پاک کلام کی تعلیم زندگی سنوارتی ہے
میری زندگی بد سے بدتر ہوتی جا رہی تھی!
پیدائش: 1971ء
پیدائش کا ملک: ٹونگا
ماضی: منشیات کا عادی، قیدی
میری سابقہ زندگی:
میرا تعلق ملک ٹونگا سے ہے جو کہ بحراُلکاہل کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ ٹونگا میں تقریباً 170 جزائر ہیں۔ یہاں ہماری زندگی بڑی سادہ تھی۔ ہمارے پاس نہ تو بجلی تھی اور نہ ہی گاڑی۔ لیکن ہمارے گھر لائن کا پانی آتا تھا اور ہم نے کچھ مُرغیاں پالی ہوئی تھیں۔ جب ہمیں سکول سے چھٹیاں ہوتی تھیں تو مَیں اور میرے دو بھائی ہمارے باغ میں ابو کے ساتھ کام کرتے تھے۔ ہم باغ میں کیلے، کچالو، اروی اور کساوا (ایک قسم کا پودا جس کی جڑ کھائی جاتی ہے) اُگاتے تھے۔ ابو اِن پھل سبزیوں کو بیچتے تھے اور کچھ اَور چھوٹے موٹے کام کرتے تھے تاکہ گھر کا چولہا جل سکے۔ بحراُلکاہل کے جزیروں پر رہنے والے بہت سے لوگوں کی طرح میرے گھر والے بھی بائبل کا بڑا احترام کرتے تھے اور ہم سب باقاعدگی سے چرچ جاتے تھے۔ لیکن پھر بھی ہم سوچتے تھے کہ ایک اچھی زندگی گزارنے کے لیے ہمیں کسی امیر ملک میں چلے جانا چاہیے۔
جب مَیں 16 سال کا تھا تو میرے ماموں نے ہمیں امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا منتقل کرنے کا بندوبست کِیا۔ ہمیں وہاں کی ثقافت کے مطابق ڈھلنے میں بڑی مشکل ہوئی کیونکہ وہ ہماری ثقافت سے کافی فرق تھی۔ وہاں جا کر ہمارے مالی حالات تو بہتر ہو گئے لیکن ہم ایک غریب علاقے میں رہتے تھے جہاں منشیات کا اِستعمال عام تھا۔ اِس کے علاوہ وہاں جرائمپیشہ لوگوں کے بہت سے گینگ تھے اور ہمارے زیادہتر پڑوسی اُن سے بہت ڈرتے تھے۔ ہم رات کو اکثر گولیاں چلنے کی آوازیں سنتے تھے۔ بہت سے لوگ اپنی حفاظت کرنے کے لیے اور اِختلافات کی صورت میں اِستعمال کرنے کے لیے اپنے پاس اسلحہ رکھتے تھے۔ ایک بار ایسے ہی اِختلاف کے نتیجے میں مجھے ایک گولی لگی تھی جو آج بھی میرے سینے میں موجود ہے۔
جب مَیں سکول میں تھا تو مَیں دوسرے نوجوانوں جیسا بننا چاہتا تھا۔ آہستہ آہستہ مَیں نے غیرمہذب پارٹیوں میں جانا، بےتحاشا شراب پینا، لوگوں کے ساتھ ماردھاڑ کرنا اور منشیات اِستعمال کرنا شروع کر دیا۔ کچھ عرصے بعد مجھے کوکین کی لت لگ گئی۔ منشیات خریدنے کے لیے مَیں چوریاں کرنے لگ پڑا۔ حالانکہ میرے گھر والے بڑی باقاعدگی سے چرچ جاتے تھے لیکن مَیں نے کبھی وہاں کوئی ایسی بات نہیں سیکھی جس کی مدد سے مَیں اُس دباؤ کا سامنا کر پاتا جو میرے ساتھی مجھ پر غلط کام کرنے کے لیے ڈالتے تھے۔ کئی دفعہ مجھے ہتھیار اِستعمال کرنے کی وجہ سے گِرفتار کِیا گیا۔ میری زندگی بد سے بدتر ہوتی جا رہی تھی! آخرکار مَیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچ گیا۔
پاک کلام کی تعلیم کا اثر:
سن 1997ء کی بات ہے کہ مَیں جیل میں تھا۔ کرسمس کا دن تھا اور مَیں نے ہاتھ میں بائبل پکڑی ہوئی تھی۔ ٹونگا کے زیادہتر لوگ اِس دن کو بڑا مُقدس خیال کرتے تھے۔ جب ایک دوسرے قیدی نے میرے ہاتھ میں بائبل دیکھی تو اُس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا مجھے پتہ ہے کہ بائبل میں مسیح کی پیدائش کے متعلق کیا بتایا گیا ہے۔ مجھے اِس بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔ اُس نے مجھے بائبل سے یسوع کی پیدائش کا واقعہ کھول کر دِکھایا۔ مَیں نے دیکھا کہ کرسمس پر منائی جانے والی زیادہتر رسومات کا بائبل میں ذکر تک نہیں ہے۔ (متی 2:1-12؛ لُوقا 2:5-14) یہ جان کر میری آنکھیں کُھلی کی کُھلی رہ گئیں اور مَیں سوچنے لگ پڑا کہ بائبل میں اَور کیا کچھ بتایا گیا ہے۔ وہ قیدی، یہوواہ کے گواہوں کی اُن عبادتوں پر جایا کرتا تھا جو ہر ہفتے جیل میں ہی منعقد ہوتی تھیں۔ مَیں نے فیصلہ کِیا کہ مَیں بھی اُس کے ساتھ جایا کروں گا۔ اُس وقت وہ لوگ بائبل کی ایک کتاب مکاشفہ پر بات کر رہے تھے۔ ویسے تو اُن کی زیادہتر باتیں میرے سر سے گزر گئیں لیکن مجھے یہ اندازہ ضرور ہو گیا کہ وہ لوگ جو کچھ سکھا رہے تھے، بائبل سے سکھا رہے تھے۔
جب یہوواہ کے گواہوں نے مجھے بائبل کورس کرنے کی پیشکش کی تو مَیں نے اِسے خوشی خوشی قبول کر لیا۔ مجھے پہلی بار پتہ چلا کہ بائبل میں وعدہ کِیا گیا ہے کہ زمین فردوس بن جائے گی۔ (یسعیاہ 35:5-8) مَیں سمجھ گیا کہ خدا کو خوش کرنے کے لیے مجھے اپنی زندگی میں بڑی بڑی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ مجھے احساس ہو گیا کہ اگر مَیں نے اپنی بُری عادتوں کو نہیں چھوڑا تو خدا مجھے فردوس میں جانے کی اِجازت کبھی نہیں دے گا۔ (1-کُرنتھیوں 6:9، 10) لہٰذا مَیں نے ٹھان لیا کہ مَیں اپنے غصے پر قابو پاؤں گا، سگریٹنوشی چھوڑ دوں گا اور پھر کبھی نہ تو منشیات لوں گا اور نہ ہی بےتحاشا شراب پیوں گا۔
سن 1999ء میں میری سزا کی مُدت ختم ہونے سے پہلے مجھے ایک دوسری جیل میں بھیج دیا گیا۔ ایک سال سے زیادہ عرصے تک میرا یہوواہ کے گواہوں سے کوئی رابطہ نہ ہوا۔ لیکن مَیں نے خود میں تبدیلیاں لانے کا پکا عزم کِیا ہوا تھا۔ 2000ء میں حکومت نے امریکہ رہنے کی میری درخواست منسوخ کر دی اور مجھے واپس ٹونگا بھیج دیا۔
ٹونگا آتے ہی مَیں یہوواہ کے گواہوں کی تلاش میں لگ گیا اور پھر سے بائبل کورس کرنے لگا۔ مَیں جو کچھ سیکھ رہا تھا، وہ میرے دل میں اُتر رہا تھا۔ مجھے اِس بات نے بڑا متاثر کِیا کہ امریکہ کے یہوواہ کے گواہوں کی طرح یہاں کے گواہ بھی جو کچھ سکھاتے ہیں، بائبل سے سکھاتے ہیں۔
میرے ابو کی علاقے میں بڑی عزت تھی کیونکہ وہ اپنے چرچ میں ایک اہم عہدے پر فائز تھے۔ اِس لیے شروع میں تو میرے گھر والے اِس بات پر بوکھلا گئے کہ مَیں یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ کیوں میل جول رکھتا ہوں۔ لیکن بعد میں میرے والدین یہ دیکھ کر خوش تھے کہ پاک کلام کے اصولوں پر عمل کرنے سے میری زندگی سنور رہی ہے۔
میرے لیے ایک بہت ہی مشکل کام کاوا پینے کی لت کو چھوڑنا تھا۔ کاوا ایک نشہآور مشروب ہے جسے مرچ کے پودے کی جڑوں کا عرق نکال کر بنایا جاتا ہے۔ ٹونگا میں رہنے والے بہت سے آدمی ہر ہفتے گھنٹوں کاوا پیتے رہتے ہیں۔ اپنے وطن لوٹ کر مَیں تقریباً ہر رات ایسے کلبوں میں جانے لگ پڑا جہاں کاوا پیا جاتا ہے۔ مَیں تب تک کاوا پیتا رہتا تھا جب تک مَیں پوری طرح مدہوش نہیں ہو جاتا تھا۔ میری اِس لت کی ایک وجہ یہ تھی کہ میری دوستی ایسے لوگوں کے ساتھ تھی جن کے نزدیک پاک کلام کے اصولوں کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ لیکن پھر مجھے سمجھایا گیا کہ خدا میری عادتوں سے خوش نہیں ہے۔ مَیں نے اپنی زندگی میں تبدیلیاں کیں تاکہ مَیں خدا کی برکت اور خوشنودی حاصل کر سکوں۔
مَیں یہوواہ کے گواہوں کی تمام عبادتوں میں جانے لگ پڑا۔ چونکہ اب میرا اُٹھنا بیٹھنا ایسے لوگوں کے ساتھ تھا جو خدا کو خوش کرنے کی کوشش کر رہے تھے اِس لیے مَیں آزمائشوں کا مقابلہ کر پایا۔ 2002ء میں مَیں بپتسمہ لے کر یہوواہ کا گواہ بن گیا۔
میری زندگی سنور گئی:
خدا کے صبر کی بدولت میری زندگی سنور گئی ہے۔ جیسے کہ پاک کلام میں بھی لکھا ہے: ”یہوواہ ... آپ کی خاطر صبر سے کام لے رہا ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ کوئی بھی شخص ہلاک ہو بلکہ وہ چاہتا ہے کہ سب لوگ توبہ کریں۔“ (2-پطرس 3:9) وہ چاہتا تو بہت پہلے ہی اِس بُری دُنیا کو ختم کر سکتا تھا۔ مگر اُس نے اِتنا اِنتظار اِس لیے کِیا ہے تاکہ مجھ جیسے لوگوں کو اُس سے دوستی کرنے کا موقع مل سکے۔ مجھے اِس بات کی بہت خوشی ہے کہ خدا مجھے دوسروں کو اُس کے بارے میں سچائی بتانے کے لیے اِستعمال کر رہا ہے۔
یہوواہ کی مدد سے میری زندگی تباہ ہونے سے بچ گئی ہے۔ اب مَیں اپنی بُری لت کو پورا کرنے کے لیے چوریاں نہیں کرتا۔ اِس کی بجائے مَیں یہوواہ کے دوست بننے میں دوسروں کی مدد کرتا ہوں۔ یہوواہ کا گواہ بننے کے بعد میری ملاقات ٹیا سے ہوئی اور ہم نے شادی کر لی۔ ٹیا ایک بہت اچھی بیوی ہیں۔ ہمارا ایک بیٹا ہے اور ہم خوشیوں بھری زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم مل کر دوسروں کو پاک کلام سے اِس اُمید کے بارے میں بتاتے ہیں کہ مستقبل میں یہ زمین فردوس بن جائے گی اور اِنسان ہمیشہ تک اِس پر ایک پُرسکون زندگی گزار سکیں گے۔