریوں کا شکار ہو گئے اور زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ پائے۔ مَیں خدا کا بڑا شکرگزار ہوں کہ اُس کے کلام کے اصولوں پر عمل کرنے کی وجہ سے میری زندگی کا ایسا بھیانک انجام نہیں ہوا۔
اب مَیں پہلے کی طرح اپنے پاس چاقو اور کلہاڑی نہیں رکھتا۔ مَیں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک دن آئے گا جب میرے پاس ایسی چیزوں کی جگہ بائبل ہوگی اور مَیں اِس کے ذریعے لوگوں کی مدد کر رہا ہوں گا۔ آج مَیں اور میری بیوی کُلوقتی طور پر یہوواہ خدا کی خدمت کر رہے ہیں۔
میرے والدین یہوواہ کے گواہ تو نہیں بنے لیکن وہ اِس بات پر بڑے خوش تھے کہ مجھے پاک کلام کی تعلیم حاصل کرنے سے اِتنا فائدہ ہوا ہے۔ میرے ابو تو اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو یہوواہ کے گواہوں کے خلاف بات تک نہیں کرنے دیتے تھے۔ اُنہیں صاف نظر آ رہا تھا کہ یہوواہ کا گواہ بننے سے میری زندگی سنور گئی ہے۔ میری امی اکثر مجھ سے کہتی تھیں کہ ”کاش تُو پہلے پاک کلام کو سیکھنا شروع کر دیتا۔“ اور مَیں بھی بالکل ایسا ہی سوچتا ہوں۔
میری زندگی میں جو کچھ ہوا، اُس سے مَیں نے سیکھا ہے کہ منشیات اور دیگر بُرائیوں کے ذریعے سکون حاصل کرنے کی کوشش کرنا بہت بڑی حماقت ہے۔ اب مجھے حقیقی سکون اور اِطمینان دوسروں کو پاک کلام کی تعلیمات کے بارے میں بتانے سے ملتا ہے۔ یہ وہ تعلیمات ہیں جن کے ذریعے میری زندگی بچ گئی ہے۔